Pak vs Englan Test Series 2010 in England

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 11:53 PM


Firtst Test match between Pakistan and England was started 29 July 2010..


First Day of the 1st Test match ended on 331 runs of England for the loss of 4 wickets.





second test match is being played at adgbegstan .. in the first day pakistan has lost 6 wickets at 37 runs...
Pakistan Cricket Team is showing better performance than the previous test matches...
4rth and last Test match is tarted at 26 Aug 2010
pakistan won the toss and decided to field first.
viewComplete Score Card: Click here

Awais Javed Sheikhupura

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 10:18 AM







Awais Javed Sheikhupura

profile:Currently he is a Student of 9th class.His Teacher Name is Abdul Rehman Shakir... But in the past Awais javed was the Shagird of Master Khalid Alma,rof Chanta Marny wala...


Awais Javed was born in at Jandiala Road Sheikhupura in 1993.Profile Photo of Awais Javed is Available on SheikhupuraNews(http://www.skpnews.tk/)

and Other Pictures of Awais Javed is Below...........

























1. Awais is on Wedding ceremoney...
2, Awais Javed is at Hiran Minar in 2008
3. Awais Javed Sheikhupura is on Joy Land Park Stadium Sheikhupura pakistan
4th and Last combine Picture is contain on ChildHood Friends.... This Picture was so old when My Friend and i was a Child.... Seriously that Picture was Drawan at the Ceremoney of Awais Javed BirthDAy.....

آپ کتنے سال زندہ رہیں گے؟ How many year you will AAlive??

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 11:23 AM
آپ کو اپنی 100 ویں سالگرہ کا کیک کاٹنا یقیناً اچھا لگے گا۔
غالب نے اپنے ایک شعر میں ہزار برس جینے کی دعا دی تھی اور ہر برس بھی ایسا جو 365 کی بجائے 50 ہزار دنوں کا ہو۔
گذشتہ چند عشروں کے دوران طبی شعبے میں ہونے والی ترقی اور صحت و صفائی سے متعلق شعور و آگہی بڑھنے سے انسانی عمر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اکثر ترقی یافتہ ملکوں میں اوسط عمر 75 سال سے زیادہ ہے۔جب کہ جاپان میں 80 سال سے بھی زیادہ ہے۔ہوفنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 100 سال سے زیادہ افراد کی تعدادتین لاکھ 40 ہزار سے زیادہ ہے اور ماہرین کو توقع ہے کہ 2050ء میں یہ تعداد 60 لاکھ سے بڑھ جائے گی۔
سائنسی شعبوں میں ہونے والی ترقی سے جہاں مہلک امراض پر قابو پانے ، طویل عرصے تک صحت مند رہنے اور لمبی مدت تک جینے کی راہ ہموار ہورہی ہے، وہاں اب آنے والے برسوں میں لوگوں کو اپنے بارے میں یہ علم بھی سکے ہوگا کہ وہ کتنے برس زندہ رہیں گے۔ اس سے انہیں اپنی زندگی اور مصروفیات کی منصوبہ بندی کرنے میں مدد ملے گی۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں آنے والے ہر ذی روح کی زندگی کی ساری تفصیلات ایک لوح میں لکھی ہیں۔ اور طبی ماہرین اس لوح کو نام دے رہے ہیں جین کا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہر شخص کے جین میں ، اس کی عادات، بیماریوں کی جانب رجحان اور زندگی کی طوالت کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔
امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی کے پبلک سکول آف پبلک ہیلتھ اور بوسٹن میڈیکل سینٹر میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایک ایسے جین کا پتا لگایا ہے جس کا تعلق زندگی کی طوالت سے ہے ۔
جریدے سائنس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بوسٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ اس جین کی دریافت کے بعد اب ڈاکٹر کسی بھی شخص کے بارے میں یہ زیادہ بہتر طور پر بتاسکیں گے کہ وہ کتنا عرصہ زندہ رہے گا، اور اسے کون سی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔
تحقیق میں شامل ایک سائنس دان ڈاکٹر ٹامس پرلز کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے والدین اپنے بچے کی پیدائش سے کافی پہلے یہ جان سکیں گے کہ صحت کے حوالےسے اس کی زندگی کیسی ہوگی اور وہ اندازاً کتنے برس جیئے گا۔اس سے انہیں اپنے بچے کو جنم دینے یا نہ دینے کے بارے میں فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے گی۔
ایک سو سال سے زیادہ عمر کے افراد پر کی جانے والی یہ تحقیق اپنی نوعیت کی سب سے بڑی ریسرچ تھی، جس میں 100 سال سے زیادہ عمر کے 1055 افراد پر تحقیق کی گئی ۔ڈاکٹرٹامس پرلز کہتے ہیں کہ اس ریسرچ کے دوران انہیں خلیوں کے درمیان ایک ایسےتعلق کا پتاچلا،جو ان کی دراز عمری کاراز تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عمر کی طوالت کا نسلی گروہ سے گہرا تعلق ہے۔ بعض انسانی نسلوں کے افراد طویل عمر پاتے ہیں اور کچھ نسلیں ایسی ہیں جس سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی صحت کی دیکھ بھال کے باوجود لمبا عرصہ نہیں جیتے اور ایک خاص عمر پر پہنچ کر ان کے خلیوں میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہوجاتاہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپانی نسل کے افراد میں عمومی طورپر طویل عمری کا جین پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جاپان میں اوسط عمر 80 سال سے زیادہ ہے۔ جب کہ پاکستان میں یہ اوسط 62 کے قریب اور امریکہ میں 77 سال ہے۔
ڈاکٹر پرلز کا کہنا ہے کہ عمر کی طوالت پر خوراک اور زندگی گذارنے کا انداز بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں شامل 100 سال سے زیادہ عمر کے کئی افراد تمباکو نوشی کرتے تھے، تاہم وہ موٹے نہیں تھے۔ اسی طرح امریکہ کے ایک مذہبی گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد کی اوسط عمریں 88 سال تھیں، یعنی امریکہ بھر میں سب سے زیادہ۔ ڈاکٹر پرلز کہتے ہیں کہ وہ گوشت نہیں کھاتے تھے ، باقاعدگی سے ورزش کرتے تھے ، سگریٹ اور شراب نہیں پیتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر افراد بہت سی وجوہات کی بنا پر اتنی عمر نہیں پاتے، جتنا کہ وہ اپنے جین کے اعتبار سے زندہ رہ سکتے ہیں۔ تاہم وہ اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات بدل کراور صحت کا خیال رکھ کر اپنی عمر میں
10 سے 15 سال تک کا اضافہ کرسکتے ہیں
Courteus by VOA

