پانچ سوگیگا بائٹ کی ڈسک تیار

Posted by Anonymous on 8:55 PM




امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک نے ایک ایسی ڈسک تیار کرنے کا دعوٰی کیا ہے جس پر پانچ سو گیگا بائٹ یا سو ڈی وی ڈیز کے برابر ڈیٹا محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

اس مائیکرو ہولوگرافک ڈسک کا حجم ایک عام ڈی وی ڈی کے برابر ہے اور اسے بنیادی طور پر ’آرکائیو‘ مقاصد کے تیار کیا گیا ہے۔

تاہم امریکی کمپنی کا ماننا ہے کہ عام کمپیوٹر صارفین بھی یہ ڈسک استعمال کریں گے۔ اس وقت ہائی ڈیفینیشن فلموں اور گیمز کے لیے مارکیٹ میں موجود بلیو رے ڈسکس پر پچیس سے پچاس گیگا بائٹ ڈیٹا محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

مائیکرو ہولوگرافک ڈسکس ایک عام ڈی وی ڈی یا بلیو رے ڈسک کے مقابلے میں زیادہ ڈیٹا اس لیے محفوظ کر پاتی ہیں کیونکہ ان پر معلومات سہ رخی انداز میں محفوظ ہوتی ہیں۔

مائیکرو ہولوگرافک ڈسکس ایک عام ڈی وی ڈی یا بلیو رے ڈسک کے مقابلے میں زیادہ ڈیٹا اس لیے محفوظ کر پاتی ہیں کیونکہ ان پر معلومات سہ رخی انداز میں محفوظ ہوتی ہیں۔جنرل الیکٹرک کے برائن لارنس کے مطابق ’حال ہی میں جنرل الیکٹرک ٹیم نے ایسے عناصر کی تیاری کے حوالے سے ڈرامائی کامیابی حاصل کی ہے جن کی مدد سے ہولوگرامز سے منعکس ہونے والی روشنی کی مقدار میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے‘۔ خیال رہے کہ ڈسک پر ڈیٹا محفوظ کرنے کی صلاحیت کا دارومدار ہولوگرام سے روشنی کے انعکاس پر ہوتا ہے۔

اب جنرل الیکٹرک کو ڈسک پلیئرز بنانے والی کمپنیوں سے رابطہ کرنا ہو گا تاکہ یہ ڈسک چلانے کے لیے مشین تیار کی جا سکے۔ کمپنی کے مطابق اس ڈسک کو چلانے کے لیے جن ہولوگرافک پلیئرز کی ضرورت ہوگی ان پر باآسانی سی ڈی، ڈی وی ڈی اور بلیو رے ڈسک بھی چلائی جا سکے گی اور یہی اس نئی ڈسک کی مقبولیت کی اہم وجہ بن سکتی ہے
bbc۔

اوبامہ کی باحجاب مشیر

Posted by Anonymous on 8:54 PM




امریکی تاریخ میں پہلی بار وائٹ ہاؤس میں ایک مسلمان خاتون کو مذاہب پر مشاورت کی کونسل کا رکن مقرر کیا گیا ہے جسے امریکی میڈیا کا ایک حصہ امریکی صدر کے مشیروں میں پہلی ححاب اوڑھنے والی خاتون کی شمولیت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

امریکی صدر براک اوبامہ کی بیورو آف ریلیجن اینڈ نیبرہوڈ پارٹنرشپس کی پچیس رکنی کونسل میں شامل کی گئي مصری نژاد امریکی خاتون کا نام دالیہ مجاہد ہے جن کا خاندان تیس برس قبل مصر سے آ کر امریکہ میں آباد ہوا تھا۔

دالیہ مجاہد معرف سرویئرز اور تحقیقی ادارے گیلپ کے اسلامک سٹڈیز سینٹر کی سربراہ ہیں اور امریکی میڈیا خاص طور الیکٹرانک میڈیا اور تھنک ٹینکس میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں معتدل لیکن مدلل بات چیت کے بار ے میں جانی جاتی ہیں۔ حال ہی میں ان کی پینتیس مسلم ممالک میں تحقیق و جائزے پر مبنی کتاب ’ہو سپیکس فار مسلمز؟‘ یا ’مسلمانوں کیلیے کون بولے گا‘ کے عنوان سے شائع ہوئي ہے۔

مصری اخبار 'الااہرام‘ کے نیویارک میں نمائندے اور مصری و عرب سماجیات کے تجزیہ نگار طارق فتی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دالیہ مجاہد کی وائٹ ہاؤس میں تقرری نہ صرف ایک اہم واقعہ ہے بلکہ ان کی تقرری اس امر کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ مسلمانوں کے مسائل میں موجودہ امریکی انتظامیہ کتنی دلچسپی لے رہی ہے۔ طارق قتی کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ دالیہ مجاہد کا اصل کام امریکہ کو عالمی اور مقامی سطح پر دنیا اور امریکہ کے عام مسلمانوں کے مسائل اور حالات پر واقف حال کرنا ہے جیسے بقول دالیہ مجاہد 'گيارہ ستمبر کے بعد مسمانوں کو مصبیت بنا کر پیش کیا گيا ہے‘۔

خیال رہے کہ صدر اوبامہ کی انتظامیہ اور مشیروں میں دالیہ پہلی مسمان نہیں ہیں بلکہ مسلم امور پر مشاورت کیلیے صدر اوبامہ کی انتظامیہ میں اور بھی مسلمان مشیر شامل ہیں جن میں امریکی صدر کے افغانستان اور پاکستان پر مشیر رچرڈ ہالبروک کی ٹیم میں شامل مشہور محقق و عالم ڈاکٹر ولی نصر بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر ولی نصر کا تعلق ایران سے ہے او وہ ہمعصر اسلامی تاریخ اور سماجیات و سیاسات پر اتھارٹی مانے جاتے ہیں
bbc۔

آئی سی ایل: کھلاڑیوں پر سے پابندی ختم

Posted by Anonymous on 8:51 PM




بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ یعنی بی سی سی آئی نے انڈین کرکٹ لیگ یعنی آئی سی ایل کے کھلاڑیوں پر عائد پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن بورڈ نے یہ بھی کہا ہے آئی سی ایل کھیلنے والے کھلاڑيوں کو اس لیگ کے ساتھ اپنے رشتے ختم کرنے ہوں گے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئي کے مطابق ہندوستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے صدر ششانک منوہر نے کہا کہ یہ فیصلہ بعض کھلاڑیوں کی جانب سے اس اعتراف کے بعد کیا گیا ہے کہ باغی لیگ میں شامل ہوکر ان سے غلطی سرزد ہوئی تھی۔

ممبئی میں بی سی سی آئی کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد ششانک منوہر نے صحافیوں سے بتایا ’ہم نے آئی سی ایل کے کھلاڑیوں کو معاف کرنے اور بی سی سی آئی میں ان کی واپسی کا خیرمقدم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

لیکن پابندی ختم کرنے کا فیصلہ غیر مشروط نہیں ہے۔ کھلاڑیوں کو اکتیس مئی تک انڈین کرکٹ لیگ سے وابستگی ختم کرنی ہوگی اور وہ ایک سال تک کوئی بین الاقوامی میچ میں نہیں کھیل پائیں گے۔ تاہم وہ ڈومیسٹک یعنی گھریلو کرکٹ میں فوری طور پر شرکت کر سکیں گے۔

آئی سی ایل سے کئی بڑے ستارے جڑے ہوئے ہیں جن میں برائن لارا، انضمام الحق اور شین بانڈ شامل ہیں۔

انڈین کرکٹ بورڈ نے آئی سی ایل کے وجود میں آنے کے بعد ہی انڈین پریمیر لیگ کا اعلان کیا تھا اور باغی لیگ سے وابستگی رکھنے والے کھلاڑیوں پر پابندی لگا دی تھی۔

آئی سی ایل نے کپل دیو کو اپنی مجلس عاملہ کا چئرمین بنایا تھا
bbc۔

امریکہ میں بے روزگاری کی شرح ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی

Posted by Anonymous on 8:47 PM

عالمی اقتصادی بحران کے اثرات یوں تو دنیا کے اکثر ملکوں میں محسوس کیے جارہے ہیں لیکن امریکی معیشت اس کا بطور خاص ہدف بنی ہوئی ہے۔ تازہ ترین معاشی جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں بے روزگاری کی سطح کئی عشروں کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس وقت یہ شرح ساڑھے آٹھ فی صد ہے اور اقتصادی ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اس میں مزید اضافے کا امکان موجود ہے۔ سرکاری اعداد وشمار میں کہا گیا ہے کہ بے روزگاری الاؤنس وصول کرنے والوں کی تعداد گذشتہ 26 برس میں سب سے اونچی ہے اور یہ سطح گذشتہ 10 ہفتوں سے نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں اضافہ ہورہاہے۔

دسمبر2007 سے، جب سے کسادبازاری کا آغاز ہواہے، امریکہ میں اب تک 50 لاکھ سے زیادہ افراد اپنے روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔ صرف پچھلے ماہ کے دوران 6 لاکھ63 ہزار افراد بے روزگار ہوئے۔ کانگریس کی رکن کیرولین میلونی جو جوائنٹ اکنامک کمیٹی کی چیئر پرسن ہیں کہتی ہیں کہ ہر ماہ اوسطاً 6 لاکھ 67 ہزار افراد بے روزگار ہورہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وال اسٹریٹ اسٹاک مارکیٹ میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے جس کے مارکیٹ پر مثبت نتائج ظاہر ہوں گے۔

اس کے ساتھ گذشتہ ہفتے جی ٹونٹی ممالک کے راہنماؤں کی جانب سے عالمی معاشی بحران کو حل کرنے کی یقین دہانی کے بھی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ماہر معاشیات فریڈ بریگسٹن کا خیال ہے کہ اگر کوئی غیر متوقع واقعہ رونما نہ ہوا تو عالمی کساد بازاری جلد ختم ہوجانی چاہیے۔

تاہم بے روزگار ہونے والوں کو مثبت تبدیلیوں کی باتیں کھوکھلی لگتی ہیں ۔ بے روزگار ہونے والے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ یہاں ایسے خاندان بھی ہیں جن میں میاں بیوی دونوں ہی بے روزگار ہوگئے ہیں اوراب ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

ملبوسات تیار کرنے کے ایک برانڈ ادارے سے وابستہ وکی کا کہنا ہے کہ بینکوں میں آنے والے مالیاتی بحران کے باعث انہوں نے قرضوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے جس کی وجہ سے کارباروی اور صنعتی کمپنیاں مالی مشکلات کا شکار ہوگئی ہیں اور ان کے لیے اپنا کاروبار جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا جس کی وجہ سے کارکن بے روزگار ہورہے ہیں۔

یارک کاؤنٹی میں ایک امدادی ادارے کے ساتھ کام کرنے والے کونسلر ایلن وین سلوٹ کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ملازمت تلاش کرنا آسان نہیں ہے مگر کچھ شعبوں میں جیسے کہ صحت عامہ کا شعبہ، وہاں پر بہرحال مواقع موجود ہیں
thanks for voa۔

کراچی میں صرف پانچ فیصد خواتین کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی

Posted by Anonymous on 8:39 PM

ایک صحت مند معاشرہ اس وقت تشکیل پاتا ہے جب اس میں رہنے والا ہر فرد متحرک ہو ۔ معاشرے کی فلا ح و بہبود کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی یہ تحریک علم و آگہی ، یکساں مواقع او ر وسائل کے صحیح تعین سے ملتی ہے۔ لیکن پاکستان میں صورتحال مختلف ہے ۔ یہاں تعلیم ترجیحات میں شامل نہیں ۔ معاشی و معاشرتی حدبندیوں کے سبب مواقع محدود ۔ وسائل بے شمار لیکن اخلاص کی قلت اور وژن۔۔۔ ناقص۔ پاکستان کی 51فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن بیشتر تعلیم سے محروم ہونے کے سبب اقتصادی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ دیہی علاقے تو ایک طرف شہری علاقوں میں بھی خواندگی کی صورتحال حوصلہ افزانہیں۔ اس کا بخوبی اندازہ کراچی میں قائم ایک نجی یونی ورسٹی ”اقراء“ کے شعبہ پی ایچ ڈی کی سربراہ ڈاکٹر زائرہ وہاب کی اس تحقیق سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں صرف 5 فیصد خواتین کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی ہے اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی ان میں سے صرف دو فیصد کو روزگار کے مواقع حاصل ہیں۔

اگرچہ ڈاکٹرزائرہ وہاب نے یہ تحقیق 2006 ء میں مرتب کی تھی لیکن وہ ہر سال اسے اپ ڈیٹ کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس دوران کالجوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن کہیں آرٹس ہے تو کہیں کامرس نہیں اور کامرس ہے تو کہیں سائنس نہیں۔ اسٹاف اور ڈپارٹمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی تعلیمی اداروں میں خواتین کی نمائندگی کم و بیش وہی ہے۔


ڈاکٹرزائرہ وہاب

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زائرہ نے اس کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ غربت ، معاشرتی روایات ، بنیاد پرستی ، سماجی رکاوٹیں ، قول و فعل میں تضاف جیسے عناصر سمیت حکومت کی عدم توجہی بھی ایک وجہ ہے۔ بلند و بانگ دعووٴں کے با وجود ہم بحیثیت قوم آج تک یہ تعین ہی نہیں کر سکے کہ ہم اپنی خواتین کو کیسے دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین اعلیٰ تعلیم کے ذریعے ہی اقتصادی آزادی حاصل کر سکتی ہیں لیکن اپنی تحقیق کے دوران میں نے یہ دیکھا کہ اعلیٰ تعلیم ایک خاص طبقے تک ہی محدود ہے اس لیے غریب گھرانے کی لڑکیاں نہ تو اقتصادی طور پر خود مختار ہوتی ہیں اور نہ ان میں انفرادیت ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ پھر نسل در نسل چلتا ہے ۔ جب کہ خوشحال گھرانوں کی خواتین تعلیم کے بعد ملک چھوڑ کے چلی جاتی ہیں یا پھر ان کو کام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور تبدیلی ان کے لیے اتنی معنی بھی نہیں رکھتی ۔ مسئلہ درمیانے اور غریب طبقے کی خواتین کا ہے جنہیں خود انحصار بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ غربت سے لڑ سکیں۔

جامعات میں خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مختلف شعبوں میں تیزی سے قدم رکھتی خواتین کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے پبلک سیکٹر میں واحد ادارہ جامعہ کراچی ہے۔ وہاں خواتین کی نمائندگی مردوں سے زیادہ ہے مگر غریب طبقے کی خواتین وہاں بھی نہیں۔ دوسرا وہاں بیشتر خواتین سوشل سائنسز سے منسلک ہیں اور مارکیٹ میں ان کے لیے کوئی جاب نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین مسابقتی میدانوں میں نہیں آتیں جیسا کہ منجمنٹ سائنسز ، قانون ، انجینئرنگ ۔ ان شعبوں میں آکر درمیانے اور غریب طبقے کی خواتین براہ راست ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔ مگر ان کے لیے مواقع نہیں۔ نجی جامعات میں فیس اتنی زیادہ ہے کہ ادائیگی ان کے بس سے باہر ہے۔



