لیزر سے دماغ کے کینسر کا علاج

Posted by Anonymous on 9:26 PM
کینسر دنیا بھر کی مہلک ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔ عالمی ادارہٴ صحت کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق 2004ءمیں 70 لاکھ سے زیادہ افراد کینسر کی کچھ مخصوص اقسام کے باعث ہلاک ہوئے۔دماغ میں کینسر زدہ رسولیوں کی سرجری اکثر اوقات سب سے مشکل ہوتی ہے تاہم اس سلسلے میں ایک نیا طریقہ علاج دریافت کرلیا گیا ہے جس میں لیزر ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے۔

اوہائیو میں کلیولینڈ کلینک کے سرجن لیزر کے ایک مخصوص طریقے سے اپنی ایک مریضہ کے دماغ کی رسولی کا علاج کررہے ہیں۔ ڈاکٹر جین بارنٹ کلیولینڈ کلینک سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقہٴ علاج میں ہم عام دماغ کو محفوظ رکھنے اور رسولی سے متاثرہ حصے کے علاج کے لیے لیزر شعاعوں کا استعمال کرتے ہیں۔

سرجری کے اس طریقے میں سرجن ایم آر آئی سکینر کی مدد سے دماغ کے متاثرہ حصے کا علاج لیزر سے کرتے ہیں۔ایم آرآئی تصویروں کی مدد سے ڈاکٹر لیزر کی شعاعوں سے رسولی کو ہدف بناتے ہیں اور اسے تباہ کر دیتے ہیں۔

ڈاکٹر سٹیون جونز بھی کلیولینڈ کلینک سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ہم مریض کے دماغ کی سیکنگ کرتےہوئے رسولی میں درجہٴ حرارت میں اضافے کی سیکنڈوں کے حساب سے نگرانی کرسکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہم رسولی کو ختم کررہے ہیں۔

ڈاکٹر بارنٹ کا کہنا ہے کہ سرجری کے دوران جب ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ لیزر کی حرارت سے دماغ کے صحت مند خلیے متاثر ہونا شروع ہورہے ہیں تو ہم لیزر بند کردیتے ہیں۔

یہ طریقہٴ علاج ابھی تجرباتی مراحل میں ہے تاہم مریضوں کےایک چھوٹے گروپ پر یہ کارگر ثابت ہوا ہے۔ اگر اس طریقہٴ علاج کی حکومت کی طرف سے منظوری مل گئی تو ڈاکٹروں کو توقع ہے کہ دماغ کی کینسرزدہ رسولیوں کا علاج کرسکیں گے جن کو اس وقت سرجری کے ذریعے نکالنا بہت مشکل ہے۔

