Zardari briefed on law and order, development of Balochistan

Posted by Anonymous on 8:06 PM

Asif Ali Zardari was given warm welcome as he arrived here at airport on his maiden visit in the provincial capital, Aaj TV reported on Thursday.

Balochistan Chief Minister Nawab Muhammad Aslam Raisani, Governor Nawab Zulfiqar Ali Magsi, provincial and federal ministers and senior officials received the President upon his arrival.

He was presented guard of honour in Governor House.

The president held meetings with governor and the CM. They briefed president Zardari about the ongoing developmental projects and law-and-order situation in the province besides exchanging views over the current political scenario.

The President will reportedly make important announcements for progress of Balochistan.

During his stay in provincial capital, he will also meet with parliamentary leaders of various political parties in Balochistan Assembly, members of the provincial cabinet and other Baloch and Pashtoon politicians.

کشمیریوں کی امنگوں کے خلاف کشمیر کا کوئی حل قبول نہیں: سردار خالد ابراہیم

Posted by Anonymous on 8:01 PM

گزشتہ ساٹھ برسوں سے کشمیر۔۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی بنیادی وجہ ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کی حکومتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی وجہ سے باقی تمام معاملات سمیت اس مسئلے پر بھی کافی پیش رفت ہوئی ہے مگر ابھی تک کوئی ایسا حل سامنے نہیں آ سکا جس پر تمام فریق مطمعن ہوں۔ جموںو کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر سرادر خالد ابراہیم نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ اگر اس مسئلے کا حل کشمیریوں کی امیدوں کے خلاف ہوا تو وہ قابلِ قبول نہیں ہو گا۔

اس سوال کے جواب میں کہ سابق صدر مشرف کے دور میں ہونے والی بیک چینل ڈپلومیسی اور حالیہ دنوں میں بھارتی رہنماؤں کے یہ انکشافات کہ وہ صدر مشرف کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے بہت قریب آ چکے تھے،سردار خالد ابراہیم نے کہا کہ مشرف حکومت بہت جلدی میں فیصلہ کرنا چاہتی تھی مگر اس تنازعے پر کوئی بھی فیصلہ جلدبازی میں نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں جمہوری امنگوں کے مطابق فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہو گا اوراس میں کشمیری عوام کی نمائندگی نہ ہو پائے گی۔

انہوں نے کشمیریوں کے خود ارادیت کے حق کے استعمال پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اور سرحد بھی ریفریڈم کے نتیجے میں پاکستان کا حصہ بنے اس لیے پاکستان کو کشمیر پر کسی ایسے فیصلے کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ جس میں کشمیریوں کو ان کا جمہوری حق استعمال نہ کرنے دیا جائے۔

واشنگٹن میں ہر بیسواں شخص ایج آئی وی ایڈز میں مبتلا ہے

Posted by Anonymous on 8:00 PM
امریکی دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایچ آئی وی ایڈز نےایک وبا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ گذشتہ دنوں ایک بیان میں سرکاری طورپر یہ تسلیم کیا گیا ہے واشنگٹن میں ہر بیس میں سے ایک شخص ایڈز میں مبتلا ہے۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران یہاں پر اس مرض کی شرح میں 22 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

ایڈز کے ایک مریض کا کہنا ہے کہ میرا خیال تھا کہ مجھے کوئی معمولی سی بیماری ہوئی ہے۔ مگر جب میرے خون کی تشخیص کی گئی تو معلوم ہوا کہ مجھے ایڈز ہے۔

واشنگٹن ڈی سی شہر کے حوالے سے گذشتہ ہفتے شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق ایڈورد اس مرض میں تنہا نہیں۔ بلکہ ڈی سی میں رہنے والی آبادی کا تین فیصد اس میں مبتلا ہے۔ جو کہ امریکہ کے کسی بھی شہر میں ایڈز کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ یہ شرح افریقہ کے کچھ علاقوں سے بھی زیادہ ہے۔

