عورتیں مردوں سے تین گنا زیادہ بولتی ہیں: نئی تحقیق

Posted by Anonymous on 9:19 PM

آپ نے شاید یہ لطیفہ سن رکھا ہوکہ جھوٹ بولنے کا مقابلہ ایک ایسے شخص نے جیتا جس نے کہا تھا کہ میں نے ایک جگہ دوعورتوں کو چپ بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس لطیفے سے ظاہر ہے کہ خواتین کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ باتونی ہوتی ہیں۔ اگرچہ ایسے مردوں کی بھی کمی نہیں ہے جو دوسروں کو بولنے کاموقع ہی نہیں دیتے اور ایسی خواتین بھی اکثر مل جاتی ہیں جو بہت ہی کم بولتی ہیں۔ تاہم اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بولنے میں خواتین کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اوسطاً مردوں کی نسبت تین گنا زیادہ زیادہ بولتی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کتاب ایک خاتون نے لکھی ہے جو ماہرنفسیات بھی ہیں۔ڈاکٹر لویان بریزن ڈین نے اپنی کتاب ’فی میل برین
Dr. Louann Brizendine‘ میں لکھا ہے کہ ایک عام عورت پورے دن اوسطاً 20 ہزار الفاظ بولتی ہے جوکہ ایک عام مرد سے اوسطاً 13 ہزار الفاظ یعنی تین گنا زیادہ ہیں۔ڈاکٹر بریزن ڈین کہتی ہیں کہ عورتوں کے زیادہ باتونی ہونے کی کئی وجوہات ہیں،اول یہ کہ وہ مردوں کی نسبت زیادہ تیز بولتی ہیں۔دوسرا یہ کہ گفتگو میں ان کا دماغ زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے اور بولتےوقت مردوں کےمقابلے میں ان کے دماغ کے زیادہ خلیے کام کرتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ خواتین بولتے ہوئے خود کو اچھا محسوس کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے زیادہ بولنے کی ایک اہم وجہ ان کے دماغ کی ساخت ہے۔ قدرتی طورپر عورت اور مرد کے دماغ میں فرق ہوتا ہے اور عورت کے دماغ کے وہ حصے جن کا تعلق بولنے سے ہے، زیادہ فعال ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ باتیں کرتی ہیں۔ڈاکٹر بریزن ڈین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ خواتین کے زیادہ بولنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ بولنے کے دوران ان کے دماغ کے مخصوص حصوں میں بڑی تیزی سے کیمیائی تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ تبدیلیاں ان تبدیلیوں سے مشابہت رکھتی ہیں جو ہیروئن کے عادی ایک شخص کے دماغ میں اس وقت آتی ہیں جب اس پر گہرا نشہ طاری ہوتا ہے۔ڈاکٹر بریزن ڈین کا کہنا ہے کہ زیادہ بولنے کا تعلق ان ہارمونز سے ہے جو جنس کا تعین کرتے ہیں اور جذبات اور یاداشت سے بھی متعلق ہوتے ہیں۔ یہ ہارمون پیدائش سے پہلے ہی جسم میں بن جاتے ہیں۔ چنانچہ لڑکے اور مرد، لڑکیوں اور عورتوں کی نسبت کم بولتے ہیں اور وہ اس طرح اپنے جذبات اظہار بھی نہیں کرپاتے جس طرح عورتیں کرسکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ لفظوں کے ذریعے جذبات کے اظہار میں عورت کا دماغ آٹھ رویہ شاہراہ کی مانند ہوتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں مرد کا دماغ دیہی علاقوں کی چھوٹی سی سڑک کی طرح ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں لڑکے اورمرد صنف مخالف کی نسبت کم گفتگو کرتے ہیں۔
The Female Brainکتاب کی منصفہ ڈاکٹر بریزن ڈین کہتی ہیں کہ اس مخصوص ہارمون کی وجہ سے دماغ کا وہ حصہ بھی متاثر ہوتا ہے جس کا تعلق سننے سے ہے۔اس بنا پر مردوں کی قوت سماعت میں ایک خاص نوعیت کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اکثر بیویاں عام طورپر یہ شکایت کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ ان کا خاوند یا تو ان کی بات پر دھیان نہیں دیتا یا اسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیتا ہے جیسے کہ وہ بہراہو۔ مصنفہ کہتی ہیں کہ مرد اکثر اوقات جان بوجھ کر ایسا نہیں کررہے ہوتے۔ اس کی وجہ ان کی دماغ کی وہ قدرتی ساخت ہے جس کا تعلق سننے کی صلاحیت سے ہے۔ ڈاکٹر بریزن ڈین کی یہ کتاب ایک ہزار سےزیادہ ان مریضوں کے مطالعے اور تحقیق پر مبنی ہے جو ان کے کلینک میں آئے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ میری نظر سے ابھی تک کوئی ایسا شخص نہیں گذرا جس کے دماغ میں عورتوں اور مردوں دونوں کی خصوصیات موجود ہوں۔وہ کہتی ہیں کہ دماغ یا تو صرف مرد ہوتا ہے یا پھر صرف عورت۔مرد اور عورت دونوں دنیا کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔باتونی ہونے کے ساتھ ساتھ عورت میں قدرتی طورپر یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنے گردو پیش کی تبدیلیوں کا ادراک کرکے اپنی زندگی کے بارے میں بہتر فیصلے کرسکے۔تاہم کئی دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہرچند کہ وہ مخصوص ہارمون جس کا ذکر ڈاکٹر بریزن ڈین نے اپنی تحقیق میں کیا ہے مرد اور عورت کی شخصیت میں فرق قائم کرنے میں کردار ادا کرتا ہے لیکن اس سلسلے میں معاشرتی عوامل اور ماحول بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔آکسفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈیبرا کیمرن کہتی ہیں کہ ہماری گفتگو میں روانی اور تیزی کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ ہم کس سے بات کررہے ہیں اور ہم کیا کہنے جارہے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ اس بارے میں بہت سے تحقیقی مطالعوں کو سامنے رکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ بولنے کے حوالے سے عورتوں اور مردوں کے درمیان زیادہ فرق نہیں ہے۔
Thanker for voa