’ذمہ دار فوجی اہلکاروں کو سزا دی جائے

Posted by Anonymous on 8:51 PM






’میرا بھائی فوجیوں اور طالبان دونوں سے ڈرتا تھا اور مارے جانے سے چند دن پہلے ہی ساڑھے تین ماہ کے بعد پشاور میں پناہ گزین کی حیثیت سے رہنے کے بعد واپس سوات آیا تھا۔ سوات میں امن کی خاطر میرے بھائی کی المناک موت اگر کام آجائے تو کسی حد تک ہم مطمئن ہو جائیں گے۔ ہمارا فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے مطالبہ ہے کہ میرے بھائی کو گھر کے باہر مارنے والے فوجیوں کو سزا دی جائے۔‘

یہ الفاظ مینگورہ کے علاقے رنگ محلہ میں کپڑے کا کاروبار کرنے والے رفیع اللہ کے بہنوئی فیاض خان کے تھے۔ رفیع اللہ کے ہی چھوٹے سے مکان کے ایک کمرے میں اس موقع پر مرحوم کے پانچ کم عمر بچے بھی موجود تھے۔

فیاض کے بھائی نے درد بھری آواز میں کہا کہ ان کے بھائی اگست کی ایک شام کپڑے کی دوکان بند کر کے گھر آ رہے تھے کہ سکیورٹی فورسز نے ان کو روک کر ان کی تلاشی لی اور بعد میں انہیں جانے کی اجازت دی۔ جونہی وہ روانہ ہوئے اور مڑ کر دیکھا تو ان پر ایک فوجی نے فائرنگ کر دی۔ ’چھ گولیاں ماریں انہوں نے اور اس نے وہیں گھر سے چند قدم کے فاصلے پر جان دے دی۔ چاہیے تھا کہ کوئی تنبیہ دیتا یا ہوائی فائر کرتا۔‘

فیاض نے، جو اس واقعے کے عینی شاہد تھے، گھر جانے والی تنگ سی گلی میں وہ مقام دکھایا جہاں گولیاں چلائی گئیں۔ انہوں نے ایک مکان کی دیوار پر گولیوں کے نشانات بھی دکھائے۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کے وقت سکیورٹی فورسز قریبی علاقوں میں تلاشی لے رہے تھے اور علاقے میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ لیکن ان کے بقول ان تنگ اور پیچیدہ گلیوں میں عموماً لوگوں کو آمدو رفت کی اجازت ہوتی تھی اور سکیورٹی فورسز نرمی کا مظاہرہ کرتے تھے۔
فیاض نے، جو اس واقعے کے عینی شاہد تھے، گھر جانے والی تنگ سی گلی میں وہ مقام دکھایا جہاں گولیاں چلائی گئیں۔ انہوں نے ایک مکان کی دیوار پر گولیوں کے نشانات بھی دکھائے۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کے وقت سکیورٹی فورسز قریبی علاقوں میں تلاشی لے رہے تھے اور علاقے میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ لیکن ان کے بقول ان تنگ اور پیچیدہ گلیوں میں عموماً لوگوں کو آمدو رفت کی اجازت ہوتی تھی اور سکیورٹی فورسز نرمی کا مظاہرہ کرتے تھے۔

رفیع اللہ کے چھوٹے بھائی فرمان علی نے بتایا کہ انہوں نے حکومت کو اس بابت ایک درخواست بھی دی تھی لیکن اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ ’ایک وکیل سے مشورہ کیا تو اس نے بتایا کہ ہم فوج کے خلاف رپورٹ نہیں کٹوا سکتے۔‘


مقتول رفیع اللہ کے پانچ بچے ہیں جن کا کوئی سہارا نہیں
’میرے بھائی کا تعلق طالبان یا کسی اور عسکریت پسند گروپ سے نہیں تھا اور علاقے کے لوگ بھی اس کے گواہ ہیں۔ وہ کئی سالوں سے رنگ محلہ میں کپڑے کی دوکان چلا رہے تھے۔ ان کی موت کے بعد گھر میں اور کوئی کاروبار چلانے کے لیے موجود نہیں۔ دیگر بھائی اپنا اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کے بیوی بچوں کا اب کیا ہوگا۔ فوجی بعد میں معاوضہ تو درکنار پوچھنے بھی نہیں آئے۔‘

فیاض کا کہنا تھا کہ وہ بے بس ہیں اور صرف فوج کے سربراہ سے اپیل ہی کرسکتے ہیں کہ ان کے بھائی کی موت کی تحقیقات کر کے ذمہ دار فوجی اہلکاروں کو سزا دی جائے۔‘

سوات میں ایک بےگناہ اور پرامن شہری کے قتل کا پہلا واقعہ نہیں۔ مقامی طالبان پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں عام شہریوں کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر قتل کیا لیکن متاثرہ خاندان خوف اور غم کو دوبارہ تازہ نہ کرنے کی وجہ سے خاموش ہیں۔ آپریشن کے دوران فوج اور طالبان اپنے اپنے جانی نقصانات کا تو بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن کسی نے بھی تشدد کے واقعات میں مارے جانے والے عام اور بے گناہ افراد کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی ہے۔

وہ بے بس ہیں اور صرف فوج کے سربراہ سے اپیل ہی کرسکتے ہیں کہ ان کے بھائی کی موت کی تحقیقات کر کے ذمہ دار فوجی اہلکاروں کو سزا دی جائے

فیاض
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ سوات آپریشن میں عام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور کوشش کی گئی ہے۔

سرحد حکومت نے آپریشن کے دوران مارے جانے والے بے گناہ افراد کی تعداد اور ان کے لواحقین کی امداد کے لیے کسی پالیسی کا علان ابھی تک نہیں کیا ہے محض چند افراد کو چیک دیے گئے ہیں لیکن ان کی تعداد بھی بہت تھوڑی ہے۔ متاثرہ افراد کو شکایت ہے کہ صدر، وزیر اعظم اور سرحد کے وزیر اعلیٰ کے اعلانات صرف بیانات تک ہی محدود ہیں۔

پاکستان فوجی کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کا اس واقعے کے بارے میں کہنا تھا کہ سوات کے مختلف علاقوں میں کارروائی جاری ہے۔ ’مجھے نہیں معلوم یہ کب کا واقع ہے۔ میں وہاں کے متعلقہ کمانڈر سے تفصیل طلب کروں گا کہ کیا حقیقت ہے۔ یہ بڑی تحقیقات والا واقعہ ہے۔ جب تک اپنے ذرائع سے معلوم نہ کر لوں میں اس پر بات نہیں کر سکتا۔‘

Pak Vs Australia Test Series 2009-10 Score Card=Courteous By BBC

Posted by Anonymous on 3:21 PM
One Time First dy of the Fist test Simen cattage and Sh Watson Stands together in the creas. Then have First Success for pakistan Run Out to Watson. See the Photo.




Score Card of The First Test Between Pakistan An Australia

Score Card
2nd Test Match Between Pakistan and Australia.
Description; Pakistan first go to bowling. and aus all out on 127 runs. then pakistan scored 14 runs in the first daywithout the loss of any wicket. Muhammad sami whose come back in international cricket after two years , he got first 3 wicket of australia. and then Muhammad Asif got next 6 wicket of the australian first innegaz , Umer Gul Get Last wicket of ths Australia.. I will Hope that pakistan would be better in the Ground in the captaincy of Muhammad Yousaf. who Admit the Islam Before 4 years.
Very sad Day In the History of Pakistan cricket. To Day Pakistan cricket team Have failed to chase the 176 runs. Umer Akmal is top scorer of pakistan.
Score Card of 3rd Test Match Between Pakistan and Australia.
This Match will not be decider of the series , because already decide.Australia have won First Two Matches. That Unimportant Match will be Played 14 January 2010 to 18 January 2010. pakistan try to play the kamran akmal in the next match and coach try to play sarfraz ahmed.

ناک اور کان کاٹنے کا حکم=’سزا غیر آئینی اور غیر انسانی ہے

Posted by Anonymous on 6:15 PM


لاہور میں انسدا د دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ایک خاتون کی ناک اور کان کاٹنے کا جرم ثابت ہونے پر دو بھائیوں کو بھی یہی سزا سناتے ہوئے ان کی ناک اور کان کاٹنے کا حکم دیا ہے ۔ اس کے علاوہ دونوں کو عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔

ایک سرکاری وکیل نے میڈیا کو بتایا ہے کہ جج نے یہ سزا اسلامی قانون قصاص ودیت کے تحت سنائی ہے ۔ وکیل کے مطابق مجر م شیر محمد اور امانت علی میں سے ایک بھائی اپنی رشتہ دار 22 سالہ فضیلت بی بی سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن خاتون کے والد کی طرف سے انکار کرنے پر ستمبر میں دونوں بھائیوں نے اسے پستول دکھا کر اغوا ء کر لیا اور دوران قید چھری سے اس کی ناک اور کان کاٹ ڈالے۔

وکیل احتشام قادر نے بتایا کہ لڑکی کی ماں بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر دل کادورہ پڑنے سے انتقال کر گئی تھی۔

خیال رہے کہ پاکستان میں قصاص و دیت کا قانون فوجی آمرجنرل ضیاء الحق نے ملک کی مذہبی جماعتوں کی خوشنودی کے لیے نافذکیاتھا ۔ اس قانون کے تحت جیسا جرم کیا جائے مجرم کو ویسی ہی سزا دی جاتی ہے یعنی آنکھ کے بدلے آنکھ اور خون کے بدلے خون کی سزا ہوسکتی ہے بشرطیکہ متاثرہ شخص جرم کا ارتکاب کرنے والے کو معاف نہ کردے۔ تاہم پاکستان میں ایسی سزائیں کم سنائیں جاتی ہیں اور اگر کوئی عدالت اسلامی قوانین کے تحت ایسی سزا سنا بھی دے تو اعلیٰ عدالتوں میں ان کے خلاف اپیلوں سے یہ ختم ہو جاتی ہیں۔
Courteous By VOA

Second Part of dicion. Followed Courteous By BBC
انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستانی عدالت کی طرف سے ایک مقدمے میں دو افراد کے کان اور ناک کاٹنے کا حکم دینے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب اس عدالتی فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا تو عدالت اسے کالعدم قرار دے دی گی۔

لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے شادی سے انکار پر لڑکی کے کان اور ناک کاٹنے والے کلِک دو ملزموں کے ناک اور کان کاٹنے کا حکم دیا ہے ۔عدالت نے بائیس سالہ فضلیت بی بی کے ناک اور کان کاٹنے پر دو بھائیوں شیر محمد اور امانت علی کو عمر قید اور جرمانے کی سزائیں بھی سنائی ۔

شیر محمد اور امانت علی پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے اس سال اٹھائیس ستمبر بائیس سالہ فضلیت کو اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ لاہور کے نواحی علاقے رائے ونڈ میں ایک بھٹہ پر کام کرنے کے بعد واپس اپنے گھر جا رہی تھی۔استغاثہ کے مطابق شیر محمد نے فضلت بی بی سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن لڑکی والد کی طرف سے انکار پر ملزموں نے لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنایااور اس کا ناک اور کان کاٹ دیا۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے شریک چیئرمین سید اقبال حیدر نے عدالت کی طرف سے ناک اور کان کاٹنے کی سزا غیر آئینی اور غیر انسانی قرار دیا ۔

ماتحت عدالت نے جو سزا دی ہے اس سے عدلیہ کو ٹھیس لگے گی اور اس کا وقار مجروح ہوگا۔ یہ فیصلہ از خود انسانی حقوق کی خلاف وزری کرتا ہے جن کے تحفظ کی ملکی آئین ضمانت دیتا ہے

سید اقبال حیدر
بی بی سی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماتحت عدالت نے جو سزا دی ہے اس سے عدلیہ کو ٹھیس لگے گی اور اس کا وقار مجروح ہوگا۔انہوں نے فیصلے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ از خود انسانی حقوق کی خلاف وزری کرتا ہے جن کے تحفظ کی ملکی آئین ضمانت دیتا ہے۔ سید حیدر اقبال نے کہا کہ انہیں یہ یقین کامل ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دی گی کیونکہ پہلے اس قسم کے فیصلوں کو اعلیٰ عدلیہ نے کالعدم قرار دے چکی ہے ۔

سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ کے روبرو اپیل دائر کی جاسکتی ہے اور اس اپیل کے ذریعے عدالت کی طرف سے دی جانے والی سزا کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ فیصلہ اعلیٰ عدالت کے سامنے آئے گا تو اس وقت عدالت یہ دیکھے گی کہ گواہی کا معیار کیا ہے ۔ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ ہائی کورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے اور بقول ان کے پاکستان میں کبھی ایسی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا جس میں جسم کے کسی حصہ کو کاٹنے کا حکم دیا گیا ہو۔

جب یہ فیصلہ اعلیٰ عدالت کے سامنے آئے گا تو اس وقت عدالت یہ دیکھے گی کہ گواہی کا معیار کیا ہے ۔ ہائی کورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے اور اکستان میں کبھی ایسی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا جس میں جسم کے کسی حصہ کو کاٹنے کا حکم دیا گیا ہو

ڈاکٹر خالد رانجھا
پنجاب کے سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل اختر علی قریشی کا کہنا ہے کہ جب ماتحت عدالت کوئی فیصلہ دیتی ہے تو اس فیصلے کے خلاف اپیل اور ریفرنس بھی دائر کیے جاتے ہیں اور عدالت ان پر سماعت کرنے کے بعد فیصلہ دیتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے بھی ماتحت عدلیہ نے جسمانی اعضاء کاٹنے کے احکامات دیے تھے لیکن اعلیٰ عدلیہ نے ان فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قصاص کے تحت جسم کے حصہ کو کاٹنے کی سزا دی جاتی ہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ گواہی کے معیار کو پرکھنے کے بعد ان سزاؤں پر عمل درآمد روک دیتی ہے۔

مقدمے میں سرکاری وکیل احتشام قادر کا کہنا ہے کہ عدالت نے دونوں ملزموں کو اسلام کے اس اصول کے تحت سزا دی ہے جس کے تحت آنکھ کا بدلہ آنکھ اور دانت کےبدلے دانت ہے اور بقول ان کے پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی عدالت نے اس قسم کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کے بقول فیصلے میں جہاں قصاص کے تحت کان اور ناک کاٹنے کی سزا دی گئی ہے وہاں تعزیر میں ملزموں کو اسی جرم میں قید کی سزا بھی سنائی گئی ہے اور قصاص کے تحت دی جانے والی سزا پر عمل درآمد نہ ہونے پر انہیں سزا بھگتنا ہوگی۔

فائر فوکس:موبائل ورژن کا افتتاح عنقریبNew Version Of Mobile Firefox

Posted by Anonymous on 5:53 PM
فائر فوکس براؤزر کے موبائل ورژن کے منصوبے کے سربراہ نے کہاہے کہ موبائل ورژن کا عنقریب افتتاح کر دیا جائے گا۔

موزیلا کے جئے سولیوان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فائر فوکس کے موبائل ورژن کا نام فینک رکھا گیا ہے اور ابتدائی طور پر یہ نوکیا موبائل فون کے ماڈل این نو سو پر دستیاب ہو گا۔

موزیلا کے جئے سولیوان نے کہا کہ موبائل ورژن حتمی ٹیسٹنگ کے مراحل میں ہے اور اسے رواں سال کے آخر میں ریلیز کر دیا جائے گا۔ فائر فوکس کا نیا اوپن سورس ورژن ڈیسک ٹاپ پر دستیاب براؤزر کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

اس سافٹ ویئر کی وجہ سے یہ ممکن ہو گا کہ صارف کے ڈیسک ٹاپ پر جو بھی ویب پیج کھلتا ہے وہ خودکار طریقے سے موبائل ورژن پر بھی دستیاب ہو گا۔جئے کے مطابق کام ختم کرنے کے بعد جب آپ اپنے کمپیوٹر سے اٹھ جائیں گے تو پھر موبائل فون کے ذریعے تمام کام ممکن ہو سکیں گے۔

