ایڈز کا مرض پاکستان میں اس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ ماہرین اسے ایٹم بم سےتشبیہ دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں ایڈز کے مریضوں کا ایٹم بم بہت تیزی سے سلگ رہا ہے اور جب بھی یہ بم پھٹا کئی نسلوں کی تباہی کا سبب بنے گا۔
کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایڈز کا عالمی دن منایاجارہا ہے ۔بد قسمتی سے یہ مرض پاکستان میں اس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ ماہرین اسے ایٹم بم سےتشبیہ دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں ایڈز کے مریضوں کا ایٹم بم بہت تیزی سے سلگ رہا ہے اور جب بھی یہ بم پھٹا کئی نسلوں کی تباہی کا سبب بنے گا۔
عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے اور وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے شروع کردہ سندھ ایڈز کنڑول پروگرام کے سرویلینس کوآرڈی نیٹرڈاکٹر محمد سلیمان اڑھو نے آج وائس آف امریکا سے خصوصی بات چیت کے دوران بتایا "پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے اور اس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو صورتحال کنٹرول سے باہر ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سےپاکستان میں اس مرض کو چھپایا جاتا ہے جو بذات خود ایک خطرناک اقدام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک صرف چار ہزار مریض ہی رجسٹر ہو سکے ہیں جبکہ جس تیزی سے یہ مرض معاشرے میں سرایت کررہا ہے اس تناسب سے ملک بھر میں اسی ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزارتک مریضوں کو سامنے آجانا چاہئے تھا۔
ڈاکٹر سلیمان کے مطابق اس مرض کو چھپانے کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ علاج نہ کرانے کی صورت میں یہ مرض ایک سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے ، چوتھے اور لامحدود افراد تک پھیل سکتا ہے۔ملک میں اس وجہ سے بھی ایڈز طوفانی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیشتر افراد ایسے ہیں جن میں ایڈز کے وائرس کا امکان موجود ہے تاہم شعور نہ ہونے کے باعث وہ اپنا طبی معائنہ نہیں کراتے جس کی وجہ سے یہ مرض ان کے اہل خانہ میں پھیل رہاہے یہاں تک کہ آنے والی نسلیں بھی اس سے متاثر ہورہی ہیں کیوں متاثرہ افراد کے ہاں جو اولاد ہوتی ہے وہ پیدائشی طور پر ایڈز کے مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر محمد سلیمان اڑھو ایڈز کے پھیلاؤ کی چار اہم وجوہات بتاتے ہیں۔اول سرنج کے ذریعے نشہ ،دوم خواجہ سرا ،سوم مرد کے مرد سے جنسی تعلقات اور نمبر چار طوائفوں سے تعلقات۔
ڈاکٹر سلیمان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں سرنج کے ذریعے عادی نشہ ور افراد کی تعداد دن دگنی رات چوگنی رفتار سے بڑھ رہی ہے ۔ استعمال شدہ سرنج کے بار بار استعمال سے ایڈز تیزی سے انسانوں میں پھیل رہا ہے۔ پھر یہ افراد نشے کی خاطر خون تک بیچنے سے گریز نہیں کرتے ۔ اس وجہ سے ایڈز کے مریضوں میں تشویشناک حد اضافہ ہورہا ہے۔
ایک اور بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواجہ سراغریبی کے باعث غیرمحفوظ جنسی تعلقات کو بڑھاوے کا سبب بن رہے ہیں۔ سن ستر اور اسی کے دھائی میں شہروں میں باقاعدہ کوٹھے ہوا کرتے تھے جہاں طوائفیں اور سیکس ورکر محدود تھے اور ان کے گاہک بھی محدود ہوا کرتے تھے مگر مارشل لا کے دور میں کوٹھوں پر پابندی لگادی گئی جس کا تاریک پہلو یہ نکلا کہ اب گلی گلی سڑک سڑک طوائفیں، خواجہ سرا اور مرد سیکس ورکرز پھیل گئے ہیں۔ اب ان پر کوئی روک نہیں رہی لہذا یہ معاشرے میں ایڈز پھیلانے کا 'دلکش و دلچسپ ذریعہ 'بن گئے ہیں ۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر سلیمان نے کہا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی حب کراچی میں اس وقت بارہ ہزار افراد منشیات کی لعنت کا شکار ہیں جن میں سے تین ہزار افراد کے ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آ چکے ہیں ۔ڈاکٹر سلیمان نے وی او اے کو بتایا کہ صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں تیس فیصد مریض سرنج کے باعث ایڈز کا شکار ہوئے ۔اس وقت لاڑکانہ صوبے سندھ میں سب سے زیادہ ایڈز کے مریض رکھنے والا شہر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی اور دیگر شہروں میں ایڈز کے پھیلاؤ میں اب تو لاعلم بچے بھی اہم کردار ادا کرنے لگے ہیں ۔ مختلف چورنگیوں ، گلی ،محلے اور بازاروں میں نابالغ سیکس ورکرز باآسانی دستیاب ہیں اور چند روپوں میں وہ یہ فعل کرانے کے لئے آمادہ بھی ہو جاتے ہیں ۔ کراچی کے صدر بازار میں واقع جہانگیر پارک کے ٹوائلٹ بچوں کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کا گڑھ ہیں۔ یہاں آنے والے مرد ان بچوں کو نہایت کم قیمت میں اس مکروہ فعل میں پھنسا لیتے ہیں۔ ایسے بچوں کی اکثریت کا یہ موقف ہے کہ انہیں اس کام سے زیادہ پیسے کسی اور کام میں نہیں مل سکتے ، پانچ سے چھ مرتبہ کے فعل میں وہ پانچ سے آٹھ سو روپے ایک دن میں کما لیتے ہیں ۔ لیکن ان چند سو روپوں کے عوض ملک اور معاشرہ کس نہج پر پہنچ چکا ہے یا وہ خود مستقبل میں اس کی کس قدر بھیانک سزا پائیں گے اس کا انہیں کوئی علم نہیں۔
ڈاکٹر سلیمان کے مطابق کراچی میں مزار قائد ، اللہ والی چورنگی ، طارق روڈ ، کلفٹن اور شاہراہ فیصل سمیت مختلف علاقوں میں جسم فروش عورتیں شام کے وقت نمودار ہوتی ہیں اور سینکڑوں مردخوشی خوشی ان کا شکارہو جاتے ہیں ۔۔اور بدلے میں کیا پاتے ہیں ایڈز جو چند دنوں یا ہفتوں میں ہی ان کے گھر تک پہنچ جاتا ہے۔
ڈاکٹر سلمان کے مطابق پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی بنیادی وجہ شعور کا نہ ہونا ہے ۔ہمارے معاشرے میں عام طور پر جنسی تعلیم کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے اور کنڈم کے لفظ کو بھی ناپاک سمجھا جاتا ہے ، ایسی صورتحال میں نوجوان نسل انٹر نیٹ ، فلموں ، مختلف کتابوں اورہم عمر دوستوں سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے جو زیادہ تر ناقص ہوتی ہے اور بہت زیادہ نقصان کا سبب بھی لہذا والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے بچوں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کریں ۔ ان کے مطابق جب 18 سال سے 40 سال کی عمر کے جوان افراد جب سیکس کی تعلیم سے بے بہرہ ہوں اور سیکس فطری وجسمانی ضرورت بن جائے تو قدم بہکنے لگتے ہیں اور بہکنے کا خطرناک انجام ہی ایڈز ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام ایڈز کی روک تھام کیلئے مختلف اسکولز ، کالجز ، انسٹی ٹیوٹس اور پروفیشنلز میں تقاریب کا انعقاد کرتا ہے جس میں اس موذی مرض سے متعلق نوجوانوں میں آگاہی فراہم کی جاتی ہے ۔ مرض سے متعلق اراکین قومی اسمبلی کو بھی بریف کیا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر سلمان کے مطابق اگر چہ پاکستان میں دوسرے کئی ممالک کے مقابلے میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد کم ہے۔بھارت کے شہر بھوپال کے ایک اسپتال کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہاں صرف ایک اسپتال میں ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد آٹھ ہزار تھی تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسے مریضوں کی موجودہ تعداد پھربھی بہت زیادہ ہے ۔
ڈاکٹر سلیمان نے بتایا کہ متعدد تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ ختنہ ایڈز کے عدم پھیلاؤ میں انتہائی موثر کردار ادا کرتی ہے۔