سائبر کرائمز کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ

Posted by Anonymous on 4:20 PM


مشہور سائنسی رسالے سائنٹفک امریکن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انٹرنیٹ کرائمز کمپلینٹ سینٹر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2008ء میں سائبر کرائمز کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔انٹرنیٹ کرائمز کمپلینٹ سینٹر ، ایف بی آئی اور نیشنل وائٹ کالر کرائمز سینٹر کے تعاون سے کام کرنے والا ایک ادارہ ہے جس کی مالی معاونت کانگریس کرتی ہے ۔ یہ غیر فلاحی ادارہ قانون نافذ کرنے والوں کو مالیاتی اور سائبرکرائمز کی تفتیش کے طریقوں کے بارے میں تربیت فراہم کرتا ہے۔ادارے کا کہنا ہے کہ 2008ءمیں اسے سائبر فراڈ، کمپیوٹر ہیکس، چائلڈ فونو گرافی اور دوسرے آن لائن جرائم کے بارے میں 275284 شکایات موصول ہوئیں جو 2007ءکی نسبت 33 فی صد زیادہ تھیں، جب ادارے نے 206884 شکایات ریکارڈ کی تھیں۔ ادارے کا کہناہےکہ ان جرائم سے لوگوں کو لگ بھگ 26 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جو 2007ءکے مقابلے میں دس فی صد زیادہ تھا۔گذشتہ سال ادارے کو جوکل شکایات موصول ہوئیں ان میں سے 33 فی صد کا تعلق آن لائن خرید و فروخت سے تھا۔ جن میں یا تو چیزیں خریداروں تک نہ پہنچ سکیں یا ان کی قیمت کی ادائیگیاں نہ ہوسکیں۔ یہ شرح 2007ءکے مقابلے میں 32 فی صد زیادہ تھی۔ آن لائن نیلامی کے فراڈ کے واقعات 25 فی صدرہے جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں معمولی کم تھے۔ کمپیوٹر فراڈ، اور چیک فراڈ کی شکایات کل تعداد کا ساڑھے 19 فی صد تھیں۔مجموعی طورپر ان جرائم کا ہدف بننے والے افراد کو اوسط 931 ڈالر فی کس کا نقصان اٹھانا پڑا۔ادارےکے مطابق حکام سے رابطہ کرنے والوں میں سے لگ بھگ 74 فی صد نے کہا کہ انہوں نے اس فراڈ کے بارے میں شکایات ای میل کے ذریعے درج کرائیں۔جب کہ دلچسپی کا پہلو یہ ہے کہ گذشتہ سال جعلی ای میلز کے سب سے بڑے فراڈ میں ایف بی آئی کے نام سے بھیجی جانے والی جعلی ای میلز کی ایک خاصی بڑی تعداد بھی شامل تھی جن میں لوگوں سےان کی ذاتی معلومات، مثلاً بینک اکاؤنٹ نمبر اس جھوٹے دعوے کے ساتھ مانگے جاتےتھے کہ ادارے کو ایک بڑے مالیاتی فراڈ کی تحقیق کے لیے ان نمبروں کی ضرورت ہے۔کچھ جعلی ای میلز میں تو یہ دعویٰ تک کیا گیا کہ وہ ایف بی اے کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر، ڈپٹی ڈائریکٹر جان ایس اسٹول یا بیور کے کسی اعلیٰ عہدے دار یا تفتیشی یونٹ سے براہ راست بھیجی جارہی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایف بی آئی کی طرف سے نجی مالیاتی امورکے بارے میں امریکی شہریوں سے امی میل کے ذریعے رابطہ نہیں کیا جاتا۔2008ءمیں ایک اور سب سے عام سائبر کرائم میں وہ ہیکرز شامل تھے جنہوں نے لوگوں کے ذاتی ای میل اکاونٹس میں نقب لگائی ۔یہ جرم اس طریقے سے کیا گیا کہ کسی شخص کا ای میل اکاؤنٹ ہیک کرکے اس میں موجود دوسرے لوگوں کے ای میل پتوں پر ، متعلقہ شخص کی جانب سے کسی خاص اکاؤنٹ نمبر میں رقم منتقل کرنے کے لیے کہا گیا۔مثلاً یہ کہہ کر میں اس وقت کسی دوسرے ملک میں پھنس گیا ہوں جہاں مبینہ طورپر مجھے لوٹ لیا گیا ہے اور مجھے ہوٹل کے بلوں اور سفر کے اخراجات کے لیے اس وقت ایک ہزار ڈالر کی اشد ضرورت ہے۔
I thanker from voa