ایچ آئی وی ایڈز کی روک تھام سے متعلق ادارے کے ڈائریکٹر شینن حادر کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کو محض ایمرجنسی کا نام دینے سے بات نہیں بنے گی بلکہ اس کی رو ک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس ایک طویل المیعاد مسئلے کا حل بھی طویل المدتی بنیادوں پر نکالا جانا چاہیے۔ یہ ہنگامی صورتحال ہے۔

افریقن امریکن کمیونٹی اس بیماری کا سب سے زیادہ شکار ہوتی ہے۔ ایڈز کے تقریبا ہر دس میں سے آٹھ افراد جن میں ایچ آئی وی پازیٹو پایا جاتا ہے افریقن امریکن ہوتے ہیں۔ ایڈز کے مریض ایڈورڈ کا کہنا ہے کہ لوگ اس حوالے سے زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ جنسی روابط میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہم ایڈز سے بچاؤ کر سکتے ہیں۔

کچھ محققین کے مطابق شاید افریقن امریکن کمیونٹی میں جنیاتی طور پر ایڈز کے خلاف زیادہ مدافعت نہ پائی جاتی ہو اسی لیے ممکن ہے وہ اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ امریکی ڈاکٹرز کا کہنا ہے ایڈز سے بچاؤ کے ضمن میں اس حوالے سے لوگوں میں زیادہ سے زیادہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پاکستان عالمی درجہ بندی میں 98نمبر پر

Posted by Anonymous on 7:50 PM

عالمی اقتصادی فورم کی طرف سے جاری کردہ گلوبل انفارمیشن ٹیکنالوجی رپورٹ 2009ء کے مطابق دنیا میں اس شعبے سے وابستہ 134ممالک میں پاکستان 98 نمبر پر ہے جو کہ اس شعبے میں اس کی کمزور حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔آٹھویں سالانہ رپورٹ عالمی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لحاظ سے رابطوں کو مد نظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہے جس کے مطابق عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی پوزیشن میں نو درجے کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

اس خراب صورتحال کی وجوہات بیان کرتے ہوئے عالمی اقتصادی فورم کے اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں مسابقت کی کمی، اس بارے میں منصوبوں پر عمل درآمد میں غیر ضروری طوالت اور تعطل، تعلیم کے لیے کم فنڈز مختص کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے امیدواروں کا آگے نہ آناشامل ہیں۔رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے پاکستان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے میں نمایاں سرمایہ کاری اور اس سے وابستہ دیگر شعبوں میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق ڈنمارک، سویڈن اور امریکہ بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں جبکہ سنگاپور گزشتہ سال کی نسبت پانچویں سے چوتھی پوزیشن پر آگیا ہے۔

اگر عورتیں دینا پر حکومت کریں؟

Posted by Anonymous on 7:42 PM
چاروں طرف نظر دوڑائیں تو جنگیں، معاشی بدحالی، سیاسی کشمکش اور انواع و اقسام کے دوسرے مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں اور انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کہیں وجہ یہ تو نہیںکہ دنیا کی باگ ڈور مردوں کے ہاتھ میں ہے اور اگر یہی کام خواتین کریں تو دنیا جنت کا نمونہ بن جائے گی؟

اگر آپ کو شک ہے توسامنے کی چند مثالیں دیکھ لیں۔ بتائیں کہ امریکہ میں صحتِ عامہ کا ناقص نظام کیا کسی عورت نے مرتب کیا تھا؟ یا ایسا معاشی نظام جس میں بنک اس فکر سے بے نیاز ہو جائیں کہ پیسہ واپس بھی آئے گا یا نہیں۔ لگتا ہے وقت آگیا ہے کہ مرد حضرات گاڑی کی چابیاں عورتوں کے حوالے کریں اور خود پچھلی سیٹ پر آرام سے بیٹھ جائیں لیکن خاموشی شرط ہے۔

ایک تو خواتین کی قوت ِ فیصلہ غضب کی ہوتی ہے۔ بھارت میں ایک گاؤں کے جائزے سے ثابت ہوا کہ خواتین کی سربراہی میں انتظامی امور بہتر طور پر انجام پائے۔ مثلاً گاؤں کے باسیوں کے لئے تازہ پانی کی فراہمی کے لئے کنویں کھدوائے گئے اور رشوتیں بھی نسبتاً کم لی گئیں۔

