لاپتہ افراد کے مقدمات کی دوبارہ سماعت ہوگی

Posted by Anonymous on 11:17 AM

قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جاوید اقبال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ لاپتہ افرادکی بازیابی کے لیے مقدمے کی سماعت ضرور کرے گی اور اس سلسلے میں پہلے ہی ایک کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے۔جمعرات کے روز قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کمیٹی لاپتہ افراد کی صحیح تعداد معلوم کرنے کے حوالے سے کام کررہی ہے۔قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جاوید اقبال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ لاپتہ افرادکی بازیابی کے لیے مقدمے کی سماعت ضرور کرے گی اور اس سلسلے میں پہلے ہی ایک کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے۔جمعرات کے روز قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کمیٹی لاپتہ افراد کی صحیح تعداد معلوم کرنے کے حوالے سے کام کررہی ہے۔
جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ماضی میں انھوں نے لاپتہ افرادکے مقدمات کی سماعت کے لیے تین مرتبہ بنچ کی سربراہی کی اور اس دوران 101لاپتہ لوگوں کو بازیاب کرایا گیا۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو جلد نمٹانے کے معاملے پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اس سلسلے میں ہفتے کے روز ایک اجلاس ہورہا ہے جس میں ملک بھر سے چیف جسٹس صاحبان شرکت کررہے ہیں جو اس بات پر غور کریں گے کہ کس طرح مقدمات کے انبار کو کم کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مقدمات کے جلد نمٹائے جانے کے سلسلے میں دن رات کام کررہے ہیں اور اس سلسلے میں حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے ہی انہوں نے یہ اجلاس طلب کیا ہے۔جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ قانونی چارہ جوئی کے عمل کو آسان بنایا جائے اور مزید ججوں کی میرٹ پر تقرریاں کی جائیں جو پوری قابلیت سے اپنے فرائض سرانجام دیں۔
لاپتہ افراد کے لواحقینقائم مقام چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے صرف عدلیہ ہی کو نہیں بلکہ قوم کے ہر فرد کو دیانتداری سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ان کے بقول اس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دی جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آج اگر عدلیہ میں کرپشن موجود ہے تو اس کی ذمے داری صرف عدالتی اہلکاروں پر نہیں بلکہ بحیثیت قوم ان سب پر ہے جو قانونی منہ شگافیوں کے مرتکب ہوئے۔
اس سے قبل جسٹس جاوید اقبال سے جسٹس محمد رضا خان نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف لیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں ہیں۔
واضح رہے کہ لاپتہ افراد کے رشتے دار ان کی بازیابی کے حوالے سے سپریم کورٹ سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ لاپتہ افراد کے رشتے داروں کے مطابق ان کے پیاروں کو ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے مختلف الزامات پر غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ الزامات درست ہیں تو ان افراد کو عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔
جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ماضی میں انھوں نے لاپتہ افرادکے مقدمات کی سماعت کے لیے تین مرتبہ بنچ کی سربراہی کی اور اس دوران 101لاپتہ لوگوں کو بازیاب کرایا گیا۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو جلد نمٹانے کے معاملے پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اس سلسلے میں ہفتے کے روز ایک اجلاس ہورہا ہے جس میں ملک بھر سے چیف جسٹس صاحبان شرکت کررہے ہیں جو اس بات پر غور کریں گے کہ کس طرح مقدمات کے انبار کو کم کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مقدمات کے جلد نمٹائے جانے کے سلسلے میں دن رات کام کررہے ہیں اور اس سلسلے میں حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے ہی انہوں نے یہ اجلاس طلب کیا ہے۔جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ قانونی چارہ جوئی کے عمل کو آسان بنایا جائے اور مزید ججوں کی میرٹ پر تقرریاں کی جائیں جو پوری قابلیت سے اپنے فرائض سرانجام دیں۔
لاپتہ افراد کے لواحقینقائم مقام چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے صرف عدلیہ ہی کو نہیں بلکہ قوم کے ہر فرد کو دیانتداری سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ان کے بقول اس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دی جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آج اگر عدلیہ میں کرپشن موجود ہے تو اس کی ذمے داری صرف عدالتی اہلکاروں پر نہیں بلکہ بحیثیت قوم ان سب پر ہے جو قانونی منہ شگافیوں کے مرتکب ہوئے۔
اس سے قبل جسٹس جاوید اقبال سے جسٹس محمد رضا خان نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف لیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں ہیں۔
واضح رہے کہ لاپتہ افراد کے رشتے دار ان کی بازیابی کے حوالے سے سپریم کورٹ سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ لاپتہ افراد کے رشتے داروں کے مطابق ان کے پیاروں کو ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے مختلف الزامات پر غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ الزامات درست ہیں تو ان افراد کو عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔
بشکریہ وی او اے