افغان دینی عالم کی طرف سے شادی کے قانون کا دفاع، مغرب پر نکتہ چینی

Posted by Anonymous on 11:17 AM

افغانستان کے ایک سرکردہ مذہبی رہنما نے شادی کے قانون کا دفاع کرتے ہوئے مغربی طاقتوں پر الزام عائد کیا ہے کہ جب اُنھیں نتائج پسند نہیں آتے، وہ جمہوریت کا مذاق اُڑانے لگتے ہیں۔محمد آصف محسنی نے ہفتے کے دِن کہا کہ یہ قانون جمہوری عمل کا نتیجہ ہے، اور اعتراضات کاباعث اِس کا ناقص ترجمہ ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون شادی کی آڑ میں زنا کے مترادف ہے جِس میں کہا گیا ہے کہ ماسوابیماری کے بیویاں شوہروں کو جنسی تعلق سے انکار نہیں کر سکتیں۔افغان صدر حامد کرزئی نے قانون پر عمل درآمد کو روک دیا ہے اور قانون پر نظر ثانی کے احکامات صادر کر دیے ہیں۔محسنی کا کہنا ہے کہ جب ایک عورت بیمار ہو، بچے کو جنم دیا ہو یا روزے سے ہو، اُسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جنسی تعلق سے انکار کرے۔ محسنی مزید کہتے ہیں کہ یہ قانون شریعت کے عین مطابق ہے اوراِس میں کسی طرح کی تبدیلی لائی گئی تو شیعہ برادری کے آئینی حقوق کی انحرافی ہوگی۔حالانکہ افغانستان کے دستور میں مرد اور عورتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں، اِس میں شیعہ برادری، جوملک کی آبادی کا 20فی صد ہے، کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مذہبی روایات کی رو سے مختلف عائلی قانون اپنا سکتے ہیں۔امریکہ ، اقوامِ متحدہ اور نیٹو نے اِس قانون پربشکریہ وی او اے نکتہ چینی کی ہے۔