عورتیں مردوں سے تین گنا زیادہ بولتی ہیں: نئی تحقیق

Posted by Anonymous on 9:19 PM
آپ نے شاید یہ لطیفہ سن رکھا ہوکہ جھوٹ بولنے کا مقابلہ ایک ایسے شخص نے جیتا جس نے کہا تھا کہ میں نے ایک جگہ دوعورتوں کو چپ بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس لطیفے سے ظاہر ہے کہ خواتین کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ باتونی ہوتی ہیں۔ اگرچہ ایسے مردوں کی بھی کمی نہیں ہے جو دوسروں کو بولنے کاموقع ہی نہیں دیتے اور ایسی خواتین بھی اکثر مل جاتی ہیں جو بہت ہی کم بولتی ہیں۔ تاہم اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بولنے میں خواتین کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اوسطاً مردوں کی نسبت تین گنا زیادہ زیادہ بولتی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کتاب ایک خاتون نے لکھی ہے جو ماہرنفسیات بھی ہیں۔ڈاکٹر لویان بریزن ڈین نے اپنی کتاب ’فی میل برین
Dr. Louann Brizendine‘ میں لکھا ہے کہ ایک عام عورت پورے دن اوسطاً 20 ہزار الفاظ بولتی ہے جوکہ ایک عام مرد سے اوسطاً 13 ہزار الفاظ یعنی تین گنا زیادہ ہیں۔ڈاکٹر بریزن ڈین کہتی ہیں کہ عورتوں کے زیادہ باتونی ہونے کی کئی وجوہات ہیں،اول یہ کہ وہ مردوں کی نسبت زیادہ تیز بولتی ہیں۔دوسرا یہ کہ گفتگو میں ان کا دماغ زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے اور بولتےوقت مردوں کےمقابلے میں ان کے دماغ کے زیادہ خلیے کام کرتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ خواتین بولتے ہوئے خود کو اچھا محسوس کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے زیادہ بولنے کی ایک اہم وجہ ان کے دماغ کی ساخت ہے۔ قدرتی طورپر عورت اور مرد کے دماغ میں فرق ہوتا ہے اور عورت کے دماغ کے وہ حصے جن کا تعلق بولنے سے ہے، زیادہ فعال ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ باتیں کرتی ہیں۔ڈاکٹر بریزن ڈین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ خواتین کے زیادہ بولنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ بولنے کے دوران ان کے دماغ کے مخصوص حصوں میں بڑی تیزی سے کیمیائی تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ تبدیلیاں ان تبدیلیوں سے مشابہت رکھتی ہیں جو ہیروئن کے عادی ایک شخص کے دماغ میں اس وقت آتی ہیں جب اس پر گہرا نشہ طاری ہوتا ہے۔ڈاکٹر بریزن ڈین کا کہنا ہے کہ زیادہ بولنے کا تعلق ان ہارمونز سے ہے جو جنس کا تعین کرتے ہیں اور جذبات اور یاداشت سے بھی متعلق ہوتے ہیں۔ یہ ہارمون پیدائش سے پہلے ہی جسم میں بن جاتے ہیں۔ چنانچہ لڑکے اور مرد، لڑکیوں اور عورتوں کی نسبت کم بولتے ہیں اور وہ اس طرح اپنے جذبات اظہار بھی نہیں کرپاتے جس طرح عورتیں کرسکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ لفظوں کے ذریعے جذبات کے اظہار میں عورت کا دماغ آٹھ رویہ شاہراہ کی مانند ہوتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں مرد کا دماغ دیہی علاقوں کی چھوٹی سی سڑک کی طرح ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں لڑکے اورمرد صنف مخالف کی نسبت کم گفتگو کرتے ہیں۔
The Female Brainکتاب کی منصفہ ڈاکٹر بریزن ڈین کہتی ہیں کہ اس مخصوص ہارمون کی وجہ سے دماغ کا وہ حصہ بھی متاثر ہوتا ہے جس کا تعلق سننے سے ہے۔اس بنا پر مردوں کی قوت سماعت میں ایک خاص نوعیت کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اکثر بیویاں عام طورپر یہ شکایت کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ ان کا خاوند یا تو ان کی بات پر دھیان نہیں دیتا یا اسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیتا ہے جیسے کہ وہ بہراہو۔ مصنفہ کہتی ہیں کہ مرد اکثر اوقات جان بوجھ کر ایسا نہیں کررہے ہوتے۔ اس کی وجہ ان کی دماغ کی وہ قدرتی ساخت ہے جس کا تعلق سننے کی صلاحیت سے ہے۔ ڈاکٹر بریزن ڈین کی یہ کتاب ایک ہزار سےزیادہ ان مریضوں کے مطالعے اور تحقیق پر مبنی ہے جو ان کے کلینک میں آئے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ میری نظر سے ابھی تک کوئی ایسا شخص نہیں گذرا جس کے دماغ میں عورتوں اور مردوں دونوں کی خصوصیات موجود ہوں۔وہ کہتی ہیں کہ دماغ یا تو صرف مرد ہوتا ہے یا پھر صرف عورت۔مرد اور عورت دونوں دنیا کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔باتونی ہونے کے ساتھ ساتھ عورت میں قدرتی طورپر یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنے گردو پیش کی تبدیلیوں کا ادراک کرکے اپنی زندگی کے بارے میں بہتر فیصلے کرسکے۔تاہم کئی دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہرچند کہ وہ مخصوص ہارمون جس کا ذکر ڈاکٹر بریزن ڈین نے اپنی تحقیق میں کیا ہے مرد اور عورت کی شخصیت میں فرق قائم کرنے میں کردار ادا کرتا ہے لیکن اس سلسلے میں معاشرتی عوامل اور ماحول بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔آکسفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈیبرا کیمرن کہتی ہیں کہ ہماری گفتگو میں روانی اور تیزی کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ ہم کس سے بات کررہے ہیں اور ہم کیا کہنے جارہے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ اس بارے میں بہت سے تحقیقی مطالعوں کو سامنے رکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ بولنے کے حوالے سے عورتوں اور مردوں کے درمیان زیادہ فرق نہیں ہے۔
Thanker for voa

