kia Music Jayez hy? plz Read the Full post

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 6:35 PM
ديا ہے، اس كا مطالعہ كريں.




اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:






يہ حديث صحيح ہے امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں اس سے حجت ليتے اسے بالجزم معلق روايت كيا ہے، اور باب كا عنوان باندھتے ہوئے كہا ہے:






" باب فيمن يستحل الخمر و يسميہ بغير اسمہ "






شراب كو حلال كرنے اور اسے كوئى نام دينے والے كے متعلق باب.






اور اس حديث ميں گانے بجانے اور ناچ كى حرمت كى دليل دو وجہ سے پائى جاتى ہے






پہلى وجہ:






نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " وہ حلال كر لينگے "






يہ اس بات كى صراحت ہے كہ يہ مذكور اشياء شريعت ميں حرام ہيں، تو يہ لوگ انہيں حلال كر لينگے، اور ان مذكورہ اشياء ميں معازف يعنى گانے بجانے كے آلات بھى شامل ہيں، جو كہ شرعا حرام ہيں جنہيں يہ لوگ حلال كر لينگے.






دوم:






ان گانے بجانے والى اشياء كو ان اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے جن كى حرمت قطعى طور پر ثابت ہے، اور اگر يہ حرام نہ ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے ان حرام اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر نہ كرتے "






ديكھيں: السلسلۃ الصحيحۃ للالبانى ( 1 / 140 - 144 ).






شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:






يہ حديث معازف ( يعنى گانے بجانے كے آلات ) كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، اور اہل لغت كے ہاں معازت گانے بجانے كے آلات كو كہا جاتا ہے، اور يہ اسم ان سب آلات كو شامل ہے "






ديكھيں: المجموع ( 11 / 535 ).






اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" اور اس باب ميں سعد الساعدى، اور عمران بن حصين اور عبد اللہ بن عمرو، اور عبد اللہ بن عباس، اور ابو ہريرہ، اور ابو امامہ الباھلى، اور ام المومنين عائشہ، اور على بن ابى طالب، اور انس بن مالك، ار عبد الرحمن بن سابط، اور الغازى بن ربيعۃ رضى اللہ تعالى عنہم بھى ہيں ) پھر اپنى كتاب اغاثۃ اللھفان ميں اس حديث كو ذكر كيا ہے، اور كہا ہے كہ يہ حديث حرمت پر دلالت كرتى ہے.






اور نافع رحمہ اللہ بيان كرتےہيں كہ:






" ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بانسرى بجنے كى آواز سنى تو انہوں نے اپنے كانوں ميں انگلياں ركھ ليں اور راستے سے ہٹ كر مجھے كہنے لگے نافع كيا تم كچھ سن رہے ہو ؟






تو ميں نے عرض كيا: نہيں، تو انہوں نے اپنے كانوں سے انگلياں نكال ليں، اور كہنے لگے، ميں ايك بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھا تو انہوں نے آواز سنى تو اسى طرح كيا "






صحيح سنن ابو داود.






كچھ لوگ سمجھتے ہيں كہ يہ حديث اس كى حرمت كى دليل نہيں كيونكہ اگر ايسا ہى ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو اپنے كان بند كرنے كا حكم ديتے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بھى اسى طرح نافع كو حكم ديتے!






تو اس كا جواب يہ ديا جاتا ہے كہ: وہ اسے غور سے كان لگا كر نہيں سن رہے تھے بلكہ اس كى آواز ان كے كان ميں پڑ گئى تھى، اور سامع اور مستمع ميں فرق پايا جاتا ہے، سامع صرف سننے والے كو كہتے ہيں،اور مستمع كان لگا كر سننے والے كو كہتے ہيں.






شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" انسان جو چيز ارادہ اور قصد سے نہ سنے بالاتفاق آئمہ كرام كے اس پر كوئى چيز مرتب نہيں ہوتى نہ تو نہى اور نہ ہى مذمت، اسى ليے كان لگا كر سننے كے نتيجہ ميں مذمت اور مدح مرتب ہوتى ہے، نہ كہ سننے كے نيتجہ ميں، اس ليے قرآن مجيد كان لگا كر سننے والے كو اجروثواب ہو گا ليكن بغير ارادہ و قصد كے قرآن مجيد سننے والے كو كوئى ثواب نہيں، كيونكہ اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور اسى طرح گانے بجانے سے منع كيا گيا ہے، اگر وہ بغير كسى ارادہ و قصد كے سنتا ہے تو اسے ضرر نہيں ديگا "






ديكھيں: المجموع ( 10 / 78 ).






اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" مستمع وہ ہے جو قصدا اور ارادتا سنتا ہے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے ايسا نہيں پايا گيا، بلكہ ان سے سماع پايا گيا ہے، يعنى انہوں نے بغير كسى ارادہ قصد كے سنا اور اس كى آواز كان ميں پڑ گئى اور اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى ضرورت تھى كہ انہيں آواز بند ہونے كى خبر دى جائے، كيونكہ وہ راستے سے دوسرى طرف ہو گئے تھے، اور انہوں نے اپنے كان بند كر ليے تھے، تو وہ دوبارہ اس راستے پر آنے والے نہ تھے، اور نہ ہى آواز ختم ہونے سے قبل كانوں سے انگلياں نكالنے والے تھے، تو اس ليے ضرورت كى بنا پر مباح كر ديا گيا "






ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 10 / 173 ).






لگتا ہے كہ دونوں اماموں كى كلام ميں مذكور سماع مكروہ ہو، اور ضرورت كى بنا پر مباح كيا گيا ہو، جيسا كہ امام مالك رحمہ اللہ كے قول ميں آگے بيان كيا جائيگا، واللہ اعلم.






اس كے متعلق آئمہ اسلام كے اقوال:






قاسم رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" گانا بجانا باطل ميں سے ہے "






اور حسن رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" اگر وليمہ ميں لہو اور گانا بجانا ہو تو اس كى دعوت قبول نہيں "






ديكھيں: الجامع للقيروانى صفحہ نمبر ( 262 - 263 ).






اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" آئمہ اربعہ كا مذہب ہے كہ گانے بجانے كے سب آلات حرام ہيں، صحيح بخارى وغيرہ ميں ثابت ہے كہ:






" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خبر دى ہے كہ ان كى امت ميں كچھ ايسے لوگ بھى آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا حلال كر لينگے "






اور اس حديث ميں يہ بيان كيا كہ ان كى شكليں مسخ كر كے انہيں بند اور خنزير بنا ديا جائيگا....






اور آئمہ كرام كے پيروكاروں ميں سے كسى نے بھى گانے بجانے كے آلات ميں نزاع و اختلاف ذكر نہيں كيا "






ديكھيں: المجموع ( 11 / 576 ).






علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" مذاہب اربعہ اس پر متفق ہيں كہ گانے بجانے كے آلات حرام ہيں "






ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 1 / 145 ).






ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:






" اس ميں سب سے سخت ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا مذہب ہے، اور اس كے متعلق ان كا قول سب سے سخت اور شديد ہے، اور ابو حنيفہ كے اصحاب نے آلات موسيقى مثلا بانسرى اور دف وغيرہ كى سماعت صراحتا حرام بيان كى ہے، حتى كہ شاخ سے بجانا بھى، اور انہوں نے بيان كيا ہے كہ يہ ايسى معصيت ہے جو فسق كو واجب كرتى اور گواہى كو رد كرنے كا باعث بنتى ہے، بلكہ اس سے بھى زيادہ سخت قول يہ كہتے ہيں:






سماع فسق ہے، اور اس سے لذت كا حصول كفر ہے، يہ احناف كے الفاظ ہيں، اور اس سلسلہ ميں انہوں نے ايك حديث بھى روايت كى ہے جو مرفوع نہيں، ان كا كہنا ہے: اس پر واجب ہے كہ وہ جب وہ وہاں يا اس كے قريب سے گزرے تو اسے سننے كى كوشش نہ كرے.