امریکہ میں ملازمت پیشہ عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جلد ہی یہ تعداد مردوں سے بڑھ جائے گی، تقریباً نصف کمپنیوں کی مالک عورتیں ہیں لیکن پھر بھی عموماً ملازمت پیشہ خواتین گھر اور بچوں پر بھی بہت سا وقت صرف کرتی ہیں۔

ایک بات تو ظاہر ہے کہ مرد اپنے کوضرورت سے زیادہ عقلمند سمجھتے ہیں اور عورتیں ضرورت سے کم۔ مردوں کی خاصیتوں میں خطروں میں کود پڑنا اوراپنے فیصلے پر اڑے رہنا شامل ہے جبکہ عموماً عورتوں میں انکساری زیادہ ہوگی اور تعاون کا مادہ بھی۔ مردوں کی انہیں صفات سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جبکہ خواتین کی ان عادات سے مسائل حل ہوتے ہیں۔

ہو سکتا ہے عورتوں کی انکساری، کمتری کے اس احساس کے باعث ہو جو مردوں کے سلوک کے باعث پیدا ہوا اورجو نسلوں سے ان کے دماغوں میں ڈالا جا رہا ہے؛ لیکن مردوں میں مقابلے کی خو، صحیح غلط کا سخت معیار (صحیح ان کا اپنا نظریہ، اور غلط دوسرے کا)، بحران پیدا کر ڈالنے کی عادت وغیرہ جیسے مسائل ہیں۔ اس نکتے پر سائنسدان متفق نہیں لیکن یاد رہے کہ ان کی اکثریت مردوں کی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مردوں میں قبضہ جمانے کی عادت ہوتی ہے اور مرد ہی ہیں جو ایسے مردوں کو وسیع و عریض بونس دیتے ہیں جنہوں نے خود ان کی کمپنی کو خاک میں ملایا اور جو اب وہاں کام بھی نہیں کر رہے۔

ہو سکتا ہے یہ مسئلہ بنی نوع ِ انسان کی ارتقا کے ساتھ وابستہ ہو۔ تاریخی اعتبار سے مردوں کا کام شکار کرنا تھا۔ وہاں انہیں صحیح یا غلط، جلدی میں فیصلے کرنا پڑتے۔ کسی جانور کے پیچھے بھاگنا ہو یا اس سے جان چھڑانی ہو، ہر صورت میں انہیں تیزی سے عمل کرنا ہوتا۔ جبکہ عورتوں کو اس طرح کے کاموں کا سامنا رہتا کہ بچوں کو ایک دوسرے پہ پتھر برسانے سے کیونکر باز رکھا جائے، کونسے پھل جلدی پک کر تیار ہونگے، قبیلے کو کیسے اکٹھا رکھنا ہے۔ اس سب کے لئے انہیں حالات کو بڑے تناظر میں دیکھنا پڑتا۔

دوسری طرف ہماری دنیا میں، جہاں آج بھی قد کاٹھ کی بڑائی کو پتھر کے زمانے کی طرح اہم سمجھاجاتا ہے، عورتوں کی یہ مجبوری ہو کہ وہ اپنی مہارت کے لئے دوسرے میدان چن لیں جن میں تخلییقی عمل اور مل جل کر ساتھ چلنا زیادہ اہم ہو کیونکہ اوسطاً عورتیں مردوں سے پانچ انچ چھوٹی اور ستائیس پاؤنڈ ہلکی ہوتی ہیں۔

ویسے اب مرد بھی ماننے لگے ہیں کہ عورتوں میں قیادت کی بہتر صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک تازہ سروے کے مطابق مردوں اور عورتوں دونوں کی اکثریت نے کہا کہ عورتوں میں دیانتداری اور ذہانت مردوں سے زیادہ ہوتی ہے، اور یہی دو خصوصیات قیادت کے لئے سب سے اہم ہیں اور انہی کا آج کل توڑا ہے۔