آفریدی: ٹیسٹ سے ریٹائرمنٹ:Afridi Retired of Test Cricket

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 4:30 AM







پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی نے ہیڈنگلے ٹیسٹ کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے۔

تیس سالہ کرکٹر نے گزشتہ مئی کو چار سال کے وقفے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں اس وقت واپسی کا اعلان کیا تھا جب انہیں قومی ٹیم کا کپتان بنایا گیا۔

تاہم انہوں نے جمعہ کو لارڈز کے میدان میں آسٹریلیا کے ہاتھوں پاکستان کی ایک سو پچاس رنز سے شکست کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کو خیر آباد کہنے کا اعلان کیا۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں ایک روزہ اور ٹوئنٹی20 کرکٹ پر توجہ دوں گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک بڑا فیصلہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سلمان بٹ اس کام (کپتانی) کے لیے بہتر شخص ہے۔‘

پاکستان میں سکیورٹی خدشات کے باعث پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان انگلینڈ میں دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز ہو رہی ہے۔

اگرچہ آفریدی بدھ کو ہیڈنگلے میں ہونے دوسرے ٹیسٹ میچ میں کپتانی کریں گے لیکن اس کے فوراً بعد انگلینڈ کے ساتھ چار میچوں کی سیریز کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو نئے کپتان کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔

آفریدی نے کہا کہ ’میں نے غلط کام کیا۔ میرے خیال میں میرا مزاج ٹیسٹ کرکٹ کے لیے اچھا نہیں ہے اور مجھے اپنی ٹیم کے ساتھ اپنے آپ کو منوانے کے لیے دقتوں کا سامنا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ کرکٹ بالکل مختلف چیز ہے۔ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں ذہنی طور پر اتنا مضبوط نہیں ہوں۔ کپتان کو جوان لڑکوں اور ٹیم کے لیے ایک مثال ہونا چاہیئے لیکن میں نے ایسی کوئی مثال پیش نہیں کی۔ میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے قابل نہیں ہوں۔‘

آفریدی نے یہ بھی تسلیم کیا کہ یونس خان کو ٹیم میں شامل نہ کرنا ایک غلطی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ’انگلش حالات میں تجربہ کار کھلاڑیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں یونس خان کی ضرورت ہے۔‘

آفریدی نے اپنے پورے ٹیسٹ کیریئر میں پانچ سنچریاں بنائی ہیں اور اکثر اوقات بیکار شاٹ کھیلتے ہوئے اپنی قیمتی وکٹ گنوا دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے لارڈز ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں کیا۔

پاکستان کے کوچ وقار یونس نے آفریدی کی ریٹائرمنٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ (آفریدی) سمجھتے ہیں کہ وہ اس میں فٹ نہیں آتے اور اس لیے ٹیم کے بہتر مفاد کے لیے وہ اسے چھوڑ رہے ہیں۔

خفیہ ایجنسیوں کی جنگ War of Intelligence Agencies ISI vs CIA

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 5:09 PM










امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ایک پاکستانی شخص اسلام آباد میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے اہلکاروں کے پاس گیا اور پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات بیچنے کی کوشش کی۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ قابلِ بھروسہ شخص ہے اس نے یہ بھی کہا کہ اس کے پاس استعمال شدہ جوہری ایندھن کی سلاخیں بھی ہیں۔

اخبار کے مطابق سی آئی اے کو اس پر شک گزرا۔ اور کچھ عرصے بعد سی آئی اے کے اہلکاروں کو اندازہ ہوا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ان کے خلاف ڈبل ایجنٹ استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

