پانچ سوگیگا بائٹ کی ڈسک تیار

Posted by Anonymous on 8:55 PM




امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک نے ایک ایسی ڈسک تیار کرنے کا دعوٰی کیا ہے جس پر پانچ سو گیگا بائٹ یا سو ڈی وی ڈیز کے برابر ڈیٹا محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

اس مائیکرو ہولوگرافک ڈسک کا حجم ایک عام ڈی وی ڈی کے برابر ہے اور اسے بنیادی طور پر ’آرکائیو‘ مقاصد کے تیار کیا گیا ہے۔

تاہم امریکی کمپنی کا ماننا ہے کہ عام کمپیوٹر صارفین بھی یہ ڈسک استعمال کریں گے۔ اس وقت ہائی ڈیفینیشن فلموں اور گیمز کے لیے مارکیٹ میں موجود بلیو رے ڈسکس پر پچیس سے پچاس گیگا بائٹ ڈیٹا محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

مائیکرو ہولوگرافک ڈسکس ایک عام ڈی وی ڈی یا بلیو رے ڈسک کے مقابلے میں زیادہ ڈیٹا اس لیے محفوظ کر پاتی ہیں کیونکہ ان پر معلومات سہ رخی انداز میں محفوظ ہوتی ہیں۔

مائیکرو ہولوگرافک ڈسکس ایک عام ڈی وی ڈی یا بلیو رے ڈسک کے مقابلے میں زیادہ ڈیٹا اس لیے محفوظ کر پاتی ہیں کیونکہ ان پر معلومات سہ رخی انداز میں محفوظ ہوتی ہیں۔جنرل الیکٹرک کے برائن لارنس کے مطابق ’حال ہی میں جنرل الیکٹرک ٹیم نے ایسے عناصر کی تیاری کے حوالے سے ڈرامائی کامیابی حاصل کی ہے جن کی مدد سے ہولوگرامز سے منعکس ہونے والی روشنی کی مقدار میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے‘۔ خیال رہے کہ ڈسک پر ڈیٹا محفوظ کرنے کی صلاحیت کا دارومدار ہولوگرام سے روشنی کے انعکاس پر ہوتا ہے۔

اب جنرل الیکٹرک کو ڈسک پلیئرز بنانے والی کمپنیوں سے رابطہ کرنا ہو گا تاکہ یہ ڈسک چلانے کے لیے مشین تیار کی جا سکے۔ کمپنی کے مطابق اس ڈسک کو چلانے کے لیے جن ہولوگرافک پلیئرز کی ضرورت ہوگی ان پر باآسانی سی ڈی، ڈی وی ڈی اور بلیو رے ڈسک بھی چلائی جا سکے گی اور یہی اس نئی ڈسک کی مقبولیت کی اہم وجہ بن سکتی ہے
bbc۔

اوبامہ کی باحجاب مشیر

Posted by Anonymous on 8:54 PM




امریکی تاریخ میں پہلی بار وائٹ ہاؤس میں ایک مسلمان خاتون کو مذاہب پر مشاورت کی کونسل کا رکن مقرر کیا گیا ہے جسے امریکی میڈیا کا ایک حصہ امریکی صدر کے مشیروں میں پہلی ححاب اوڑھنے والی خاتون کی شمولیت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

امریکی صدر براک اوبامہ کی بیورو آف ریلیجن اینڈ نیبرہوڈ پارٹنرشپس کی پچیس رکنی کونسل میں شامل کی گئي مصری نژاد امریکی خاتون کا نام دالیہ مجاہد ہے جن کا خاندان تیس برس قبل مصر سے آ کر امریکہ میں آباد ہوا تھا۔

دالیہ مجاہد معرف سرویئرز اور تحقیقی ادارے گیلپ کے اسلامک سٹڈیز سینٹر کی سربراہ ہیں اور امریکی میڈیا خاص طور الیکٹرانک میڈیا اور تھنک ٹینکس میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں معتدل لیکن مدلل بات چیت کے بار ے میں جانی جاتی ہیں۔ حال ہی میں ان کی پینتیس مسلم ممالک میں تحقیق و جائزے پر مبنی کتاب ’ہو سپیکس فار مسلمز؟‘ یا ’مسلمانوں کیلیے کون بولے گا‘ کے عنوان سے شائع ہوئي ہے۔