وہ کہتی ہیں کہ بحیثیت قوم ہماری منزل اور مقاصد واضح نہیں ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس مین پاور پلاننگ ہونی چاہیے کہ کس شعبے میں کتنے لوگو ں کی ضرورت ہے اور کون سے لوگ کہاں ہوں۔ وہ جگہیں جہاں خواتین زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں ان کے لیے مخصوص کوٹے مقرر کیے جائیں۔ اگر وسائل نہیں اور لوگ اپنی بیٹیوں کو نہیں بھیجتے تو حکمت عملی مرتب کی جائے ۔

واضح رہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے علاوہ خواتین کو پرائمری کی سطح پر بھی تعلیم کے حصول کے لئے صورتحال حوصلہ افزاء نہیں۔حکومت سندھ کے ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان ایسے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔صرف سندھ میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 50 فیصد ہے جبکہ کچھ علاقوں میں یہ شرح 72 فیصد ہے۔

پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے ڈاکٹر زائرہ کے مطابق میڈیا کا کردار ، مواقع اور لٹریسی ریسورس سینٹر کا قیام بہت اہم ہے۔ بھارت کی صرف ایک ریاست چنائے میں چھبیس ریسورس سینٹر ہیں جہاں نہ صرف بچوں کی کاوٴنسلنگ ہوتی ہے بلکہ ان کے والدین کی بھی جبکہ کراچی میں ہم نے ایک کے بارے میں بھی نہیں سنا ۔ ساتھ ہی یہاں کالجوں میں تعلیم کو ہنر کے ساتھ مشروط کرنا چاہئے تاکہ لوگ تعلیم کی جانب راغب ہوں اورپچاس فیصد ضائع ہونے والے انسانی وسائل سے ملک استفادہ کر سکے ۔

sheikhupura news: دبئی میں شاہد آفریدی کے فین

Posted by Anonymous on 4:12 PM

دبئی میں شاہد آفریدی کے فین

Posted by Anonymous on 1:17 PM
دبئی کے سپورٹس سٹی کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ایک روزہ میچ دیکھنے کے لئے آنے والے ہزاروں تماشائیوں میں ایک بڑی تعداد پشتو بولنے والے کرکٹ شائقین کی ہے جن میں سے بیشتر کا کہنا ہے کہ وہ صرف شاہد آفریدی کی باؤلنگ اور بیٹنگ دیکھنے آئے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کرکٹ سیریز کے افتتاحی میچ کے 'میں آف دی میچ' شاہد آفریدی کراچی کے پشتون خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

دبئی اور اسکے گرد عرب ریاستوں میں بڑی تعداد میں پشتو بولنے والے روزگار کی غرض سے رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر محنت مزدوری یا ٹیکسی چلانے کا کام کرتے ہیں۔

میچ شروع ہونے سے قبل سٹیڈیم کے اندر آنے کے لئے طویل قطار میں کھڑے ہنگو کے ناصراللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ شاہد آفریدی کو بہت پسند کرتے ہیں اور انہی کی کارکردگی دیکھنے کے لئے آئے ہیں۔ پشاور کے محب نے کہا کہ 'کھیلتے تو سب ہی اچھا ہیں لیکن آفریدی کے ایکشن کا جواب نہیں'۔

کوہاٹ کے نور نواز نے کہا کہ وہ شاہد آفریدی کے باؤلنگ ایکشن سے بہت متاثر ہیں۔'میں بہت دن سے شاہد آفریدی کو ٹی وی پر دیکھتا رہا ہوں۔ آج اسے لائیو دیکھنے کا پہلی بار موقع ملے گا'۔

پشاور کے گل محمد نے کہا کہ انہوں نے دبئی میں گزشتہ میچ بھی دیکھا تو اور آج انکا میچ دیکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔ 'لیکن آفریدی نے ایسا جادو چلایا کہ یں آج بھی چھٹی لیکر یہ میچ دیکھنے آگیا'۔

واضح رہے کہ جمعہ کے روز دبئی میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عام پبلک کے لئے مخصوص نشستوں کے تمام ٹکٹ میچ سے پہلے ہی فروخت ہو چکے تھے جبکہ پچیس ہزار گنجائش کے اس گراؤنڈ میں وی آئی پی باکس کے چند ٹکٹ رہ گئے ہیں۔

فحاشی کے الزام کی تردید

Posted by Anonymous on 1:11 PM


لاہور ہائی کورٹ نے پیر کو ایڈوکیٹ آصف محمود کی ایک درخواست پر دو گلو کاراؤں نصیبو لال اور نوراں لال کے مبینہ طور پر فحش گانوں پر پابندی عائد کر دی تھی اور دونوں کو پچیس مئی کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔

نصیبو لال کے گانوں پر پابندی


درخواست گزار نے عدالت کو کہا تھا کہ یہ دونوں بہنیں نصیبو لال اور نوراں لال فحش گانے گاتی ہیں اور ان کے ان گانوں پر پابندی عائد کی جائے۔

اس عدالتی حکم پر ان دونوں کا مؤقف جاننے کی کوشش کی تاہم بارہا کوشش کے باوجود نصیبو لال سے رابطہ نہ ہو سکا، البتہ نوراں لال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تو خود ہمیشہ فحش گانوں کی مخالفت کی ہے اور وہ ایسے گانے نہیں گاتیں جو مخرب اخلاق ہوں۔


نوراں لال کا کہنا ہے کہ ان کا تو نصیبو لال سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔


نوراں لال نے کہا کہ ان کے گانے ایسے ہوتے ہیں جو خاندان کے مرد اور عورتیں اکٹھے بیٹھ کر سنتے ہیں اسی لیے انہیں شادی بیاہ اور دیگر نجی تقریبات پر گانا گانے کے لیے بلایا جاتا ہے۔


نوراں لال نے کہا کہ ان کا نام ویسے ہی ساتھ شامل کر لیا گیا ہے اور کسی اور کے قصور کے سبب وہ بھی ملزم بن گئیں۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے تو یہ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔


نوراں لال نے کہا کہ وہ بہت کم فلمی گانے گاتی ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ صرف اسی گانے کو گانے کی پیشکش قبول کرتی ہیں جو اچھا ہو اور فحش گانے کی پیشکش ٹھکرا دیتی ہیں۔


نوراں لال نے کہا کہ کافی گانے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے بول اتنے خراب نہیں ہوتے لیکن ان گانوں پر رقص کرنے والی خواتین کی حرکات و سکنات انہیں فحش بنا دیتی ہیں۔


نوراں لال کے شوہر شفیق بٹ نے بھی کہا کہ یہ نوراں لال پر سراسر الزام ہے کہ وہ اخلاق سے گرے ہوئے گانے گاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان اکتالیس گانوں کی فہرست حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہیں فحش قرار دے کر پابندی لگائی گئی ہے، اس کے بعد وہ عدالت کے سامنے پیش ہونے کے لیے تیاری کریں گے۔

بشکریہ بی بی سی

دنیا کے بڑے دریا ’سوکھ رہے ہیں

Posted by Anonymous on 12:15 PM

امریکی محققین کے مطابق گزشتہ پچاس برس میں دنیا کے اہم ترین دریاؤں میں پانی کی سطح میں قابلِ ذکر کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

محققین اس کمی کا تعلق ماحولیاتی تبدیلی سے جوڑتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ میٹھے پانی کے ذخائر میں کمی دنیا کی تیزی سے بڑھتی آبادی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

یہ تحقیق امریکی میٹیورولاجیکل سوسائٹی کے جریدے میں شائع کی گئی ہے۔.

اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں نے نو سو سے زائد دریاؤں کا جائزہ لیا اور ان کے مطابق چین کے زرد دیا سے لے کر بھارتی گنگا اور وہاں سے امریکہ کے دریائے کولاراڈو تک دنیا کے لیے میٹھے پانی کے ذخائر میں واضح کمی دیکھی جار ہی ہے۔

دنیا میں جس خطے میں پانی کی سطح میں اضافہ دیکھا گیا ہے وہ انٹارکٹک ہے جہاں گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے پانی کی سطح بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی ایشیا میں دریائے برہم پتر اور چین میں ینگزے دریا میں پانی میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کی وجہ بھی سائنسدانوں نے ہمالیہ کے گلیشیئرز کا پگھلنا قرار دیا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق دریاؤں سے سمندر میں جانے والے پانی کی مقدار میں بھی کمی آ رہی ہے اور اس کمی کی وجہ ڈیموں کی تعمیر اور زرعی مقاصد کے لیے پانی کا رخ موڑنا شامل ہے۔ تاہم ان کے مطابق یہ سب ثانوی وجوہات ہیں اور سب سے اہم وجہ درجۂ حرارت میں اضافے جیسی ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف بارشوں کے نمونے بدل گئے ہیں بلکہ عملِ تبخیر بھی تیز ہوگیا ہے۔

مائیکرو سافٹ کی سیلز میں کمی

Posted by Anonymous on 12:13 PM


مائیکرو سافٹ نے کہا ہے کہ اس کی تیئس سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سن دو ہزار نو کے پہلے تین مہینوں میں اس کی سیلز میں گزشتہ سال کے مقابلے میں چھ فیصد کمی ہوئی ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی سافٹ ویئر کمپنی نے کہا کہ اس کے منافع میں بتیس فصید کمی ہوئی ہے۔

مائیکرو سافٹ کو زیادہ تر منافع اس کے آپریٹنگ سسٹم ونڈوز کی فروخت سے ہوتا ہے۔

تاہم ونڈوز کی مانگ میں کمی کمپیوٹروں کی فروخت کم ہونے سے ہوئی ہے۔

کمپنی کے چیف فائننشل آفیسر کرس لڈل نے کہا کہ انہیں اگلی سہ ماہی میں بھی سیلز میں بہتری کی توقع نہیں ہے۔

مائیکرو سافٹ جو انیس سو چھیاسی میں پبلک کمپنی بنی تھی اب خرچے کم کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔

مائیکرو سافٹ کے منافع میں کمی ماہرین کی توقع سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔

شمالی کوریہ : امریکی صحافیوں پر مقدمہ

Posted by Anonymous on 12:11 PM

شمالی کوریہ کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے یہ خبر شائع کی ہے کہ جن دو امریکی صحافیوں کو شمال کوریا اور چین کی سرحد کے نزدیک گرفتار کیا گیا تھا ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔

کوریائی امریکی یونا لی اور چینی امریکی لورا لنگ کرنٹ ٹی وی کی ملازم ہیں اور انہیں سترہ مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

شمال کوریا کا کہنا ہے کہ ان صحافیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ تفتیشی رپورٹ آنے کے بعد کیا گیا ہے۔ حالانکہ اب تک یہ واضح نہيں ہے کہ ان لوگوں کے خلاف کن الزامات کے تحت مقدہ چلایا گیا ہے۔

شمالی کوریہ کا کے مطابق دونوں خواتین غیر قانونی طریقے سے چین کے راستے سرحد پار کر کے ملک میں داخل ہوئی تھیں۔

کے سی این اے کے مطابق " ہماری جانب سے ان کے جرم کی تفتیش کے بعد دو امریکی صحافیوں کے خلاف مقدمہ چلائے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔"

اس سے قبل سرکاری ذرائع ابلاغ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ صحافیوں پر ملک دشمنی اور ملک میں غیر قانونی داخلے کے تحت مقدمہ چلائے گی۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق اگر یہ خواتین قصوروار ثابت ہو جاتی ہیں تو ان ہیں کم از کم پانچ برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق ایسا مانا جا رہا ہے کہ یہ صحافی چین کی سرحد کی طرف تھیں جب شمالی کوریا کے گارڈز نے انہيں گرفتار کر لیا اور انہیں شمالی کوریا لے گئے، حالانکہ شمال کوریا اس کی تردید کرتا ہے۔

اس وقت یہ صحافی کمیونسٹ شمالی کوریا سے بھاگنے والے پناہ گزینوں سے متعلق ایک سٹوری پر کام کر رہیں تھی۔

یہ واقعہ ایک ایسے وقت پہ ہوا ہے جب شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔ یہ کشیدگی شمالی کوریا کے اس اعلان سے متعلق ہے کہ وہ آٹھ اپریل کو خلا میں ایک سیٹلائٹ چھوڑے گا۔ شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ یہ ایک مواصلاتی سیٹلائٹ ہے لیکن کچھ دفاعی مبصرین نے اس شک کا اظہار کیا ہے کہ در اصل کمیونسٹ حکومت والا ملک دور مار میزائل کا تجربہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ اور خطے کے کئی ممالک نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

شمالی کوریا نے حال میں اپنی فوج کو مکمل جنگی تیاری کا حکم دیا تھا اور جنوبی کوریا کے ساتھ سرحد کو بھی بند کر دیا تھا۔
bbe

دنیا میں ہر سال پچاس لاکھ افراد کو سانپ ڈس لیتے ہیں

Posted by Anonymous on 9:22 PM
دنیا بھرمیں ہر سال پچاس لاکھ افراد ، جن میں سے بیشترایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں، سانپ کے کاٹے کا شکار ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ہزاروں ہلاک ہو جاتے ہیں یا مستقل طور پرمعذور ہو جاتے ہیں ۔ غریب ملکوں میں زہر کے علاج کی ادویات کی قلت کے باعث بے شمار کاشتکار، نوجوان اور بچوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے

فلپائن میں لیری بولیندی ، زہریلے سانپوں کو بڑی مہارت کےساتھ پکڑنے کی وجہ سے کوبرا کنگ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان سےاکثر علاقےکےکاشتکار، اپنے کھیتوں سے،کوبرا سانپوں کو پکڑنے کی درخواست کرتے رہتے ہیں۔

آج بلیدی کو اس کاشتکار نے بلایا ہے جس نے اپنے کھیت میں دو سانپ دیکھے تھے۔ اگر اسے کوبرا کاٹ لیتا تو وہ فوراً ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ فلپائن کے اکثر دیہی علاقوں سے اسپتال بہت دور ہیں اور اکثراوقات تو وہاں پر زہرکے کاٹے کی دوائی موجود ہی نہیں ہوتی ۔ بلیدی کہتے ہیں کہ کاشت کار ہمیں اپنے کھیتوں سےسانپ ختم کرنے کے لیے کہتے ہیں کیوں کہ یہ ان کی جانوں کے لیے خطرہ ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال لگ بھگ پچاس لاکھ افرادسانپ کے کاٹے کا نشانہ بنتے ہیں۔ان میں سے تقریباً دو لاکھ افراد ہلاک اور لگ بھگ چار لاکھ اپنے ہاتھ پاؤں سے محروم ہو جاتے ہیں ۔بیشتر متاثرہ افراد کاتعلق افریقہ اور ایشیا کے ترقی پذیر ملکوں سے ہوتا ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کے سانپ کے کاٹے سے زیادہ تر افراد جن میں بچے بھی شامل ہیں ،اس لیے ہلاک ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ ، طبی مراکز سے بہت دور ہوتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں زہر کے کاٹے کی دوائیوں قلت ہے۔