مردوں کے ناک کی سیدھ میں چلنے اور حکم چلانے جیسے کوائف آج کل کارآمد نہیں کیونکہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جہاں جغرافیائی اور سیاسی رسہ کشی میں کسی کی فلاح سمجھی جائے۔


بیروزکار اور بے گھر امریکی خیموں میں رہنے پر مجبور

Posted by Anonymous on 7:26 PM


دنیا کی واحد سپر پاور سب سے بڑی معیشت ساری دنیا کے مجموعی دفاعی بجٹ سے زیادہ دفاعی بجٹ والی ریاست جس کا ویزا یا شہریت لینے کی حسرت تیسری دنیا کے اکثر ممالک کے بیشتر باشندوں کی خواہش اور حسرت ہوتی ہے اور ہاں دو مسلمان ممالک پر مکمل طور پر قابض، دیگر پر بالواسطہ مسلط، مسلمانوں کے قدرتی وسائل کا چور اور لاکھوں مسلمانوں کا قاتل ملک امریکہ اپنی تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ بیروز گاروں اور بے گھروں کی خیمہ بستیاں قائم ہو گئی ہیں دسمبر 2007ءسے اب تک 44 لاکھ امریکی ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ اوباما حالات کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آ رہا ہیں۔ انڈیپنڈنٹ ٹیلیویژن نیوز نے 13 مارچ کی اپنی ایک رپورٹ میں امریکہ کی سب سے بڑی ریاست کیلیفورنیا کی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیروز گاری اور زبردستی بے دخل کئے جانے کے سبب خیموں میں زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاست میں کینوس سے بنی خیمہ بستیوں میں خطرناک شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹی وی نے ساکر منٹو نامی علاقے میں چالیس ایکڑ پر قائم ایک خیمہ بستی کے مکینوں کے انٹرویوز کئے۔ 6 ماہ سے اس خیمہ بستی میں مقیم ٹریسی دان نے کہا کہ ”ہم دونوں میاں بیوی ایک ہی کمپنی میں کام کرتے تھے، دونوں کو ایک ہی دن فارغ کر دیا گیا، بس یہی کچھ ہوا“۔ ایک دوسرے رہائشی ایرک پلائز کا کہنا تھا کہ اسے کوئی نوکری نہیں مل رہی تھی ”کارپٹ، کنکریٹ یا کارپنٹری کی شعبے میں کام نہیں مل رہا“۔ اس علاقے میں بے گھر افراد کے لئے قائم کئے گئے سرکاری شیلٹر پوری طرح بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے لوگ خیمہ بستیوں پر مجبور ہوتے ہیں۔ صدر اوباما نے حال ہی میں معیشت کو بہتر بنانے کے لئے 572 بلین ڈالر کے پیکیج پر دستخط کئے ہیں تاہم ابھی تک اس کے اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔ دریں اثناءبیروز گاری اور بے گھری کے باعث لوگوں نے خود کشیاں شروع کر دی ہیں۔ چند ماہ قبل جنوبی کیلیفورنیا میں پولیس کو ایک شوہر، بیوی، بہن، بچوں اور ساس کی لاشیں ملیں۔ ان افراد کو شوہر نے قتل کر کے خود کشی کر لی اور آخری پیغام میں لکھا کہ یہ سب کچھ مالی مشکلات کے باعث کیا ہے۔ ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مالی مشکلات کے باعث نفسیاتی امراض میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔ دریں اثناءامریکہ میں ایک طرف اقتصادی بحران کے باعث لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف قرضوں پر حاصل کئے گئے گھر اور گروی گھروں پر لئے گئے قرضوں کی ادائیگی میں ناکامی کے بعد انہیں زبردستی گھروں سے نکالا جا رہا ہے۔ امریکہ ایک بہت بڑا ہاتھی ہے۔ اسے گرنے میں وقت لگے گا تاہم گرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