سی آئی اے اہلکاروں نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو اس کے بارے میں آگاہ کیا۔ پاکستانیوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کریں گے لیکن کچھ عرصے کے بعد دونوں ایجنسیوں نے اس پر چپ سادھ لی۔

اخبار لکھتا ہے کہ سابق خفیہ اہلکاروں کے مطابق اس سے پتہ چلتا کہ امریکہ اور اس کے دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑے اتحادی کے آپس میں کتنے دوغلے تعلقات ہیں۔ سب کے سامنے امریکی اہلکار پاکستانی اہلکاروں کی القاعدہ اور طالبان رہنماؤں کو ہلاک اور گرفتار کرنے پر مدح سرائی کرتے ہیں لیکن نجی طور پر بے اعتباری کی فضا قائم ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ انداز میں خفیہ ایجنسیوں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اخبار کے مطابق سی آئی اے نے کئی مرتبہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے آئی ایس آئی میں گھسنے کی کوشش کی۔ اسی طرح آئی ایس آئی نے بھی کوشش کی کہ سی آئی اے کے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کریں کہ سی آئی اے پاکستان کے جوہری پروگرام کے متعلق کیا جانتی ہے۔


سی آئی اے اور آئی ایس آئی ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جاسوسی بھی
سی آئی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کرنے کے لیے بھی جاسوس بھرتی کرتی ہے اور بغیر پائلٹ کے یہ مسلح جاسوس طیارے بلوچستان کے علاقے سے اڑائے جاتے ہیں۔

آئی ایس آئی کے ایک اہلکار نے نام نے ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں ایجنسیوں میں کافی بہتر تعلقات کار ہیں۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ایجنسی ڈبل ایجنٹ استعمال کرتی ہے۔

اخبار کے مطابق پاکستان کے امریکہ کے متعلق تحفظات کی ایک وجہ بھی ہے۔ بش انتظامیہ کے پہلے دور میں، پاکستان کو اس وقت بہت برا لگا جب اس نے امریکہ کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا لیکن بعد میں اسے پتہ چلا کہ سی آئی اے نے یہ معلومات برطانیہ کو مہیا کر دیں۔

اس واقعہ کی وجہ سے ایک بڑا تنازعہ کھڑا ہو گیا جس سے نہ صرف سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا بلکہ دونوں فریقوں میں بداعتمادی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ایک وقت ایسا آ گیا کہ پاکستان نے سی آئی اے کے سٹیشن چیف کو تقریباً ملک سے نکال دیا۔


پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سی آئی اے سب سے جارحانہ آپریشن کر رہی ہے
لیکن دونوں فریقوں کے درمیان اتنا تناؤ کہیں بھی نہیں ہے جتنا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہے جہاں لڑی جانے والی لڑائی کو سی آئی کے ڈائریکٹر لیون پنیٹا ’سی آئی اے کی تاریخ کا سب سے جارحانہ آپریشن‘ کہتے ہیں۔

اخبار کے مطابق اس علاقے کو جاسوسی کی زبان میں شیشوں کا بیابان کہتے ہیں، جہاں جو نظر آتا ہے درحقیقت وہ نہیں ہے۔ سی آئی اے القاعدہ اور شدت پسند گروہوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے جاسوس بھرتی کرتی ہے۔ یہی کام آئی ایس آئی بھی کرتی ہے۔ اور اکثر دونوں ایجنسیاں ایک ہی شخص کو بھرتی کر لیتی ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ سی آئی اے کو یہ ہمیشہ سوچنا چاہیئے کہ جاسوس کی ہمدردیاں کسے کے ساتھ ہیں۔ امریکہ کے ساتھ، پاکستان کے ساتھ یا دشمنوں کے ساتھ۔

سابق سی آئی اے اہلکاروں کے مطابق قبائلی علاقوں آپریشن میں مشکلات کی وجہ نئے امریکی اہلکاروں کی ناتجربہ کاری اور جوانی ہو سکتی ہے۔

سنہ دو ہزار ایک کے دہشت گرد حملوں کے بعد سی آئی اے نے پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کے خلاف جاسوس بھرتی کرنے کے لیے کئی جوان افسر ان ملکوں میں بھیجے تھے۔ ان افسروں نے انجانے میں وہ لوگ بھرتی کر لیے جو سالوں سے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی ’پے رول‘ پر تھے




۔

کئی سابق سی آئی اے اہلکار اس کے قائل ہیں کہ گزشتہ سال افغانستان کے شہر خوست پر بمباری کی وجہ یہ ناتجربہ کار اہلکار تھے۔ اس حملے میں سی آئی اے کے سات افسر ہلاک ہو گئے تھے۔ سی آئی اے کا خیال تھا کہ ان کا جاسوس قبائلی علاقوں میں چھپے ہوئے القاعدہ کے نمبر دو ایمن اظواہری کے متعلق معلومات دے گا، لیکن وہ شخص ڈبل ایجنٹ نکلا جو خودکش حملہ کر گیا۔