فائر فوکس کا موبائل ورژن موزیلا کی ویب سائٹ پر دستیاب ہو گا اور وہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتے گا اس کے علاوہ نوکیا کے سٹوز پر دستیاب ہو گا جہاں سے نوکیا نو سو کے صارفین اس کو ڈاون لوڈ کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ ادارہ مائیکرو سافٹ ونڈوز موبائل اور گوگل اینڈویڈ آپریٹنگ سسٹم پر کام کر رہی ہے۔

فائر فوکس کے موبائل ورژن منصوبے کے سربراہ کے مطابق موبائل سافٹ ویر کچھ عرصے کے بعد ایپل کے آئی فون پر دستیاب ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ ایپل ان معاملات سے دور رہتا ہے اور اس لیے ایسا جلد ممکن نہیں ہو گا۔

Challange of Zardari.By Wusatullah Khan . Courteous by bbc

Posted by Anonymous on 2:36 PM
ہمیں انیس سو اٹھاسی سے اب تک بتایا جا رہا ہے کہ مرحومہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری اور ان کے حوالی موالی اس ملک کا سب سے کرپٹ سیاسی ٹولہ تھا اور ہے۔

مگر یہ کوئی نہیں بتا رہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساڑھے چار برس چھوڑ کر یہ کرپٹ ٹولہ تیسری بار کیسے اقتدار میں آگیا۔مسٹر ٹین پرسنٹ کس طرح پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے مومنینِ کرام، حاجی صاحبان اور متقی و پرہیزگار ارکان کی اکثریت کے ووٹ سے پاکستان کے صدر بن گئے۔یا تو زرداری کو صدر بنانے والے نیند میں چل رہے تھے یا پھر اتنے بھولے اور معصوم تھے کہ انہوں نے یقین کرلیا کہ جسے وہ صدر منتخب کر رہے ہیں اس کی شکل تو زرداری جیسی ہے لیکن اس مرتبہ اس کے جسم میں ایک معصوم نومولود کی روح حلول کرگئی ہے۔

جس طرح ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔اسی اصول کی بنیاد پر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آدمی اپنے ووٹ سے پہچانا جاتا ہے۔اگر کروڑوں عام اور ان کے منتخب کردہ پارلیمانی زرداریوں نے ووٹ دے کر آصف علی اور ان کی جماعت کو پانچ برس کے لیے اقتدار دے دیا تو اس میں افسوس اور واویلا کاہے کو ؟

کیا آپ نے کبھی کسی ایسے ووٹر کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا قانون بنایا جس پر دودھ میں پانی، پٹرول میں مٹی کا تیل، مرچوں میں سرخ اینٹ کا چورا، چائے میں لکڑی کا برادہ ، منرل واٹر کی بوتل میں نلکے کا پانی ملانے، بلیک مارکیٹنگ کرنے اور دو نمبر دوا، جعلی کھاد، جعلی بیج اور کاغذی سڑک بنانے کا الزام ثابت ہوجائے۔

کیا آپ نے کبھی ایسے شخص کو ووٹ دینے سے انکار کیا جس کی شہرت ہو کہ وہ بینکوں کے قرضے ہڑپ کرگیا ، ٹیکس چوری میں مسلسل مبتلا ہے، جس نے بدمعاشوں، ڈاکووں ، قاتلوں، چوروں اور املاک پر قبضہ کرنے والے پیشہ وروں کا گروہ پال رکھا ہے۔جو عصمت دری کرنے والوں کی ضمانتیں کراتا ہے۔جو جھگڑے کے تصفیے میں نوعمر بچیوں کو بطور ہرجانہ دینے کے فیصلے کرتا ہے۔
کیا آپ نے کبھی ایسے شخص کو ووٹ دینے سے انکار کیا جس کی شہرت ہو کہ وہ بینکوں کے قرضے ہڑپ کرگیا ، ٹیکس چوری میں مسلسل مبتلا ہے، جس نے بدمعاشوں، ڈاکووں ، قاتلوں، چوروں اور املاک پر قبضہ کرنے والے پیشہ وروں کا گروہ پال رکھا ہے۔جو عصمت دری کرنے والوں کی ضمانتیں کراتا ہے۔جو جھگڑے کے تصفیے میں نوعمر بچیوں کو بطور ہرجانہ دینے کے فیصلے کرتا ہے۔

کیا آپ نے کبھی سیاست میں آنے والے کسی ایسے ریٹائرڈ ایماندار بیوروکریٹ، جج یا جرنیل کو قومی و صوبائی اسمبلی کا رکن یا ضلعی ناظم منتخب کرنے کی کوشش کی جس کے پاس ایک سے زائد گھر، گاڑی ، بینک بیلنس ، سینکڑوں ایکڑ مراعاتی زمین ، کھاد یا گیس کا مراعاتی کوٹہ یا کسی غیرملکی بینک میں اکاؤنٹ نہ ہو۔

کیا آپ میں سے کسی نے کبھی یہ مطالبہ کیا کہ ہر حاضر سروس جرنیل، جج، بیوروکریٹ یا سیاستداں، جب بھی اعلیٰ عہدہ یا ترقی پائے تو اپنی منقولہ و غیر منقولہ املاک اور کھاتوں کا گوشوارہ پیش کرے۔اور ان میں سے ہر سال بیس فیصد گوشوارے بذریعہ قرعہ اندازی مکمل چھان بین کے لیے منتخب کیے جائیں تاکہ باقی اسی فیصد اگلے گوشوارے میں غلط بیانی نہ کرسکیں۔

یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ووٹر کے گریبان میں چھپے ہوئے ہیں لیکن اسے بوجوہ نظر نہیں آتے۔مگر ان گذارشات کا یہ مطلب نہیں کہ گند صاف کرنے کا آغاز ہی نہ ہو۔چلئے آپ مشرف، شوکت، شجاعت سے آغاز نہ کرسکے نہ سہی، زرداری گیلانی سے ہی سہی۔لیکن ان ووٹروں کا بھی تو کچھ کیجئے جو موقع پاتے ہی پھر ایسے لوگوں کو کرسی پر بٹھا دیتے ہیں۔

ایک بات بتاؤں !

براعظم وسطیٰ امریکہ کے ملک نکاراگوا میں سموزا خاندان سنہ انیس سو تیس سے انیس سو اناسی تک مسلسل برسرِ اقتدار رہا۔ کسی نے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ حضور نکاراگوا میں جمہوریت کا سورج کب نکلے گا اور وہاں کے لوگوں کو سموزا خاندان کی حرم زدگیوں سے کب چھٹکارا ملےگا۔روزویلٹ نے کہا یہ سچ ہے کہ سموزا حرامزادے ہیں۔لیکن وہ ہمارے حرامزادے ہیں۔۔۔

بقولِ شیخ سعدی اصفہان کے بھیڑئیے سے اصفہان کا کتا ہی نمٹ سکتا ہے۔جب تک اسٹیبلشمنٹ اپنے حرام زادوں کو تحفظ دیتی رہے گی۔عوام اپنے حرامزادے ان کے مقابل لاتے رہیں گے

2 type of Cancer . voa

Posted by Anonymous on 3:32 PM
سائینس دانوں نے پہلی بار دو عام قسم کے کینسروں کے جینز کے مکمل نقشے بنا لیے ہیں۔

برطانوی سائینس دانوں کی قیادت میں ایک بین الاقوامی ٹیم نے جِلد کے سرطان میلانوما اور پھیپھڑوں کے سرطان کے پھوڑوں میں رونما ہونے والی اُن تمام تبدیلیوں کو شناخت کرلیا ہے ،جنہیں مِیو ٹیشن کہا جاتا ہے۔

برطانیہ کے ویلکم ٹرسٹ سَینگر انسٹی ٹیوٹ کے مائیک سٹریٹن نے کہا ہے کہ ان نئے نقشوں سے اُن تمام تغیرات کا پتا چلتا ہےجو ہر کینسر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ رو نما ہوتے ہیں۔

ایک اور محقق اینڈی فُٹ رِئیل کا کہنا ہے کہ آنے والے چند برسوں کے دوران اصل چیلنج، اُن تبدیلیوں کی ٹھیک ٹھیک شناخت کا مسئلہ ہوگا،جو حقیقت میں صحت مند خلیوں کو کینسر کے خلیے بنا دیتی ہیں۔

سائینس دانوں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے مطالعے کے دوران، پھیپھڑے کے کینسر کے خلیوں میں 23 ہزار سے زیادہ میو ٹیشنز یا تبدیلیوں کا پتہ چلا اور میلا نوما کے خلیوں میں 33 ہزار سے زیادہ تبدیلیوں کا پتہ چلا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ اُن تبدیلیوں کو شناخت کرلینے کے نتیجے میں جو کینسر کا سبب بنتی ہیں، مستقبل میں ان بیماریوں کے علاج طریقے یکسر تبدیل ہوجائیں گے۔

ان سائینس دانوں کی ریسرچ رپورٹ جریدے‘ نیچر’ نے شائع کی ہے۔

Irani Syber Group attack on Twiter.

Posted by Anonymous on 3:29 PM

سماجی نیٹ ورکنگ کے لیے مشہور ویب سائٹ ٹوئٹر کو ’ایرانی سائبر آرمی‘ کے نام سے پہچانے جانے والے ایک ہیکر گروپ کی جانب سے ہیکنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اس گروپ نے ٹویٹر کی ویب سائٹ ہیک کر کے اس کے استعمال کرنے والوں کو اپنی سائٹ کی طرف ڈائریکٹ کر دیا جس پر ایک سیاسی پیغام درج تھا۔

ہیک ہونے کے بعد امیجز ظاہر ہونے کے فورا بعد ٹوئٹر غاب ہوجانے لگا اور یہ سلسلہ ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ بعد میں سائٹ معمول کے مطابق چلنے لگی۔

ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ اس کی ویب سائٹ پر یہ حملہ سرور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے کیا گیا ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں تفتیش کریگی آخر ایسا کیسے ہوا ہے۔

سائٹ کے متعلق ٹوئٹر نے ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’بغیر کسی منصوبہ کے ڈاؤن ہونے کے بعد ہم اس کی بازیابی میں لگے ہوئے ہیں اور جب ہمیں اس کی وجوہات کا پتہ چلے گا تو ہم اس بارے میں مزید معلومات دیں گے‘۔

اس سے قبل ٹوئٹر نے کہا تھا کہ ’ ڈومین نیم سسٹم‘ یعنی ڈی این ایس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور وہ اس معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔

ہیک ہونے کے بعد ٹوئٹر کو براؤز کرنے پر ایک دوسری سائٹ کھلنے لگی جس پر لکھا تھا کہ ایران کی سائبر آرمی نے سائٹ ہائیک کرلی ہے۔

اس سائٹ پر ایک ہرے پرچم پر عربی زبان میں امام حسین کا نام لکھا تھا۔ اس پر فارسی میں ایک نظم بھی درج تھی جس کا مطلب تھا کہ ’ہم اپنے رہنما کے حکم پر حملہ کریں گے اور اپنے رہنما کی خواہش پر سر بھی کٹا دیں گے‘۔

اس پر اس طرح کے جملے بھی تحریر تھے کہ’وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں‘۔ سائٹ کھلتے ہی اس پر یہ پیغام ملتا تھا ’یہ سائٹ ایرانی سائبر آرمی نے ہیک کر لی ہے۔ امریکہ سوچتا ہے کہ وہ انٹرنیٹ کو اپنی پہنچ سے کنٹرول کرتا ہے ، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے ہیں۔ ہم اپنی طاقت سے انٹرنیٹ کو کنٹرول اور مینیج کرتے ہیں۔ تو اس لیے ایرانی لوگوں کو اکساؤ مت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘

’تو اب امبارگو کی فہرست میں کونسا ملک ہے؟ امریکہ یا ایران؟ ہم نے انہیں امبارگو میں دھکیل دیا ہے۔ اپنا خیال رکھیے‘۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر پر یہ حملہ ایک طرح کی جوابی کارروائی تھی کیونکہ ایران میں انتخابات کے دوران جو پر تشدد مظاہرے ہوئے تھے اس میں اس سائٹ کا خوب استعمال ہوا تھا۔

عورتوں کی انگلیاں مردوں کے مقابلے میں زیادہ حساس

Posted by Anonymous on 3:27 PM
خواتین کی انگلیاں عام طورپر مردوں سے چھوٹی ہوتی ہیں لیکن اس فرق سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چھوٹی انگلیاں چھونے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں۔

طویل عرصے سےلوگ یہ جانتے ہیں کہ بصارت سے محروم افراد کی انگلیوں میں چھو کر محسوس کرنے کی صلاحیت نمایاں طورپر زیادہ ہوتی ہے۔ کینیڈا کی مک ماسٹر یوینورسٹی کے نیورو سائنس کے ایک ماہر ڈین گولڈ رک نے اس بارے میں مزید جاننے کے لیے نابینا افراد پر تحقیق کی ۔ اس دوران انہیں احساس ہوا کہ عموماً نابینا خواتین کی انگلیوں میں محسوس کرنے کی حس نابینا مردوں کی نسبت زیاد ہ ہوتی ہے۔اور یہ فرق ان عورتوں اور مردوں کے درمیان بھی موجود ہوتا ہے جو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اپنی تحقیق کے ثبوت کے لیے گولڈ رک نے پلاسٹک کا ایک ٹکڑا ، جس کی سطح پر بہت باریک جھریاں ڈالی گئی تھیں، رضاکاروں کو دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تجربے سے ہمیں پتہ چلا کہ مرد وں نے چھوکر جن جھریوں کی نشان دہی کی ، عورتوں نے اس سے تقریباً اعشاریہ دو ملی میٹر زیادہ باریک جھریوں کا بھی اپنی انگلیوں سے چھو کر پتہ چلا لیا۔ یعنی عورتوں میں یہ صلاحیت مردوں کی نسبت اوسطاً دس فی صد زیادہ تھی۔

گولڈ رک عورتوں اور مردوں کی انگلیوں کی حساسیت میں پائے جانے والے فرق کی وجوہات جاننا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے عورتوں اور مردوں کی انگلیوں پر تجربات شروع کیے۔ انہیں معلوم ہوا کہ چھو نے کا احساس انگلیوں کی جلد کے نیچے موجود مخصوص نسوں کے ذریعے دماغ کو منتقل ہوتا ہے۔انگلیوں کی لمبائی چاہے کچھ بھی ہو،ان میں چھو کر محسوس کرنے والے اعصاب کی تعداد تقریباً مساوی ہوتی ہے۔

گولڈ رک کہتے ہیں کہ اگر انگلیاں چھوٹی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ ان میں محسوس کرنے والے اعصاب کی تعداد کم ہے بلکہ ہوتا یہ ہے کہ انگلی چھوٹی ہونے کے باعث یہ اعصاب ایک دوسرے کے زیادہ قریب آجاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ چھو کر زیادہ بہتر اندازہ لگاسکتے ہیں۔جس کی ایک اورمثال یہ ہے کہ ہم کسی چیز کے بارے میں اپنی کلائی کی نسبت ، انگلی سے چھو کر زیادہ بہتر نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔

گولڈ رک کہتے ہیں کہ عورتوں کی انگلیوں میں مردوں کی نسبت چھو کر محسوس کرنے کی صلاحیت اس لیے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ان کی انگلیاں چھوٹی ہوتی ہیں، جبکہ دونوں میں محسوس کرنے والے اعصاب کی تعداد یکساں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ انگلی کے سائز کو اپنے سامنے رکھیں ، تو پھر عورت اور مرد کی کوئی تفریق نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اور مرد کی انگلیوں میں محسوس کرنے والے اعصاب کی تعداد ،قطع نظر انگلی کے سائز اور لمبائی کے، اوسطاً مساوی ہوتی ہے۔

گولڈ رک کا ارادہ اب بچوں کی انگلیوں اور ہاتھوں پر تحقیق کرنے کا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بچوں میں چھو کر محسوس کرنے کی حس بہت زیادہ ہوتی ہے ، جو عمر بڑھنے کے ساتھ ، ہاتھوں اور انگلیوں کے بڑے ہونے کے باعث کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ گولڈ رک کی یہ تحقیق جریدے ’ نیورو سائنس ‘ میں شائع ہوئی

’اگر حمل ٹھہرگیا تو سزا ملے گی‘ i f iraqi Girls pregrant So Will be Punishment to Army.