مصری اخبار 'الااہرام‘ کے نیویارک میں نمائندے اور مصری و عرب سماجیات کے تجزیہ نگار طارق فتی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دالیہ مجاہد کی وائٹ ہاؤس میں تقرری نہ صرف ایک اہم واقعہ ہے بلکہ ان کی تقرری اس امر کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ مسلمانوں کے مسائل میں موجودہ امریکی انتظامیہ کتنی دلچسپی لے رہی ہے۔ طارق قتی کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ دالیہ مجاہد کا اصل کام امریکہ کو عالمی اور مقامی سطح پر دنیا اور امریکہ کے عام مسلمانوں کے مسائل اور حالات پر واقف حال کرنا ہے جیسے بقول دالیہ مجاہد 'گيارہ ستمبر کے بعد مسمانوں کو مصبیت بنا کر پیش کیا گيا ہے‘۔

خیال رہے کہ صدر اوبامہ کی انتظامیہ اور مشیروں میں دالیہ پہلی مسمان نہیں ہیں بلکہ مسلم امور پر مشاورت کیلیے صدر اوبامہ کی انتظامیہ میں اور بھی مسلمان مشیر شامل ہیں جن میں امریکی صدر کے افغانستان اور پاکستان پر مشیر رچرڈ ہالبروک کی ٹیم میں شامل مشہور محقق و عالم ڈاکٹر ولی نصر بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر ولی نصر کا تعلق ایران سے ہے او وہ ہمعصر اسلامی تاریخ اور سماجیات و سیاسات پر اتھارٹی مانے جاتے ہیں
bbc۔

آئی سی ایل: کھلاڑیوں پر سے پابندی ختم

Posted by Anonymous on 8:51 PM




بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ یعنی بی سی سی آئی نے انڈین کرکٹ لیگ یعنی آئی سی ایل کے کھلاڑیوں پر عائد پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن بورڈ نے یہ بھی کہا ہے آئی سی ایل کھیلنے والے کھلاڑيوں کو اس لیگ کے ساتھ اپنے رشتے ختم کرنے ہوں گے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئي کے مطابق ہندوستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے صدر ششانک منوہر نے کہا کہ یہ فیصلہ بعض کھلاڑیوں کی جانب سے اس اعتراف کے بعد کیا گیا ہے کہ باغی لیگ میں شامل ہوکر ان سے غلطی سرزد ہوئی تھی۔

ممبئی میں بی سی سی آئی کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد ششانک منوہر نے صحافیوں سے بتایا ’ہم نے آئی سی ایل کے کھلاڑیوں کو معاف کرنے اور بی سی سی آئی میں ان کی واپسی کا خیرمقدم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

لیکن پابندی ختم کرنے کا فیصلہ غیر مشروط نہیں ہے۔ کھلاڑیوں کو اکتیس مئی تک انڈین کرکٹ لیگ سے وابستگی ختم کرنی ہوگی اور وہ ایک سال تک کوئی بین الاقوامی میچ میں نہیں کھیل پائیں گے۔ تاہم وہ ڈومیسٹک یعنی گھریلو کرکٹ میں فوری طور پر شرکت کر سکیں گے۔

آئی سی ایل سے کئی بڑے ستارے جڑے ہوئے ہیں جن میں برائن لارا، انضمام الحق اور شین بانڈ شامل ہیں۔

انڈین کرکٹ بورڈ نے آئی سی ایل کے وجود میں آنے کے بعد ہی انڈین پریمیر لیگ کا اعلان کیا تھا اور باغی لیگ سے وابستگی رکھنے والے کھلاڑیوں پر پابندی لگا دی تھی۔

آئی سی ایل نے کپل دیو کو اپنی مجلس عاملہ کا چئرمین بنایا تھا
bbc۔

امریکہ میں بے روزگاری کی شرح ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی

Posted by Anonymous on 8:47 PM

عالمی اقتصادی بحران کے اثرات یوں تو دنیا کے اکثر ملکوں میں محسوس کیے جارہے ہیں لیکن امریکی معیشت اس کا بطور خاص ہدف بنی ہوئی ہے۔ تازہ ترین معاشی جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں بے روزگاری کی سطح کئی عشروں کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس وقت یہ شرح ساڑھے آٹھ فی صد ہے اور اقتصادی ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اس میں مزید اضافے کا امکان موجود ہے۔ سرکاری اعداد وشمار میں کہا گیا ہے کہ بے روزگاری الاؤنس وصول کرنے والوں کی تعداد گذشتہ 26 برس میں سب سے اونچی ہے اور یہ سطح گذشتہ 10 ہفتوں سے نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں اضافہ ہورہاہے۔