سائبر کرائمز کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ

Posted by Anonymous on 4:20 PM

مشہور سائنسی رسالے سائنٹفک امریکن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انٹرنیٹ کرائمز کمپلینٹ سینٹر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2008ء میں سائبر کرائمز کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔انٹرنیٹ کرائمز کمپلینٹ سینٹر ، ایف بی آئی اور نیشنل وائٹ کالر کرائمز سینٹر کے تعاون سے کام کرنے والا ایک ادارہ ہے جس کی مالی معاونت کانگریس کرتی ہے ۔ یہ غیر فلاحی ادارہ قانون نافذ کرنے والوں کو مالیاتی اور سائبرکرائمز کی تفتیش کے طریقوں کے بارے میں تربیت فراہم کرتا ہے۔ادارے کا کہنا ہے کہ 2008ءمیں اسے سائبر فراڈ، کمپیوٹر ہیکس، چائلڈ فونو گرافی اور دوسرے آن لائن جرائم کے بارے میں 275284 شکایات موصول ہوئیں جو 2007ءکی نسبت 33 فی صد زیادہ تھیں، جب ادارے نے 206884 شکایات ریکارڈ کی تھیں۔ ادارے کا کہناہےکہ ان جرائم سے لوگوں کو لگ بھگ 26 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جو 2007ءکے مقابلے میں دس فی صد زیادہ تھا۔گذشتہ سال ادارے کو جوکل شکایات موصول ہوئیں ان میں سے 33 فی صد کا تعلق آن لائن خرید و فروخت سے تھا۔ جن میں یا تو چیزیں خریداروں تک نہ پہنچ سکیں یا ان کی قیمت کی ادائیگیاں نہ ہوسکیں۔ یہ شرح 2007ءکے مقابلے میں 32 فی صد زیادہ تھی۔ آن لائن نیلامی کے فراڈ کے واقعات 25 فی صدرہے جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں معمولی کم تھے۔ کمپیوٹر فراڈ، اور چیک فراڈ کی شکایات کل تعداد کا ساڑھے 19 فی صد تھیں۔مجموعی طورپر ان جرائم کا ہدف بننے والے افراد کو اوسط 931 ڈالر فی کس کا نقصان اٹھانا پڑا۔ادارےکے مطابق حکام سے رابطہ کرنے والوں میں سے لگ بھگ 74 فی صد نے کہا کہ انہوں نے اس فراڈ کے بارے میں شکایات ای میل کے ذریعے درج کرائیں۔جب کہ دلچسپی کا پہلو یہ ہے کہ گذشتہ سال جعلی ای میلز کے سب سے بڑے فراڈ میں ایف بی آئی کے نام سے بھیجی جانے والی جعلی ای میلز کی ایک خاصی بڑی تعداد بھی شامل تھی جن میں لوگوں سےان کی ذاتی معلومات، مثلاً بینک اکاؤنٹ نمبر اس جھوٹے دعوے کے ساتھ مانگے جاتےتھے کہ ادارے کو ایک بڑے مالیاتی فراڈ کی تحقیق کے لیے ان نمبروں کی ضرورت ہے۔کچھ جعلی ای میلز میں تو یہ دعویٰ تک کیا گیا کہ وہ ایف بی اے کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر، ڈپٹی ڈائریکٹر جان ایس اسٹول یا بیور کے کسی اعلیٰ عہدے دار یا تفتیشی یونٹ سے براہ راست بھیجی جارہی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایف بی آئی کی طرف سے نجی مالیاتی امورکے بارے میں امریکی شہریوں سے امی میل کے ذریعے رابطہ نہیں کیا جاتا۔2008ءمیں ایک اور سب سے عام سائبر کرائم میں وہ ہیکرز شامل تھے جنہوں نے لوگوں کے ذاتی ای میل اکاونٹس میں نقب لگائی ۔یہ جرم اس طریقے سے کیا گیا کہ کسی شخص کا ای میل اکاؤنٹ ہیک کرکے اس میں موجود دوسرے لوگوں کے ای میل پتوں پر ، متعلقہ شخص کی جانب سے کسی خاص اکاؤنٹ نمبر میں رقم منتقل کرنے کے لیے کہا گیا۔مثلاً یہ کہہ کر میں اس وقت کسی دوسرے ملک میں پھنس گیا ہوں جہاں مبینہ طورپر مجھے لوٹ لیا گیا ہے اور مجھے ہوٹل کے بلوں اور سفر کے اخراجات کے لیے اس وقت ایک ہزار ڈالر کی اشد ضرورت ہے۔
I thanker from voa