آپ کو اپنی 100 ویں سالگرہ کا کیک کاٹنا یقیناً اچھا لگے گا۔
غالب نے اپنے ایک شعر میں ہزار برس جینے کی دعا دی تھی اور ہر برس بھی ایسا جو 365 کی بجائے 50 ہزار دنوں کا ہو۔
گذشتہ چند عشروں کے دوران طبی شعبے میں ہونے والی ترقی اور صحت و صفائی سے متعلق شعور و آگہی بڑھنے سے انسانی عمر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اکثر ترقی یافتہ ملکوں میں اوسط عمر 75 سال سے زیادہ ہے۔جب کہ جاپان میں 80 سال سے بھی زیادہ ہے۔ہوفنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 100 سال سے زیادہ افراد کی تعدادتین لاکھ 40 ہزار سے زیادہ ہے اور ماہرین کو توقع ہے کہ 2050ء میں یہ تعداد 60 لاکھ سے بڑھ جائے گی۔
سائنسی شعبوں میں ہونے والی ترقی سے جہاں مہلک امراض پر قابو پانے ، طویل عرصے تک صحت مند رہنے اور لمبی مدت تک جینے کی راہ ہموار ہورہی ہے، وہاں اب آنے والے برسوں میں لوگوں کو اپنے بارے میں یہ علم بھی سکے ہوگا کہ وہ کتنے برس زندہ رہیں گے۔ اس سے انہیں اپنی زندگی اور مصروفیات کی منصوبہ بندی کرنے میں مدد ملے گی۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں آنے والے ہر ذی روح کی زندگی کی ساری تفصیلات ایک لوح میں لکھی ہیں۔ اور طبی ماہرین اس لوح کو نام دے رہے ہیں جین کا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہر شخص کے جین میں ، اس کی عادات، بیماریوں کی جانب رجحان اور زندگی کی طوالت کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔
امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی کے پبلک سکول آف پبلک ہیلتھ اور بوسٹن میڈیکل سینٹر میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایک ایسے جین کا پتا لگایا ہے جس کا تعلق زندگی کی طوالت سے ہے ۔
جریدے سائنس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بوسٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ اس جین کی دریافت کے بعد اب ڈاکٹر کسی بھی شخص کے بارے میں یہ زیادہ بہتر طور پر بتاسکیں گے کہ وہ کتنا عرصہ زندہ رہے گا، اور اسے کون سی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔
تحقیق میں شامل ایک سائنس دان ڈاکٹر ٹامس پرلز کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے والدین اپنے بچے کی پیدائش سے کافی پہلے یہ جان سکیں گے کہ صحت کے حوالےسے اس کی زندگی کیسی ہوگی اور وہ اندازاً کتنے برس جیئے گا۔اس سے انہیں اپنے بچے کو جنم دینے یا نہ دینے کے بارے میں فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے گی۔
ایک سو سال سے زیادہ عمر کے افراد پر کی جانے والی یہ تحقیق اپنی نوعیت کی سب سے بڑی ریسرچ تھی، جس میں 100 سال سے زیادہ عمر کے 1055 افراد پر تحقیق کی گئی ۔ڈاکٹرٹامس پرلز کہتے ہیں کہ اس ریسرچ کے دوران انہیں خلیوں کے درمیان ایک ایسےتعلق کا پتاچلا،جو ان کی دراز عمری کاراز تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عمر کی طوالت کا نسلی گروہ سے گہرا تعلق ہے۔ بعض انسانی نسلوں کے افراد طویل عمر پاتے ہیں اور کچھ نسلیں ایسی ہیں جس سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی صحت کی دیکھ بھال کے باوجود لمبا عرصہ نہیں جیتے اور ایک خاص عمر پر پہنچ کر ان کے خلیوں میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہوجاتاہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپانی نسل کے افراد میں عمومی طورپر طویل عمری کا جین پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جاپان میں اوسط عمر 80 سال سے زیادہ ہے۔ جب کہ پاکستان میں یہ اوسط 62 کے قریب اور امریکہ میں 77 سال ہے۔
ڈاکٹر پرلز کا کہنا ہے کہ عمر کی طوالت پر خوراک اور زندگی گذارنے کا انداز بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں شامل 100 سال سے زیادہ عمر کے کئی افراد تمباکو نوشی کرتے تھے، تاہم وہ موٹے نہیں تھے۔ اسی طرح امریکہ کے ایک مذہبی گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد کی اوسط عمریں 88 سال تھیں، یعنی امریکہ بھر میں سب سے زیادہ۔ ڈاکٹر پرلز کہتے ہیں کہ وہ گوشت نہیں کھاتے تھے ، باقاعدگی سے ورزش کرتے تھے ، سگریٹ اور شراب نہیں پیتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر افراد بہت سی وجوہات کی بنا پر اتنی عمر نہیں پاتے، جتنا کہ وہ اپنے جین کے اعتبار سے زندہ رہ سکتے ہیں۔ تاہم وہ اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات بدل کراور صحت کا خیال رکھ کر اپنی عمر میں