Posted by Anonymous on 3:18 PM

عراق میں امریکی فوج کے ایک کمانڈر میجر جنرل انتھونی کوکولو نے حاملہ ہونے کو ان جرائم کی فہرست میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے جن پر ممکنہ طور پر قید یا کورٹ مارشل جیسی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

یہ پالیسی گزشتہ ماہ تیار کی گئی تھی اور اس کا اطلاق جمعہ سے ہوا ہے۔

یہ پالیسی ان خواتین فوجیوں اور ان کے شوہروں یا پارٹنرز پر لاگو ہوگی جو شمالی عراق میں تعینات ہیں اور اس کے تحت حاملہ ہونے والی خاتون کے علاوہ اس مرد فوجی کو بھی سزا کا سامنا کرنا ہوگا جو حمل ٹھہرنے کا ذمہ دار ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی فوج نے حاملہ ہونے کو ایک قابلِ سزا جرم قرار دیا ہے۔.امریکی فوج کے ایک ترجمان جارج رائٹ کے مطابق حاملہ فوجی کو پندرہ دن کے اندر اندر واپس وطن بھیج دیا جاتا ہے لیکن انہیں سزا دینے کی پالیسی ساری امریکی فوج پر لاگو نہیں ہوتی۔

تاہم انہوں نے کہا کہ جنرل کوکول جیسے ڈویژن کمانڈر اپنے زیرِ کمان فوجیوں پر اس قسم کی پابندی لگا سکتے ہیں۔ جنرل کوکولو کے زیرِ کمان امریکی فوج کرکوک، تکریت اور موصل میں تعینات ہے۔

پاکستان 223 رن بنا کر آؤٹ Pakistan all Out of 233.

Posted by Anonymous on 11:53 AM
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین نیپیئر میں کھیلے جانے والے تیسرے اور فیصلہ کن کرکٹ ٹیسٹ میچ میں پاکستان اپنی پہلی اننگ میں دو سو تئیس رن بنا کر آؤٹ ہو گئی۔

پاکستان کی پہلی اننگ کی خاص بات اوپنر عمران فرحت کی سحنچری تھی۔ وہ ایک سو سترہ کے سکور پر ناٹ آؤٹ رہے۔ عمران فرحت کے علاوہ کوئی کھلاڑی بھی جم کر نہ کھیل سکا۔

پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کو تیسرے اوور میں اس وقت نقصان اٹھانا پڑا جب اوپنر سلمان بٹ کو سودی نے کلین بولڈ کر دیا۔ سلمان نے آٹھ رن بنائے تھے۔ ان کے آوٹ ہونے کے بعد فیصل اقبال بھی کارکردگی نہ دکھا سکے اور وہ چھ رن پر کیچ آؤٹ ہوئے۔ کپتان محمد یوسف ایک بار پھر فیل ہوئے اور وہ صفر پر آؤٹ ہوئے۔ فیصل اور یوسف کو اور برائن نے آؤٹ کیا۔

کلِک پاکستان نیوزی لینڈ: تیسرے ٹیسٹ کا سکور کارڈ

عمر اکمل جنہوں نے ابھی تک عمدہ بیٹنگ کی اس بار صفر پر آؤٹ ہو گئے اور مصباح بھی صفر پر آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد کامران اکمل بائیس رن بنا کر جبکہ عامر تئیس رن بنا کر آؤٹ ہوئے۔ فاسٹ بولر عمر گل نے چوبیس رن بنائے جبکہ محمد آصف کوئی رن بنائے بغیر آؤٹ ہوئے۔

آئی او برائن اور ٹفی نے چار چار وکٹیں حاصل کیں۔ برائن نے پندرہ اوور میں صرف پینتیس رن دے کر چار وکٹیں حاصل کیں جبکہ ٹفی نے پندرہ عشاریہ تین اوور میں 52 رن دے کر چار وکٹیں حاصل کیں۔

مارٹن اور سودی نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔

پاکستان کی ٹیم میں سلمان بٹ، عمران فرحت، فیصل اقبال، مصباح الحق، محمد یوسف، عمر اکمل، کامران اکمل، عامر، عمر گل، محمد آصف اور دانش کنیریا شامل ہیں۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم میں میکنٹاش، والنگ، گپٹل، فلِن، ٹیلر، وٹوری، میک کلم، سودی، ٹفی، آئی او برائن اور سی مارٹن شامل ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان نے نیوزی لینڈ کو ویلنگٹن میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں 141 رن سے شکست دی تھی۔

تنہائی خواتین میں کینسر کا باعث Cancer will be increase in women because he stayed alone

Posted by Anonymous on 2:27 PM

واشنگٹن: امریکہ میں ایک حالیہ تحقیق کے بعد طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ تنہائی نہ صرف بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔ بلکہ خواتین میں بریسٹ کینسر کو بھی جنم دیتی ہے۔ اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تنہائی اور اکیلے پن کی شکار خواتین میں کینسر کی رسولیاں عام خواتین کی نسبت تین گُنا تیزی سے بنتی اور بڑھتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اپنوں سے دوری نہ صرف پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے بلکہ اس سے قوتِ مدافعت بھی متاثر ہوتی ہے۔

چینی کے مشروبات : حاملہ عورتوں کے لیے نقصان دہ

Posted by Anonymous on 2:20 PM
چینی سے بنے مشروبات دنیا بھر میں مقبول ہیں اور امیر اور غریب ملکوں میں اس کا استعمال بڑھ رہاہے۔ ایک حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ چینی کے مشروبات پینے سے حاملہ خواتین میں ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

امریکہ میں لوگوں کو درکار حراروں کا تقریباً 20 فی صد حصہ مشروبات سے پورا ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کلوریز سوڈا قسم کے چینی کےمشروبات سے حاصل کی جاتی ہیں۔

لوزیانا سٹیٹ یونیورسٹی کی محقق لی وے چن کا کہنا ہے کہ مسائل کی اصل وجہ چینی ہے کیونکہ وہ موٹاپا پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ذیابیطس اور دل کے امراض جیسی مہلک بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ چن کا خیال ہے کہ جو خواتین بڑی مقدار میں چینی کے مشروبات پینے کی عادی ہوتی ہیں، ان میں حمل کے ایام میں ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جس سے نہ صرف ماں بننے والی خواتین کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ وہ بچے کے لیے بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔ اور یہی چیز بچے پیدائش سے قبل اور پیدا ئش کے دوران پیچیدگیاں پیدا ہونے کا سب سے اہم سبب ہے۔

چن نے اس تحقیق میں 13 ہزار سے زیادہ خواتین سے متعلق معلومات کا تجزیہ کیا۔ اس جائزے میں خواتین سے ان کے کھانے پینے سے متعلق سوالات کیے گئے تھے۔ ان کے حاملہ ہونے بعد محققین نے مزید ایک سال تک ان کی صحت کے ریکارڈ پر نظر رکھی۔

چن کہتی ہیں کہ ہمیں معلوم ہوا کہ جو خواتین چینی کے زیادہ مشروبات پینے کی عادی تھیں، ان میں ایام ِحمل میں ان خواتین کی نسبت ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ زیادہ تھا، جو بہت کم مشروبات استعمال کرتی تھیں۔

اس تحقیق میں شامل جن خواتین نے زیادہ مقدار میں مشروبات پیئے، وہ تعداد ایک ہفتے میں پانچ تھی۔ یہ اس مقدار سے کہیں کم ہے جو امریکہ اور کسی دوسرے ملکوں میں عام لوگ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اتنی مقدار میں میٹھے شربت سے، چاہے اس کا استعمال حاملہ ہونے سے پہلے ہی کیا گیا تھا، حمل کے دوران، خواتین اور ان کے پیدا ہونے والے بچے کے لیے خطرات میں اضافہ ہوا۔

چن کہتی ہیں کہ چینی کے مشروبات پینے والی جو خواتین حاملہ ہونے سے قبل صحت مند تھیں، حمل کے دوران ان میں ذیابیطس کی علامتیں ظاہر ہوئیں۔

چن کہتی ہیں کہ آپ کی صحت کو بہت سے عوامل متاثر کرتے ہیں، جیسا کہ ذیابیطس کی طرف خاندانی رجحان کا ہونا۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس ایک ایسی چیزہے جس پر لوگ قابو پاسکتے ہیں۔ غذائی عادات کی تبدیلی خواتین کو حمل کے دوران صحت مند رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔

دنیا میں ایڈز کے سوا تین کروڑ سے زیادہ مریض

Posted by Anonymous on 2:19 PM
ایڈز کی مہلک بیماری کے بارے میں آگاہی عام ہوئے تقریبا تین دہائیاں بیت چکی ہیں، اور اب اس مرض کا شمار اب تک مہلک ترین بیماریوں میں کیا جارہاہے۔ دنیا بھر میں ایڈز کے مریضوں کا تخمینہ تین کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ ہے اور سائنس دان اس مرض پر قابو پانے کے طریقے ڈھونڈنے کی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

1980 ء کے عشرے میں ایڈز کا شمار مہلک ترین بیماریوں میں کیا گیا۔ تب سے لے کر اب تک اس مرض سےدنیا بھر میں25 لاکھ سے زیادہ افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ایڈز کا شکار زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کے افراد بنتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق90 فیصد ایڈز کے مریضوں کا تعلق کم آمدنی والے ممالک سے ہے۔

مگر اس سلسلے میں کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی گئی ہیں۔ گذشتہ دہائی میں ایڈز کے علاج کے اخراجات میں خاصی کمی ہوئی ہے۔ڈاکٹر اینتھونی کہتے ہیں کہ اگر آپ ان لوگوں کی شرح کا جائزہ لیں جنہیں تھیرپی دی گئی تو اب ترقی یافتہ ممالک میں تقریبا چالیس لاکھ لوگ اس تھراپی سے استفادہ کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر اینتھونی الرجی اور سوزش کی بیماریوں سے متعلق امریکہ کے قومی مرکز کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے خلاف کامیابی کے باوجود ڈاکٹر اور سائنسدان کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا بھر سے ایڈز ختم کرنے کے لیے کوئی مؤثر دوا بنائی جا سکے۔ جیسا کہ ایڈز ویکسین۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین ایڈز کے خاتمے کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ ڈاکٹر اینتھونی کہتے ہیں کہ اس ویکسین سے ہم ایڈز سے بچاؤکےحوالے سےٹھوس کام کر سکتے ہیں۔

سائنسدان مائیکرو باڈیز پر بھی کام کر رہے ہیں جو کہ ایسی کریم یا جیلز ہوتی ہیں جنہیں لگا کر ایچ آئی وی سے بچاجا سکتا ہے۔ مگر ایڈز سے بچاؤ کے لیے کسی تیاری کے عمل میں عالمی کساد بازاری کے باعث فنڈز ہونے سے مشکلات پیش آرہی ہیں۔

ہیچٹ کا کہنا ہے کہ جو ممالک بھی ایڈز سے متاثرہ ہیں انہیں اس حوالے سے اپنے انشورنس کے منصوبے ترتیب دینے چاہیں۔ یہ ایک مہلک مرض ہے جس کی روک تھام پر آئندہ چند دہائیوں میں پیش رفت ممکن ہے۔

Waqar Younis appointed as bowling and fielding coach

Posted by Anonymous on 2:13 PM

Media Release - 9 December 2009

PCB announces the appointment of Mr. Waqar Younis as bowling and fielding coach for the upcoming Pakistan-Australia Test and ODI Series 2009-10.

Media Department

Pakistan Cricket Team in Australia 2009/10

Posted by Anonymous on 2:04 PM

The Selection Committee of PCB met in Lahore today and finalized the Pakistan team for the upcoming Test Match Series in Australia. The following will be the players who will tour Australia for the Test matches:

1. Salman Butt
2. Khurrum Manzoor
3. Imran Farhat
4. Mohammad Yousuf - (Captain)
5. Misbah-ul-Haq
6. Shoaib Malik
7. Fawad Alam
8. Faisal Iqbal
9. Kamran Akmal - (Vice Captain)
10. Danish Kaneria
11. Saeed Ajmal
12. Umar Gul
13. Mohammad Asif
14. Mohammad Aamer
15. Abdur Rauf
16. Umar Akmal


Mohammad Yousuf has been appointed to continue as Captain of the Team for Tests and ODI series in Australia whereas Kamran Akmal would be his deputy for the Test matches. Shahid Afridi will be the Captain for T20 and would also be the Vice Captain for ODI matches on the Australia series.

Media Department
Courteous by Pakistan Cricket Board.

Terrorist Attack on (ISI) office in Multan .ملتان میں آئ ایس آئ پر حملہ

Posted by Anonymous on 7:20 PM










ملتان میں آئ ایس آئ کے دفتر پر حملہ اور اسکی تصاویر۔ ۔۔ بعض لوگ جو آئ ایس آئ پر الزام لگاتے ھیں کہ وہ دہشتگردوں کی مدد




کرتی ھے وہ اب سب جھوٹ ثابت ہو چکا ھے۔












۔

Juroselm Falisten sy Sahafi Shazeb Jelani. by bbc

Posted by Anonymous on 2:20 PM
watch this video plz. and leave you comments on end the post.

http://www.hafeez.tk/ http://www.skpsoft.tk/

معذور افراد کا عالمی دن World Day of Special persons

Posted by Anonymous on 11:52 AM
پاکستان سمیت دنیا بھر میں معذور افراد کا عالمی دن جمعرات کے روز منایا گیا جس کامقصد ان کے حقوق اور سماجی و اقتصادی شعبوں میں انہیں جائز مقام دلانے سے متعلق آگاہی کو فروغ دینا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی میں تقریباً دس فیصدلوگ مختلف نوعیت کی معذوری کا شکار ہیں۔

ان افراد کا کہنا ہے کہ انہیں معاشرے یا حکومت سے ہمدردی نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کا اعتراف چاہیے جنہیں بروئے کار لا کر یہ ایک کارآبد شہری بن سکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے معذور آبادی کے لیے نوکریوں میں اگرچہ دو فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں معاشرتی ناہمواریوں کا سامنا ہے۔

ملتان میں قوس قزح کے نام سے قائم معذور بچوں کے سینٹر کے ایک گریجوایٹ بریل ٹیچرطاہر شہزاد کا کہنا ہے کہ انہیں صرف سرکاری ہی نہیں بلکہ نجی شعبے میں بھی روزگار کے حصول میں دشواری ہے۔ طاہر کا کہنا ہے ”اگر ہمارے لیے مقررکردہ دو فیصد نوکریوں کے کوٹے پر ہی مئوثر انداز میں عمل درآمد ہوجائے تو شاید تمام معذور افراد کو روزگار مل جائے گا“۔

اسی سکول کے ایک طالب علم حافظ محمد اویس کے خواب صرف روزگار تک محدود نہیں بلکہ وہ مستقبل میں ایک سیاست دان بننا چاہتے ہیں” میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ کوئی ایسا قانون بنائے کہ با صلاحیت معذور افراد اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر اپنی آواز اٹھا سکیں“۔

معذور افراد کے لیے چھپنے والے ماہ نامے ” پاکستان سپیشل “کے مدیر فرحت انور نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں معذور لوگوں میں زیادہ تر تعداد جسمانی طور پر معذور افراد کی ہے لیکن ان کے مطابق لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دہشت گردی سے متاثرہ شمال مغربی پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے میں دشواری کے باعث اس سے متاثرہ بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور یوں ملک کی مفلوج آبادی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

پاکستانی بالر چھا گئےPakistan Win The Day in willingtan

Posted by Anonymous on 11:44 AM
پاکستان نے ولنگٹن میں نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن اپنی پہلی اننگز میں دو سو چونسٹھ رن بنائے۔ اس کے جواب میں نیوزی لینڈ کی ٹیم ننانوے رن بنای کر آؤٹ ہو گئی۔