مسجد میں امریکی جاسوس نے دہشت گرد بھرتی کئے؛ ایف بی آئی اور امریکی مسلمان

Posted by Anonymous on 2:54 PM

امریکہ میں ایف بی آئی جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے خانہ ساز دہشت گردوں کو پکڑنے میں ناکام ہو رہے ہیں کیونکہ امریکی مسلمان تنظیموں اور گروہوں کے ساتھ ان کے مراسم اچھے نہیں رہے۔ کیئر یعنی
Council on American Islamic Relations کے ساتھ چند ماہ ہوئے ایف بی آئی نے اپنے تعلقات خاموشی سے منقطع کر لئے۔ جب وجہ پوچھی گئی تو تفصیلات میں جانے سے انکار کر دیا۔ اس صورت حال میں مزید خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب یہ بات مشہور ہو گئی کہ ایف بی آئی نے اپنا جاسوس کیلی فورنیا کی ایک مسجد میں مقرر کیا تھا۔ بہت سی مسلمان تنظیموں کے بقول اس جاسوس نے شد و مد کے ساتھ دہشت گرد بھرتی کرنا شروع کر دئے۔

مسلمان تنظیموں کے سربراہ ادارے نے گذشتہ ہفتے ایف بی آئی پر الزام عاید کیا کہ وہ جاسوسی کے دقیانوسی حربے استعمال کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ایف بی آئی سے تمام تعلقات ختم کر لیں گے اگر اس نے اس راز کو طشت از بام نہ کیا کہ کئیر سے متعلق اسے کیا تشویش تھی، اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے غلط کام کروا کے اسلامی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش ترک نہ کی۔

ایف بی آئی نے کوئی خاص جواب نہیں دیا اور اتنا کہا کہ مسلمان اداروں نے سنید،ہ معاملات میں نیک نیتی سے مذاکرات نہیں کئے۔ اس بیان کو ایسے اسلامی تنظیموں نے بھی پسند نہیں کیا جن کا اس اتحاد سے تعلق نہیں جو ایف بی آئی سے تعلقات توڑنا چاہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں ہمیں مذاکرات میں شامل رہنا چاہئے۔ اسی میں ہم اپنی کمیونٹی کی اور امریکہ کی فلاح سمجھتے ہیں۔

لاس اینجلس میں مسلم پبلک افئرز کونسل کے ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ جس طرح ایف بی آئی نے کام دکھایا ہے اس سے مسجد جانے والوں کا نام خواہ مخواہ خراب ہوا ہے۔ اور کیئر سے ان کی علحٰدگی اچھی بات نہیں تھی۔

گیارہ ستمبر کے بعد ایف بی آئی نے تمام بڑی مسلمان تنظیموں سے رابطے کئے اور ان کوششوں کو اچھی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ان حملو ں کے بعد ایف بی آئی نے کیئر کے بارے میں بے حد اچھے جذبات کا اظہارکیا تھا کہ انہوں نے ہم سے بڑا تعاون کیا ہے، یہ سب کیئر کی ویب سائیٹ پر موجود ہے۔ایف بی آئی کے عہدیدار ان کے عشائیوں میں شریک ہوتے۔چنانچہ ایف بی آئی کی جانب سے انیس ریاستوں میں تیس دفاتر سے قطع تعلق بہت ہی اچھنبے کا باعث بنا۔اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی البتہ ان کے ترجمان جان ملر نے کہا ہے کہ کیئر کے اعلیٰ حکام کو وجہ سمجھا دی گئی ہے۔

کیئر کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ 2007 سے چلا آ رہا ہے۔جب ہولی لینڈ فاؤنڈیشن کے ایک متنازع مقدمے کے دوران کئیر کو ان سازشی اداروں اور افراد کی فہرست میں شامل کر دیا جن پر دہشت گردی ثابت نہیں ہے لیکن وہ مشتبہ ہیں۔

2008 میں اس ادارے پر حماس کے ساتھ روابط کا الزام ثابت ہو گیا۔ ایف بی آئی کے نام ایک خط میں کئیر نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ کئیر پر یہ چھاپ کبھی نہیں لگنی چاہئے تھی اور خاص کر اس کا علی الاعلان اظہار نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ یہ غیر منصفانہ ہے اور یہ الزام تراشیاں محکمہٴ انصاف کے اپنے ضوابط کی خلاف روزی کرتی ہیں