غالب نے اپنے ایک شعر میں ہزار برس جینے کی دعا دی تھی اور ہر برس بھی ایسا جو 365 کی بجائے 50 ہزار دنوں کا ہو۔
گذشتہ چند عشروں کے دوران طبی شعبے میں ہونے والی ترقی اور صحت و صفائی سے متعلق شعور و آگہی بڑھنے سے انسانی عمر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اکثر ترقی یافتہ ملکوں میں اوسط عمر 75 سال سے زیادہ ہے۔جب کہ جاپان میں 80 سال سے بھی زیادہ ہے۔ہوفنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 100 سال سے زیادہ افراد کی تعدادتین لاکھ 40 ہزار سے زیادہ ہے اور ماہرین کو توقع ہے کہ 2050ء میں یہ تعداد 60 لاکھ سے بڑھ جائے گی۔
سائنسی شعبوں میں ہونے والی ترقی سے جہاں مہلک امراض پر قابو پانے ، طویل عرصے تک صحت مند رہنے اور لمبی مدت تک جینے کی راہ ہموار ہورہی ہے، وہاں اب آنے والے برسوں میں لوگوں کو اپنے بارے میں یہ علم بھی سکے ہوگا کہ وہ کتنے برس زندہ رہیں گے۔ اس سے انہیں اپنی زندگی اور مصروفیات کی منصوبہ بندی کرنے میں مدد ملے گی۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں آنے والے ہر ذی روح کی زندگی کی ساری تفصیلات ایک لوح میں لکھی ہیں۔ اور طبی ماہرین اس لوح کو نام دے رہے ہیں جین کا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہر شخص کے جین میں ، اس کی عادات، بیماریوں کی جانب رجحان اور زندگی کی طوالت کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔
امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی کے پبلک سکول آف پبلک ہیلتھ اور بوسٹن میڈیکل سینٹر میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایک ایسے جین کا پتا لگایا ہے جس کا تعلق زندگی کی طوالت سے ہے ۔
جریدے سائنس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بوسٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ اس جین کی دریافت کے بعد اب ڈاکٹر کسی بھی شخص کے بارے میں یہ زیادہ بہتر طور پر بتاسکیں گے کہ وہ کتنا عرصہ زندہ رہے گا، اور اسے کون سی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔
تحقیق میں شامل ایک سائنس دان ڈاکٹر ٹامس پرلز کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے والدین اپنے بچے کی پیدائش سے کافی پہلے یہ جان سکیں گے کہ صحت کے حوالےسے اس کی زندگی کیسی ہوگی اور وہ اندازاً کتنے برس جیئے گا۔اس سے انہیں اپنے بچے کو جنم دینے یا نہ دینے کے بارے میں فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے گی۔
ایک سو سال سے زیادہ عمر کے افراد پر کی جانے والی یہ تحقیق اپنی نوعیت کی سب سے بڑی ریسرچ تھی، جس میں 100 سال سے زیادہ عمر کے 1055 افراد پر تحقیق کی گئی ۔ڈاکٹرٹامس پرلز کہتے ہیں کہ اس ریسرچ کے دوران انہیں خلیوں کے درمیان ایک ایسےتعلق کا پتاچلا،جو ان کی دراز عمری کاراز تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عمر کی طوالت کا نسلی گروہ سے گہرا تعلق ہے۔ بعض انسانی نسلوں کے افراد طویل عمر پاتے ہیں اور کچھ نسلیں ایسی ہیں جس سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی صحت کی دیکھ بھال کے باوجود لمبا عرصہ نہیں جیتے اور ایک خاص عمر پر پہنچ کر ان کے خلیوں میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہوجاتاہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپانی نسل کے افراد میں عمومی طورپر طویل عمری کا جین پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جاپان میں اوسط عمر 80 سال سے زیادہ ہے۔ جب کہ پاکستان میں یہ اوسط 62 کے قریب اور امریکہ میں 77 سال ہے۔
ڈاکٹر پرلز کا کہنا ہے کہ عمر کی طوالت پر خوراک اور زندگی گذارنے کا انداز بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں شامل 100 سال سے زیادہ عمر کے کئی افراد تمباکو نوشی کرتے تھے، تاہم وہ موٹے نہیں تھے۔ اسی طرح امریکہ کے ایک مذہبی گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد کی اوسط عمریں 88 سال تھیں، یعنی امریکہ بھر میں سب سے زیادہ۔ ڈاکٹر پرلز کہتے ہیں کہ وہ گوشت نہیں کھاتے تھے ، باقاعدگی سے ورزش کرتے تھے ، سگریٹ اور شراب نہیں پیتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر افراد بہت سی وجوہات کی بنا پر اتنی عمر نہیں پاتے، جتنا کہ وہ اپنے جین کے اعتبار سے زندہ رہ سکتے ہیں۔ تاہم وہ اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات بدل کراور صحت کا خیال رکھ کر اپنی عمر میں
10 سے 15 سال تک کا اضافہ کرسکتے ہیں
Courteus by VOA