کلِک تفصیلی سکور کارڈ

نیوزی لینڈ کی طرف سے سب سے زیادہ سکور ٹیلر کا تھا جنہوں نے تیس رن بنائے۔ پاکستان کی طرف سے محمد آصف نے چار، دانش کنیریا نے تین، عمر گل نے دو اور محمد عامر نے ایک وکٹ حاصل کی۔

نیوزی لینڈ کی طرف سے مکنٹاش اور گپتل نے کھیل کا آغاز کیا۔ گپتل بغیر کوئی رن بنائے محمد عامر کی گیند پر آؤٹ ہو گئے۔ مکنٹاش کو محمد آصف نے چار رن پر آؤٹ کر دیا۔ اس کے بعد عمر گل نے ٹیلر اور فلٹن کو آؤٹ کیا۔

اس کے بعد جب ٹیم کا کل سکور پچاسی تھا فلِن اور مکلم کو محمد آصف نے آؤٹ کر دیا۔ نیوزی لینڈ کی ساتویں وکٹ پچانوے رن پر گری جب ایلیٹ کنیریا کی گیند پر آؤٹ ہو گئے۔ چھیانوے کے سکور پر پھر دانش کنیریا نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ آخری وکٹ محمد آصف کے حصے میں آئی۔

پاکستان کی طرف سے کامران اکمل نے سب سے زیادہ ستر رن بنائے۔ نیوزی لینڈ کی طرف سے وٹوری اور ٹفی نے چار چار اور او برائن نے دو کھلاڑی آؤٹ کیے۔

پاکستان کی ٹیم: عمران فرحت، سلمان بٹ، محمد یوسف، شعیب ملک، عمر اکمل، کامران اکمل، مصباح الحق، محمد عامر، عمر گل، محمد آصف اور داشن کنیریا۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم: میکنٹاش، گپتل، فلِن، ٹیلر، فلٹن، ایلیٹ، مکلم، وٹوری، اوبرائن، ٹفی اور سی مارٹن۔

محمد یوسف نئے پاکستانی کپتان

Posted by Anonymous on 8:41 PM

پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان یونس خان نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز سے آرام کی غرض سے دست بردار ہوگئے ہیں ۔ ان کی جگہ محمد یوسف کو دورہ نیوزی لینڈ کے لیے پاکستانی ٹیم کا نیا کپتان جب کہ کامران اکمل کو نائب کپتان مقرر کیا گیا ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں یونس خان کی بطور بیٹسمین اور کپتان ناقص کارکردگی کے ساتھ ساتھ ان کی نائب کپتان شاہد آفریدی کے ساتھ چپقلش نے بھی اس فیصلے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے یونس خان کے ساتھ ساتھ نائب کپتان شاہد آفریدی کو بھی ان کے عہدے سے فارغ کردیاہے ۔
پاکستانی ٹیم ان دنوں ابوظہبی میں ہے جہاں نیوزی لینڈ کے ساتھ پہلا ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ میچ جمعرات کو کھیلے گی ۔بعد ازاں ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے لیے قومی ٹیم نیوزی لینڈ روانہ ہوجائے گی۔ اس سے قبل تین ایک روزہ میچوں کی سیریز نیوزی لینڈ دو،ایک سے جیت چکاہے۔

چین:طلباء کے بوسہ دینے پر ’پابندی‘ China

Posted by Anonymous on 8:58 AM

مشرقی چین کی ایک یونیورسٹی کے طلبا و طالبات نے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بوسہ دینے والے طالبعلموں پر نظر رکھنے کے لیے بنائی جانے والی ٹیموں کے خلاف انٹرنیٹ پر شکایات درج کی ہیں۔

نین جنگ فارسٹری یونیورسٹی میں بنائی جانے والی ان ٹیموں کا کام ایسے طلبا و طالبات پر نظر رکھنا ہے جو یا ایک دوسرے کے گلے لگیں، بوسہ دیں یا پھر نہایت قریب قریب بیٹھے ہوں۔

یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام یونیورسٹی کے ’ماحول کو صاف ستھرا بنانے میں مددگار ثابت ہوگا‘۔ ان معائنہ ٹیموں کی سربراہی یونیورسٹی کے اساتذہ کر رہے ہیں اور ان میں رضاکارانہ طور پر شامل ہونے والے طلباء بھی شامل ہیں جو دو دو گھٹنے کی شفٹ میں کام کرتے ہیں۔

یونیورسٹی کے بلیٹن بورڈ پر ایک طالبہ کی جانب سے بھیجے جانے والے پیغام کے مطابق وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ہمراہ یونیورسٹی میں موجود تھی کہ ایسی ہی ایک معائنہ ٹیم کی نظر ان پر پڑی اور اس کے بعد ٹیم کا ایک رکن ان دونوں کے عقب میں آ کھڑا ہوا اور اس وقت تک کھانستا رہا جب وہ دونوں وہاں سے اٹھ کر چلے نہ گئے۔

دیگر شکایات میں یونیورسٹی حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ نوجوان جوڑوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنا وقت ادارے کے انتظام میں صرف کرے۔ طلباء کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں اس خبر کے عام ہونے کے بعد شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گوئی یا نامی ایک طالبعلم نے بلیٹن بورڈ پر لکھا ہے کہ ’ یہ خبر انٹرنیٹ پر پھیل رہی ہے اور یہ ایسا ہے کہ آپ کو کسی عوامی مقام پر برہنہ کر دیا جائے‘۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ معائنہ ٹیموں میں شامل رضاکار طلباء اگر صرفِ نظر سے کام لیتے ہیں تو خود انہیں جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے تاہم اس اطلاع کی تصدیق کے لیے جب یونیورسٹی حکام سے رابطے کی کوشش کی گئی تو رابطہ نہیں ہو سکاBBC۔

کائنات کا دور ترین ستارہ دریافت

Posted by Anonymous on 4:54 PM

فلکیات دانوں نے کائنات کے دور ترین اور قدیم ترین مظہر کا سراغ لگایا ہے۔ یہ ایک مرتے ہوئے ہوئے ستارے میں ہونے والا دھماکا ہے جو آج سے 13 ارب سال پہلے کائنات کے وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد وقوع پذیر ہوا تھا۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس دریافت سے کائنات کے ارتقا کے بارے میں قابلِ قدر معلومات حاصل ہو سکیں گی۔ فلکیات دان کہتے ہیں کہ یہ واقعہ بگ بینگ کے صرف 63 کروڑ سال بعد پیش آیا جس میں دم توڑتے ہوئے ستارے سے توانائی کی گیما شعاعیں خارج ہوئی تھیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کائنات کی عمر تقریباً 14 ارب سال ہے۔ اس دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کا ’تاریک دور‘ اس سے پہلے لگائے جانے والے اندازوں کی نسبت جلد ختم ہو گیا تھا۔ تاریک دور کائنات کے وجود میں آنے کے فوراً بعد اور بڑے ستاروں کے بننے اور چمکنے سے پہلے کے زمانے کو کہتے ہیں۔ اس دریافت سے قبل سب سے قدیم ستارے کا ریکارڈ شدہ دھماکا حالیہ دریافت سے 20 کروڑ سال بعد ہوا تھا۔ انگلستان کی یونیورسٹی آف لیسٹر کے سائنس دان نیال تنویر اس تحقیق میں شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مرتے ہوئے ستارے کا یہ دھماکا (جسے سپرنووا کہا جاتا ہے) سائنس دانوں کو وقت میں ماضی کے سفر میں دور تک لے جاتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جو فلکیات میں نامعلوم خطہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے بڑی حد تک کائنات کا نقشہ تیار کر لیا ہے، اور اب ہم ان منطقوں کے نقشے تیار کر رہے ہیں جن کے بارے میں پہلے کچھ معلوم نہیں تھا۔ تنویر کہتے ہیں کہ اس دریافت سے سائنس دانوں کو آسمان میں ایک مقام مل گیا ہے جہاں خلائی دوربین ہبل کو لگایا جا سکتا ہے اور جہاں سے قدیم کائنات کے بارے میں سراغ مل سکتے ہیں۔ امریکی ماہرِ فلکیات ڈین فریل کہتے ہیں اس ستارے سے روشنی 13 ارب سال کا سفر طے کر کے زمین تک پہنچی ہے۔ اس مشاہدے سے یہ اندازہ ہو گا کہ بگ بینگ کے بعد کس قسم کے کیمیائی مادے خارج ہوئے تھے۔ فریل کا کہنا ہے کہ فلکیات دانوں کے اندازے کے مطابق یہ ابتدائی سپرنووا دھماکے بعد میں ہونے والے سپرنووا سے کہیں زیادہ بڑے اور روشن تر تھے۔ ان کے مشاہدے سے ستاروں کی پہلی نسل اور کہکشاؤں کی تشکیل کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی اور یہ پتا چلے گا کہ موجودہ ستاروں میں دھاتیں کہاں سے آئیں اور کائنات میں روشنی کیسے بکھری۔ اس دریافت کے بارے میں ممتاز سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں دو مضامین شائع ہوئے ہیںVOA۔

دنیا بھر میں ہر پندرہ سیکنڈ میں ایک بچہ نمونیے سے ہلاک ہو جاتا ہے : عالمی ادارہ صحت

Posted by Anonymous on 4:52 PM
عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق اداے یونیسیف نے کہا ہے کہ بہتر غذا اور حفاظتی ٹیکیوں سے دنیا بھر میں نمونیے سے ہلاک ہونے والے لاکھوں بچوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ دونوں اداروں نے اس جاں لیوا بیماری سے نمٹنے کے لیے ایک نیا ایکشن پلان شروع کیا ہے۔ یہ نئی حکمت عملی نمونیہ پرقابو پانے کے سلسلے میں پہلے بین الاقوامی دن کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔ نمونیہ دنیا بھر میں بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہر سال اس بیماری کے باعث پوری دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے لاکھوں بچے لقمئہ اجل بن جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں کو کہنا ہے کہ بچوں کی ہر چار اموات میں سے ایک کی وجہ نمونیہ ہوتی ہے۔ یہ شرح ایچ آئی وی ایڈ، ملیریا اور خسرہ، تینوں بیماریوں سے ہلاکت کی شرح سے زیادہ ہے۔ ہر پندرہ سیکنڈ میں ایک بچہ نمونیے سے ہلاک ہو جاتا ہے۔ ان اموات میں سے 98 فیصد سے زیادہ 68 ترقی پذیر ملکوں میں ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود سے متعلق ادارے کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ ان اموات کو کس طرح روکا جا سکتاہے۔ وسائل موجود ہیں صرف ان کے استعمال کی ضرورت ہے۔ دونوں اداروں نے تین مرحلوں پر مبنی ایک گلوبل ایکشن پلان تجویز کیا ہے۔ اس میں نمونیے کا شکار ہونے والے بچوں کو اس مرض سے محفوظ رکھنے، اس سے بچانے اور اس کے علاج کے لیے حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے۔ نمونیے سے محفوظ رکھنے کے لیے یونیسیف کی سینیر ہیلتھ ایڈوائزر، این گولاز کا کہنا ہے کہ بچوں کے قدرتی دفاعی نظام کو بہتر بنانے کے سلسلے میں مناسب غذائیت کی فراہمی انتہائی اہم ہے خاص طور پر ماں کا دودھ۔ ان کا کہنا ہے کہ غذائیت کی کمی میں مبتلا بچے اور وہ بچے جنہیں اپنی زندگی کے پہلے چھ ماہ میں ماں کا دودھ بالکل میسر نہیں آتا، ان میں نمونیے اور دوسری بیماریوں کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتاہے۔ ماں کے دودھ سے نو زائیدہ بچے کا دفاعی نظام مضبوط ہوتاہے۔ اس لیے اگر اس بارے میں آگہی بڑھائی جائے کہ مائیں اپنے بچوں کو پہلے چھ ماہ کے دوران اپنا دودھ پلائیں اور انہیں اس کےعلاوہ کوئی دوسری ٹھوس یا سیال غذا نہ دی جائے تو اس طرح نمونیے سے ہونے والی 23 فیصد اموات میں کمی کی جاسکتی ہے۔ شمیم قاضی عالمی ادارہ صحت کے بچوں کے شعبے سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ نمونیے کی وجہ بننے والی بیماریوں مثلاً کالی کھانسی اور خسرہ سے بچاؤ میں حفاظتی ٹیکے اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کے بعد بھی بچے کو نمونیہ ہو جائے تو ہم جانتے ہیں کہ ہم ان بچوں کا علاج کمیونٹی سطح پر، طبی مراکز میں اور اسپتالوں میں مرض کی شدت کے مطابق انتہائی سستی اینٹی بائیوٹک ادویات اوردوسرے طریقوں سے کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بہت سے ملکوں میں بچوں کو اس بیماری سے بچانے اور اس کے علاج کے سلسلے میں در حقیقت یہ سب انداز اختیار نہیں کیے جا رہے۔ ڈاکٹر قاضی کا کہناہے کہ گلوبل ایکشن پلان کا مقصد تمام متعلقہ حفاظتی ادویات میں سے نوے فیصد تک فراہمی کو ممکن بنانا ہے۔ اقوام متحدہ کے صحت کے اداروں کا کہناہے کہ اس سے ان 68 ترقی پذیر ملکوںمیں جہاں اس بیماری کا خطرہ سب سے زیادہ ہے، ان تجویز کردہ اقدامات پر عمل در آمد پر لگ بھگ 39 ارب ڈالر خرچ ہو سکتے ہیں۔ اداروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ رقم بظاہر بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے لیکن اس بات کے پیش نظرکہ ان 39 ارب ڈالر سے 2015 تک بچوں میں نمونیے سے ہونے والی اموات میں 65 فیصد کی کمی ہو جائے گی، یہ رقم در حقیقت زیادہ نہیں ہے