ایف بی آئی کے ذرائع نے بھی کہا ہے کہ کئیر کےہولی لینڈ فاؤنڈیشن سے روابط ہی ان کے اقدام کی اصل وجہ تھی۔مسلمان اور عرب تنظیموں کو یہ رنجش بھی ہے کہ ایف بی آئی نےاورنج کاؤنٹی، کیلی فورنیا میں ایک سزا یافتہ مجرم کو جاسوس بنا کر بھیجا۔

یہ جاسوس نو مسلم بن کر وہاں جاتا رہا اور اور مبینہ طور پر مسجد کے کئی ارکان کے سامنے دہشت گرد نظریات کا پرچار کرتا رہا۔اس پر ایک ممبر یعنی احمدُاللہ سائیس نیازی نے ایف بی آئی سے شکایت کی کہ یہ شخص اشتعال انگیاز بیانات دے رہا ہے اور اس کا داخلہ یہاں بند کیا جائے۔

امریکی مسلم ٹاسک فورس کے مطابق اس پر ایف بی آئی نے مسٹر نیازی کے خلاف تفتیش شروع کر دی اور پھر ان سے کہا کہ آپ ہمارے جاسوس بن جائیں۔ٹاسک فورس نے ایف بی آئی کو باقاعدہ شکایت نامہ درج کرایا ہے۔ جب نیازی نے جاسوسی سے انکار کر دیا تو ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ نے ان سےکہا کہ ان کی زندگی تباہ کر دی جائے گی۔ تب سے نیازی کو گرفتار کر لیا گیا اور اس پر الزام عاید کیا گیا ہے کہ اس نے شہریت حاصل کرنے کے لئےجھوٹے بیان دئے اور یہ بھی چھپایا کہ اس کی ہمشیرہ نے، عدالتی دستاویزات کے مطابق، القاعدہ کے ایک کارکن کے ساتھ شادی کر رکھی ہے۔

مسلمان کمیونٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ انہیں ایف بی آئی کے اس اقدام پر سخت برہمی ہے کہ ان کی کمیونٹی میں ایسے ایجنٹ کو بھیجا گیا جو دہشت گردوں کو بھرتی کرتا رہا تاکہ مسجد پر الزام لگایا جا سکے۔اس حرکت سے دس سال پرانے اعتماد کی دیوار زمین بوس ہو گئی ہے۔

ایف بی آئی بار بار کہتی ہے کہ ہم کسی مسجد کو ہدف نہیں بنا رہے بلکہ افراد کو پکڑنا چاہتے ہیں ۔اور ہم یہ سب قانونی حدود میں رہ کر کرتے ہیں۔اسی قسم کی تفتیش کے سلسلے میں کبھی افراد ہمیں ایسی جگہوں پر لے جاتے ہیں جہاں ان کا آنا جانا رہتا ہے۔

لیکن ایف بی آئی کے جاسوس کریگ مونٹِیل نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ انہیں متعدد مساجد میں بھیجا گیا تھا اور یہ کہ انہوں نے نیازی کی دہشت گردوں سے مبینہ ہمدردی کے بارے میں ایف آئی کو خبردار کیا تھا
بشکریہ اردو وی او اے۔

بھارتی کشمیر میں مزید بڑے حملے کریں گے:لشکر طیبہ

Posted by Anonymous on 7:52 AM



بھارتی کشمیر میں فوج کے خلاف برسر پیکار عسکریت پسند تنظیم لشکر طیبہ نے مستقبل میں مزید بڑے حملے کرنے کی دھمکی دی ہے۔ گزشتہ ہفتے سے جاری شدید لڑائی میں ایک میجر سمیت آٹھ بھارتی فوجی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اس لڑائی میں 17عسکریت پسند بھی مارے جا چکے ہیں جو ان کے مطابق لشکر کے ممبر ہیں لیکن کشمیری نہیں ہیں۔

