امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ایک پاکستانی شخص اسلام آباد میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے اہلکاروں کے پاس گیا اور پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات بیچنے کی کوشش کی۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ قابلِ بھروسہ شخص ہے اس نے یہ بھی کہا کہ اس کے پاس استعمال شدہ جوہری ایندھن کی سلاخیں بھی ہیں۔
اخبار کے مطابق سی آئی اے کو اس پر شک گزرا۔ اور کچھ عرصے بعد سی آئی اے کے اہلکاروں کو اندازہ ہوا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ان کے خلاف ڈبل ایجنٹ استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سی آئی اے اہلکاروں نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو اس کے بارے میں آگاہ کیا۔ پاکستانیوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کریں گے لیکن کچھ عرصے کے بعد دونوں ایجنسیوں نے اس پر چپ سادھ لی۔
اخبار لکھتا ہے کہ سابق خفیہ اہلکاروں کے مطابق اس سے پتہ چلتا کہ امریکہ اور اس کے دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑے اتحادی کے آپس میں کتنے دوغلے تعلقات ہیں۔ سب کے سامنے امریکی اہلکار پاکستانی اہلکاروں کی القاعدہ اور طالبان رہنماؤں کو ہلاک اور گرفتار کرنے پر مدح سرائی کرتے ہیں لیکن نجی طور پر بے اعتباری کی فضا قائم ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ انداز میں خفیہ ایجنسیوں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اخبار کے مطابق سی آئی اے نے کئی مرتبہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے آئی ایس آئی میں گھسنے کی کوشش کی۔ اسی طرح آئی ایس آئی نے بھی کوشش کی کہ سی آئی اے کے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کریں کہ سی آئی اے پاکستان کے جوہری پروگرام کے متعلق کیا جانتی ہے۔
سی آئی اے اور آئی ایس آئی ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جاسوسی بھی
سی آئی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کرنے کے لیے بھی جاسوس بھرتی کرتی ہے اور بغیر پائلٹ کے یہ مسلح جاسوس طیارے بلوچستان کے علاقے سے اڑائے جاتے ہیں۔
آئی ایس آئی کے ایک اہلکار نے نام نے ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں ایجنسیوں میں کافی بہتر تعلقات کار ہیں۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ایجنسی ڈبل ایجنٹ استعمال کرتی ہے۔
اخبار کے مطابق پاکستان کے امریکہ کے متعلق تحفظات کی ایک وجہ بھی ہے۔ بش انتظامیہ کے پہلے دور میں، پاکستان کو اس وقت بہت برا لگا جب اس نے امریکہ کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا لیکن بعد میں اسے پتہ چلا کہ سی آئی اے نے یہ معلومات برطانیہ کو مہیا کر دیں۔
اس واقعہ کی وجہ سے ایک بڑا تنازعہ کھڑا ہو گیا جس سے نہ صرف سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا بلکہ دونوں فریقوں میں بداعتمادی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ایک وقت ایسا آ گیا کہ پاکستان نے سی آئی اے کے سٹیشن چیف کو تقریباً ملک سے نکال دیا۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سی آئی اے سب سے جارحانہ آپریشن کر رہی ہے
لیکن دونوں فریقوں کے درمیان اتنا تناؤ کہیں بھی نہیں ہے جتنا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہے جہاں لڑی جانے والی لڑائی کو سی آئی کے ڈائریکٹر لیون پنیٹا ’سی آئی اے کی تاریخ کا سب سے جارحانہ آپریشن‘ کہتے ہیں۔
اخبار کے مطابق اس علاقے کو جاسوسی کی زبان میں شیشوں کا بیابان کہتے ہیں، جہاں جو نظر آتا ہے درحقیقت وہ نہیں ہے۔ سی آئی اے القاعدہ اور شدت پسند گروہوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے جاسوس بھرتی کرتی ہے۔ یہی کام آئی ایس آئی بھی کرتی ہے۔ اور اکثر دونوں ایجنسیاں ایک ہی شخص کو بھرتی کر لیتی ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ سی آئی اے کو یہ ہمیشہ سوچنا چاہیئے کہ جاسوس کی ہمدردیاں کسے کے ساتھ ہیں۔ امریکہ کے ساتھ، پاکستان کے ساتھ یا دشمنوں کے ساتھ۔
سابق سی آئی اے اہلکاروں کے مطابق قبائلی علاقوں آپریشن میں مشکلات کی وجہ نئے امریکی اہلکاروں کی ناتجربہ کاری اور جوانی ہو سکتی ہے۔
سنہ دو ہزار ایک کے دہشت گرد حملوں کے بعد سی آئی اے نے پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کے خلاف جاسوس بھرتی کرنے کے لیے کئی جوان افسر ان ملکوں میں بھیجے تھے۔ ان افسروں نے انجانے میں وہ لوگ بھرتی کر لیے جو سالوں سے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی ’پے رول‘ پر تھے