دسمبر2007 سے، جب سے کسادبازاری کا آغاز ہواہے، امریکہ میں اب تک 50 لاکھ سے زیادہ افراد اپنے روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔ صرف پچھلے ماہ کے دوران 6 لاکھ63 ہزار افراد بے روزگار ہوئے۔ کانگریس کی رکن کیرولین میلونی جو جوائنٹ اکنامک کمیٹی کی چیئر پرسن ہیں کہتی ہیں کہ ہر ماہ اوسطاً 6 لاکھ 67 ہزار افراد بے روزگار ہورہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وال اسٹریٹ اسٹاک مارکیٹ میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے جس کے مارکیٹ پر مثبت نتائج ظاہر ہوں گے۔

اس کے ساتھ گذشتہ ہفتے جی ٹونٹی ممالک کے راہنماؤں کی جانب سے عالمی معاشی بحران کو حل کرنے کی یقین دہانی کے بھی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ماہر معاشیات فریڈ بریگسٹن کا خیال ہے کہ اگر کوئی غیر متوقع واقعہ رونما نہ ہوا تو عالمی کساد بازاری جلد ختم ہوجانی چاہیے۔

تاہم بے روزگار ہونے والوں کو مثبت تبدیلیوں کی باتیں کھوکھلی لگتی ہیں ۔ بے روزگار ہونے والے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ یہاں ایسے خاندان بھی ہیں جن میں میاں بیوی دونوں ہی بے روزگار ہوگئے ہیں اوراب ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

ملبوسات تیار کرنے کے ایک برانڈ ادارے سے وابستہ وکی کا کہنا ہے کہ بینکوں میں آنے والے مالیاتی بحران کے باعث انہوں نے قرضوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے جس کی وجہ سے کارباروی اور صنعتی کمپنیاں مالی مشکلات کا شکار ہوگئی ہیں اور ان کے لیے اپنا کاروبار جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا جس کی وجہ سے کارکن بے روزگار ہورہے ہیں۔

یارک کاؤنٹی میں ایک امدادی ادارے کے ساتھ کام کرنے والے کونسلر ایلن وین سلوٹ کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ملازمت تلاش کرنا آسان نہیں ہے مگر کچھ شعبوں میں جیسے کہ صحت عامہ کا شعبہ، وہاں پر بہرحال مواقع موجود ہیں
thanks for voa۔

کراچی میں صرف پانچ فیصد خواتین کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی

Posted by Anonymous on 8:39 PM

ایک صحت مند معاشرہ اس وقت تشکیل پاتا ہے جب اس میں رہنے والا ہر فرد متحرک ہو ۔ معاشرے کی فلا ح و بہبود کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی یہ تحریک علم و آگہی ، یکساں مواقع او ر وسائل کے صحیح تعین سے ملتی ہے۔ لیکن پاکستان میں صورتحال مختلف ہے ۔ یہاں تعلیم ترجیحات میں شامل نہیں ۔ معاشی و معاشرتی حدبندیوں کے سبب مواقع محدود ۔ وسائل بے شمار لیکن اخلاص کی قلت اور وژن۔۔۔ ناقص۔ پاکستان کی 51فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن بیشتر تعلیم سے محروم ہونے کے سبب اقتصادی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ دیہی علاقے تو ایک طرف شہری علاقوں میں بھی خواندگی کی صورتحال حوصلہ افزانہیں۔ اس کا بخوبی اندازہ کراچی میں قائم ایک نجی یونی ورسٹی ”اقراء“ کے شعبہ پی ایچ ڈی کی سربراہ ڈاکٹر زائرہ وہاب کی اس تحقیق سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں صرف 5 فیصد خواتین کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی ہے اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی ان میں سے صرف دو فیصد کو روزگار کے مواقع حاصل ہیں۔

اگرچہ ڈاکٹرزائرہ وہاب نے یہ تحقیق 2006 ء میں مرتب کی تھی لیکن وہ ہر سال اسے اپ ڈیٹ کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس دوران کالجوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن کہیں آرٹس ہے تو کہیں کامرس نہیں اور کامرس ہے تو کہیں سائنس نہیں۔ اسٹاف اور ڈپارٹمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی تعلیمی اداروں میں خواتین کی نمائندگی کم و بیش وہی ہے۔