اس لڑائی میں لشکر طیبہ کے ملوث ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے تنظیم کے ترجمان عبداللہ غزنوی نے بدھ کے روز سری نگر کے صحافیوں کو فون پر بتایا کہ آنے والے دن بھارتی افواج کے لیے بدترین ثابت ہوں گے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ لڑائی اس بات کا پیغام ہے کہ کشمیر میں آزادی کے لیے جدوجہد بھرپور طریقے سے جاری ہے۔

عبداللہ غزنوی کا دعویٰ تھا کہ کپواڑہ میں جاری لڑائی میں اب تک 25بھارتی فوجی جبکہ 10عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے ممبئی حملوں کا الزام لشکر طیبہ پر عائد کیا جاتا ہے
بشکریہ وایس ااف امریکہ۔

دماغ حقیقی اور تصوراتی چیزوں میں فرق کیسے کرتاہے : نئی سائنسی تحقیق

Posted by Anonymous on 7:42 AM

فزآرگ ڈاٹ کام پر شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سائنس دانوں نے دماغ کے ان حصوں کی شناخت کرلی ہے جو حقیقی او رتصوراتی چیزوں کے درمیان فرق کی نشان دہی کرتے ہیں۔ دماغ کے یہ حصے اے ایم پی ایف سی اور پی سی سی اس وقت فعال ہوتے ہیں جب آپ اپنی ذاتی زندگی کی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہیں اور اپنے بارے میں کچھ سوچتے ہیں۔

اس تحقیق کی بنیاد پر سائنس دانوں نے یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ ممکن ہے کہ ہمارا دماغ حقیقی اور تصوراتی چیزوں کے درمیان اس لیے فرق کرسکتا ہو کیونکہ حقیقی چیزوں میں ذاتی حوالہ، تصوراتی چیزوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

ایک نئے مطالعاتی جائزے میں اس مفروضے کو پرکھا گیا ہے کہ حقیقی اور تصوراتی چیزوں کے درمیان فرق کرنے میں ذاتی حوالے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ سائنس دانوں نے حقیقی اور تصوراتی چیزوں کے درمیان فرق کے عمل کے دوران دماغ کی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے فنکشنل میگنیٹک ریزوننس امیجنگ ( ایف ایم آر آئی ) کا طریقہ استعمال کیا۔ یہ ریسرچ جرمنی کے میک پلینک انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن برین اورجرمنی کی یونیورسٹی آف گیسن کی اینا ابراہم اور میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن برین اینڈ کاگنیٹیو سائنسز اور م کلون، جرمنی کے میکس پلینک فار نیورولوجیکل ریسرچ کے ڈاکٹر یویز نے کی اور اس کے نتائج پی ایل اوز ون میں شائع ہوئے ہیں۔

ابراہم نے ویب سائٹ فزآرگ کو بتایا کہ ان کے تجربات سے انہیں یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ دماغ حقیقت سے مراد کیا لیتا ہے۔ تجربات سے دو ہفتے قبل تجربے میں شمولیت کے لیے تیار 19 افراد سے کہا گیا کہ وہ اپنے قریبی دوستوں اور خاندان کے افراد کے نام فراہم کریں اور ان سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ مشہور شخصیات اور افسانوی کرداروں کی ایک فہرست دیکھ کر یہ تصدیق کریں کہ وہ ان سے مانوس ہیں۔

تجربات کے دوران شرکا کو وہ نام دکھائے گئے جو یا تو ان کے دوست اور خاندان کے افراد تھے ( جن سے ان کا گہرا تعلق تھا) مشہور لوگ ( درمیانے درجے کاذاتی تعلق) یا افسانوی کردار(بہت کم ذاتی تعلق) شرکا نے ا س قسم کے سوالوں کے جواب بھی دیے مثلاً، کیا کسی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ان لوگوں/کرداروں میں سے کسی سے بات کر سکے ( حقیقی لوگوں اور افسانوی کرداروں کے درمیان بات چیت کو ناممکن خیال کیا گیا تھا)۔