اخبار کے مطابق سی آئی اے کو اس پر شک گزرا۔ اور کچھ عرصے بعد سی آئی اے کے اہلکاروں کو اندازہ ہوا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ان کے خلاف ڈبل ایجنٹ استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سی آئی اے اہلکاروں نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو اس کے بارے میں آگاہ کیا۔ پاکستانیوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کریں گے لیکن کچھ عرصے کے بعد دونوں ایجنسیوں نے اس پر چپ سادھ لی۔
اخبار لکھتا ہے کہ سابق خفیہ اہلکاروں کے مطابق اس سے پتہ چلتا کہ امریکہ اور اس کے دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑے اتحادی کے آپس میں کتنے دوغلے تعلقات ہیں۔ سب کے سامنے امریکی اہلکار پاکستانی اہلکاروں کی القاعدہ اور طالبان رہنماؤں کو ہلاک اور گرفتار کرنے پر مدح سرائی کرتے ہیں لیکن نجی طور پر بے اعتباری کی فضا قائم ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ انداز میں خفیہ ایجنسیوں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اخبار کے مطابق سی آئی اے نے کئی مرتبہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے آئی ایس آئی میں گھسنے کی کوشش کی۔ اسی طرح آئی ایس آئی نے بھی کوشش کی کہ سی آئی اے کے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کریں کہ سی آئی اے پاکستان کے جوہری پروگرام کے متعلق کیا جانتی ہے۔
سی آئی اے اور آئی ایس آئی ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جاسوسی بھی
سی آئی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کرنے کے لیے بھی جاسوس بھرتی کرتی ہے اور بغیر پائلٹ کے یہ مسلح جاسوس طیارے بلوچستان کے علاقے سے اڑائے جاتے ہیں۔
آئی ایس آئی کے ایک اہلکار نے نام نے ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں ایجنسیوں میں کافی بہتر تعلقات کار ہیں۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ایجنسی ڈبل ایجنٹ استعمال کرتی ہے۔
اخبار کے مطابق پاکستان کے امریکہ کے متعلق تحفظات کی ایک وجہ بھی ہے۔ بش انتظامیہ کے پہلے دور میں، پاکستان کو اس وقت بہت برا لگا جب اس نے امریکہ کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا لیکن بعد میں اسے پتہ چلا کہ سی آئی اے نے یہ معلومات برطانیہ کو مہیا کر دیں۔
اس واقعہ کی وجہ سے ایک بڑا تنازعہ کھڑا ہو گیا جس سے نہ صرف سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا بلکہ دونوں فریقوں میں بداعتمادی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ایک وقت ایسا آ گیا کہ پاکستان نے سی آئی اے کے سٹیشن چیف کو تقریباً ملک سے نکال دیا۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سی آئی اے سب سے جارحانہ آپریشن کر رہی ہے
لیکن دونوں فریقوں کے درمیان اتنا تناؤ کہیں بھی نہیں ہے جتنا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہے جہاں لڑی جانے والی لڑائی کو سی آئی کے ڈائریکٹر لیون پنیٹا ’سی آئی اے کی تاریخ کا سب سے جارحانہ آپریشن‘ کہتے ہیں۔
اخبار کے مطابق اس علاقے کو جاسوسی کی زبان میں شیشوں کا بیابان کہتے ہیں، جہاں جو نظر آتا ہے درحقیقت وہ نہیں ہے۔ سی آئی اے القاعدہ اور شدت پسند گروہوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے جاسوس بھرتی کرتی ہے۔ یہی کام آئی ایس آئی بھی کرتی ہے۔ اور اکثر دونوں ایجنسیاں ایک ہی شخص کو بھرتی کر لیتی ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ سی آئی اے کو یہ ہمیشہ سوچنا چاہیئے کہ جاسوس کی ہمدردیاں کسے کے ساتھ ہیں۔ امریکہ کے ساتھ، پاکستان کے ساتھ یا دشمنوں کے ساتھ۔
سابق سی آئی اے اہلکاروں کے مطابق قبائلی علاقوں آپریشن میں مشکلات کی وجہ نئے امریکی اہلکاروں کی ناتجربہ کاری اور جوانی ہو سکتی ہے۔
سنہ دو ہزار ایک کے دہشت گرد حملوں کے بعد سی آئی اے نے پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کے خلاف جاسوس بھرتی کرنے کے لیے کئی جوان افسر ان ملکوں میں بھیجے تھے۔ ان افسروں نے انجانے میں وہ لوگ بھرتی کر لیے جو سالوں سے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی ’پے رول‘ پر تھے
۔
کئی سابق سی آئی اے اہلکار اس کے قائل ہیں کہ گزشتہ سال افغانستان کے شہر خوست پر بمباری کی وجہ یہ ناتجربہ کار اہلکار تھے۔ اس حملے میں سی آئی اے کے سات افسر ہلاک ہو گئے تھے۔ سی آئی اے کا خیال تھا کہ ان کا جاسوس قبائلی علاقوں میں چھپے ہوئے القاعدہ کے نمبر دو ایمن اظواہری کے متعلق معلومات دے گا، لیکن وہ شخص ڈبل ایجنٹ نکلا جو خودکش حملہ کر گیا۔
کئی سابق سی آئی اے اہلکار اس کے قائل ہیں کہ گزشتہ سال افغانستان کے شہر خوست پر بمباری کی وجہ یہ ناتجربہ کار اہلکار تھے۔ اس حملے میں سی آئی اے کے سات افسر ہلاک ہو گئے تھے۔ سی آئی اے کا خیال تھا کہ ان کا جاسوس قبائلی علاقوں میں چھپے ہوئے القاعدہ کے نمبر دو ایمن اظواہری کے متعلق معلومات دے گا، لیکن وہ شخص ڈبل ایجنٹ نکلا جو خودکش حملہ کر گیا۔