ڈاکٹر وسیتھ سیت پریجا بنکاک میں عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے کام کرنے والے زہریلے سانپ کے علاج اور ریسرچ کےایک مرکزکے انچارج ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زہر کے کاٹے کی مہنگی دوا تیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غریب ممالک مثلاً کمبوڈیا اوربرما، ان ادویات کی مناسب مقدار حاصل کرنے سے محروم رہ سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا عزم ہے اور جہاں تک صحت کے عالمی ادارے کا تعلق ہے تو ہمیں زہر کے کاٹے کی دوا فراہم کرنا ہے ۔ وہ ہم سے گاہے گاہے اس کی درخواست کرتے ہیں لیکن ہم ابھی تک ان کے پورے ملک کو یہ دوا فراہم نہیں کر پا رہے۔

ڈاکٹر وسیتھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ زہر کے کاٹے کی بڑے پیمانے پر تیار کی جاسکنے والی دوسری طرح ادویات ، اکثر اوقات کچھ مخصوص علاقوں کے سانپوں کے زہر ہی سے تیار کی جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ان سانپوں میں کچھ مشترکہ زہریلے اجزا ہو سکتے ہیں لیکن ان کے حیاتیاتی اثرات مختلف ہوتے ہیں ۔اس کا انحصار ماحول، جنیٹکس اور ان کی خوراک پر ہوتاہے۔

اس کامطلب یہ ہے کہ فلپائن میں کوبرا سانپ کے کاٹے کے لیےجودوا کارگر ہوتی ہے ممکن ہے وہ مغربی افریقہ میں اسی طرح کےکسی سانپ کے کاٹے کے لیے کام نہ دے۔

بنکاک میں کھیتوں میں جانے والے بچوں کو مختلف قسم کے سانپوں کا سامنا ہوتا ہے۔ چنانچہ انہیں سانپوں کے بارے میں تریبت دی جاتی ہے۔ انہیں یہ علم ہوجاتا ہےکہ زیادہ تر سانپ حادثاتی طورپر کاٹتے ہیں ، اور انہیں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ سانپوں کے کاٹے سے کس طرح بچا جا سکتاہے مثلاً یہ کہ ربڑکے جوتے پہن کر۔

ماہرین کہتے ہیں کہ سانپوں کے کاٹے سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں کمی لانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس سے بچاؤ کے طریقوں پر عمل کیا جائے اور اس بارے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جائیں۔
بشکریہ وی ای اے

عالمی حدت کے اثرات: قطبین پر سزہ اگنے لگا

Posted by Anonymous on 11:44 PM

قطب جنوبی یا اینٹارکٹک کے جزیرہ نما پر اگر آپ قدم رکھیں تو آپ کو اپنی توقعات کے مطابق برف دکھائی نہیں دے گی۔ درحقیقت یہاں کی پتھریلی زمین کا بیشتر حصہ برف سے پاک ہے۔ روس کے بیلنگ ہاوسن سٹیشن کے ڈاکٹرمیخائل اندریو کے مطابق سیاہ، بھورے اور سفید رنگوں بھرے اس منظر میں کہیں کہیں سے سبزہ بھی جھانکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں پودے بہت کم دیکھنے میں آتے تھے۔ لیکن اب ہمیں یہ ہر جگہ نظر آنے لگے ہیں اور ایک جگہ تو گھاس ہی گھا س ہے۔

چیمپ سیا انٹارکٹکا نامی کائی جیسے پودے یہاں پہلے نہیں پائے جاتے تھے۔ لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے موسمی حالات کی وجہ سے نہ صرف یہ پودے یہاں زیادہ مقدار میں پھلنے پھولنے لگے ہیں، بلکہ ان کی وجہ سے یہاں کے مقامی پودوں کو بھی خطرہ ہے۔ سائنس دان پودوں کی ان نئی اقسام کو قطب جنوبی کودرپیش ماحولیاتی مسائل کی نشانی قرار دے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب یہاں کا موسم بے انتہا خشک تھا، لیکن سالہا سال یہاں کی ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب یہاں بارش نہیں ہوا کرتی تھی، صرف برف باری کے ذریعے بادل اپنی نمی کا بوجھ ہلکا کرتے تھے۔ لیکن ہوزے مڈیئروس کہتے ہیں کہ اب یہاں تقریبا روزانہ بارش ہوتی ہےجو بیس برس پہلےنہیں ہوا کرتی تھی۔

قطب جنوبی میں موجود 60 سائنسی تجرباتی اداروں کی تحقیقات میں موسمی تبدیلیاں سر فہرست ہیں۔ تھائیس سینٹوز جیسے سائنسدان روزانہ گلوبل وارمنگ کے نتائج پر معلومات اکھٹی کرنے کے لیے تجربات کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں ہم الٹرا وائلٹ ریڈیشن پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ اس کے اثرات کے بارے میں زیادہ بہتر طورپر جان سکیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قطب جنوبی پر اوزون کی تہہ کمزور ہے جس کی وجہ سے یہاں موسمی تبدیلیاں زیادہ شدت اختیار کر تی ہیں۔ فرنچ پولر انسٹٹیوٹ کے یوز فرنو کہتے ہیں کہ اسی لیے سائنسدانوں کو زیادہ ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ 50 برسوں میں اینٹارکٹک کے جزیرہ نما کے درجہ حرارت میں 2 یا 3 ڈگری کا اضافہ ہوا ہے۔ موسمی لحاظ سے اسے ایک بہت بڑی تبدیلی تصور کیا جاتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے کسی اور خطے میں اس قسم کا اضافہ ہزاروں سال کےوقفے میں پیش آتا ہے۔ چلی کی اینٹارکٹک انسٹٹیوٹ کے ہوزے ریٹامالیز کہتے ہیں کہ اینٹارکٹک کے جزیرہ نما پر موسمی تبدیلیوں کے ثبوت نمایاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چند ہی ہفتوں میں برف کا ایک بڑا تودا پانی میں پگھل کر غائب ہو جائے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ درجہ حرارت میں چھوٹی سی تبدیلی کے نتائج بھی بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔


فرنو کا کہنا ہے کہ یہاں موسمی حالات میں پیش آنے والی تبدیلیاں دنیا بھر کے مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قطب جنوبی اور قطب شمالی کے خطے عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں کے مستقبل کی عکاسی کرتی ہیں۔ جو تبدیلیاں یہاں پیش آرہی ہیں، ان کی وجہ سے عالمی سطح پر موسم متاثر ہو سکتا ہے۔

سائنسدان اس علاقے میں موسم پر کڑی نظر اس لیے بھی رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں پیش آنے والی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ دنیا کے دیگر خطوں کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں گے۔ اور ان تبدیلیوں کو روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی تشکیل دے سکیں گے۔


بشکریہ وی ای اے

انٹارکٹکا پر 46 ملکوں کے سائنس دان مل کر تحقیق کررہے ہیں

Posted by Anonymous on 11:41 PM

براعظم قطب جنوبی جو عام طورپر انٹارکٹکا کے نام سے جانا جاتا ہے، سائنس دانوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں پر مختلف حوالوں سے سائنسی تحقیقات جاری رہتی ہیں۔ 50 برس قبل ہونے والے ایک معاہدے کے تحت وہاں ریسرچ کرنے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تحقیق سے ایک دوسرے کو آگاہ رکھیں۔ان دنوں امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں اس معاہدے میں شریک ممالک اور ان کے ماہرین کی کانفرنس ہورہی ہے جس کا ایک اہم مقصد سائنسی تحقیق میں تعاون کو مزید مربوط کرنا بھی ہے۔

انٹارکٹکا میں کنگ جارج آئی لینڈ پر فیراز ریسرچ اسٹیشن سرکاری طور پر برازیل کا علاقہ ہے لیکن یہاں مختلف ملکوں کے سائنسدان مشترکہ طور پر تحقیق و تجربات کرتے ہیں ۔ روس کے بیلنگس ہاسن اسٹیشن پربھی اسی طرح ہی کام ہوتاہے۔ اسٹیشن کے سر براہ الیکزینڈر اروپ کہتے ہیں کہ یہ اشتراک بہت ضروری ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم اس بر اعظم پر صرف اکٹھے کام کر کے ہی سائنسی مواد کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور اسے اکٹھاکر سکتے ہیں۔

انٹارکٹکا پر سائنسدان اپنے پراجیکٹس پر سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے کام کررہے ہیں اور یہ تعاون بر اعظم کے انتظام سے متعلق معاہدے میں تحریر ہے اور اس انتہائی سرد اور الگ تھلک ماحول میں مختلف پراجیکٹس پر مل کر کام کرنے سے وقت اور پیسے کی بچت ہو سکتی ہے ۔

نیشنل انٹارکٹک پروگراموں کی کونسل آف مینیجرز کے اینٹوئن گوچرڈ کہتے ہیں کہ موجودہ مالیاتی بحران میں ایسا کرنا اور بھی اہم ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اتنا مہنگا کام ہے کہ اگر آپ ایک دوسرے کی مدد نہ کریں تو آپ اسے انجام نہیں دے سکتے ۔ اور اب جب کہ انٹارکٹک سائنس گلوبل سائنس بن چکی ہے اور یہ آگہی بڑھ چکی ہے کہ پوری دینا کس طرح کام کر سکتی ہے تو اس لیے اب یہ انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ سب مل کر کام کریں۔

انٹارکٹکا میں کوئی اسٹیشن قائم کرنے پر بہت لاگت آسکتی ہے اوراس کے لیے بجٹ بھی زیادہ نہیں ہوتا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کسی بھی تحقیقی مرکز کےلیے مجموعی آپریشنز پر آنے والی لاگت میں ایندھن کا خرچ سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔

2008 میں ایندھن کی قیمت میں ساٹھ سے ستر فیصد ااضافہ ہو گیا تھا۔

چلی کے انٹارکٹک پروگرام کے سر براہ ہوزے ریٹامیلس کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے اب مل کرکام کرنا سائنس دانوں کی مجبوری بن گیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کا پروگرام تین سال کا ہوتو اس کے لیے آپ کیا کریں گے ۔بجٹ کی کمی کی صورت میں یقنناً آپ ایک دوسرے سے تعاون کریں گے ۔

اس طرح کا تعاون ان علاقوں میں عیاں ہے جہاں بہت سے مرکز قائم ہیں ۔ جیساکہ جزیرہ نما کنگ جارج جزیرہ ہے۔ یہاں چلی میں ایک ائیر اسٹرپ ہے جو ہمسایہ روسی ریسرچ سنٹر کو انٹر نیٹ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔وہاں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس میں ایک اسٹور ، ہسپتال ہے اور ایک پوسٹ آفس بھی ہے۔ سائنس دانوں کےلیے یہ معمول کی بات ہے کہ اپنا سامان لانے کے اخراجات بچانے کے لیے ہمسایہ اسٹیشنوں سے ساز و سامان ادھار مانگ لیتے ہیں ۔

انٹارکٹک پر اٹلی اور فرانس میں تعاون اس حدتک بڑھ گیا ہے کہ اپنا نیا مشترکہ اسٹیشن قائم کر رہے ہیں ۔ پھر بھی ریٹامیلس کہتے ہیں کہ الگ تھلگ علاقے میں کام کرنا بعض اوقات انسانوں کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات یہ ان کے اپنے ملک کے شہریوں کے درمیان مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ آپ صرف اپنے شعبے پر توجہ دیتے ہیں اور یہ جاننا ضروری نہیں سمجھتے کہ دوسروں کے لیے آپ اور کیا کر سکتے ہیں۔

انٹارکٹک معاہدے پر دستخط ہوئے پچاس برس ہو گئے ہیں ۔ اس معاہدے میں مزید ملکوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ 46 رکن ملک باقاعدگی سے اجلاس کرتے ہیں تاکہ اپنے تحقیقی مراکز کے درمیان مشترکہ کوششیں بر قرار رکھیں اور انکشافات سے ایک دوسرے کو باخبر رکھیں ۔

ابتدا ہی سےبا ضابطہ اور بے ضابطہ دونوں طرح کے نیٹ ورک موجود ہیں تاکہ اطلاعات کا تبادلہ کیا جاتا رہے ۔
انٹارکٹک کی انفرادیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دو دراز علاقہ سائنس دانوں کو عالمی سیاست سے الگ رہنے میں مدد دیتا ہے ۔ ہو سکتاہے کہ ان کے ملک آپس میں دوست نہ ہوں مگر وہ یہاں سائنس کی خاطر ایک دوسرے سے مل کرکام کرتے ہیں ۔

بشکریہ وی ای اے

سخت اذیتوں کی اجازت دینے والےبش انتظامیہ کے افراد پر مقدمات کا امکان موجود ہے؛ اوباما

Posted by Anonymous on 11:38 PM
امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ امریکی اٹارنی جنرل کے ہاتھ میں ہے کہ مشتبہ دہشت گردوں کی تفتیش کے لئے سخت اذیتوں کی اجازت دینے والوں کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں یا نہیں۔

وہائیٹ ہاؤس میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے مسٹر اوباما نے کہا کہ جو لوگ گذشتہ انتظامیہ کے حکم کے تحت ایسے کاموں کے مرتکب ہوئے تھے، میں انہیں سزا دینے کے حق میں نہیں ہوں۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ، یہ فیصلہ کرنا مسٹر ایرک ہولڈر کا کام ہے کہ ان قانونی فیصلوں کے ذمہ افراد پر فرد ِ جرم عاید کی جائے یا نہ کی جائے۔

مسٹر اوباما نے مزید کہا کہ گذشتہ ہفتے سی آئی اے کی دستاویزات کو بر سر عام لانا انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان حکم ناموں میں سخت اذیتوں کی تفصیلات درج تھیں جن میں نیند سے محرومی اور مصنوعی ڈبکیاں لگوانا شامل تھا اور ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے اخلاقی ضابطوں سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔

ادھر پیر کی رات سابق نائب صدر ڈک چینی نے ان حربوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان سے بڑی فائدہ مند معلومات حاصل ہوئیں۔

مسٹر اوباما کا کہنا ہے کہ ایسے ہتھکنڈوں سے ہمارے ضابطہٴ اخلاق پر زد پڑتی ہے اور ہماری سلامتی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔

بشکریہ وی ای اے

نظامِ شمسی سے باہر نیا سیارہ دریافت کر لیا گیا

Posted by Anonymous on 11:35 PM


ماہرینِ فلکیات نے نظامِ شمسی سے باہر اب تک دریافت ہونے والا سب سے چھوٹا سیارہ دریافت کر لیا ہے۔ یہ سیارہ زمین سے صرف دوگنا بڑا ہے۔ یہ انکشاف منگل کے روز انگلستان میں ہونے والی ایک خلائی کانفرنس میں کیا گیا۔

یہ سیارہ Gliese ستارے کے گرد چکر لگاتا ہے اور اس کا فاصلہ زمین سے ساڑھے20 نوری سال ہے۔ واضح رہے کہ ایک نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے، جب کہ روشنی کی رفتار تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔

اس سے پہلے سائنس دانوں نے اسی سیارے کے گرد گھومنے والے چار سیارے دریافت کیے تھے۔

ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ غالباً یہ سیارہ انسانی زندگی کے لیے بہت زیادہ گرم ہے کیوں کہ یہ اپنے ستارے سے بہت قریب ہے، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اسی نظام میں کوئی اور سیارہ قابلِ رہائش ہو سکتا ہے۔

یہ دریافت چلی میں واقع دوربین کے ذریعے کی گئی۔

عراق میں جنگ اور تشدد سے دس لاکھ سے زیادہ خواتین بیوہ ہوئیں

Posted by Anonymous on 11:13 PM

عراق میں انسانی حقوق کی وزیر کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت خواتین کے حقوق کی صورت حال بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ واشنگٹن میں ایک گفتگو کے دوران عراقی وزیر وجدان میخائل سلیم نے کہا کہ جنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کو روزگار کی فراہمی مزید مدد کی ضرورت ہے۔ عراق میں جنگ اور تشدد کی وجہ سے لاکھوں عراقی جاں بحق اور سینکڑوں خواتین بیوہ، اور بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ اندازوں کے مطابق عراق میں جنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کی تعداد 10 سے 30 لاکھ ہے۔ بہت سی خواتین کو حکومت کی طرف سے مالی امداد ملتی ہے، لیکن اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ امداد نا کافی ہے اور بہت سی خواتین کو گزر اوقات کے لیے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ ثنا حسن کو بھی حکومت کی جانب سے مالی امداد ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر 2006 کے ہنگاموں میں ہلاک ہو گئے تھے۔ میرے چار بچے ہیں اور میرے شوہر کی ایک دوسری بیوی سے بھی اولاد ہے۔ ہم سب مالی حالات کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ ایک دن میرا بیٹا اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے جانا چاہتا تھا، لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ حالات میں ابھی بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے شاید اسی وجہ سےپچھلے سال دسمبر میں ایک عراقی صحافی نے عراق کے یتموں اور بیواوں کا بدلہ لینے کی خاطر امریکی صدر کو جوتے مارنے کی کوشش کی۔ عراق کی وزیر برائے انسانی حقوق کہتی ہیں کہ یہ مسائل صرف حکومت کی امداد سے ہی حل نہیں کیے جا سکتے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ان کے لیے روزگارکے ذرائع پیدا کرنے چاہیں۔ ہر مہینے کچھ رقم دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ واشنگٹن میں بات کرتے ہوئے منسٹر وجدان سلیم نے کہا کہ عراقی روایات خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں تعلیم پر جتنا زور دیا جائے، کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دو کام کرنے ہیں۔ سب سے پہلے تو خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کرنی ہے۔ اور مردوں کو بھی خواتین کے حقوق کے بارے میں بتانا ہے۔ تاکہ خواتین ہمارے معاشرے میں اپنی جگہ لے سکیں۔ سال کے شروع میں خواتین کے امور کی وفاقی وزیر نے صرف چھ ماہ کے بعد استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بیواوں کی مدد کرنے کے لیے عراقی حکومت کو مزید ذرائع مہیا کرنے ہوں گے۔ سابق وزیر نوال الثمری کا کہنا تھا کہ 30 لاکھ خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر ان پڑھ ہیں۔ ان کے مالی حالات بہت خراب ہیں۔ بیشر خواتین اور ان کے بچوں کے سر پر چھت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق میں جنگ کی وجہ سے بیوہ ہونے والی خواتین کی مددکے لیے حکومت کو وزیر نامزد کرنے کے بجائے با ضابطہ وزارت قائم کرنی چاہیے۔ عراق میں انسانی حقوق کی وزیر کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت خواتین کے حقوق کی صورت حال بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ واشنگٹن میں ایک گفتگو کے دوران عراقی وزیر وجدان میخائل سلیم نے کہا کہ جنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کو روزگار کی فراہمی مزید مدد کی ضرورت ہے۔ عراق میں جنگ اور تشدد کی وجہ سے لاکھوں عراقی جاں بحق اور سینکڑوں خواتین بیوہ، اور بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ اندازوں کے مطابق عراق میں جنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کی تعداد 10 سے 30 لاکھ ہے۔ بہت سی خواتین کو حکومت کی طرف سے مالی امداد ملتی ہے، لیکن اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ امداد نا کافی ہے اور بہت سی خواتین کو گزر اوقات کے لیے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ ثنا حسن کو بھی حکومت کی جانب سے مالی امداد ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر 2006 کے ہنگاموں میں ہلاک ہو گئے تھے۔ میرے چار بچے ہیں اور میرے شوہر کی ایک دوسری بیوی سے بھی اولاد ہے۔ ہم سب مالی حالات کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ ایک دن میرا بیٹا اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے جانا چاہتا تھا، لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ حالات میں ابھی بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے شاید اسی وجہ سےپچھلے سال دسمبر میں ایک عراقی صحافی نے عراق کے یتموں اور بیواوں کا بدلہ لینے کی خاطر امریکی صدر کو جوتے مارنے کی کوشش کی۔ عراق کی وزیر برائے انسانی حقوق کہتی ہیں کہ یہ مسائل صرف حکومت کی امداد سے ہی حل نہیں کیے جا سکتے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ان کے لیے روزگارکے ذرائع پیدا کرنے چاہیں۔ ہر مہینے کچھ رقم دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ واشنگٹن میں بات کرتے ہوئے منسٹر وجدان سلیم نے کہا کہ عراقی روایات خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں تعلیم پر جتنا زور دیا جائے، کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دو کام کرنے ہیں۔ سب سے پہلے تو خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کرنی ہے۔ اور مردوں کو بھی خواتین کے حقوق کے بارے میں بتانا ہے۔ تاکہ خواتین ہمارے معاشرے میں اپنی جگہ لے سکیں۔ سال کے شروع میں خواتین کے امور کی وفاقی وزیر نے صرف چھ ماہ کے بعد استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بیواوں کی مدد کرنے کے لیے عراقی حکومت کو مزید ذرائع مہیا کرنے ہوں گے۔ سابق وزیر نوال الثمری کا کہنا تھا کہ 30 لاکھ خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر ان پڑھ ہیں۔ ان کے مالی حالات بہت خراب ہیں۔ بیشر خواتین اور ان کے بچوں کے سر پر چھت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق میں جنگ کی وجہ سے بیوہ ہونے والی خواتین کی مددکے لیے حکومت کو وزیر نامزد کرنے کے بجائے با ضابطہ وزارت قائم کرنی چاہیے۔ بشکریہ وی ای اے

سی آئی اے کے تفتیشی طریقہ کارکے بارے میں مزید انکشاف

Posted by Anonymous on 11:08 PM

امریکی سنیٹ کیArmed Services Committee کی ایک رپورٹ سے دہشت گردی کے شبہے میں پکڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ امریکی فوج اور سی آئی اے کے سلوک کی مزید تفصیلات کا انکشاف ہوا ہے۔ پوچھ گچھ کے دوران ان قیدیوں پر بعض ایسے طریقے بھی استعمال کیے گئے جو در اصل ایک ایسے پروگرام سے لیے گئے تھے جس کا مقصد امریکی فوجیوں کو جنگی قیدی بن جانے کی صورت میں سختیاں برداشت کرنے کے لیے تیار کرنا تھا۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ابتدائی دنوں میں فوجی عہدے داروں نے Stuart Herrington کو کیوبا میں گوانتانامو بے کے نئے قید خانے میں مشتبہ دہشت گردوں کے حالات اور پوچھ گچھ کے طریقوں کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔ وہ ملٹری انٹیلی جینس کے ریٹائرڈ افسر تھے اور انہیں قیدیوں سے پوچھ گچھ کے کام کا تجربہ بھی تھا۔

وائس آف امریکہ کو ٹیلیفون پر انٹرویو میں کرنل Herrington نے گوانتاناموبے کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کچھ یُوں کیا ’’میں جب وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ ان کے طریقے میں بنیادی خامی یہ تھی کہ وہ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانک رہے تھے یعنی یہ سب دنیا کے بد ترین لوگ ہیں اگریہ تربیت یافتہ قاتل نہ ہوتے تو یہاں آتے ہی کیوں۔ ہمارا اصل کام یہبشکریہ وی ای اے ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ یہاں کس کا حکم چلتا ہے۔ ایک انٹیلی جینس افسر اور پوچھ گچھ کے ماہر کی حیثیت سے میرا تاثر یہ تھا کہ وہاں سب کچھ غلط ہو رہا تھا‘‘۔


(فائل فوٹو)
تقریباً دو برس بعدHerrington کوحقائق معلوم کرنے اور پوچھ گچھ کے طریقوں کا جائزہ لینے کے مشن پر ابو غریب بھیجا گیا ۔انھوں نے بتایا کہ ان کی یہ سفارش کہ اگر نرمی سے کام لیا جائے تو زیادہ مفید معلومات حاصل ہو سکتی ہیں نظر انداز کر دی گئی تھی’’میں نے عراق میں جو کچھ دیکھا وہ یہ تھا کہ گوانتا نامو کے بارے میں، میں نے جو مشورے دیے تھے وہ عراق تک نہیں پہنچے تھے۔ ابو غریب اور عراق اسٹڈی گروپ کے قید خانے میں جو کچھ ہورہا تھا وہ غلط تھا‘‘۔

کرنل Herrington نے پوچھ گچھ کے غلط طریقوں کی طرف توجہ دلانے کی جو کوشش کی تھی وہ سنیٹ کیArmed Services Committee کی232 صفحات کی رپورٹ میں شامل ہے۔ اِس رپورٹ کے مطابق فوج اور سی آئی اے نے قانونی جواز ملنے سے کم از کم آٹھ مہینے پہلے ہی پوچھ گچھ میں زبردستی کرنے کے طریقے استعمال کرنا شروع کر دیے تھے۔

کرنل Herrington نے بتایا کہ اگرچہ انھوں نے خود تو بعض انتہائی قابلِ اعتراض طریقوں کو استعمال ہوتے نہیں دیکھا لیکن انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اعلیٰ عہدے داروں کی طرف سے پوچھ گچھ کے بہت زیادہ جارحانہ طریقوں کے استعمال پر زور دیا جارہا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے خود ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم جیسے تجربے کار ماہرین کی رائے نظر انداز کی جائےاور قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جائے۔

سی آی اے کی سابق سربراہ Michael Hayden اور نائب صدر ڈک چینی سمیت بعض سابق عہدے داروں نے پوچھ گچھ کے ان سخت طریقوں کے دفاع میں کہا ہے کہ یہ طریقے کارگر ثابت ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پوچھ گچھ کے دوران جو معلومات ملیں ان سے دہشت گردوں کی سازشیں نا کام ہو گئیں۔

کرنل Herrington کہتے ہیں کہ یہ محض خیالی بات ہے۔ پوچھ گچھ میں زبردستی کرنے کے طریقوں سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکی فوج کے ایک سابق افسر Mike Ritzجو پوچھ گچھ کے طریقوں کے ماہر ہیں اس خیال سے متفق ہیں’’جو کچھ ہوا کیا اسے ناپنے کا کوئی آلہ ہے؟ کیا یہ طریقے کامیاب ہوئے؟ میرے خیال میں بہت سے لوگوں نے سوچا کہ اگر ایک بار سی آئی اے نے کہہ دیا ہے کہ قیدیوں کو پانی میں ڈوبنے کا تاثر دینے یعنی واٹر بورڈنگ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب ہم نے یہ طریقہ استعمال کیا تو اس شخص نے سب کچھ اگل دیا۔ تو لوگوں نے کہا کہ اگر یہ طریقہ موئثر ہے تو پھر اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی ایسی سوچ کہ بس اپنے مطلب سے غرض رکھو یہ نہ سوچو کہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیئے کس قسم کے ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں۔ میں اِس اندازفکر سے متفق نہیں ہوں‘‘۔


صدر اوباما
صدر اوباما نے کہا ہے کہ سی آئی اے کے جن افسروں نے پوچھ گچھ کے غلط طریقے استعمال کیے ان پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ لیکن جن لوگوں نے اس کام کا حکم دیا یا اس کا جواز پیش کیا انھوں نے ان کے خلاف قانونی کارروائی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔ ان افراد کے خلاف فوجداری مقدمے کی کارروائی کے امکان پر ان سخت طریقوں کا دفاع کرنے والوں کی طرف سے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قیدیوں سے ملنے والی معلومات کی بدولت دہشت گردوں کے حملوں سے بچاؤ ممکن ہوا

۔

سب سے لمبا انسان ہونے کا نیا دعویدار

Posted by Anonymous on 5:17 PM


چین میں دنیا کے سب سے طویل القامت شخص ہونے کا ایک نیا دعویدار سامنے آیا ہے۔
چینی صوبہ حنان کے علاقے تیانجن سے تعلق رکھنے والے سابق باسکٹ بال کھلاڑی ژہاؤ لیانگ کے طویل القامت ہونے کا پتہ اس وقت چلا جب وہ اپنے پاؤں کا علاج کروانے کے لیے ہسپتال پہنچے۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے جب ان کا قد ناپا تو وہ دو اعشاریہ چار چھ میٹر یا آٹھ فٹ ایک انچ سے کچھ کم نکلا۔
اگر اس پیمائش کو تسلیم کر لیا جائے تو وہ اس وقت دنیا کے سب سے لمبے شخص سے دس سنٹی میٹر یا تین اعشاریہ نو انچ لمبے ہیں۔ اس وقت دنیا کے سب سے طویل القامت شخص کا اعزاز چین ہی کے ستاون باؤ زیشن کے پاس ہے۔ باؤ زیشن سات فٹ آٹھ اعشاریہ نو پاچن انچ طویل ہیں اور ان کا نام سنہ 2005 میں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں درج کیا گیا تھا۔
تاہم اب ستائیس سالہ ژہاؤ اپنے سب سے زیادہ طویل القامت ہونے کا دعوٰی پیش کر رہے ہیں۔ جب تک گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے ماہرین ان کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کر دیتے انہیں باقاعدہ طور پر دنیا کا سب سے لمبا آدمی نہیں مانا جائے گا۔ چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ژن ہوا کے مطابق ژہاؤ سنہ 2006 تک بیروزگار تھے اور اس کے بعد ہی انہوں نےگلیوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کیا تھا۔
بشکریہ بی بی سی