ڈاکٹرزائرہ وہاب

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زائرہ نے اس کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ غربت ، معاشرتی روایات ، بنیاد پرستی ، سماجی رکاوٹیں ، قول و فعل میں تضاف جیسے عناصر سمیت حکومت کی عدم توجہی بھی ایک وجہ ہے۔ بلند و بانگ دعووٴں کے با وجود ہم بحیثیت قوم آج تک یہ تعین ہی نہیں کر سکے کہ ہم اپنی خواتین کو کیسے دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین اعلیٰ تعلیم کے ذریعے ہی اقتصادی آزادی حاصل کر سکتی ہیں لیکن اپنی تحقیق کے دوران میں نے یہ دیکھا کہ اعلیٰ تعلیم ایک خاص طبقے تک ہی محدود ہے اس لیے غریب گھرانے کی لڑکیاں نہ تو اقتصادی طور پر خود مختار ہوتی ہیں اور نہ ان میں انفرادیت ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ پھر نسل در نسل چلتا ہے ۔ جب کہ خوشحال گھرانوں کی خواتین تعلیم کے بعد ملک چھوڑ کے چلی جاتی ہیں یا پھر ان کو کام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور تبدیلی ان کے لیے اتنی معنی بھی نہیں رکھتی ۔ مسئلہ درمیانے اور غریب طبقے کی خواتین کا ہے جنہیں خود انحصار بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ غربت سے لڑ سکیں۔

جامعات میں خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مختلف شعبوں میں تیزی سے قدم رکھتی خواتین کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے پبلک سیکٹر میں واحد ادارہ جامعہ کراچی ہے۔ وہاں خواتین کی نمائندگی مردوں سے زیادہ ہے مگر غریب طبقے کی خواتین وہاں بھی نہیں۔ دوسرا وہاں بیشتر خواتین سوشل سائنسز سے منسلک ہیں اور مارکیٹ میں ان کے لیے کوئی جاب نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین مسابقتی میدانوں میں نہیں آتیں جیسا کہ منجمنٹ سائنسز ، قانون ، انجینئرنگ ۔ ان شعبوں میں آکر درمیانے اور غریب طبقے کی خواتین براہ راست ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔ مگر ان کے لیے مواقع نہیں۔ نجی جامعات میں فیس اتنی زیادہ ہے کہ ادائیگی ان کے بس سے باہر ہے۔



وہ کہتی ہیں کہ بحیثیت قوم ہماری منزل اور مقاصد واضح نہیں ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس مین پاور پلاننگ ہونی چاہیے کہ کس شعبے میں کتنے لوگو ں کی ضرورت ہے اور کون سے لوگ کہاں ہوں۔ وہ جگہیں جہاں خواتین زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں ان کے لیے مخصوص کوٹے مقرر کیے جائیں۔ اگر وسائل نہیں اور لوگ اپنی بیٹیوں کو نہیں بھیجتے تو حکمت عملی مرتب کی جائے ۔

واضح رہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے علاوہ خواتین کو پرائمری کی سطح پر بھی تعلیم کے حصول کے لئے صورتحال حوصلہ افزاء نہیں۔حکومت سندھ کے ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان ایسے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔صرف سندھ میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 50 فیصد ہے جبکہ کچھ علاقوں میں یہ شرح 72 فیصد ہے۔

پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے ڈاکٹر زائرہ کے مطابق میڈیا کا کردار ، مواقع اور لٹریسی ریسورس سینٹر کا قیام بہت اہم ہے۔ بھارت کی صرف ایک ریاست چنائے میں چھبیس ریسورس سینٹر ہیں جہاں نہ صرف بچوں کی کاوٴنسلنگ ہوتی ہے بلکہ ان کے والدین کی بھی جبکہ کراچی میں ہم نے ایک کے بارے میں بھی نہیں سنا ۔ ساتھ ہی یہاں کالجوں میں تعلیم کو ہنر کے ساتھ مشروط کرنا چاہئے تاکہ لوگ تعلیم کی جانب راغب ہوں اورپچاس فیصد ضائع ہونے والے انسانی وسائل سے ملک استفادہ کر سکے ۔