جیسا کہ محققین کو توقع تھی، نتائج سے ظاہرہوا کہ جب تجربے میں شریک افراد نے اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے بارے میں ( جن کے ساتھ بہت ذاتی تعلق تھا) سوالات کے جواب دیے تو حقیقی اور تصوراتی چیزوں میں فرق کے عمل سے متعلق دماغ کے حصوں میں بہت زیادہ فعالیت ظاہر ہوئی بہ نسبت ان سوالوں کے جو مشہور لوگوں یا افسانوی کرداروں کے بارے میں کیے گئے۔ مشہور لوگوں کے بارے میں کیے گئے سوالات کے جواب دیتے ہوئے دماغ کے یہ حصے میں درمیانے درجے کی جب کہ تصوراتی یا افسانوی کرداروں کے بارے میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کم تر درجے کی فعالیت ظاہرہوئی۔


اس تجربے سے ماہرین نے حقیقی اور تصوراتی چیزوں کے ادراک کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ تو کیا ہے لیکن ان نتائج سے مزید سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں۔

ابراہم کہتی ہیں کہ میں اپنی والدہ اور جارج بش دونوں کو سنڈریلا سے زیادہ حقیقی سمجھتی ہوں لیکن میں جارج بش کو اپنی والدہ کی نسبت کم حقیقی کیوں محسوس کرتی ہوں،کیوں کہ دونو ں لوگ بہر طور معروضی طور پر اپنا وجود رکھتے ہیں۔

شاید ایسا اس لیے ہے کہ میں جارج بش سے کبھی ملی نہیں ہوں اور یا اس لیے کہ میں ان کے بارے میں کم معلومات رکھتی ہوں۔ شاید میں اس سے اس صورت میں زیادہ متعلق ہوتی اگر وہ میرے آبائی ملک کے خلاف جنگ کرتے۔ابراہم کا کہنا ہے کہ یہ تمام کھلے سوال ہیں جن کے جواب صرف اس صورت میں دیے جا سکتے ہیں جب ہم حقیقت کا مفہوم متعین کریں گے۔اور ہماری تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ کسی فرد کو حقییقی محسوس کرنے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس شخص کاہم سے کتنا زیادہ ذاتی تعلق یا حوالہ ہے۔

تاہم محققین یہ بھی کہتے ہیں کہ ذاتی تعلق یا حوالہ کسی چیز سے حقیقی تعلق یا حوالے سے یکسر طور پر مسنلک نہیں ہے کیوں کہ کچھ لوگ مخصوص افسانوی یا تخیلاتی چیزوں سے ذاتی تعلق کا تجربہ رکھ سکتےہیں جیسا کہ کمپیوٹر کی کچھ گیمز یا مذہب میں ہو سکتاہے۔

مثال کے طور پر ایک مخصوص کمپیوٹر گیم انتہائی شوق سے کھیلنے والے کے دماغ کے اس حصے میں جو حقیقی اور تخیلاتی چیزوں کےدرمیان فرق میں مدد دیتاہے، ممکن ہے اس مخصوص گیمز کے کسی کردار کو دیکھ کر اس کے مقابلے میں زیادہ فعالیت ظاہر ہو جتنی کہ اسے کسی ایسے حقیقی شخص کو دیکھ کر ہو جس سے اس کا حقیقی دنیا میں نسبتاً بہت کم تعلق ہو۔ ابراہم مزید کہتی ہیں کہ اگرچہ موجودہ تحقیق تخیلاتی تشدد اور حقیقی تشدد میں کسی تعلق کے بارے میں کوئی فہم یا بصیرت فراہم نہیں کر سکی ہے تاہم ایسی ہی مزید تحقیقات سے اس بات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا ایسا کوئی تعلق موجودہے۔

اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دماغ کے اے ایم پی ایف سی اور پی سی سی کے یہ حصے ایک ایسا خودکار نیٹ ورک کی طرح کام کرتے ہیں جو کسی بھی شخص کا نام دیکھ کر حرکت میں آجاتے ہیں، چاہے آپ کا اس سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو
بشکریہ وایس ااف امریکہ۔