نیویارک میں غیرت کے نام پر بہیمانہ قتل: اسلامی برادری کی مذمت

Posted by Anonymous on 11:22 AM
امریکی ریاست نیو یارک کے شہر بفلو میں ایک مسلم ٹی وی چینل چلانے والے شخص مزمل حسن نے جب مبینہ طور پر اپنی بیوی آسیہ حسن کو بہیمانہ طور پر گلا کاٹ کر مار ڈالا تو پورے امریکی میڈیا میں یہ سوال اٹھا کہ کیا اس کا کوئی تعلق اسلام یا غیرت کے نام پر قتل سے تھا۔ اس کے جواب میں امریکہ بھر کی مسلمان تنظیموں نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے گھریلو تشدد کی بد ترین شکل قرار دیا اور اعتراف کیا کہ یہ مسئلہ امریکہ کی تمام برادریوں کی طرح مسلمانوں میں بھی موجود ہے۔ پیر کو نیو یارک کے علاقے کوئینز میں ایک پریس کانفرنس میں اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ یا اکنا کے صدر ڈاکٹر زاہد حسن بخاری نے اعلان کیا کہ ان کی تنظیم اپنی فلاحی شاخ ’اکنا ریلیف یو ایس اے‘ کے ساتھ مل کر اس مسئلے کے بارے میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کے لیے باقاعدہ مہم کا آغاز کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں وہ مختلف مقامی تنظیموں اور مساجد کے ذریعے معلومات فراہم کرنے کے علاوہ مسلم لیڈروں کے لیے باقاعدہ ٹریننگ کا آغاز بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’ہم اپنی برادریوں میں لیڈرز اور اماموں کے لیے تربیت کا بھی انتظام کریں گے تاکہ اگلی دفعہ جب کوئی عورت مدد کے لیے آئے، تو نہ اسے نظر انداز کیا جائے اور نہ اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔، انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ مسلم برادریوں میں گھریلو تشدد جیسی لعنت کی طرف توجہ اس وقت مبذول ہوئی جب اس قسم کا بہیمانہ واقعہ سامنے آیا۔ گھریلو تشدد کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام کے مطابق خاندانی اقدار سے لوگوں کو روشناس کرانے کے لیے اکنا اس سال موسم خزاں میں ایک اور مہم کا آغاز کرے گی جس کا اعلان اکنا کے قومی کنونشن کے موقعے پر کیا جائے گا۔ پریس کانفرنس میں شریک گھریلو تشدد کے خلاف ایک غیر سرکاری تنظیم ٹرننگ پوائنٹ کی ڈائریکٹر روبینہ نیاز نے کہا کہ گھریلو تشدد صرف خواتین کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے پورا خاندان متاثر ہوتا ہے اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جو بچے اپنے گھروں میں تشدد دیکھتے ہیں ان میں سے عمومًا لڑکے بڑے ہو کر اپنی ساتھی خواتین پر تشدد کرتے ہیں، جب کہ لڑکیاں ایسے تشدد کو برداشت کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیائی برادریوں میں گھریلو تشدد سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ سوشل ورکرز کی شدید کمی ہے۔ اکنا کا شمار امریکہ میں مسلمانوں کی بڑی تنظیموں میں ہوتا ہے اور اس نے اپنے فلاحی اور تعلیمی کاموں کے ذریعے مقامی آبادیوں کے درمیان اپنا مقام پیدا کرنا شروع کر دیا ہے۔

لاپتہ افراد کے مقدمات کی دوبارہ سماعت ہوگی

Posted by Anonymous on 11:17 AM
قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جاوید اقبال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ لاپتہ افرادکی بازیابی کے لیے مقدمے کی سماعت ضرور کرے گی اور اس سلسلے میں پہلے ہی ایک کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے۔جمعرات کے روز قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کمیٹی لاپتہ افراد کی صحیح تعداد معلوم کرنے کے حوالے سے کام کررہی ہے۔قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جاوید اقبال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ لاپتہ افرادکی بازیابی کے لیے مقدمے کی سماعت ضرور کرے گی اور اس سلسلے میں پہلے ہی ایک کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے۔جمعرات کے روز قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کمیٹی لاپتہ افراد کی صحیح تعداد معلوم کرنے کے حوالے سے کام کررہی ہے۔
جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ماضی میں انھوں نے لاپتہ افرادکے مقدمات کی سماعت کے لیے تین مرتبہ بنچ کی سربراہی کی اور اس دوران 101لاپتہ لوگوں کو بازیاب کرایا گیا۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو جلد نمٹانے کے معاملے پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اس سلسلے میں ہفتے کے روز ایک اجلاس ہورہا ہے جس میں ملک بھر سے چیف جسٹس صاحبان شرکت کررہے ہیں جو اس بات پر غور کریں گے کہ کس طرح مقدمات کے انبار کو کم کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مقدمات کے جلد نمٹائے جانے کے سلسلے میں دن رات کام کررہے ہیں اور اس سلسلے میں حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے ہی انہوں نے یہ اجلاس طلب کیا ہے۔جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ قانونی چارہ جوئی کے عمل کو آسان بنایا جائے اور مزید ججوں کی میرٹ پر تقرریاں کی جائیں جو پوری قابلیت سے اپنے فرائض سرانجام دیں۔
لاپتہ افراد کے لواحقینقائم مقام چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے صرف عدلیہ ہی کو نہیں بلکہ قوم کے ہر فرد کو دیانتداری سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ان کے بقول اس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دی جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آج اگر عدلیہ میں کرپشن موجود ہے تو اس کی ذمے داری صرف عدالتی اہلکاروں پر نہیں بلکہ بحیثیت قوم ان سب پر ہے جو قانونی منہ شگافیوں کے مرتکب ہوئے۔
اس سے قبل جسٹس جاوید اقبال سے جسٹس محمد رضا خان نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف لیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں ہیں۔
واضح رہے کہ لاپتہ افراد کے رشتے دار ان کی بازیابی کے حوالے سے سپریم کورٹ سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ لاپتہ افراد کے رشتے داروں کے مطابق ان کے پیاروں کو ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے مختلف الزامات پر غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ الزامات درست ہیں تو ان افراد کو عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔
جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ماضی میں انھوں نے لاپتہ افرادکے مقدمات کی سماعت کے لیے تین مرتبہ بنچ کی سربراہی کی اور اس دوران 101لاپتہ لوگوں کو بازیاب کرایا گیا۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو جلد نمٹانے کے معاملے پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اس سلسلے میں ہفتے کے روز ایک اجلاس ہورہا ہے جس میں ملک بھر سے چیف جسٹس صاحبان شرکت کررہے ہیں جو اس بات پر غور کریں گے کہ کس طرح مقدمات کے انبار کو کم کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مقدمات کے جلد نمٹائے جانے کے سلسلے میں دن رات کام کررہے ہیں اور اس سلسلے میں حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے ہی انہوں نے یہ اجلاس طلب کیا ہے۔جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ قانونی چارہ جوئی کے عمل کو آسان بنایا جائے اور مزید ججوں کی میرٹ پر تقرریاں کی جائیں جو پوری قابلیت سے اپنے فرائض سرانجام دیں۔
لاپتہ افراد کے لواحقینقائم مقام چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے صرف عدلیہ ہی کو نہیں بلکہ قوم کے ہر فرد کو دیانتداری سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ان کے بقول اس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دی جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آج اگر عدلیہ میں کرپشن موجود ہے تو اس کی ذمے داری صرف عدالتی اہلکاروں پر نہیں بلکہ بحیثیت قوم ان سب پر ہے جو قانونی منہ شگافیوں کے مرتکب ہوئے۔
اس سے قبل جسٹس جاوید اقبال سے جسٹس محمد رضا خان نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف لیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں ہیں۔
واضح رہے کہ لاپتہ افراد کے رشتے دار ان کی بازیابی کے حوالے سے سپریم کورٹ سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ لاپتہ افراد کے رشتے داروں کے مطابق ان کے پیاروں کو ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے مختلف الزامات پر غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ الزامات درست ہیں تو ان افراد کو عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔
بشکریہ وی او اے

افغان دینی عالم کی طرف سے شادی کے قانون کا دفاع، مغرب پر نکتہ چینی

Posted by Anonymous on 11:17 AM
افغانستان کے ایک سرکردہ مذہبی رہنما نے شادی کے قانون کا دفاع کرتے ہوئے مغربی طاقتوں پر الزام عائد کیا ہے کہ جب اُنھیں نتائج پسند نہیں آتے، وہ جمہوریت کا مذاق اُڑانے لگتے ہیں۔محمد آصف محسنی نے ہفتے کے دِن کہا کہ یہ قانون جمہوری عمل کا نتیجہ ہے، اور اعتراضات کاباعث اِس کا ناقص ترجمہ ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون شادی کی آڑ میں زنا کے مترادف ہے جِس میں کہا گیا ہے کہ ماسوابیماری کے بیویاں شوہروں کو جنسی تعلق سے انکار نہیں کر سکتیں۔افغان صدر حامد کرزئی نے قانون پر عمل درآمد کو روک دیا ہے اور قانون پر نظر ثانی کے احکامات صادر کر دیے ہیں۔محسنی کا کہنا ہے کہ جب ایک عورت بیمار ہو، بچے کو جنم دیا ہو یا روزے سے ہو، اُسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جنسی تعلق سے انکار کرے۔ محسنی مزید کہتے ہیں کہ یہ قانون شریعت کے عین مطابق ہے اوراِس میں کسی طرح کی تبدیلی لائی گئی تو شیعہ برادری کے آئینی حقوق کی انحرافی ہوگی۔حالانکہ افغانستان کے دستور میں مرد اور عورتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں، اِس میں شیعہ برادری، جوملک کی آبادی کا 20فی صد ہے، کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مذہبی روایات کی رو سے مختلف عائلی قانون اپنا سکتے ہیں۔امریکہ ، اقوامِ متحدہ اور نیٹو نے اِس قانون پربشکریہ وی او اے نکتہ چینی کی ہے۔

بھارت ممکنہ دہشت گردی کی تفاصیل پاکستان کے حوالے کرے: رحمٰن ملک کا بیان

Posted by Anonymous on 11:14 AM

پاکستانی وزارتِ داخلہ کے سربراہ، رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے اپنی وزارتِ خارجہ کے توسط سے بھارت سے کہا ہے کہ وہ اُن اطلاعات کے بارے میں پاکستان کو تفصیلات فراہم کرے جِن کے مطابق پاکستان میں موجود طالبان الیکشن کے دوران بھارت میں حملہ کر سکتے ہیں۔ہفتے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ بھارتی وزیرِ اعظم نے تین دِن پہلے ایسا بیان دیا ہے، جِس پر پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ بھارت سے وہ حقائق معلوم کیے جائیں جِس کی بنیاد پر ممکنہ دہشت گردوں کو ‘ مل کر پکڑا جائے۔’ اُن کے بقول، اگرایسے ‘ غیر ریاستی عناصر یا طالبان’ پاکستان میں ہیں تو اُن کے خلاف بروقت کارروائی کی جانی چاہیئے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردوں کے خلاف مل کر کام کریں، کیونکہ، ایسے عناصر پاکستان و بھارت دونوں کے یکساں طور پر دشمن ہیں۔اِس سوال پر کہ پنجاب پولیس کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے مطابق لاہور میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ملوث ہے،رحمٰن ملک نے کہا کہ ‘میرے خیال میں اُن کو صحیح معلومات نہیں ہے۔’اُنھوں نے کہا کہ لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے اور مناواں پولیس تربیتی ادارے پر دہشت گردی کے معاملات زیرِ تفتیش ہیں، اور جونہی حتمی معلومات سامنے آتی ہےدنیا کو اُس کی تفاصیل بتادی جائیں گی۔یہ معلوم کرنے پر کہ ابھی تک صدرِ پاکستان نےسوات معاہدے کی توثیق کیوں نہیں کی، وزارتِ داخلہ کے سربراہ نے کہا کہ معاہدہ صوبائی حکومت کی طرف سے یہ ایک اچھی پیش رفت اور اچھا فیصلہ تھا۔اُنھوں نے بتایا کہ، کہا یہ گیا تھا کہ تحریک نفاذ شریعتِ محمدی کے سربراہ صوفی محمد طالبان میں موجود روشن خیال طبقے کے رہنما ہیں اور وہ علاقے میں امن لائیں گے۔ اُس کے بعد قاضی نظام کے تحت مجسٹریٹ قاضی بن جائے گا، جب کہ صوبے کا عدالتی سربراہ جوں کا توں رہے گا۔ پھر یہ کہ جب سوات میں مکمل امن و امان قائم ہوجائے گا، وفاقی حکومت اُس معاہدے پر دستخط کرے گی۔رحمٰن ملک نے کہا کہ امن معاہدے کے برعکس پہلے یا دوسرے ہی دِن ایف سی کے ایک عہدے دار کو بٹھالیا گیا، فوجی قافلے پر فائرنگ کی گئی اور کچھ اسکول جلائے گئے۔ اُن کے بقول، جب تک مکمل امن بحال نہیں ہوتا، معاہدے کی توثیق نہیں ہوگی۔وزارتِ داخلہ کے سربراہ نے بتایا کہ صدرِ پاکستان نے احکامات دیے ہیں کہ سوات امن معاہدے پر آزاد و خودمختار وفاقی پارلیمان میں فیصلہ ہوگا،جو سب کو قابلِ قبول ہوگا۔

بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں اضافہ

Posted by Anonymous on 11:04 AM

جوں جوں توانائی کے روایتی ذرائع ختم ہو رہے ہیں ۔امریکہ اور دنیا بھر میں متبادل طریقوں سے توانائی کے حصول کے بندوبست پر زور دیا جا رہا ہے۔ امریکی ریاست اوکلا ہوما میں جہاں سال میں کئی بار طوفانی ہواوں کے جھکڑ زندگی در ہم برہم کر تے ہیں ،سائنسدان ،کاروبار ی اور تعلیم و تحقیق کے ادارے انہی ہواوں کو توانائی کے ایک مثبت اضافی ذریعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔

اوکلا ہوما تقریبا ہر روز تیز ہواوں کی زد میں رہتا ہے ۔یہ طوفانی ہوا جہاں کبھی لوگوں کی زندگی درہم برہٕم کرتی ہے وہاں اب اس کی مدد سے بلند و بالا ہوائی چکیاں چلائی جارہی ہیں ۔ایسی ہوائی چکیاں اوکلا ہوما کی بڑی شاہراہوں سے دیہی علاقوں تک جا بجا دیکھی جا سکتی ہیں اور ریاست کے بجلی گھروں کو توانائی فراہم کرتی ہیں۔ایک ہوائی چکی یا ٹربائین کی تیاری اور تنصیب پر دو ملین ڈالر خرچ آتا ہے ۔ٹربائن نصب کرنے والی کمپنیا ں جس زمین پر ٹربائین نصب کرتی ہیں اس کے مالک کو چار سے چھ ہزار ڈالر کی رقم ہر سال کرائے کی مد میں ادا کی جاتی ہے ۔جس کے بدلے میں زمین مالکان کو ٹربائین کی بجلی پیدا کرنے کی درست صلاحیت کا حساب جمع کرنے کو کہا جا رہا ہے ۔

سائنس دان اینجی ایلبرز کا کہنا ہے کہ زمین مالک ہوا کی رفتار کا اندازہ لگاتے ہیں اور اسےاپنے پاس حساب والے رجسٹرز میں درج کرتے ہیں ۔پھر اس کوایک کمپیوٹر چپ میں ریکارڈ کیا جاتا ہے ۔زمین مالک ہمیں یہ کمپیوٹر چپ بھیجتے ہیں اور پھر ہم اس ڈیٹا کو پروسیس کرتے ہیں ۔


اینجی ایلبرز ایک نیم سرکاری کمپنی ونڈ پاور انی شی ایٹو کی پراجیکٹ کوآرڈینیٹر ہیں ۔اور ہوا کی توانائی کو ان امریکی دیہات میں جہاں یہ ٹربائین نصب کئے گئے ہیں ،معیشت میں بہتری لانےکے نئے ذریعے کے طور پر دیکھتی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ میں اسے ایک نیا معاشی انقلاب قرار دوں گی جو آئندہ کئی سالوں تک جاری رہے گا ۔میرے خیال میں اس سے معاشی مشکلات کا شکار علاقوں میں سکول یا ہسپتال یا دیگر خدمات کے ادارے چلانے میں مدد ملے گی ۔اور جو لوگ علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں وہ اپنے شہروں کی طرف دوبارہ نقل مکانی کریں گے ۔
اوکلا ہوما کی برجی ونڈ پاور کمپنی رہائشی ضروریات کے لئے 1970 میں صدر جمی کارٹر کے زمانے سے ٹربائین بنا رہی ہے ۔اب صدر اوباما نے سستی پن بجلی بنانے کے لئے اس صنعت کو نئی مراعات او ر ٹیکسوں میں چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے اور یہ صنعت دوبارہ زور پکڑ رہی ہے ۔کم از کم اس سے وابستہ افراد کا خیال تو یہی ہے ۔


سکاٹ میرک جو سیلز کے شعبے سے وابستہ ہیں ،کہتے ہیں کہ مجھے ہوائی بجلی کے چھوٹے چھوٹے ٹربائین اچھے لگتے ہیں ۔بالکل کاؤ بوائے جیسا محسوس ہوتا ہے ۔باہر کھلی فضا میں جانا اور سو سو فٹ اونچے ٹربائین پر چڑھنا ۔ایک دم آزاد ی کا احساس ہوتا ہے ۔اور اس میں کسی کا نقصان بھی نہیں ہے۔

اوکلاہوما یونیورسٹی اپنے کیمپس کو بجلی فراہم کرنے والے پلانٹ کا انحصار 2013 تک سو فیصد ہوائی بجلی پر منتقل کرنے کے لئے ایک بجلی کمپنی کو معاوضہ ادا کر رہی ہے ۔پلانٹ ڈائریکٹر بل ہین ووڈ کہتے ہیں کہ ہوا کی تباہ کاری کے بجائے اس کی مثبت طاقت کا اثر دیکھنا ایک اچھی تبدیلی ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ ہر وہ شخص جو اوکلا ہوما ،ٹیکساس ،کینساس اور میزوری میں رہتا ہے ،اسے ہوا کے بگولوں کی ہلاکت خیزی کا اندازہ ہے ۔چھ سال پہلے مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہوا ،جب ٹارنیڈو نے میرا مکان تباہ کر دیا تھا ۔شکر ہے کہ میری بیوی اور بچہ اس طوفان میں محفوظ رہے ۔تو ہم نے تو ایسی طوفانی ہواوں کے نقصانات خود دیکھے ہیں ۔مگر اب ہم ہوا کا مثبت استعمال بھی دیکھ رہے ہیں ۔

یونیورسٹی کی انتطامیہ کو امید ہے کہ یونیورسٹی امریکہ کے ماحول دوست مستقبل کے لئے ایک ماڈل ثابت ہو سکتی ہے ۔

یونیورسٹی کے وائس پریڈنٹ بائرن بر مل سیپ کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں ہم سب اس پر متفق ہیں کہ توانائی کے نئے ذرائع تلاش کرنے ضروری ہیں اور غیر ملکی تیل اور توانائی پر انحصار کم سے کم کرنا چاہئے۔ہم جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں اس کا صاف ہونا اور اپنے قدرتی وسائل کواپنی اور اپنی آئندہ نسل کے لئے سنبھال کر رکھنا اور احتیاط سے استعمال کرنا بھی اہم ہے ۔

باوجود اس تنقید کے کہ یہ پن چکیاں مہنگی اور بڑے پیمانے پر توانائی پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔اوکلا ہوما کے رہنے والوں کو اپنی سڑکوں اور کھلے میدانوں میں مزید ہوائی چکیوں کی تنصیب پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ ان کی خواہش ہے کہ امریکہ کی توانائی کی ضرورت پوری کرنے میں ہوا کی توانائی کا استعمال مزید بڑھایا جائے
۔ بشکریہ وی او اے

بچے کی حراست، چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا

Posted by Anonymous on 5:12 PM
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طارق پرویز نےایک شیر خواربچے کو پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر حراست میں رکھنے کے واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔
پشاورہائی کورٹ کے چیف جسٹس طارق پرویز نے ازخود نوٹس اس وقت لیا جب بچے کی ماں روفیدہ کی جانب سے ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کی سماعت کے موقع پر ان کے وکیل نےمؤقف اختیار کیا کہ چونکہ بچہ تین دن قبل ماں کے حوالے کردیا گیا ہے لہذا ان کی رٹ غیر مؤثر ہوگئی ہے۔
جمعہ کو جسٹس معروف خان اور جسٹس سید مصدق حسین گیلانی پر مشتمل بنچ نےجب کیس کی سماعت شروع کی تو بچے کی ماں روفیدہ کے وکیل حسین علی نے عدالت کو بتایا کہ پشاور کی نواح میں واقع چمکنی پولیس نے شریکرہ کے علاقے علی خیل میں اختر محمد نامی ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا لیکن ملزم کی عدم موجودگی پر پولیس نو ماہ کے شیرخوار بچے جان محمد کو اٹھاکر لے گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے ایک ماہ تک بچے کو اپنی حراست میں رکھا لیکن اس سے تین دن قبل واپس اپنی ماں کے حوالے کردیا۔ ان کے اس بیان کے بعد ان کی رٹ غیر مؤثر ہوگئی۔
تاہم اس کے بعد جب بچے کو کمرہ عدالت سے باہر لایا گیا تو وہاں پر موجود صحافی بچے کو لے کر چیف جسٹس طارق پرویز کے پاس پہنچ گئے جنہوں نے واقعہ کا ازخود نوٹس لے لیا۔
اس موقع پر بچے کی ماں نے چیف جسٹس کو بتایا کہ گرفتاری سے قبل بچہ دودھ پی رہا تھا مگر اب اس کے دودھ پینے کی عادت چھوٹ گئی ہے اور بہت کمزور بھی ہوگیا ہے۔
سنیچر کو ایس ایچ او متنی، ایس ایچ چمکنی، ناظم یونین کونسل زڑھ مینہ اور بچے کی ماں، دادا اور دادای چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوئے۔
پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے بچے کو غیر قانونی حراست میں نہیں رکھا ہے ۔ ان کے بقول یہ واقعہ نیم قبائلی علاقے میں پیش آیا ہے جہاں پر پولیس کی بجائے خاصہ دار تعینات ہوتے ہیں۔
اس موقع پر بچے کی دادی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس ان کی ہی گود سے بچہ لے کر گئی ہے اور جس پولیس نے بچے کو مبینہ طور پر اٹھایا ہے وہ سامنے آنے پر انہیں پہچان سکتی ہے۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے مجسٹریٹ کو ہدایت کی کہ وہ بچے کی دادی کو چمکنی پولیس اسٹیشن لے جائیں اور وہاں پر پولیس اہلکاروں کی شناختی پریڈ کی جائے۔ کیس کی سماعت جمعہ تک کے لیے ملتوی کردی گئی ہے

thanker bbc۔

برطانوی خفیہ ایجنسی کا پاکستان میں آپریشن

Posted by Anonymous on 5:04 PM

برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی سکسٹین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار افراد کے بارے میں معلومات پاکستان میں کئے گئے آپریشنز کے ذریعے ملیں۔برطانوی اخبار گاڈین کے مطابق دو سے تین ہفتے قبل ایم آئی سکسٹین نے پاکستان میں کئی آپریشنز کئے تھے جن کے ذریعے برطانیہ میں موجود مبینہ طور پر القاعدہ کے تربیت یافتہ مشتبہ عسکریت پسندوں کے نام اور ای میلز اور ٹیلی فون کالز کا ریکارڈ حاصل کیا گیاجس سے یہ بات پتہ چلی کہ برطانیہ میں موجود القاعدہ کے مبینہ کمانڈروں اور پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کے درمیان رابطہ ہے۔ اخبار کے مطابق گرفتار شدگان میں سے بعض کو عوامی مقامات کی تصاویر حاصل کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا۔
thanker urdu time

بورڈ دوسروں کی لڑائی نہ لڑے:انضمام

Posted by Anonymous on 5:01 PM

پاکستان کے سابق کپتان اور متنازعہ انڈین کرکٹ لیگ کی لاہور بادشاہ ٹیم کے رکن انضمام الحق نے پاکستان کرکٹ بورڈ سے کہا ہے کہ وہ دوسروں کی لڑائی لڑنے کے بجائے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فیصلے خود کرے۔
انہوں نے یہ بات آئی سی ایل میں شامل تین پاکستانی کرکٹرز کی سکواڈ میں شمولیت اور پھر اخراج کے بعد بی بی سی سے ایک بات چیت کے دوران کہی۔
خیال رہے کہ پی سی بی نے عمران نذیر، عبدالرزاق اور رانا نوید الحسن کو ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ابتدائی تیس کھلاڑیوں میں شامل کیا تھا لیکن اگلے ہی دن ان کے نام اس فہرست سے خارج کردیے گئے تھے۔
انضمام الحق نے کہا کہ ’ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کو پہلے نہیں پتہ تھا کہ ان تین کرکٹرز کو ممکنہ سکواڈ میں شامل کرنے پر آئی سی سی کا کیا ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ وہ تو ان کرکٹرز کو واپس لانے کے لیے تیار ہے لیکن اس پر بہت پریشر ہے‘۔
ئی سی سی کو یہ خطرہ ہے کہ اس کے سپانسرز اس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے کیونکہ جس تیزی سے آئی سی ایل مقبول ہوئی ہے اور اس نے جس تیزی سے سپانسرز بنائے ہیں اس بارے میں کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ یہ سارا کھیل پیسے کا ہے ۔آئی سی سی نہیں چاہتی کہ پیسہ کہیں اور تقسیم ہو
انضمام الحق
انضمام الحق نے آئی سی ایل کے منتظمین کو بھی مشورہ دیا کہ وہ خود کو تسلیم کرانے کے لیے عدالت سے رجوع کریں۔ انہوں نے کہا کہ اب جبکہ آئی سی سی غیر منظور شدہ کرکٹ کے بارے میں ایک قرارداد سامنے لانے والی ہے آئی سی ایل کو انصاف کے لیے عدالت میں جانا چاہیے اور جس طرح پاکستانی کرکٹرز نے عدالت سے رجوع کر کے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت حاصل کی ہے اسی طرح آئی سی ایل کو بھی یہ قدم اٹھانا چاہیے۔
انضمام الحق نے کہا کہ ’آئی سی ایل کرکٹ کوئی جرم نہیں۔ ماضی میں پہلے بھی ایسے کئی ایونٹس ہوئے ہیں جنہیں آئی سی سی نے منظور نہیں کیا لیکن آئی سی ایل سے آئی سی سی کو یہ خطرہ ہے کہ اس کے سپانسرز اس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے کیونکہ جس تیزی سے آئی سی ایل مقبول ہوئی ہے اور اس نے جس تیزی سے سپانسرز بنائے ہیں اس بارے میں کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ یہ سارا کھیل پیسے کا ہے ۔آئی سی سی نہیں چاہتی کہ پیسہ کہیں اور تقسیم ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی کرکٹرز کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچ رہا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ آئی سی سی کبھی بی سی سی آئی کو کہتی ہے کہ وہ آئی سی ایل سے مذاکرات کرے اصل میں وہ خود اس معاملے میں واضح نہیں ہے۔ انضمام الحق کا کہنا تھا کہ آئی سی سی کی بہت بڑی سپانسرشپ بھارت کی ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ آئی سی سی پر بی سی سی آئی کا زبردست دباؤ ہے کیونکہ آئی سی ایل بھی بھارتی کرکٹ ہے لہذا سپانسرشپ تقسیم ہونے کا خطرہ ہے۔

آئی ایس آئی چیف کاامریکی نمائندوں سے ملنے سےانکار

Posted by Anonymous on 2:21 PM


اسلام آباد: آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک اور امریکی جوائنٹ چیف آف ا سٹاف ایڈمرل مائیک مولن کی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا سے بھی ملاقات طے تھی۔ امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ہالبروک اور مائیک مولن کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے الگ الگ ملاقات طے تھی۔ تاہم لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی طرف سے ملاقات کو کنفرم نہیں کیا گیا۔سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی طرف سے ملاقات کے لئے وقت نہیں دیا گیا اور ملنے سے انکار کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ ایڈمرل مائیک مولن نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آئی ایس آئی کے کردار کے بارے میں منفی بیانات دئیے تھے۔