دیوار برلن گرنے کے 20 سال بعد۔۔۔ VOA

Posted by Anonymous on 4:50 PM

تین عشروں تک دیوار برلن سرد جنگ کی علامت بنی رہی۔ اس دیوار نے ایک شہر کو بلکہ پورے ملک کو تقسیم کر رکھا تھا اور پھر بیس برس پہلے نونومبر 1989ء کو یہ دیوار ٹوٹ گئی اور اس کے ساتھ ہی کمیونسٹ مشرقی جرمنی اور سرد جنگ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ 20 سال پہلے کے واقعات کی ابتدا کیسے ہوئی اورآج کی دنیا میں ان کا کیا مطلب ہے۔
برلن کے نواح میں Glienicke Bridge واقع ہے۔ یہ پُل Havel نامی دریا پر بنا ہوا ہے، اور برلن کو Potsdam کے شہر سے ملاتا ہے۔ پُل کے خوبصورت منظر سے اس کی تاریخ کے تاریک گوشوں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ سرد جنگ کے عروج کے دور میں اسے جاسوسوں کا پُل کہا جاتا تھا کیوں کہ کمیونسٹ اور مغربی ملکوں کے عہدے دار اسی پُل پر ایک دوسرے کے پکڑے جانے والے جاسوسوں کا تبادلہ کرتے تھے۔
Potsdam کے ایک شہری، Haio Koelling کو قیدیوں کے تبادلے کی داستانیں یاد ہیں ’’جی ہاں قیدیوں کا تبادلہ ٹھیک اسی جگہ ہوتا تھا۔ خفیہ ایجنٹ سب کی نظروں کے سامنے ایک ملٹری چیک پوائنٹ سے دوسرے پوائنٹ تک بھیجے جاتے تھے۔ لیکن سویلین باشندوں کے لیئے، تو یہ پُل جیسے تھا ہی نہیں۔ ہمیں قریب جانے کی اجازت نہیں تھی۔ آپ اسے دور فاصلے سے دیکھ سکتے تھے لیکن بیچ میں دیوارِ برلن حائل ہو جاتی تھی‘‘۔
دیوار کی تعمیر کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی حکومت نے اگست 1961ء میں شروع کی۔ اس کا مقصد برلن کو دو حصوں میں بانٹنا تھا۔ لیکن دیوار نے بالآخر پورے مغربی برلن کو گھیرے میں لے لیا اور اسے مشرقی برلن اور بقیہ مشرقی جرمنی سے کاٹ دیا۔ ایک اور زیادہ طویل باؤنڈری سے پورا ملک مشرق اور مغرب میں تقسیم ہو گیا۔ یہ دیوار آہنی پردے کی علامت بن گئی یعنی وہ لائن جو مغربی دنیا کو مشرق سے یا سوویت بلاک سے جدا کرتی تھی۔ اس کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ور ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ سرد جنگ کہیں سچ مُچ کی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ نظام میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ برلن کی Free University کے Jochen Staadt کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو معلوم تھا کہ مشرقی جرمنی یعنی GDR کی حالت خراب ہے۔ معیشت تیزی سے نیچے کی طرف جا رہی تھی۔ اب ہم جانتے ہیں کہ ہماری سیکریٹ سروس کو اس بارے میں بہت کچھ معلوم تھا۔
تبدیلی کی ایک اور علامت 1980 کی دہائی کے وسط میں ظاہر ہوئی جب مخائل گورباچوف نے ماسکو میں عنان اقتدار سنبھالی۔ مسٹر Staadt کا کہنا ہے کہ مسٹر گورباچوف کے آنے کے بعد، ایک انتہائی اہم علامت یہ ظاہر ہوئی کہ سوویت یونین میں لوگوں نے کھلے عام جرمنی کو متحد کرنے کی باتیں شروع کر دیں۔
ماسکو اور مشرقی برلن کے درمیان اختلافِ رائے موجود تھا اور مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ قیادت کے لیے روس کی حمایت کم ہو رہی تھی۔ اِس اختلافِ رائے سے رونلڈ ریگن جیسے لیڈروں نے فائدہ اٹھایا ’’مسٹر گورباچوف ، اس دیوار کو گرا دیجیئے‘‘۔
1987ء میں جب صدر ریگن نے یہ تاریخی الفاظ کہے تو تبدیلی کا عمل شرو ع ہو چکا تھا۔ سوویت بلاک میں اصلاحات کی تحریک زور پکڑ گئی اور 1989ء کی گرمیاں آتے آتے مشرقی جرمنی کے لوگو ں کو مغرب پہنچنے کے لیے ہنگری کا راستہ مِل گیا اور مشرقی جرمنی میں پُر امن احتجاج شروع ہو گئے۔ اگرچہ مغربی ملکوں کے دباؤ کا بھی کچھ اثر ہوا لیکن اہم ترین کردار مخائل گورباچوف نے ادا کیا۔
لندن اسکول آف اکنامکس کے سیاسی تجزیہ کار Michael Cox کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ جیسے ہی سوویت یونین، ماسکو، گورباچوف اور Politburo طاقت استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے ساری عمارت آناً فاناً میں نیچے آ پڑے گی اور ہوا بھی یہی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نونومبر کو سارا کھیل ختم ہو جائے گا۔ دیوارِ برلن گِری اور اپنے ساتھ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کو بھی لے گئی۔
اس کے بعد کا مرحلہ بھی آسان نہیں تھا۔ یورپ کے نئے ڈھانچے کے بارے میں اور جرمنی کے نئے مقام کے بارے میں پیچیدہ مذاکرات ہوئے۔ لیکن اس پورے عمل میں اہم ترین کردار مخائل گوربا چوف نے ادا کیا۔
جرمنی 1990ء میں متحد ہو گیا اور 1991ء میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوا اور سرد جنگ اختتام کو پہنچی۔ ہم ایک بار پھر Glienicke Bridge پر واپس چلتے ہیں اور Haio Koelling سے پوچھتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ کمیونسٹ حکومت میں وہ Potsdam کے شہر میں ماہرِ تعمیرات کے طور پر کام کرتے تھے۔ دیوارِ برلن کے گرنے کے بعد انھوں نے اپنی تعمیراتی کمپنی کھولی۔ اب وہ ریٹائر ہو چکے ہیں اور اب بھی وہیں رہتے ہیں جو کبھی پہلے مشرقی جرمنی تھا۔ لیکن اب وہ جب چاہیں Glienicke Bridge پر آ جا سکتے ہیں ۔سب رکاوٹیں، چیک پوائنٹس اور دیواریں ختم ہو چکی ہیں۔

Lawa Against the MINAR میناروں پر پابندی کا مجوزہ قانون

Posted by Anonymous on 4:46 PM

سوئٹزرلینڈ میں میناروں پر پابندی لگانے کے بارے میں ووٹنگ سے تین ہفتے قبل ملک کے کئی حصوں میں مسلمان عام لوگوں کو مسجدوں میں آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
مسلمانوں کے مطابق لوگوں کو مسجدوں میں مدعو کرنے سے ان لوگوں میں مساجد کے بارے پائے جانے والے خدشات اور تعصبات کو ختم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔
قدامت پسند پارٹی کو سوئس پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے اس نے میناروں کی تعمیر پر پابندی کے بارے قانون پیش کیا ہے۔ اس پارٹی کا کہنا ہےکہ مینار مسلمانوں کی سیاسی قوت کا نشان ہیں۔
عوامی جائزوں کے مطابق میناروں پر پابندی کا مجوزہ قانون ووٹنگ میں رد ہو جائے گا۔
زیورخ میں مسلمانوں کے ایک راہمنا کا کہنا ہے کہ قدامت پرست سوئس پیپلز پارٹی کی طرف سے مجوزہ قانون تعصب پر مبنی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق سوئٹزرلینڈ میں چار لاکھ مسلمان آباد ہیں اور ان کی دو سو مساجد ہیں جن میں صرف چار کے مساجد کے مینار ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کے ایک اور مسلمان رہنما ہشام مرزا نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ غیر مسلمانوں کو مساجد میں مدعو کرنے سے غلط فہمیاں دور کرنے میں مدد ملے گی۔
بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ لوگ مساجد میں جا کر بہت خوش ہوئے۔

Free Download :Naseem Hijazi Novel Muhammad bin qasim

Posted by Anonymous on 3:20 PM

You can download the novel of Naseem Hijazi about of muhammad bin qasim: click the link below: Muhammad bin qasim
If you are unable to see this novel you can download tha fixit reader (adob reader) link below: www.skpsoft.tk

Halery Clinton In Lahore Badshahi masjad.

Posted by Anonymous on 1:26 PM
www.hafeez.tk

Hallery Clinton In badshahi masjad lahore. Watch the video of bbc about of hallery visit lahore.
Hallery visited badshahi mosque withe Imam of masjad and 700 security officalles.

’دنیا کا ہر چوتھا شخص مسلمان‘ Every 4 man of the world is muslim

Posted by Anonymous on 7:51 PM

یک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ستاون کروڑ ہے اور ان میں سے ساٹھ فیصد براعظم ایشیا میں رہتے ہیں۔

پیو فورم آن رلیجن اینڈ پبلک لائف کی اس رپورٹ کی تیاری میں تین برس کا عرصہ لگا اور اس دوران دنیا کے دو سو بتیس ممالک اور علاقوں سے مردم شماری کے اعدادوشمار اکٹھے کیے گئے۔

محققین نے اس رپورٹ کی تیاری کے لیے مردم شماری رپورٹس، ڈیموگرافک سٹڈیز اور آبادی کے عام سروے جیسے پندرہ سو ماخذ سے استفادہ کیا۔

اس رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی کل تعداد کا بیس فیصد مشرقِ وسطٰی اور شمالی افریقہ میں رہتا ہے جبکہ اعداوشمار کے مطابق اس وقت جرمنی میں لبنان سے زیادہ مسلمان بستے ہیں اور روس میں مسلمانوں کی تعداد لیبیا اور اردن کے مسلمانوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔

یہ رپورٹ تیار کرنے والے سینئر محقق برائن گرم نے سی این این کو بتایا ہے کہ ان کے لیے مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد حیران کن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ مسلمانوں کی کل تعداد میرے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے‘۔

زیادہ مسلم آبادی والے ملک

انڈونیشیا

پاکستان

انڈیا

بنگلہ دیش

مصر

بدھ کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ایتھوپیا اور افغانستان میں مسلمانوں کی تعداد قریباً برابر ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق تین سو ملین مسلمان ان ممالک میں رہتے ہیں جہاں اسلام اکثریتی مذہب نہیں ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر امانی جمال کے مطابق ’یہ خیال کہ مسلمان عرب ہیں یا صرف عرب ہی مسلمان ہیں اس رپورٹ کے بعد مکمل طور پر رد ہوجاتا ہے‘۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے دنیا کے کل مسلمانوں میں سے ستاسی سے نوے فیصد سنی العقیدہ جبکہ دس سے تیرہ فیصد شیعہ العقیدہ مسلمان ہیں۔ دنیا میں زیادہ تر شیعہ ایران، عراق ، پاکستان اور بھارت میں رہائش پذیر ہیں۔

براعظم یورپ تین کروڑ اڑتیس لاکھ مسلمانوں کا گھر ہے جو کہ یورپ کی کل آبادی کا پانچ فیصد ہیں۔ براعظم امریکہ میں رہنے والےچھیالیس لاکھ مسلمانوں میں سے نصف سے زائد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں رہتے ہیں تاہم وہ امریکہ کی کل آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔

Black Water Activities in pakistan Are so danger of pakistan

Posted by Anonymous on 10:50 PM
Black water is a organization of usa . whos work in major cities in pakistan .These activities are very dangreous of pakistan. These activities are continued in karachi and islamabad and peshawer .so more information you can watch this video.

Fight between Kashmala Tariq and Dr Firdous Ashiq Awan

Posted by Anonymous on 11:36 PM
Watch this video about if fight in talk show . Fight between kashmala tariq and dr. firdous .Dr firdous ashiq awan is minister.who abused ti kashmala tariq.kashmala play the beautiful role in talk show without harsh word.
This video you can wtch with real player .May be you need to install the Real player.you can install the real player this website link below:
http://www.skpsoft.tk/

فیس بک کی وجہ سے’بیمار‘ کی نوکری گئی

Posted by Anonymous on 10:08 PM


سوئٹرزلینڈ میں ایک آجر نے بیماری کی رخصت پر گئی ہوئی خاتون ملازم کو سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ’فیس بک‘ پر موجود پا کر نوکری سے نکال دیا ہے۔

یہ خاتون جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا اپنے دفتر سے بیماری کی وجہ سے رخصت پر تھیں اور اپنی درخواست میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اتنی بیمار ہیں کہ کمپیوٹر استعمال نہیں کر سکتیں۔

ئہ خاتون نیشنل سوئس نامی کمپنی کی ملازم تھیں اور انہوں نے سردرد کی وجہ سے یہ کہہ کر چھٹی لی تھی کہ انہیں ایک تاریک کمرے میں لیٹنے کو کہا گیا ہے۔ نیشنل سوئس کمپنی کے مطابق ان کی ملازمہ نے کمپنی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اور یہی ان کی برخاستگی کی وجہ بنی۔

کمپنی کے مطابق جو شخص میگرین کا مریض ہوتے ہوئے فیس بک استعمال کر سکتا ہے وہ نوکری بھی کر سکتا ہے۔


تاہم اس خاتون نے ایک سوئس اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بےقصور ہے۔ باسل سے تعلق رکھنے والی اس خاتون نے کہا کہ وہ اپنے بستر پر لیٹ کر اپنے آئی فون کی مدد سے انٹرنیٹ چلا رہی تھی۔ خاتون کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی کمپنی نے ان کی جاسوسی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کمپنی نے ایک جعلی فیس بک آئی ڈی بنا کر انٹرنیٹ پر اس کی مصروفیات کی جاسوسی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ شک اس وقت ہوا جب انہیں نوکری سے نکالے جانے کے بعد ان کا ایک دوست اچانک فیس بک سے غائب ہوگیا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ دفتری معاملات میں فیس بک کی وجہ سے تنازعہ کھڑا ہوا ہو۔ جہاں کچھ کمپنیوں نے دفتر میں فیس بک پر پابندی لگائی ہے وہیں کچھ کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو اس بنیاد پر نوکری سے برخاست کیا ہے کہ انہوں نے کمپنی نے بارے میں فیس بک پر اپنے خیالات ظاہر کیے تھے۔

پانچ سوگیگا بائٹ کی ڈسک تیار

Posted by Anonymous on 8:55 PM




امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک نے ایک ایسی ڈسک تیار کرنے کا دعوٰی کیا ہے جس پر پانچ سو گیگا بائٹ یا سو ڈی وی ڈیز کے برابر ڈیٹا محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

اس مائیکرو ہولوگرافک ڈسک کا حجم ایک عام ڈی وی ڈی کے برابر ہے اور اسے بنیادی طور پر ’آرکائیو‘ مقاصد کے تیار کیا گیا ہے۔

تاہم امریکی کمپنی کا ماننا ہے کہ عام کمپیوٹر صارفین بھی یہ ڈسک استعمال کریں گے۔ اس وقت ہائی ڈیفینیشن فلموں اور گیمز کے لیے مارکیٹ میں موجود بلیو رے ڈسکس پر پچیس سے پچاس گیگا بائٹ ڈیٹا محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

مائیکرو ہولوگرافک ڈسکس ایک عام ڈی وی ڈی یا بلیو رے ڈسک کے مقابلے میں زیادہ ڈیٹا اس لیے محفوظ کر پاتی ہیں کیونکہ ان پر معلومات سہ رخی انداز میں محفوظ ہوتی ہیں۔

مائیکرو ہولوگرافک ڈسکس ایک عام ڈی وی ڈی یا بلیو رے ڈسک کے مقابلے میں زیادہ ڈیٹا اس لیے محفوظ کر پاتی ہیں کیونکہ ان پر معلومات سہ رخی انداز میں محفوظ ہوتی ہیں۔جنرل الیکٹرک کے برائن لارنس کے مطابق ’حال ہی میں جنرل الیکٹرک ٹیم نے ایسے عناصر کی تیاری کے حوالے سے ڈرامائی کامیابی حاصل کی ہے جن کی مدد سے ہولوگرامز سے منعکس ہونے والی روشنی کی مقدار میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے‘۔ خیال رہے کہ ڈسک پر ڈیٹا محفوظ کرنے کی صلاحیت کا دارومدار ہولوگرام سے روشنی کے انعکاس پر ہوتا ہے۔

اب جنرل الیکٹرک کو ڈسک پلیئرز بنانے والی کمپنیوں سے رابطہ کرنا ہو گا تاکہ یہ ڈسک چلانے کے لیے مشین تیار کی جا سکے۔ کمپنی کے مطابق اس ڈسک کو چلانے کے لیے جن ہولوگرافک پلیئرز کی ضرورت ہوگی ان پر باآسانی سی ڈی، ڈی وی ڈی اور بلیو رے ڈسک بھی چلائی جا سکے گی اور یہی اس نئی ڈسک کی مقبولیت کی اہم وجہ بن سکتی ہے
bbc۔

اوبامہ کی باحجاب مشیر

Posted by Anonymous on 8:54 PM




امریکی تاریخ میں پہلی بار وائٹ ہاؤس میں ایک مسلمان خاتون کو مذاہب پر مشاورت کی کونسل کا رکن مقرر کیا گیا ہے جسے امریکی میڈیا کا ایک حصہ امریکی صدر کے مشیروں میں پہلی ححاب اوڑھنے والی خاتون کی شمولیت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

امریکی صدر براک اوبامہ کی بیورو آف ریلیجن اینڈ نیبرہوڈ پارٹنرشپس کی پچیس رکنی کونسل میں شامل کی گئي مصری نژاد امریکی خاتون کا نام دالیہ مجاہد ہے جن کا خاندان تیس برس قبل مصر سے آ کر امریکہ میں آباد ہوا تھا۔

