نیویارک میں غیرت کے نام پر بہیمانہ قتل: اسلامی برادری کی مذمت

Posted by Anonymous on 11:22 AM

امریکی ریاست نیو یارک کے شہر بفلو میں ایک مسلم ٹی وی چینل چلانے والے شخص مزمل حسن نے جب مبینہ طور پر اپنی بیوی آسیہ حسن کو بہیمانہ طور پر گلا کاٹ کر مار ڈالا تو پورے امریکی میڈیا میں یہ سوال اٹھا کہ کیا اس کا کوئی تعلق اسلام یا غیرت کے نام پر قتل سے تھا۔ اس کے جواب میں امریکہ بھر کی مسلمان تنظیموں نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے گھریلو تشدد کی بد ترین شکل قرار دیا اور اعتراف کیا کہ یہ مسئلہ امریکہ کی تمام برادریوں کی طرح مسلمانوں میں بھی موجود ہے۔ پیر کو نیو یارک کے علاقے کوئینز میں ایک پریس کانفرنس میں اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ یا اکنا کے صدر ڈاکٹر زاہد حسن بخاری نے اعلان کیا کہ ان کی تنظیم اپنی فلاحی شاخ ’اکنا ریلیف یو ایس اے‘ کے ساتھ مل کر اس مسئلے کے بارے میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کے لیے باقاعدہ مہم کا آغاز کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں وہ مختلف مقامی تنظیموں اور مساجد کے ذریعے معلومات فراہم کرنے کے علاوہ مسلم لیڈروں کے لیے باقاعدہ ٹریننگ کا آغاز بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’ہم اپنی برادریوں میں لیڈرز اور اماموں کے لیے تربیت کا بھی انتظام کریں گے تاکہ اگلی دفعہ جب کوئی عورت مدد کے لیے آئے، تو نہ اسے نظر انداز کیا جائے اور نہ اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔، انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ مسلم برادریوں میں گھریلو تشدد جیسی لعنت کی طرف توجہ اس وقت مبذول ہوئی جب اس قسم کا بہیمانہ واقعہ سامنے آیا۔ گھریلو تشدد کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام کے مطابق خاندانی اقدار سے لوگوں کو روشناس کرانے کے لیے اکنا اس سال موسم خزاں میں ایک اور مہم کا آغاز کرے گی جس کا اعلان اکنا کے قومی کنونشن کے موقعے پر کیا جائے گا۔ پریس کانفرنس میں شریک گھریلو تشدد کے خلاف ایک غیر سرکاری تنظیم ٹرننگ پوائنٹ کی ڈائریکٹر روبینہ نیاز نے کہا کہ گھریلو تشدد صرف خواتین کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے پورا خاندان متاثر ہوتا ہے اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جو بچے اپنے گھروں میں تشدد دیکھتے ہیں ان میں سے عمومًا لڑکے بڑے ہو کر اپنی ساتھی خواتین پر تشدد کرتے ہیں، جب کہ لڑکیاں ایسے تشدد کو برداشت کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیائی برادریوں میں گھریلو تشدد سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ سوشل ورکرز کی شدید کمی ہے۔ اکنا کا شمار امریکہ میں مسلمانوں کی بڑی تنظیموں میں ہوتا ہے اور اس نے اپنے فلاحی اور تعلیمی کاموں کے ذریعے مقامی آبادیوں کے درمیان اپنا مقام پیدا کرنا شروع کر دیا ہے۔