پی چدمبرم پر جوتا پھینکا گیا

Posted by Anonymous on 8:55 PM

ہندوستان کے وزير داخلہ پی چدمبرم پر ایک صحافی نے جوتا پھینکا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وزیر داخلہ پی چدمبرم دارالحکومت دلی میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
منگل کو وزير داخلہ کانگریس کے صدر دفتر میں نیوز کانفرنس ميں سوالوں کے جوابات دے رہے تھے۔جب ان سے ایک صحافی نے حال ہی میں مرکزی تفتیشی ادارے سی بی آئی کی جانب سے سکھ فسادات کے ایک اہم ملزم جگدیش ٹائٹلر کو کلین چٹ دیے جانے سے متعلق سوال پوچھا تو پی چدمبرم نے صحافی سے تحمل رکھنے اور عدلیہ پر بھروسہ کرنے کو کہا۔
اس کے جواب میں صحافی وزیر داخلہ سے بحث کرنے لگا اور پھر پہلی قطار ميں بیھٹے ہوئے اس صحافی نے احتجاج میں پی چدمبرم کی طرف اپنا جوتا پھینک دیا۔ حالانکہ وہ جوتا وزیر داخلہ کو لگا نہیں اور ان کے سر کے پاس سے نکل گیا۔
یہ صحیح ہے کہ وزیر داخلہ کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ نہيں ہونا چاہیے لیکن ميں اس کے لیے معافی نہيں مانگوں گا۔ کیونکہ گزشتہ پچیس برس سے سکھ برادری انصاف کے انتظار میں ہے۔
پاس میں بیٹھے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں نے فورا ہی اس صحافی کو پکڑ لیا اور اسے اپنی حراست میں لے لیا۔اس صحافی کی شناخت جنریل سنگھ کے طور پر کی گئی ہے جو جاگرن نامی میڈیا کپمنی میں سینیئر صحافی ہیں۔
اس واقعہ کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے جنریل سنگھ نے کہا کہ ان کا طریقہ غلط ہو سکتا ہے لیکن انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ جذبات ميں آ کر کیا۔ انہوں نے کہا ’یہ صحیح ہے کہ وزیر داخلہ کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ نہيں ہونا چاہیے لیکن ميں اس کے لیے معافی نہيں مانگوں گا۔ کیونکہ گزشتہ پچیس برس سے سکھ برادری انصاف کے انتظار میں ہے۔‘
اس سے قبل امریکہ کے صدر جارج بش پر عراق میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ایک عراقی صحافی نے جوتا پھینکا تھا۔ صحافی منتظر الزیدی کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور اسے تین برس کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

Thanker from bbc

شعیب کی ٹیم میں واپسی

Posted by Anonymous on 1:31 PM

پاکستانی فاسٹ بالر شعیب اختر کو فٹنس ثابت کرنے کے بعد آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے لیے ٹیم میں شامل کرلیا گیا ہے۔
پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین پانچ ون ڈے اور ایک ٹوئنٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کی یہ سیریز بائیس اپریل سے سات مئی تک دبئی اور ابوظہبی میں کھیلی جائے گی۔
فٹنس ٹیسٹ کے علاوہ حالیہ قومی ایک روزہ ٹورنامنٹ میں شعیب اختر کی بولنگ پر بھی سلیکٹرز نے اطمینان ظاہر کیا ہے۔ شعیب اختر جنوری میں سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز کے دو میچوں میں غیرمتاثر کن کارکردگی کے بعد ان فٹ ہوکر ٹیسٹ سیریز سے باہر ہوگئے تھے۔
ان کے گھٹنے کی تکلیف کے بارے میں گزشتہ دنوں متضاد خبریں سامنے آئی تھیں کہ وہ آپریشن کے بغیر فٹ ہوسکیں گے یا انہیں آپریشن کرانا پڑے گا۔
پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں چار سال کے طویل وقفے کے بعد ون ڈے انٹرنیشنل میں مدمقابل آ رہی ہیں۔ آخری بار دونوں کا سامنا فروری2005 ء میں سڈنی میں وی بی سیریز کے فائنل میں ہوا تھا۔
شعیب اختر140 ون ڈے انٹرنیشنل میں 220 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں تاہم تین سال کے عرصے میں وہ صرف تین ٹیسٹ اور گیارہ ون ڈے انٹرنیشنل ہی کھیل پائے ہیں۔
چیف سلیکٹر عبدالقادر نے پیر کو جس پندرہ رکنی ٹیم کا اعلان کیا ہے اس میں شعیب اختر کے علاوہ آف اسپنر سعید اجمل کی بھی واپسی ہوئی ہے۔ یہ دونوں گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کے دورے کے لئے اعلان کردہ سولہ رکنی ٹیم میں شامل نہیں تھے۔
اس ٹیم کے تین کھلاڑی وکٹ کیپر سرفراز احمد، فاسٹ بولر محمد عامر اور لیگ اسپنر یاسر شاہ ڈراپ کردیئے گئے ہیں۔
پاکستانی ٹیم ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے: یونس خان ( کپتان )، سلمان بٹ، مصباح الحق، شعیب ملک، کامران اکمل، شاہد آفریدی، یاسر عرفات، عمرگل، شعیب اختر، راؤ افتخار، فواد عالم، سعید اجمل، ناصر جمشید، سہیل تنویر اور احمد شہزاد۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں چار سال کے طویل وقفے کے بعد ون ڈے انٹرنیشنل میں مدمقابل ہورہی ہیں۔ آخری بار دونوں کا سامنا فروری2005 ء میں سڈنی میں وی بی سیریز کے فائنل میں ہوا تھا۔
دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے آخری دس ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں آسٹریلیا نے نو جیتے ہیں جبکہ پاکستانی ٹیم صرف ایک میچ جیت سکی ہے۔
Thanker from bbc

کامیابی میں پوری ٹیم کی کوشش شامل ہے ، شعیب ملک

Posted by Anonymous on 2:18 PM

اختتامی تقریب کے بعد پی آئی اے کے کپتان شعیب ملک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کے سب سے بڑے ون ڈے ٹورنامنٹ کی فتح میں پوری ٹیم کی محنت شامل ہے اور تمام کھلاڑیوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 20اوور کرکٹ کے آنے کے بعد315رنز کا ٹارگٹ کوئی بڑا ٹارگٹ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیشنل بنک کی ٹیم مضبوط ٹیم ہے اور اوپنر سلمان بٹ کا شروع میں آؤٹ ہونا ہمارے لئے فائدہ مند ثابت ہوا لیکن پھر بھی ان کی ایورج اچھی رہی۔ انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف دبئی میں کھیلی جانے والی سیریز کے حوالے سے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کون فیورٹ ہے۔ ہمیں صرف نقصان یہ ہے کہ ہم انٹرنیشنل کرکٹ زیادہ نہیں کھیل سکے اور بہت زیادہ عرصہ کے بعد آسٹریلیا کے خلاف کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ کے میچوں کے دوران تماشائیوں کے سٹیڈیم میں نہ آنے کے حوالے سے کہا کہ اس کے لئے میڈیا اور کھلاڑیوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

وفاقی حکومت میں شمولیت کی دعوت نہیں دی،وزیراعظم گیلانی

Posted by Anonymous on 2:03 PM

وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ سترویں ترمیم کے خاتمے کیلئے ڈیڈ لائن نہیں دے سکتے کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ یہ کام کب تک مکمل ہوگا مسلم لیگ ن کو وفاق میں جمہوریت کی دعوت نہیں دی گڑی خدابخش میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعظم کا عہدہ ہمیشہ باقی نہیں رہتا جبکہ آئین اور ملک ہمیشہ باقی رہیں گے ذوالفقار علی بھٹو کے دیئے ہوئے آئین کا تحفظ ہمارے لئے فرض عین ہے بے نظیر بھٹو شہید اور ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات اور ویژن اب بھی ہمیں مکمل رہنمائی کرتے ہیں جن سے پوری قوم استفادہ حاصل کررہی ہے او رہم ان نظریات ‘ ویژن اور منشور کے مطابق آگے چل رہے ہیں انہوں نے کہا کہ آئین 1973 ء کے بعد میثاق جمہوریت بھی وہ دستاویز ہے جس پر ہماری شہید قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کے دستخط ہیں پیپلزپارٹی میثاق جمہوریت پر عمل کرنے کیلئے سنجیدہ ہے۔ سترویں ترمیم کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ اس کے لئے جلد کمیٹی تشکیل دے دی جائے گی اور وہ کمیٹی ہی اس بارے میں فیصلہ کرے گی کہ وزیراعظم نے کہا کہ ہم مفاہمت کی سیاست کا فروغ چاہتے ہیں مسلم لیگ ن کو ابھی وفاق میں شمولیت کی دعوت نہیں دی پنجاب حکومت میں شامل ہونے کے لئے پارٹی قیادت فیصلہ کرے گی وزیراعظم ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ حکومت قبائلی علاقوں اور سوات میں قیام امن کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ان علاقوں میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے علاوہ نوجوانوں کو روزگار کے موقع فراہم کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ مقامی عوام کے دل و دماغ جیتے جائیں انہوں نے کہا کہ حکومت کسی شدت پسند سے مذاکرات نہیں کررہی بلکہ ہتھیار ڈالنے والوں سے مذاکرات ہوں گے ہماری اولین ترجیح ہے کہ مذاکرات اور تعمیر و ترقی کے ذریعے علاقے میں امن قائم ہو تاہم اگر حکومت رٹ کو چیلنج کیا گیا تو طاقت کے استعمال کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سوات میں امن کے بعد نظام عدل کو سفارشات کے ساتھ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا اور اس کے بعد منظوری کے لیے صدر پاکستان کو بھیجا جائے گا انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ سوات میں امن قائم ہوجائے گا لیکن اگر حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا گیا تو اس کے لیے فوج کو بھی استعمال کیا جائے گا۔صوبہ پنجاب میں حکومت کی بحالی پر انہوں نے کہا کہ یہاں مسلم لیگ(ن) کی نہیں ہماری اتحادی حکومت بحال ہوئی ہے تاہم حزب اختلاف یا حزب اقتدار کا کردار منتخب کرنے کے حوالے سے پارٹی قیادت فیصلہ کریگی جس کے بارے میں پارٹی مشاورت سے قبل کچھ نہیں کہ سکتا ہوں تاہم انہوں نے کہا کہ اقتدار میں شامل ہوں یا حزب اختلاف میں بیٹھیں ہر کردار میں بے نظیر بھٹو شہید کے ویژن کے مطابق مفاہمتی سیاست کریں گے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) نے کسی نئے سیاسی اتحاد کو17 ویں ترمیم کے خاتمے سے مشروط نہیں کیا ہے اور نہ ہم نے مسلم لیگ(ن) کو وفاقی کابینہ میں شامل ہونے کی پیشکش کی ہے۔17 ویں ترمیم کے خاتمے کے حوالے سے اختیارات اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو دئے گئے ہیں اب ان کی بنائی جانیوالی پارلیمانی کمیٹیوں پر منحصر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کتنا وقت لیتی ہیں۔
Thanker from jinnah news

سیکورٹی تحفظات کا اظہار آسٹریلیا کا حق ہے، یونس

Posted by Anonymous on 1:54 PM


: قومی ٹیم کے کپتان یونس خان نے کہا ہے کہ ایشیا میں کرکٹ کو زندہ رکھنے کے لئے پاکستان، بھارت ،سری لنکا اور بنگلہ دیش کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یونس خان نے کہا کہ پاکستان میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد سیکورٹی پر تحفظات کا اظہار کرنا آسٹریلیا کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں ہونے والی ون ڈے سیریز میں نئے کھلاڑیوں سے زیادہ امیدیں نہیں۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ شعیب اختر سمیت انڈین کرکٹ لیگ کے کھلاڑی اگر فٹ ہیں اور اچھی پرفارمنس دے رہے ہیں تو انہیں ٹیم میں ضرور شامل کیا جانا چاہیے۔ یونس خان نے کہا کہ آئی پی ایل سے بقایاجات کے حصول کے لیے کھلاڑیوں کو کوشش کرنی چایئے یہ ان کا حق ہے۔ اس سے پہلے پاکستان ڈس ایبل کرکٹ ایسویسی ایشن کی جانب سے یونس خان کے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب میں انہیں گولڈ میڈل پیش کیا گیا۔

امریکی سینٹرپرحملہ: بیت اللہ محسود نے ذمہ داری قبول کر لی

Posted by Anonymous on 1:52 PM
پاکستان تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود نے گزشتہ روز امریکا کے شہر نیویار ک میں امیگریشن سینٹرپر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبو ل کر لی ہے ۔ حملے میں تیرہ افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔ خبر رساں ایجنسی کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود نے دھمکی دی تھی کہ وہ امریکا کو امریکا میں ہی نشانہ بنائیں گے اور اس سلسلے میں گزشتہ روز انہوں نے امریکا کے شہر نیویار ک میں ایک امیگریشن سینٹر کو نشانہ بنایا ۔ گزشتہ روز ایک شخص نے نیویارک کے علاقے پنگھامٹن میں امریکن سوک ایسوسی ایشن کی عمارت میں موجود امیگریشن سینٹر کے دفتر میں داخل ہو کر فائرنگ کر دی تھی جس میں تیرہ افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔ واضح رہے کہ امریکی حکومت نے بیت اللہ محسود پر پچاس لاکھ امریکی ڈالر کی انعامی رقم بھی مقرر کر رکھی ہے
thamker voa

مسلح شخص کی فائرنگ، تیرہ ہلاک

Posted by Anonymous on 1:38 PM

امریکی ریاست نیویارک میں ایک مسلح شخص نے امیگریشن مرکز میں موجود درجنوں افراد کو یرغمال بنانے اور ان میں سے تیرہ کو ہلاک کرنے کے بعد خودکشی کر لی۔
ریاست نیویارک کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ نیویارک کے شمال مغرب میں واقع علاقے بنگ ہیمٹن میں پیش آیا جہاں ایک ویتنامی نژاد امریکی شخص نے امیگریشن مرکز میں داخل ہو کر امریکی شہریت کا امتحان دینے والے افراد پر فائرنگ کر دی۔
بنگ ہیمٹن پولیس کے سربراہ جوزف زکسکی نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کے دوران بتایا کہ امریکن سوک ایسوسی ایشن کی عمارت سے چودہ لاشیں ملی ہیں جن میں حملہ آور کی لاش بھی شامل ہے جس نے خودکشی کی۔ ان کے مطابق حملہ اور کے پاس سے دو دستی بندوقیں، گولیاں اور ایک شکاری چاقو بھی برآمد ہوا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق وضع قطع سے ایشیائی دکھائی دینے والا ایک شخص جس کی عمر بیس کے لگ بھگ تھی امریکی سوک ایسوسی ایشن کے امیگریشن مشورہ مرکز میں جمعہ کی صبح داخل ہوا۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس شخص کا قد قریباً چھ فٹ تھا اور اس نے شوخ سبز رنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ حکام کے مطابق حملہ آور نے پہلے عمارت کے عقبی دروازے کو اپنی گاڑی کھڑی کر کے بند کیا اور پھر صدر دروازے سے اندر آ کر فائرنگ کر دی۔
ریاست نیویارک میں معصوم شہریوں پر اس قسم کی فائرنگ کی نہ تو کوئی وجہ ہو سکتی ہے اور نہ بہانہ‘۔یہ نیویارک کے لیے ایک المناک دن ہے۔
ڈیوڈ پیٹرسن، گورنر ریاست نیویارک
حملہ آور نے پہلے استقبالیہ مرکز پر موجود دو خواتین کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد ان کمروں میں داخل ہو کر فائرنگ کی جہاں لوگ امریکی شہریت کا تحریری امتحان دینے میں مصروف تھے۔ پولیس کے مطابق عمارت میں موجود چھبیس افراد گولیوں کی آواز سن کر تہہ خانے میں چھپ گئے جبکہ دیگر چالیس لوگ عمارت سے باہر نکلنے میں کامیاب رہے لیکن ان میں سے چار شدید زخمی تھے۔ایک عینی شاہد کے مطابق اس نے پندرہ افراد کو عمارت سے اپنے ہاتھ سروں پر رکھے باہر نکلتے دیکھا۔' پولیس اہلکاروں نے انہیں ایمبولنسوں تک پہنچایا جو انہیں جائے وقوعہ سے لے گئیں‘۔
ایک مقامی ہسپتال کی ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہسپتال میں تیس کے قریب افراد کو لایا گیا ہے جن میں سے کچھ کوگہرے زخم آئے تھے۔ریاست نیویارک کے گورنر پیٹرسن نے اس واقعے کو ’انتہائی خوفناک واقعہ‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست نیویارک میں معصوم شہریوں پر اس قسم کی فائرنگ کی نہ تو کوئی وجہ ہو سکتی ہے اور نہ بہانہ‘۔یہ نیویارک کے لیے ایک المناک دن ہے‘۔
امریکہ میں حالیہ ماہ میں مسلح افراد کی جانب سے عام شہریوں پر فائرنگ کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ گزشتہ ماہ ہی امریکی ریاست الباما میں ایک مسلح شخص نے گیارہ افراد کو گولی مار دی تھی جبکہ گزشتہ برس کے آخری دنوں میں ریاست کیلیفورنیا میں کرسمس سے ایک دن قبل سانتا کلاز کے لباس پہنے ایک شخص نے نو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
Thanker from bbc