دالیہ مجاہد معرف سرویئرز اور تحقیقی ادارے گیلپ کے اسلامک سٹڈیز سینٹر کی سربراہ ہیں اور امریکی میڈیا خاص طور الیکٹرانک میڈیا اور تھنک ٹینکس میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں معتدل لیکن مدلل بات چیت کے بار ے میں جانی جاتی ہیں۔ حال ہی میں ان کی پینتیس مسلم ممالک میں تحقیق و جائزے پر مبنی کتاب ’ہو سپیکس فار مسلمز؟‘ یا ’مسلمانوں کیلیے کون بولے گا‘ کے عنوان سے شائع ہوئي ہے۔

مصری اخبار 'الااہرام‘ کے نیویارک میں نمائندے اور مصری و عرب سماجیات کے تجزیہ نگار طارق فتی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دالیہ مجاہد کی وائٹ ہاؤس میں تقرری نہ صرف ایک اہم واقعہ ہے بلکہ ان کی تقرری اس امر کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ مسلمانوں کے مسائل میں موجودہ امریکی انتظامیہ کتنی دلچسپی لے رہی ہے۔ طارق قتی کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ دالیہ مجاہد کا اصل کام امریکہ کو عالمی اور مقامی سطح پر دنیا اور امریکہ کے عام مسلمانوں کے مسائل اور حالات پر واقف حال کرنا ہے جیسے بقول دالیہ مجاہد 'گيارہ ستمبر کے بعد مسمانوں کو مصبیت بنا کر پیش کیا گيا ہے‘۔

خیال رہے کہ صدر اوبامہ کی انتظامیہ اور مشیروں میں دالیہ پہلی مسمان نہیں ہیں بلکہ مسلم امور پر مشاورت کیلیے صدر اوبامہ کی انتظامیہ میں اور بھی مسلمان مشیر شامل ہیں جن میں امریکی صدر کے افغانستان اور پاکستان پر مشیر رچرڈ ہالبروک کی ٹیم میں شامل مشہور محقق و عالم ڈاکٹر ولی نصر بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر ولی نصر کا تعلق ایران سے ہے او وہ ہمعصر اسلامی تاریخ اور سماجیات و سیاسات پر اتھارٹی مانے جاتے ہیں
bbc۔

آئی سی ایل: کھلاڑیوں پر سے پابندی ختم

Posted by Anonymous on 8:51 PM




بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ یعنی بی سی سی آئی نے انڈین کرکٹ لیگ یعنی آئی سی ایل کے کھلاڑیوں پر عائد پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن بورڈ نے یہ بھی کہا ہے آئی سی ایل کھیلنے والے کھلاڑيوں کو اس لیگ کے ساتھ اپنے رشتے ختم کرنے ہوں گے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئي کے مطابق ہندوستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے صدر ششانک منوہر نے کہا کہ یہ فیصلہ بعض کھلاڑیوں کی جانب سے اس اعتراف کے بعد کیا گیا ہے کہ باغی لیگ میں شامل ہوکر ان سے غلطی سرزد ہوئی تھی۔

ممبئی میں بی سی سی آئی کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد ششانک منوہر نے صحافیوں سے بتایا ’ہم نے آئی سی ایل کے کھلاڑیوں کو معاف کرنے اور بی سی سی آئی میں ان کی واپسی کا خیرمقدم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

لیکن پابندی ختم کرنے کا فیصلہ غیر مشروط نہیں ہے۔ کھلاڑیوں کو اکتیس مئی تک انڈین کرکٹ لیگ سے وابستگی ختم کرنی ہوگی اور وہ ایک سال تک کوئی بین الاقوامی میچ میں نہیں کھیل پائیں گے۔ تاہم وہ ڈومیسٹک یعنی گھریلو کرکٹ میں فوری طور پر شرکت کر سکیں گے۔

آئی سی ایل سے کئی بڑے ستارے جڑے ہوئے ہیں جن میں برائن لارا، انضمام الحق اور شین بانڈ شامل ہیں۔

انڈین کرکٹ بورڈ نے آئی سی ایل کے وجود میں آنے کے بعد ہی انڈین پریمیر لیگ کا اعلان کیا تھا اور باغی لیگ سے وابستگی رکھنے والے کھلاڑیوں پر پابندی لگا دی تھی۔

آئی سی ایل نے کپل دیو کو اپنی مجلس عاملہ کا چئرمین بنایا تھا
bbc۔

امریکہ میں بے روزگاری کی شرح ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی

Posted by Anonymous on 8:47 PM

عالمی اقتصادی بحران کے اثرات یوں تو دنیا کے اکثر ملکوں میں محسوس کیے جارہے ہیں لیکن امریکی معیشت اس کا بطور خاص ہدف بنی ہوئی ہے۔ تازہ ترین معاشی جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں بے روزگاری کی سطح کئی عشروں کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس وقت یہ شرح ساڑھے آٹھ فی صد ہے اور اقتصادی ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اس میں مزید اضافے کا امکان موجود ہے۔ سرکاری اعداد وشمار میں کہا گیا ہے کہ بے روزگاری الاؤنس وصول کرنے والوں کی تعداد گذشتہ 26 برس میں سب سے اونچی ہے اور یہ سطح گذشتہ 10 ہفتوں سے نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں اضافہ ہورہاہے۔

دسمبر2007 سے، جب سے کسادبازاری کا آغاز ہواہے، امریکہ میں اب تک 50 لاکھ سے زیادہ افراد اپنے روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔ صرف پچھلے ماہ کے دوران 6 لاکھ63 ہزار افراد بے روزگار ہوئے۔ کانگریس کی رکن کیرولین میلونی جو جوائنٹ اکنامک کمیٹی کی چیئر پرسن ہیں کہتی ہیں کہ ہر ماہ اوسطاً 6 لاکھ 67 ہزار افراد بے روزگار ہورہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وال اسٹریٹ اسٹاک مارکیٹ میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے جس کے مارکیٹ پر مثبت نتائج ظاہر ہوں گے۔

اس کے ساتھ گذشتہ ہفتے جی ٹونٹی ممالک کے راہنماؤں کی جانب سے عالمی معاشی بحران کو حل کرنے کی یقین دہانی کے بھی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ماہر معاشیات فریڈ بریگسٹن کا خیال ہے کہ اگر کوئی غیر متوقع واقعہ رونما نہ ہوا تو عالمی کساد بازاری جلد ختم ہوجانی چاہیے۔

تاہم بے روزگار ہونے والوں کو مثبت تبدیلیوں کی باتیں کھوکھلی لگتی ہیں ۔ بے روزگار ہونے والے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ یہاں ایسے خاندان بھی ہیں جن میں میاں بیوی دونوں ہی بے روزگار ہوگئے ہیں اوراب ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

ملبوسات تیار کرنے کے ایک برانڈ ادارے سے وابستہ وکی کا کہنا ہے کہ بینکوں میں آنے والے مالیاتی بحران کے باعث انہوں نے قرضوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے جس کی وجہ سے کارباروی اور صنعتی کمپنیاں مالی مشکلات کا شکار ہوگئی ہیں اور ان کے لیے اپنا کاروبار جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا جس کی وجہ سے کارکن بے روزگار ہورہے ہیں۔

یارک کاؤنٹی میں ایک امدادی ادارے کے ساتھ کام کرنے والے کونسلر ایلن وین سلوٹ کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ملازمت تلاش کرنا آسان نہیں ہے مگر کچھ شعبوں میں جیسے کہ صحت عامہ کا شعبہ، وہاں پر بہرحال مواقع موجود ہیں
thanks for voa۔

کراچی میں صرف پانچ فیصد خواتین کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی

Posted by Anonymous on 8:39 PM

ایک صحت مند معاشرہ اس وقت تشکیل پاتا ہے جب اس میں رہنے والا ہر فرد متحرک ہو ۔ معاشرے کی فلا ح و بہبود کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی یہ تحریک علم و آگہی ، یکساں مواقع او ر وسائل کے صحیح تعین سے ملتی ہے۔ لیکن پاکستان میں صورتحال مختلف ہے ۔ یہاں تعلیم ترجیحات میں شامل نہیں ۔ معاشی و معاشرتی حدبندیوں کے سبب مواقع محدود ۔ وسائل بے شمار لیکن اخلاص کی قلت اور وژن۔۔۔ ناقص۔ پاکستان کی 51فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن بیشتر تعلیم سے محروم ہونے کے سبب اقتصادی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ دیہی علاقے تو ایک طرف شہری علاقوں میں بھی خواندگی کی صورتحال حوصلہ افزانہیں۔ اس کا بخوبی اندازہ کراچی میں قائم ایک نجی یونی ورسٹی ”اقراء“ کے شعبہ پی ایچ ڈی کی سربراہ ڈاکٹر زائرہ وہاب کی اس تحقیق سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں صرف 5 فیصد خواتین کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی ہے اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی ان میں سے صرف دو فیصد کو روزگار کے مواقع حاصل ہیں۔

اگرچہ ڈاکٹرزائرہ وہاب نے یہ تحقیق 2006 ء میں مرتب کی تھی لیکن وہ ہر سال اسے اپ ڈیٹ کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس دوران کالجوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن کہیں آرٹس ہے تو کہیں کامرس نہیں اور کامرس ہے تو کہیں سائنس نہیں۔ اسٹاف اور ڈپارٹمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی تعلیمی اداروں میں خواتین کی نمائندگی کم و بیش وہی ہے۔


ڈاکٹرزائرہ وہاب

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زائرہ نے اس کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ غربت ، معاشرتی روایات ، بنیاد پرستی ، سماجی رکاوٹیں ، قول و فعل میں تضاف جیسے عناصر سمیت حکومت کی عدم توجہی بھی ایک وجہ ہے۔ بلند و بانگ دعووٴں کے با وجود ہم بحیثیت قوم آج تک یہ تعین ہی نہیں کر سکے کہ ہم اپنی خواتین کو کیسے دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین اعلیٰ تعلیم کے ذریعے ہی اقتصادی آزادی حاصل کر سکتی ہیں لیکن اپنی تحقیق کے دوران میں نے یہ دیکھا کہ اعلیٰ تعلیم ایک خاص طبقے تک ہی محدود ہے اس لیے غریب گھرانے کی لڑکیاں نہ تو اقتصادی طور پر خود مختار ہوتی ہیں اور نہ ان میں انفرادیت ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ پھر نسل در نسل چلتا ہے ۔ جب کہ خوشحال گھرانوں کی خواتین تعلیم کے بعد ملک چھوڑ کے چلی جاتی ہیں یا پھر ان کو کام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور تبدیلی ان کے لیے اتنی معنی بھی نہیں رکھتی ۔ مسئلہ درمیانے اور غریب طبقے کی خواتین کا ہے جنہیں خود انحصار بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ غربت سے لڑ سکیں۔

جامعات میں خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مختلف شعبوں میں تیزی سے قدم رکھتی خواتین کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے پبلک سیکٹر میں واحد ادارہ جامعہ کراچی ہے۔ وہاں خواتین کی نمائندگی مردوں سے زیادہ ہے مگر غریب طبقے کی خواتین وہاں بھی نہیں۔ دوسرا وہاں بیشتر خواتین سوشل سائنسز سے منسلک ہیں اور مارکیٹ میں ان کے لیے کوئی جاب نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین مسابقتی میدانوں میں نہیں آتیں جیسا کہ منجمنٹ سائنسز ، قانون ، انجینئرنگ ۔ ان شعبوں میں آکر درمیانے اور غریب طبقے کی خواتین براہ راست ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔ مگر ان کے لیے مواقع نہیں۔ نجی جامعات میں فیس اتنی زیادہ ہے کہ ادائیگی ان کے بس سے باہر ہے۔



وہ کہتی ہیں کہ بحیثیت قوم ہماری منزل اور مقاصد واضح نہیں ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس مین پاور پلاننگ ہونی چاہیے کہ کس شعبے میں کتنے لوگو ں کی ضرورت ہے اور کون سے لوگ کہاں ہوں۔ وہ جگہیں جہاں خواتین زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں ان کے لیے مخصوص کوٹے مقرر کیے جائیں۔ اگر وسائل نہیں اور لوگ اپنی بیٹیوں کو نہیں بھیجتے تو حکمت عملی مرتب کی جائے ۔

واضح رہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے علاوہ خواتین کو پرائمری کی سطح پر بھی تعلیم کے حصول کے لئے صورتحال حوصلہ افزاء نہیں۔حکومت سندھ کے ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان ایسے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔صرف سندھ میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 50 فیصد ہے جبکہ کچھ علاقوں میں یہ شرح 72 فیصد ہے۔

پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے ڈاکٹر زائرہ کے مطابق میڈیا کا کردار ، مواقع اور لٹریسی ریسورس سینٹر کا قیام بہت اہم ہے۔ بھارت کی صرف ایک ریاست چنائے میں چھبیس ریسورس سینٹر ہیں جہاں نہ صرف بچوں کی کاوٴنسلنگ ہوتی ہے بلکہ ان کے والدین کی بھی جبکہ کراچی میں ہم نے ایک کے بارے میں بھی نہیں سنا ۔ ساتھ ہی یہاں کالجوں میں تعلیم کو ہنر کے ساتھ مشروط کرنا چاہئے تاکہ لوگ تعلیم کی جانب راغب ہوں اورپچاس فیصد ضائع ہونے والے انسانی وسائل سے ملک استفادہ کر سکے ۔

sheikhupura news: دبئی میں شاہد آفریدی کے فین

Posted by Anonymous on 4:12 PM

دبئی میں شاہد آفریدی کے فین

Posted by Anonymous on 1:17 PM
دبئی کے سپورٹس سٹی کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ایک روزہ میچ دیکھنے کے لئے آنے والے ہزاروں تماشائیوں میں ایک بڑی تعداد پشتو بولنے والے کرکٹ شائقین کی ہے جن میں سے بیشتر کا کہنا ہے کہ وہ صرف شاہد آفریدی کی باؤلنگ اور بیٹنگ دیکھنے آئے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کرکٹ سیریز کے افتتاحی میچ کے 'میں آف دی میچ' شاہد آفریدی کراچی کے پشتون خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

دبئی اور اسکے گرد عرب ریاستوں میں بڑی تعداد میں پشتو بولنے والے روزگار کی غرض سے رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر محنت مزدوری یا ٹیکسی چلانے کا کام کرتے ہیں۔

میچ شروع ہونے سے قبل سٹیڈیم کے اندر آنے کے لئے طویل قطار میں کھڑے ہنگو کے ناصراللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ شاہد آفریدی کو بہت پسند کرتے ہیں اور انہی کی کارکردگی دیکھنے کے لئے آئے ہیں۔ پشاور کے محب نے کہا کہ 'کھیلتے تو سب ہی اچھا ہیں لیکن آفریدی کے ایکشن کا جواب نہیں'۔

کوہاٹ کے نور نواز نے کہا کہ وہ شاہد آفریدی کے باؤلنگ ایکشن سے بہت متاثر ہیں۔'میں بہت دن سے شاہد آفریدی کو ٹی وی پر دیکھتا رہا ہوں۔ آج اسے لائیو دیکھنے کا پہلی بار موقع ملے گا'۔

پشاور کے گل محمد نے کہا کہ انہوں نے دبئی میں گزشتہ میچ بھی دیکھا تو اور آج انکا میچ دیکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔ 'لیکن آفریدی نے ایسا جادو چلایا کہ یں آج بھی چھٹی لیکر یہ میچ دیکھنے آگیا'۔

واضح رہے کہ جمعہ کے روز دبئی میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عام پبلک کے لئے مخصوص نشستوں کے تمام ٹکٹ میچ سے پہلے ہی فروخت ہو چکے تھے جبکہ پچیس ہزار گنجائش کے اس گراؤنڈ میں وی آئی پی باکس کے چند ٹکٹ رہ گئے ہیں۔

فحاشی کے الزام کی تردید

Posted by Anonymous on 1:11 PM


لاہور ہائی کورٹ نے پیر کو ایڈوکیٹ آصف محمود کی ایک درخواست پر دو گلو کاراؤں نصیبو لال اور نوراں لال کے مبینہ طور پر فحش گانوں پر پابندی عائد کر دی تھی اور دونوں کو پچیس مئی کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔

نصیبو لال کے گانوں پر پابندی


درخواست گزار نے عدالت کو کہا تھا کہ یہ دونوں بہنیں نصیبو لال اور نوراں لال فحش گانے گاتی ہیں اور ان کے ان گانوں پر پابندی عائد کی جائے۔

اس عدالتی حکم پر ان دونوں کا مؤقف جاننے کی کوشش کی تاہم بارہا کوشش کے باوجود نصیبو لال سے رابطہ نہ ہو سکا، البتہ نوراں لال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تو خود ہمیشہ فحش گانوں کی مخالفت کی ہے اور وہ ایسے گانے نہیں گاتیں جو مخرب اخلاق ہوں۔


نوراں لال کا کہنا ہے کہ ان کا تو نصیبو لال سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔


نوراں لال نے کہا کہ ان کے گانے ایسے ہوتے ہیں جو خاندان کے مرد اور عورتیں اکٹھے بیٹھ کر سنتے ہیں اسی لیے انہیں شادی بیاہ اور دیگر نجی تقریبات پر گانا گانے کے لیے بلایا جاتا ہے۔


نوراں لال نے کہا کہ ان کا نام ویسے ہی ساتھ شامل کر لیا گیا ہے اور کسی اور کے قصور کے سبب وہ بھی ملزم بن گئیں۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے تو یہ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔


نوراں لال نے کہا کہ وہ بہت کم فلمی گانے گاتی ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ صرف اسی گانے کو گانے کی پیشکش قبول کرتی ہیں جو اچھا ہو اور فحش گانے کی پیشکش ٹھکرا دیتی ہیں۔


نوراں لال نے کہا کہ کافی گانے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے بول اتنے خراب نہیں ہوتے لیکن ان گانوں پر رقص کرنے والی خواتین کی حرکات و سکنات انہیں فحش بنا دیتی ہیں۔


نوراں لال کے شوہر شفیق بٹ نے بھی کہا کہ یہ نوراں لال پر سراسر الزام ہے کہ وہ اخلاق سے گرے ہوئے گانے گاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان اکتالیس گانوں کی فہرست حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہیں فحش قرار دے کر پابندی لگائی گئی ہے، اس کے بعد وہ عدالت کے سامنے پیش ہونے کے لیے تیاری کریں گے۔

بشکریہ بی بی سی

دنیا کے بڑے دریا ’سوکھ رہے ہیں

Posted by Anonymous on 12:15 PM

امریکی محققین کے مطابق گزشتہ پچاس برس میں دنیا کے اہم ترین دریاؤں میں پانی کی سطح میں قابلِ ذکر کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

محققین اس کمی کا تعلق ماحولیاتی تبدیلی سے جوڑتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ میٹھے پانی کے ذخائر میں کمی دنیا کی تیزی سے بڑھتی آبادی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

یہ تحقیق امریکی میٹیورولاجیکل سوسائٹی کے جریدے میں شائع کی گئی ہے۔.

اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں نے نو سو سے زائد دریاؤں کا جائزہ لیا اور ان کے مطابق چین کے زرد دیا سے لے کر بھارتی گنگا اور وہاں سے امریکہ کے دریائے کولاراڈو تک دنیا کے لیے میٹھے پانی کے ذخائر میں واضح کمی دیکھی جار ہی ہے۔

دنیا میں جس خطے میں پانی کی سطح میں اضافہ دیکھا گیا ہے وہ انٹارکٹک ہے جہاں گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے پانی کی سطح بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی ایشیا میں دریائے برہم پتر اور چین میں ینگزے دریا میں پانی میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کی وجہ بھی سائنسدانوں نے ہمالیہ کے گلیشیئرز کا پگھلنا قرار دیا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق دریاؤں سے سمندر میں جانے والے پانی کی مقدار میں بھی کمی آ رہی ہے اور اس کمی کی وجہ ڈیموں کی تعمیر اور زرعی مقاصد کے لیے پانی کا رخ موڑنا شامل ہے۔ تاہم ان کے مطابق یہ سب ثانوی وجوہات ہیں اور سب سے اہم وجہ درجۂ حرارت میں اضافے جیسی ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف بارشوں کے نمونے بدل گئے ہیں بلکہ عملِ تبخیر بھی تیز ہوگیا ہے۔

مائیکرو سافٹ کی سیلز میں کمی

Posted by Anonymous on 12:13 PM


مائیکرو سافٹ نے کہا ہے کہ اس کی تیئس سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سن دو ہزار نو کے پہلے تین مہینوں میں اس کی سیلز میں گزشتہ سال کے مقابلے میں چھ فیصد کمی ہوئی ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی سافٹ ویئر کمپنی نے کہا کہ اس کے منافع میں بتیس فصید کمی ہوئی ہے۔

مائیکرو سافٹ کو زیادہ تر منافع اس کے آپریٹنگ سسٹم ونڈوز کی فروخت سے ہوتا ہے۔

تاہم ونڈوز کی مانگ میں کمی کمپیوٹروں کی فروخت کم ہونے سے ہوئی ہے۔

کمپنی کے چیف فائننشل آفیسر کرس لڈل نے کہا کہ انہیں اگلی سہ ماہی میں بھی سیلز میں بہتری کی توقع نہیں ہے۔

مائیکرو سافٹ جو انیس سو چھیاسی میں پبلک کمپنی بنی تھی اب خرچے کم کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔

مائیکرو سافٹ کے منافع میں کمی ماہرین کی توقع سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔

شمالی کوریہ : امریکی صحافیوں پر مقدمہ

Posted by Anonymous on 12:11 PM

شمالی کوریہ کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے یہ خبر شائع کی ہے کہ جن دو امریکی صحافیوں کو شمال کوریا اور چین کی سرحد کے نزدیک گرفتار کیا گیا تھا ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔

کوریائی امریکی یونا لی اور چینی امریکی لورا لنگ کرنٹ ٹی وی کی ملازم ہیں اور انہیں سترہ مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

شمال کوریا کا کہنا ہے کہ ان صحافیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ تفتیشی رپورٹ آنے کے بعد کیا گیا ہے۔ حالانکہ اب تک یہ واضح نہيں ہے کہ ان لوگوں کے خلاف کن الزامات کے تحت مقدہ چلایا گیا ہے۔

شمالی کوریہ کا کے مطابق دونوں خواتین غیر قانونی طریقے سے چین کے راستے سرحد پار کر کے ملک میں داخل ہوئی تھیں۔

کے سی این اے کے مطابق " ہماری جانب سے ان کے جرم کی تفتیش کے بعد دو امریکی صحافیوں کے خلاف مقدمہ چلائے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔"

اس سے قبل سرکاری ذرائع ابلاغ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ صحافیوں پر ملک دشمنی اور ملک میں غیر قانونی داخلے کے تحت مقدمہ چلائے گی۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق اگر یہ خواتین قصوروار ثابت ہو جاتی ہیں تو ان ہیں کم از کم پانچ برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق ایسا مانا جا رہا ہے کہ یہ صحافی چین کی سرحد کی طرف تھیں جب شمالی کوریا کے گارڈز نے انہيں گرفتار کر لیا اور انہیں شمالی کوریا لے گئے، حالانکہ شمال کوریا اس کی تردید کرتا ہے۔

اس وقت یہ صحافی کمیونسٹ شمالی کوریا سے بھاگنے والے پناہ گزینوں سے متعلق ایک سٹوری پر کام کر رہیں تھی۔

یہ واقعہ ایک ایسے وقت پہ ہوا ہے جب شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔ یہ کشیدگی شمالی کوریا کے اس اعلان سے متعلق ہے کہ وہ آٹھ اپریل کو خلا میں ایک سیٹلائٹ چھوڑے گا۔ شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ یہ ایک مواصلاتی سیٹلائٹ ہے لیکن کچھ دفاعی مبصرین نے اس شک کا اظہار کیا ہے کہ در اصل کمیونسٹ حکومت والا ملک دور مار میزائل کا تجربہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ اور خطے کے کئی ممالک نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

شمالی کوریا نے حال میں اپنی فوج کو مکمل جنگی تیاری کا حکم دیا تھا اور جنوبی کوریا کے ساتھ سرحد کو بھی بند کر دیا تھا۔
bbe

دنیا میں ہر سال پچاس لاکھ افراد کو سانپ ڈس لیتے ہیں

Posted by Anonymous on 9:22 PM
دنیا بھرمیں ہر سال پچاس لاکھ افراد ، جن میں سے بیشترایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں، سانپ کے کاٹے کا شکار ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ہزاروں ہلاک ہو جاتے ہیں یا مستقل طور پرمعذور ہو جاتے ہیں ۔ غریب ملکوں میں زہر کے علاج کی ادویات کی قلت کے باعث بے شمار کاشتکار، نوجوان اور بچوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے

فلپائن میں لیری بولیندی ، زہریلے سانپوں کو بڑی مہارت کےساتھ پکڑنے کی وجہ سے کوبرا کنگ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان سےاکثر علاقےکےکاشتکار، اپنے کھیتوں سے،کوبرا سانپوں کو پکڑنے کی درخواست کرتے رہتے ہیں۔

آج بلیدی کو اس کاشتکار نے بلایا ہے جس نے اپنے کھیت میں دو سانپ دیکھے تھے۔ اگر اسے کوبرا کاٹ لیتا تو وہ فوراً ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ فلپائن کے اکثر دیہی علاقوں سے اسپتال بہت دور ہیں اور اکثراوقات تو وہاں پر زہرکے کاٹے کی دوائی موجود ہی نہیں ہوتی ۔ بلیدی کہتے ہیں کہ کاشت کار ہمیں اپنے کھیتوں سےسانپ ختم کرنے کے لیے کہتے ہیں کیوں کہ یہ ان کی جانوں کے لیے خطرہ ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال لگ بھگ پچاس لاکھ افرادسانپ کے کاٹے کا نشانہ بنتے ہیں۔ان میں سے تقریباً دو لاکھ افراد ہلاک اور لگ بھگ چار لاکھ اپنے ہاتھ پاؤں سے محروم ہو جاتے ہیں ۔بیشتر متاثرہ افراد کاتعلق افریقہ اور ایشیا کے ترقی پذیر ملکوں سے ہوتا ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کے سانپ کے کاٹے سے زیادہ تر افراد جن میں بچے بھی شامل ہیں ،اس لیے ہلاک ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ ، طبی مراکز سے بہت دور ہوتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں زہر کے کاٹے کی دوائیوں قلت ہے۔

ڈاکٹر وسیتھ سیت پریجا بنکاک میں عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے کام کرنے والے زہریلے سانپ کے علاج اور ریسرچ کےایک مرکزکے انچارج ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زہر کے کاٹے کی مہنگی دوا تیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غریب ممالک مثلاً کمبوڈیا اوربرما، ان ادویات کی مناسب مقدار حاصل کرنے سے محروم رہ سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا عزم ہے اور جہاں تک صحت کے عالمی ادارے کا تعلق ہے تو ہمیں زہر کے کاٹے کی دوا فراہم کرنا ہے ۔ وہ ہم سے گاہے گاہے اس کی درخواست کرتے ہیں لیکن ہم ابھی تک ان کے پورے ملک کو یہ دوا فراہم نہیں کر پا رہے۔

ڈاکٹر وسیتھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ زہر کے کاٹے کی بڑے پیمانے پر تیار کی جاسکنے والی دوسری طرح ادویات ، اکثر اوقات کچھ مخصوص علاقوں کے سانپوں کے زہر ہی سے تیار کی جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ان سانپوں میں کچھ مشترکہ زہریلے اجزا ہو سکتے ہیں لیکن ان کے حیاتیاتی اثرات مختلف ہوتے ہیں ۔اس کا انحصار ماحول، جنیٹکس اور ان کی خوراک پر ہوتاہے۔

اس کامطلب یہ ہے کہ فلپائن میں کوبرا سانپ کے کاٹے کے لیےجودوا کارگر ہوتی ہے ممکن ہے وہ مغربی افریقہ میں اسی طرح کےکسی سانپ کے کاٹے کے لیے کام نہ دے۔

بنکاک میں کھیتوں میں جانے والے بچوں کو مختلف قسم کے سانپوں کا سامنا ہوتا ہے۔ چنانچہ انہیں سانپوں کے بارے میں تریبت دی جاتی ہے۔ انہیں یہ علم ہوجاتا ہےکہ زیادہ تر سانپ حادثاتی طورپر کاٹتے ہیں ، اور انہیں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ سانپوں کے کاٹے سے کس طرح بچا جا سکتاہے مثلاً یہ کہ ربڑکے جوتے پہن کر۔

ماہرین کہتے ہیں کہ سانپوں کے کاٹے سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں کمی لانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس سے بچاؤ کے طریقوں پر عمل کیا جائے اور اس بارے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جائیں۔
بشکریہ وی ای اے

عالمی حدت کے اثرات: قطبین پر سزہ اگنے لگا

Posted by Anonymous on 11:44 PM

قطب جنوبی یا اینٹارکٹک کے جزیرہ نما پر اگر آپ قدم رکھیں تو آپ کو اپنی توقعات کے مطابق برف دکھائی نہیں دے گی۔ درحقیقت یہاں کی پتھریلی زمین کا بیشتر حصہ برف سے پاک ہے۔ روس کے بیلنگ ہاوسن سٹیشن کے ڈاکٹرمیخائل اندریو کے مطابق سیاہ، بھورے اور سفید رنگوں بھرے اس منظر میں کہیں کہیں سے سبزہ بھی جھانکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں پودے بہت کم دیکھنے میں آتے تھے۔ لیکن اب ہمیں یہ ہر جگہ نظر آنے لگے ہیں اور ایک جگہ تو گھاس ہی گھا س ہے۔

چیمپ سیا انٹارکٹکا نامی کائی جیسے پودے یہاں پہلے نہیں پائے جاتے تھے۔ لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے موسمی حالات کی وجہ سے نہ صرف یہ پودے یہاں زیادہ مقدار میں پھلنے پھولنے لگے ہیں، بلکہ ان کی وجہ سے یہاں کے مقامی پودوں کو بھی خطرہ ہے۔ سائنس دان پودوں کی ان نئی اقسام کو قطب جنوبی کودرپیش ماحولیاتی مسائل کی نشانی قرار دے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب یہاں کا موسم بے انتہا خشک تھا، لیکن سالہا سال یہاں کی ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب یہاں بارش نہیں ہوا کرتی تھی، صرف برف باری کے ذریعے بادل اپنی نمی کا بوجھ ہلکا کرتے تھے۔ لیکن ہوزے مڈیئروس کہتے ہیں کہ اب یہاں تقریبا روزانہ بارش ہوتی ہےجو بیس برس پہلےنہیں ہوا کرتی تھی۔

قطب جنوبی میں موجود 60 سائنسی تجرباتی اداروں کی تحقیقات میں موسمی تبدیلیاں سر فہرست ہیں۔ تھائیس سینٹوز جیسے سائنسدان روزانہ گلوبل وارمنگ کے نتائج پر معلومات اکھٹی کرنے کے لیے تجربات کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں ہم الٹرا وائلٹ ریڈیشن پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ اس کے اثرات کے بارے میں زیادہ بہتر طورپر جان سکیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قطب جنوبی پر اوزون کی تہہ کمزور ہے جس کی وجہ سے یہاں موسمی تبدیلیاں زیادہ شدت اختیار کر تی ہیں۔ فرنچ پولر انسٹٹیوٹ کے یوز فرنو کہتے ہیں کہ اسی لیے سائنسدانوں کو زیادہ ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ 50 برسوں میں اینٹارکٹک کے جزیرہ نما کے درجہ حرارت میں 2 یا 3 ڈگری کا اضافہ ہوا ہے۔ موسمی لحاظ سے اسے ایک بہت بڑی تبدیلی تصور کیا جاتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے کسی اور خطے میں اس قسم کا اضافہ ہزاروں سال کےوقفے میں پیش آتا ہے۔ چلی کی اینٹارکٹک انسٹٹیوٹ کے ہوزے ریٹامالیز کہتے ہیں کہ اینٹارکٹک کے جزیرہ نما پر موسمی تبدیلیوں کے ثبوت نمایاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چند ہی ہفتوں میں برف کا ایک بڑا تودا پانی میں پگھل کر غائب ہو جائے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ درجہ حرارت میں چھوٹی سی تبدیلی کے نتائج بھی بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔


فرنو کا کہنا ہے کہ یہاں موسمی حالات میں پیش آنے والی تبدیلیاں دنیا بھر کے مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قطب جنوبی اور قطب شمالی کے خطے عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں کے مستقبل کی عکاسی کرتی ہیں۔ جو تبدیلیاں یہاں پیش آرہی ہیں، ان کی وجہ سے عالمی سطح پر موسم متاثر ہو سکتا ہے۔

سائنسدان اس علاقے میں موسم پر کڑی نظر اس لیے بھی رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں پیش آنے والی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ دنیا کے دیگر خطوں کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں گے۔ اور ان تبدیلیوں کو روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی تشکیل دے سکیں گے۔


بشکریہ وی ای اے

انٹارکٹکا پر 46 ملکوں کے سائنس دان مل کر تحقیق کررہے ہیں

Posted by Anonymous on 11:41 PM

براعظم قطب جنوبی جو عام طورپر انٹارکٹکا کے نام سے جانا جاتا ہے، سائنس دانوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں پر مختلف حوالوں سے سائنسی تحقیقات جاری رہتی ہیں۔ 50 برس قبل ہونے والے ایک معاہدے کے تحت وہاں ریسرچ کرنے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تحقیق سے ایک دوسرے کو آگاہ رکھیں۔ان دنوں امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں اس معاہدے میں شریک ممالک اور ان کے ماہرین کی کانفرنس ہورہی ہے جس کا ایک اہم مقصد سائنسی تحقیق میں تعاون کو مزید مربوط کرنا بھی ہے۔

انٹارکٹکا میں کنگ جارج آئی لینڈ پر فیراز ریسرچ اسٹیشن سرکاری طور پر برازیل کا علاقہ ہے لیکن یہاں مختلف ملکوں کے سائنسدان مشترکہ طور پر تحقیق و تجربات کرتے ہیں ۔ روس کے بیلنگس ہاسن اسٹیشن پربھی اسی طرح ہی کام ہوتاہے۔ اسٹیشن کے سر براہ الیکزینڈر اروپ کہتے ہیں کہ یہ اشتراک بہت ضروری ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم اس بر اعظم پر صرف اکٹھے کام کر کے ہی سائنسی مواد کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور اسے اکٹھاکر سکتے ہیں۔

انٹارکٹکا پر سائنسدان اپنے پراجیکٹس پر سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے کام کررہے ہیں اور یہ تعاون بر اعظم کے انتظام سے متعلق معاہدے میں تحریر ہے اور اس انتہائی سرد اور الگ تھلک ماحول میں مختلف پراجیکٹس پر مل کر کام کرنے سے وقت اور پیسے کی بچت ہو سکتی ہے ۔

نیشنل انٹارکٹک پروگراموں کی کونسل آف مینیجرز کے اینٹوئن گوچرڈ کہتے ہیں کہ موجودہ مالیاتی بحران میں ایسا کرنا اور بھی اہم ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اتنا مہنگا کام ہے کہ اگر آپ ایک دوسرے کی مدد نہ کریں تو آپ اسے انجام نہیں دے سکتے ۔ اور اب جب کہ انٹارکٹک سائنس گلوبل سائنس بن چکی ہے اور یہ آگہی بڑھ چکی ہے کہ پوری دینا کس طرح کام کر سکتی ہے تو اس لیے اب یہ انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ سب مل کر کام کریں۔

انٹارکٹکا میں کوئی اسٹیشن قائم کرنے پر بہت لاگت آسکتی ہے اوراس کے لیے بجٹ بھی زیادہ نہیں ہوتا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کسی بھی تحقیقی مرکز کےلیے مجموعی آپریشنز پر آنے والی لاگت میں ایندھن کا خرچ سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔

2008 میں ایندھن کی قیمت میں ساٹھ سے ستر فیصد ااضافہ ہو گیا تھا۔

چلی کے انٹارکٹک پروگرام کے سر براہ ہوزے ریٹامیلس کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے اب مل کرکام کرنا سائنس دانوں کی مجبوری بن گیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کا پروگرام تین سال کا ہوتو اس کے لیے آپ کیا کریں گے ۔بجٹ کی کمی کی صورت میں یقنناً آپ ایک دوسرے سے تعاون کریں گے ۔

اس طرح کا تعاون ان علاقوں میں عیاں ہے جہاں بہت سے مرکز قائم ہیں ۔ جیساکہ جزیرہ نما کنگ جارج جزیرہ ہے۔ یہاں چلی میں ایک ائیر اسٹرپ ہے جو ہمسایہ روسی ریسرچ سنٹر کو انٹر نیٹ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔وہاں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس میں ایک اسٹور ، ہسپتال ہے اور ایک پوسٹ آفس بھی ہے۔ سائنس دانوں کےلیے یہ معمول کی بات ہے کہ اپنا سامان لانے کے اخراجات بچانے کے لیے ہمسایہ اسٹیشنوں سے ساز و سامان ادھار مانگ لیتے ہیں ۔

انٹارکٹک پر اٹلی اور فرانس میں تعاون اس حدتک بڑھ گیا ہے کہ اپنا نیا مشترکہ اسٹیشن قائم کر رہے ہیں ۔ پھر بھی ریٹامیلس کہتے ہیں کہ الگ تھلگ علاقے میں کام کرنا بعض اوقات انسانوں کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات یہ ان کے اپنے ملک کے شہریوں کے درمیان مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ آپ صرف اپنے شعبے پر توجہ دیتے ہیں اور یہ جاننا ضروری نہیں سمجھتے کہ دوسروں کے لیے آپ اور کیا کر سکتے ہیں۔

انٹارکٹک معاہدے پر دستخط ہوئے پچاس برس ہو گئے ہیں ۔ اس معاہدے میں مزید ملکوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ 46 رکن ملک باقاعدگی سے اجلاس کرتے ہیں تاکہ اپنے تحقیقی مراکز کے درمیان مشترکہ کوششیں بر قرار رکھیں اور انکشافات سے ایک دوسرے کو باخبر رکھیں ۔

ابتدا ہی سےبا ضابطہ اور بے ضابطہ دونوں طرح کے نیٹ ورک موجود ہیں تاکہ اطلاعات کا تبادلہ کیا جاتا رہے ۔
انٹارکٹک کی انفرادیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دو دراز علاقہ سائنس دانوں کو عالمی سیاست سے الگ رہنے میں مدد دیتا ہے ۔ ہو سکتاہے کہ ان کے ملک آپس میں دوست نہ ہوں مگر وہ یہاں سائنس کی خاطر ایک دوسرے سے مل کرکام کرتے ہیں ۔

بشکریہ وی ای اے

سخت اذیتوں کی اجازت دینے والےبش انتظامیہ کے افراد پر مقدمات کا امکان موجود ہے؛ اوباما

Posted by Anonymous on 11:38 PM
امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ امریکی اٹارنی جنرل کے ہاتھ میں ہے کہ مشتبہ دہشت گردوں کی تفتیش کے لئے سخت اذیتوں کی اجازت دینے والوں کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں یا نہیں۔

وہائیٹ ہاؤس میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے مسٹر اوباما نے کہا کہ جو لوگ گذشتہ انتظامیہ کے حکم کے تحت ایسے کاموں کے مرتکب ہوئے تھے، میں انہیں سزا دینے کے حق میں نہیں ہوں۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ، یہ فیصلہ کرنا مسٹر ایرک ہولڈر کا کام ہے کہ ان قانونی فیصلوں کے ذمہ افراد پر فرد ِ جرم عاید کی جائے یا نہ کی جائے۔

مسٹر اوباما نے مزید کہا کہ گذشتہ ہفتے سی آئی اے کی دستاویزات کو بر سر عام لانا انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان حکم ناموں میں سخت اذیتوں کی تفصیلات درج تھیں جن میں نیند سے محرومی اور مصنوعی ڈبکیاں لگوانا شامل تھا اور ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے اخلاقی ضابطوں سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔

ادھر پیر کی رات سابق نائب صدر ڈک چینی نے ان حربوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان سے بڑی فائدہ مند معلومات حاصل ہوئیں۔

مسٹر اوباما کا کہنا ہے کہ ایسے ہتھکنڈوں سے ہمارے ضابطہٴ اخلاق پر زد پڑتی ہے اور ہماری سلامتی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔

بشکریہ وی ای اے

نظامِ شمسی سے باہر نیا سیارہ دریافت کر لیا گیا

Posted by Anonymous on 11:35 PM


ماہرینِ فلکیات نے نظامِ شمسی سے باہر اب تک دریافت ہونے والا سب سے چھوٹا سیارہ دریافت کر لیا ہے۔ یہ سیارہ زمین سے صرف دوگنا بڑا ہے۔ یہ انکشاف منگل کے روز انگلستان میں ہونے والی ایک خلائی کانفرنس میں کیا گیا۔

یہ سیارہ Gliese ستارے کے گرد چکر لگاتا ہے اور اس کا فاصلہ زمین سے ساڑھے20 نوری سال ہے۔ واضح رہے کہ ایک نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے، جب کہ روشنی کی رفتار تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔

اس سے پہلے سائنس دانوں نے اسی سیارے کے گرد گھومنے والے چار سیارے دریافت کیے تھے۔

ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ غالباً یہ سیارہ انسانی زندگی کے لیے بہت زیادہ گرم ہے کیوں کہ یہ اپنے ستارے سے بہت قریب ہے، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اسی نظام میں کوئی اور سیارہ قابلِ رہائش ہو سکتا ہے۔

یہ دریافت چلی میں واقع دوربین کے ذریعے کی گئی۔

عراق میں جنگ اور تشدد سے دس لاکھ سے زیادہ خواتین بیوہ ہوئیں

Posted by Anonymous on 11:13 PM

عراق میں انسانی حقوق کی وزیر کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت خواتین کے حقوق کی صورت حال بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ واشنگٹن میں ایک گفتگو کے دوران عراقی وزیر وجدان میخائل سلیم نے کہا کہ جنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کو روزگار کی فراہمی مزید مدد کی ضرورت ہے۔ عراق میں جنگ اور تشدد کی وجہ سے لاکھوں عراقی جاں بحق اور سینکڑوں خواتین بیوہ، اور بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ اندازوں کے مطابق عراق میں جنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کی تعداد 10 سے 30 لاکھ ہے۔ بہت سی خواتین کو حکومت کی طرف سے مالی امداد ملتی ہے، لیکن اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ امداد نا کافی ہے اور بہت سی خواتین کو گزر اوقات کے لیے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ ثنا حسن کو بھی حکومت کی جانب سے مالی امداد ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر 2006 کے ہنگاموں میں ہلاک ہو گئے تھے۔ میرے چار بچے ہیں اور میرے شوہر کی ایک دوسری بیوی سے بھی اولاد ہے۔ ہم سب مالی حالات کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ ایک دن میرا بیٹا اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے جانا چاہتا تھا، لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ حالات میں ابھی بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے شاید اسی وجہ سےپچھلے سال دسمبر میں ایک عراقی صحافی نے عراق کے یتموں اور بیواوں کا بدلہ لینے کی خاطر امریکی صدر کو جوتے مارنے کی کوشش کی۔ عراق کی وزیر برائے انسانی حقوق کہتی ہیں کہ یہ مسائل صرف حکومت کی امداد سے ہی حل نہیں کیے جا سکتے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ان کے لیے روزگارکے ذرائع پیدا کرنے چاہیں۔ ہر مہینے کچھ رقم دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ واشنگٹن میں بات کرتے ہوئے منسٹر وجدان سلیم نے کہا کہ عراقی روایات خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں تعلیم پر جتنا زور دیا جائے، کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دو کام کرنے ہیں۔ سب سے پہلے تو خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کرنی ہے۔ اور مردوں کو بھی خواتین کے حقوق کے بارے میں بتانا ہے۔ تاکہ خواتین ہمارے معاشرے میں اپنی جگہ لے سکیں۔ سال کے شروع میں خواتین کے امور کی وفاقی وزیر نے صرف چھ ماہ کے بعد استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بیواوں کی مدد کرنے کے لیے عراقی حکومت کو مزید ذرائع مہیا کرنے ہوں گے۔ سابق وزیر نوال الثمری کا کہنا تھا کہ 30 لاکھ خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر ان پڑھ ہیں۔ ان کے مالی حالات بہت خراب ہیں۔ بیشر خواتین اور ان کے بچوں کے سر پر چھت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق میں جنگ کی وجہ سے بیوہ ہونے والی خواتین کی مددکے لیے حکومت کو وزیر نامزد کرنے کے بجائے با ضابطہ وزارت قائم کرنی چاہیے۔ عراق میں انسانی حقوق کی وزیر کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت خواتین کے حقوق کی صورت حال بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ واشنگٹن میں ایک گفتگو کے دوران عراقی وزیر وجدان میخائل سلیم نے کہا کہ جنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کو روزگار کی فراہمی مزید مدد کی ضرورت ہے۔ عراق میں جنگ اور تشدد کی وجہ سے لاکھوں عراقی جاں بحق اور سینکڑوں خواتین بیوہ، اور بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ اندازوں کے مطابق عراق میں جنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کی تعداد 10 سے 30 لاکھ ہے۔ بہت سی خواتین کو حکومت کی طرف سے مالی امداد ملتی ہے، لیکن اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ امداد نا کافی ہے اور بہت سی خواتین کو گزر اوقات کے لیے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ ثنا حسن کو بھی حکومت کی جانب سے مالی امداد ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر 2006 کے ہنگاموں میں ہلاک ہو گئے تھے۔ میرے چار بچے ہیں اور میرے شوہر کی ایک دوسری بیوی سے بھی اولاد ہے۔ ہم سب مالی حالات کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ ایک دن میرا بیٹا اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے جانا چاہتا تھا، لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ حالات میں ابھی بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے شاید اسی وجہ سےپچھلے سال دسمبر میں ایک عراقی صحافی نے عراق کے یتموں اور بیواوں کا بدلہ لینے کی خاطر امریکی صدر کو جوتے مارنے کی کوشش کی۔ عراق کی وزیر برائے انسانی حقوق کہتی ہیں کہ یہ مسائل صرف حکومت کی امداد سے ہی حل نہیں کیے جا سکتے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ان کے لیے روزگارکے ذرائع پیدا کرنے چاہیں۔ ہر مہینے کچھ رقم دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ واشنگٹن میں بات کرتے ہوئے منسٹر وجدان سلیم نے کہا کہ عراقی روایات خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں تعلیم پر جتنا زور دیا جائے، کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دو کام کرنے ہیں۔ سب سے پہلے تو خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کرنی ہے۔ اور مردوں کو بھی خواتین کے حقوق کے بارے میں بتانا ہے۔ تاکہ خواتین ہمارے معاشرے میں اپنی جگہ لے سکیں۔ سال کے شروع میں خواتین کے امور کی وفاقی وزیر نے صرف چھ ماہ کے بعد استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بیواوں کی مدد کرنے کے لیے عراقی حکومت کو مزید ذرائع مہیا کرنے ہوں گے۔ سابق وزیر نوال الثمری کا کہنا تھا کہ 30 لاکھ خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر ان پڑھ ہیں۔ ان کے مالی حالات بہت خراب ہیں۔ بیشر خواتین اور ان کے بچوں کے سر پر چھت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق میں جنگ کی وجہ سے بیوہ ہونے والی خواتین کی مددکے لیے حکومت کو وزیر نامزد کرنے کے بجائے با ضابطہ وزارت قائم کرنی چاہیے۔ بشکریہ وی ای اے