لیزر سے دماغ کے کینسر کا علاج

Posted by Anonymous on 9:26 PM
کینسر دنیا بھر کی مہلک ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔ عالمی ادارہٴ صحت کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق 2004ءمیں 70 لاکھ سے زیادہ افراد کینسر کی کچھ مخصوص اقسام کے باعث ہلاک ہوئے۔دماغ میں کینسر زدہ رسولیوں کی سرجری اکثر اوقات سب سے مشکل ہوتی ہے تاہم اس سلسلے میں ایک نیا طریقہ علاج دریافت کرلیا گیا ہے جس میں لیزر ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے۔

اوہائیو میں کلیولینڈ کلینک کے سرجن لیزر کے ایک مخصوص طریقے سے اپنی ایک مریضہ کے دماغ کی رسولی کا علاج کررہے ہیں۔ ڈاکٹر جین بارنٹ کلیولینڈ کلینک سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقہٴ علاج میں ہم عام دماغ کو محفوظ رکھنے اور رسولی سے متاثرہ حصے کے علاج کے لیے لیزر شعاعوں کا استعمال کرتے ہیں۔

سرجری کے اس طریقے میں سرجن ایم آر آئی سکینر کی مدد سے دماغ کے متاثرہ حصے کا علاج لیزر سے کرتے ہیں۔ایم آرآئی تصویروں کی مدد سے ڈاکٹر لیزر کی شعاعوں سے رسولی کو ہدف بناتے ہیں اور اسے تباہ کر دیتے ہیں۔

ڈاکٹر سٹیون جونز بھی کلیولینڈ کلینک سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ہم مریض کے دماغ کی سیکنگ کرتےہوئے رسولی میں درجہٴ حرارت میں اضافے کی سیکنڈوں کے حساب سے نگرانی کرسکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہم رسولی کو ختم کررہے ہیں۔

ڈاکٹر بارنٹ کا کہنا ہے کہ سرجری کے دوران جب ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ لیزر کی حرارت سے دماغ کے صحت مند خلیے متاثر ہونا شروع ہورہے ہیں تو ہم لیزر بند کردیتے ہیں۔

یہ طریقہٴ علاج ابھی تجرباتی مراحل میں ہے تاہم مریضوں کےایک چھوٹے گروپ پر یہ کارگر ثابت ہوا ہے۔ اگر اس طریقہٴ علاج کی حکومت کی طرف سے منظوری مل گئی تو ڈاکٹروں کو توقع ہے کہ دماغ کی کینسرزدہ رسولیوں کا علاج کرسکیں گے جن کو اس وقت سرجری کے ذریعے نکالنا بہت مشکل ہے۔

عورتیں مردوں سے تین گنا زیادہ بولتی ہیں: نئی تحقیق

Posted by Anonymous on 9:19 PM
آپ نے شاید یہ لطیفہ سن رکھا ہوکہ جھوٹ بولنے کا مقابلہ ایک ایسے شخص نے جیتا جس نے کہا تھا کہ میں نے ایک جگہ دوعورتوں کو چپ بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس لطیفے سے ظاہر ہے کہ خواتین کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ باتونی ہوتی ہیں۔ اگرچہ ایسے مردوں کی بھی کمی نہیں ہے جو دوسروں کو بولنے کاموقع ہی نہیں دیتے اور ایسی خواتین بھی اکثر مل جاتی ہیں جو بہت ہی کم بولتی ہیں۔ تاہم اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بولنے میں خواتین کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اوسطاً مردوں کی نسبت تین گنا زیادہ زیادہ بولتی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کتاب ایک خاتون نے لکھی ہے جو ماہرنفسیات بھی ہیں۔ڈاکٹر لویان بریزن ڈین نے اپنی کتاب ’فی میل برین
Dr. Louann Brizendine‘ میں لکھا ہے کہ ایک عام عورت پورے دن اوسطاً 20 ہزار الفاظ بولتی ہے جوکہ ایک عام مرد سے اوسطاً 13 ہزار الفاظ یعنی تین گنا زیادہ ہیں۔ڈاکٹر بریزن ڈین کہتی ہیں کہ عورتوں کے زیادہ باتونی ہونے کی کئی وجوہات ہیں،اول یہ کہ وہ مردوں کی نسبت زیادہ تیز بولتی ہیں۔دوسرا یہ کہ گفتگو میں ان کا دماغ زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے اور بولتےوقت مردوں کےمقابلے میں ان کے دماغ کے زیادہ خلیے کام کرتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ خواتین بولتے ہوئے خود کو اچھا محسوس کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے زیادہ بولنے کی ایک اہم وجہ ان کے دماغ کی ساخت ہے۔ قدرتی طورپر عورت اور مرد کے دماغ میں فرق ہوتا ہے اور عورت کے دماغ کے وہ حصے جن کا تعلق بولنے سے ہے، زیادہ فعال ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ باتیں کرتی ہیں۔ڈاکٹر بریزن ڈین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ خواتین کے زیادہ بولنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ بولنے کے دوران ان کے دماغ کے مخصوص حصوں میں بڑی تیزی سے کیمیائی تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ تبدیلیاں ان تبدیلیوں سے مشابہت رکھتی ہیں جو ہیروئن کے عادی ایک شخص کے دماغ میں اس وقت آتی ہیں جب اس پر گہرا نشہ طاری ہوتا ہے۔ڈاکٹر بریزن ڈین کا کہنا ہے کہ زیادہ بولنے کا تعلق ان ہارمونز سے ہے جو جنس کا تعین کرتے ہیں اور جذبات اور یاداشت سے بھی متعلق ہوتے ہیں۔ یہ ہارمون پیدائش سے پہلے ہی جسم میں بن جاتے ہیں۔ چنانچہ لڑکے اور مرد، لڑکیوں اور عورتوں کی نسبت کم بولتے ہیں اور وہ اس طرح اپنے جذبات اظہار بھی نہیں کرپاتے جس طرح عورتیں کرسکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ لفظوں کے ذریعے جذبات کے اظہار میں عورت کا دماغ آٹھ رویہ شاہراہ کی مانند ہوتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں مرد کا دماغ دیہی علاقوں کی چھوٹی سی سڑک کی طرح ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں لڑکے اورمرد صنف مخالف کی نسبت کم گفتگو کرتے ہیں۔
The Female Brainکتاب کی منصفہ ڈاکٹر بریزن ڈین کہتی ہیں کہ اس مخصوص ہارمون کی وجہ سے دماغ کا وہ حصہ بھی متاثر ہوتا ہے جس کا تعلق سننے سے ہے۔اس بنا پر مردوں کی قوت سماعت میں ایک خاص نوعیت کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اکثر بیویاں عام طورپر یہ شکایت کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ ان کا خاوند یا تو ان کی بات پر دھیان نہیں دیتا یا اسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیتا ہے جیسے کہ وہ بہراہو۔ مصنفہ کہتی ہیں کہ مرد اکثر اوقات جان بوجھ کر ایسا نہیں کررہے ہوتے۔ اس کی وجہ ان کی دماغ کی وہ قدرتی ساخت ہے جس کا تعلق سننے کی صلاحیت سے ہے۔ ڈاکٹر بریزن ڈین کی یہ کتاب ایک ہزار سےزیادہ ان مریضوں کے مطالعے اور تحقیق پر مبنی ہے جو ان کے کلینک میں آئے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ میری نظر سے ابھی تک کوئی ایسا شخص نہیں گذرا جس کے دماغ میں عورتوں اور مردوں دونوں کی خصوصیات موجود ہوں۔وہ کہتی ہیں کہ دماغ یا تو صرف مرد ہوتا ہے یا پھر صرف عورت۔مرد اور عورت دونوں دنیا کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔باتونی ہونے کے ساتھ ساتھ عورت میں قدرتی طورپر یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنے گردو پیش کی تبدیلیوں کا ادراک کرکے اپنی زندگی کے بارے میں بہتر فیصلے کرسکے۔تاہم کئی دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہرچند کہ وہ مخصوص ہارمون جس کا ذکر ڈاکٹر بریزن ڈین نے اپنی تحقیق میں کیا ہے مرد اور عورت کی شخصیت میں فرق قائم کرنے میں کردار ادا کرتا ہے لیکن اس سلسلے میں معاشرتی عوامل اور ماحول بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔آکسفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈیبرا کیمرن کہتی ہیں کہ ہماری گفتگو میں روانی اور تیزی کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ ہم کس سے بات کررہے ہیں اور ہم کیا کہنے جارہے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ اس بارے میں بہت سے تحقیقی مطالعوں کو سامنے رکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ بولنے کے حوالے سے عورتوں اور مردوں کے درمیان زیادہ فرق نہیں ہے۔
Thanker for voa

سائبر کرائمز کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ

Posted by Anonymous on 4:20 PM

مشہور سائنسی رسالے سائنٹفک امریکن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انٹرنیٹ کرائمز کمپلینٹ سینٹر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2008ء میں سائبر کرائمز کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔انٹرنیٹ کرائمز کمپلینٹ سینٹر ، ایف بی آئی اور نیشنل وائٹ کالر کرائمز سینٹر کے تعاون سے کام کرنے والا ایک ادارہ ہے جس کی مالی معاونت کانگریس کرتی ہے ۔ یہ غیر فلاحی ادارہ قانون نافذ کرنے والوں کو مالیاتی اور سائبرکرائمز کی تفتیش کے طریقوں کے بارے میں تربیت فراہم کرتا ہے۔ادارے کا کہنا ہے کہ 2008ءمیں اسے سائبر فراڈ، کمپیوٹر ہیکس، چائلڈ فونو گرافی اور دوسرے آن لائن جرائم کے بارے میں 275284 شکایات موصول ہوئیں جو 2007ءکی نسبت 33 فی صد زیادہ تھیں، جب ادارے نے 206884 شکایات ریکارڈ کی تھیں۔ ادارے کا کہناہےکہ ان جرائم سے لوگوں کو لگ بھگ 26 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جو 2007ءکے مقابلے میں دس فی صد زیادہ تھا۔گذشتہ سال ادارے کو جوکل شکایات موصول ہوئیں ان میں سے 33 فی صد کا تعلق آن لائن خرید و فروخت سے تھا۔ جن میں یا تو چیزیں خریداروں تک نہ پہنچ سکیں یا ان کی قیمت کی ادائیگیاں نہ ہوسکیں۔ یہ شرح 2007ءکے مقابلے میں 32 فی صد زیادہ تھی۔ آن لائن نیلامی کے فراڈ کے واقعات 25 فی صدرہے جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں معمولی کم تھے۔ کمپیوٹر فراڈ، اور چیک فراڈ کی شکایات کل تعداد کا ساڑھے 19 فی صد تھیں۔مجموعی طورپر ان جرائم کا ہدف بننے والے افراد کو اوسط 931 ڈالر فی کس کا نقصان اٹھانا پڑا۔ادارےکے مطابق حکام سے رابطہ کرنے والوں میں سے لگ بھگ 74 فی صد نے کہا کہ انہوں نے اس فراڈ کے بارے میں شکایات ای میل کے ذریعے درج کرائیں۔جب کہ دلچسپی کا پہلو یہ ہے کہ گذشتہ سال جعلی ای میلز کے سب سے بڑے فراڈ میں ایف بی آئی کے نام سے بھیجی جانے والی جعلی ای میلز کی ایک خاصی بڑی تعداد بھی شامل تھی جن میں لوگوں سےان کی ذاتی معلومات، مثلاً بینک اکاؤنٹ نمبر اس جھوٹے دعوے کے ساتھ مانگے جاتےتھے کہ ادارے کو ایک بڑے مالیاتی فراڈ کی تحقیق کے لیے ان نمبروں کی ضرورت ہے۔کچھ جعلی ای میلز میں تو یہ دعویٰ تک کیا گیا کہ وہ ایف بی اے کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر، ڈپٹی ڈائریکٹر جان ایس اسٹول یا بیور کے کسی اعلیٰ عہدے دار یا تفتیشی یونٹ سے براہ راست بھیجی جارہی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایف بی آئی کی طرف سے نجی مالیاتی امورکے بارے میں امریکی شہریوں سے امی میل کے ذریعے رابطہ نہیں کیا جاتا۔2008ءمیں ایک اور سب سے عام سائبر کرائم میں وہ ہیکرز شامل تھے جنہوں نے لوگوں کے ذاتی ای میل اکاونٹس میں نقب لگائی ۔یہ جرم اس طریقے سے کیا گیا کہ کسی شخص کا ای میل اکاؤنٹ ہیک کرکے اس میں موجود دوسرے لوگوں کے ای میل پتوں پر ، متعلقہ شخص کی جانب سے کسی خاص اکاؤنٹ نمبر میں رقم منتقل کرنے کے لیے کہا گیا۔مثلاً یہ کہہ کر میں اس وقت کسی دوسرے ملک میں پھنس گیا ہوں جہاں مبینہ طورپر مجھے لوٹ لیا گیا ہے اور مجھے ہوٹل کے بلوں اور سفر کے اخراجات کے لیے اس وقت ایک ہزار ڈالر کی اشد ضرورت ہے۔
I thanker from voa