اور جس گھر سے گانے بجانے كى آواز آ رہى ہو ابو يوسف رحمہ اللہ اس كے متعلق كہتے ہيں:






وہاں بغير اجازت داخل ہو جاؤ، كيونكہ برائى سے روكنا فرض ہے، كيونكہ اگر اجازت كے بغير داخل ہونا جائز نہ ہو تو پھر لوگ فرض كام كرنا چھوڑ ديں گے "






ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 425 ).






امام مالك رحمہ اللہ سے كسى نے ڈھول اور بانسرى بجانے كے متعلق دريافت كيا گيا، يا اگر راستے يا كسى مجلس ميں اس كى آواز كان ميں پڑ جائے اور آپ كو اس سے لذت محسوس ہو تو كيا حكم ہے ؟






تو ان كا جواب تھا:






" اگر اسے اس سے لذت محسوس ہو تو وہ اس مجلس سے اٹھ جائے، ليكن اگر وہ كسى ضرورت كى بنا پر بيٹھا ہو، يا پھر وہاں سے اٹھنے كى استطاعت نہ ركھے، اور اگر راہ چلتے ہوئے آواز پڑ جائے تو وہ وہاں سے واپس آ جائے يا آگے نكل جائے "






ديكھيں: الجامع للقيروانى ( 262 ).






اور ان كا قول ہے:






ہمارے نزديك تو ايسا كام فاسق قسم كے لوگ كرتے ہيں.






ديكھيں: تفسير القرطبى ( 14 / 55 ).






ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" جس كمائى كے حرام ہونے پر سب كا اتفاق ہے، وہ سود، اور زانى عورتوں كى زنا سے كمائى، اور حرام، اور رشوت، اور نوحہ كرنے كى اجرت لينا، اور گانے كى اجرت لينا، اور نجومى كى كمائى، اور علم غيب كا دعوى اور آسمان كى خبريں دينا، اور بانسرى بجا كر اجرت لينا، اور باطل قسم كے كھيل كر كمانا يہ سب حرام ہيں "






ماخوذ از: الكافى.






اور ابن قيم رحمہ اللہ امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:






" امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك جاننے والے صراحتا اس كى حرمت بيان كرتے ہيں، اور جس نے ان كى طرف اس كے حلال ہونے كا قول منسوب كيا ہے، انہوں نے اس قول كا انكار كيا ہے "






ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 425 ).






اور شافعيہ ميں سے كفايۃ الاخبار كے مؤلف نے گانے بجانے اور بانسرى وغيرہ كو منكر ميں شمار كيا ہے، اور اس مجلس ميں جانے والے پر اس برائى اور منكر سے روكنے كو واجب قرار ديا ہے، وہ اس سلسلہ ميں كہتے ہيں:






" اور فقھاء سوء كا وہاں حاضر ہونا اس برائى كو روكنا ساقط نہيں كرتان كيونكہ وہ شريعت كو خراب كر رہے ہيں، اور نہ ہى وہاں گندے اور پليد فقراء كے حاضر ہونے سے برائى كو روكنا ساقط ہوتا ہے ( اس سے اس كى مراد صوفياء ہيں، كيونكہ وہ اپنے آپ كو فقراء كہتے ہيں ) كيونكہ يہ جاہل اور ہر بھونكنے والے كے پيچھے بھاگنے والے ہيں، ان كے پاس علم كا نور نہيں جس سے وہ سيدھى راہ پر چليں، بلكہ وہ ہوا كے ہر جھونكے كے ساتھ مائل ہو جاتے ہيں "






ديكھيں: كفايۃ الاخيار ( 2 / 128 ).






ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" اس ميں امام احمد كا مسلك يہ ہے كہ: ان كے بيٹے عبد اللہ كہتے ہيں ميں نے اپنے باپ سے گانے بجانے كے متعلق دريافت كيا تو ان كا كہنا تھا: يہ دل ميں نفاق پيدا كرتا ہے، مجھے پسند نہيں، پھر انہوں نے امام مالك رحمہ اللہ كا قول ذكر كيا كہ: ہمارے نزديك ايسا كام فاسق قسم كے لوگ كرتے ہيں "






ماخوذ از: اغاثۃ اللھفان.






اور حنبلى مسلك كے محقق ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" گانے بجانے كى تين اقسام ہيں:






پہلى قسم: حرام.






وہ بانسرى اور سارنگى اور ڈھول اور گٹار وغيرہ بجانا ہے.






تو جو شخص مستقل طور پر اسے سنتا ہے اس كى گواہى قبول نہيں كى جائيگى، وہ گواہى ميں مردود ہے "






ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 10 / 173 ).






اور ايك دوسرى جگہ پر كہتے ہيں:






" اور اگر اسے كسى ايسے وليمہ كى دعوت ملے جس ميں برائى ہو مثلا شراب نوشى، گانا بجانا، تو اس كے ليے اگر وہاں جا كر اس برائى سے منع كرنا ممكن ہو تو وہ اس ميں شركت كرے اور اسے روكے، كيونكہ اس طرح وہ دو واجب كو اكٹھا كر سكتا ہے، اور اگر روكنا ممكن نہ ہو تو پھر وہ اس ميں شركت نہ كرے "






ديكھيں: الكافى ( 3 / 118 ).






طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" سب علاقوں كے علماء كرام گانے بجانے كى كراہت اور اس سے روكنے پر متفق ہيں، صرف ان كى جماعت سے ابراہيم بن سعد،اور عبيد اللہ العنبرى نے عليحدگى اختيار كى ہے.






اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے كہ:






" آپ كو سواد اعظم كے ساتھ رہنا چاہيے، اور جو كوئى بھى جماعت سے عليحدہ ہوا وہ جاہليت كى موت مرا "






ديكھيں: تفسير قرطبى ( 14 / 56 ).






پہلے ادوار ميں كراہت كا لفظ حرام كے معنى ميں استعمال ہوتا تھا ليكن پھر بعد ميں اس پر تنزيہ كا معنى كا غالب آگيا، اور يہ تحريم كا معنى اس قول ليا گيا ہے: اور اس سے روكا جائے، كيونكہ جو كام حرام نہيں اس سے روكا نہيں جاتا، اور اس ليے بھى كہ دونوں حديثوں ميں اس كا ذكر ہوا ہے، اور اس ميں بہت سختى سے منع كيا گيا ہے.






اور امام قرطبى رحمہ اللہ نے ہى اس اثر كو نقل كيا ہے، اور اس كے بعد وہى يہ كہتے ہيں:






" ہمارے اصحاب ميں سے ابو الفرج اور ابو قفال كہتے ہيں: گانا گانے اور رقص كرنے والے كى گواہى قبول نہيں ہو گى "






ميں كہتا ہوں: اور جب يہ چيز ثابت ہو گئى كہ يہ جائز نہيں تو پھر اس كى اجرت لينا بھى جائز نہيں"






شيخ فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:






" ابراہيم بن سعد اور عبيد اللہ عنبرى نے جو گانا مباح قرار ديا ہے وہ اس گانے كى طرح نہيں جو معروف ہے ..... تو يہ دونوں مذكور شخص كبھى بھى اس طرح كا گانا مباح نہيں كرتے جو انتہائى غلط اور گرا ہوئى كلام پر مشتمل ہے "






ماخوذ از: الاعلام.






ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" گانے بجانے كے آلات تيار كرنا جائز نہيں "






ديكھيں: المجموع ( 22 / 140 ).






اور دوسرى جگہ كہتے ہيں:






" گانے بجانے كے آلات مثلا ڈھول وغيرہ كا تلف اور ضائع كرنا اكثر فقھاء كے ہاں جائز ہے، امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد كى مشہور روايت يہى ہے "






ديكھيں: المجموع ( 28 / 113 ).






اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:






" چھٹى وجہ: ابن منذر رحمہ اللہ گانے بجانے اور نوحہ كرنے كى اجرت نہ لينے پر علماء كرام كا اتفاق ذكر كرتے ہوئے كہتے ہيں:






اہل علم ميں سے جس سے بھى ہم نے علم حاصل كيا ہے ان سب كا گانے والى اور نوحہ كرنے والى كو روكنے پر اتفاق ہے، شعبى اور نخعى اور مالك نے اسے مكروہ كہا ہے، اور ابو ثور نعمان ـ ابو حنيفہ ـ اور يعقوب اور محمد ـ امام ابو حنيفہ كے دونوں شاگرد ـ رحمہم اللہ كہتے ہيں:






گانا گانے اور نوحہ كرنے كے ليے اجرت پر كوئى بھى چيز دينا جائز نہيں، اور ہمارا قول بھى يہى ہے "






اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:






گانا بجانا نفس كى شراب ہے، اور اسے خراب كر ديتا ہے، اور يہ نفس كے ساتھ وہ كچھ كرتا ہے جو شراب كا جام بھى نہيں كرتا "






ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 417 ).






اور ابن ابى شيبہ نے روايت كيا ہے كہ:






" ايك شخص نے كسى شخص كا ڈھول توڑ ديا، تو وہ اپنا معاملہ قاضى شريح كے پاس لےگيا تو شريح نے اس پر كوئى ضمان قائم نہ كى ـ يعنى اس كو ڈھول كى قيمت كا نقصان بھرنے كا حكم نہيں ديا، كيونكہ وہ حرام ہے اور اس كى كوئى قيمت نہيں تھى "






ديكھيں: المصنف ( 5 / 395 ).






اور امام بغوى رحمہ اللہ نے گانے بجانے كے تمام آلات مثلا ڈھول، بانسرى باجا، اور سب آلات گانے بجانے كى خريد و فروخت حرام كا فتوى دينے كے بعد كہا ہے:






" تو جب تصويريں مٹا دى جائيں، اور گانے بجانے كے آلات كو اپنى حالت سے تبديل كر ديا جائے، تو اس كى اصل چيز اور سامان فروخت كرنا جائز ہے، چاہے وہ چاندى ہو يا لوہا، يا لكڑى وغيرہ "






ديكھيں: شرح السنۃ ( 8 / 28 ).






استثناء حق:






اس ميں سے جس چيز كا استنثاء حق ہے وہ صرف دف ہے ـ اور دف بھى وہ جس ميں كوئى كڑا اور چھلا وغيرہ نہ لگا ہو ـ اور پھر يہ دف شادى بياہ اور عيد كے موقع پر بجائى جائے، اور صرف عورتيں ہى استعمال كريں اس پر صحيح دلائل ملتے ہيں.






شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شادى وغيرہ كے موقع پر لہو كى ايك قسم كى رخصت دى ہے، كہ صرف عورتيں شادى بياہ كے موقع پر دف بجا سكتى ہيں، ليكن مرد حضرات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں نہ تو دف بجاتے تھے، اور نہ ہى ہاتھ سے تالى، بلكہ صحيح بخارى ميں ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:






" تالى بجانا عورتوں كے ليے ہے، اور سبحان اللہ كہنا مردوں كے ليے "






اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مردوں كے ساتھ مشابہت كرنے والى عورتوں اور عورتوں سے مشابہت كرنے والے مردوں پر لعنت فرمائى ہے "






اور جب گانا اور دف بجانا عورتوں كا عمل تھا، تو سلف رحمہ اللہ مردوں ميں سے ايسا كام كرنے والوں كو مخنث اور ہيجڑا كے نام سے موسوم كرتے تھے، اور گانے والے مردوں كو ہيجڑے كا نام ديتے تھے، ـ آج كے ہمارے اس دور ميں يہ تو بہت زيادہ ہو چكے ہيں ـ اور سلف رحمہ اللہ كى كلام ميں يہ مشہور ہے، اس باب ميں سب سے مشہور حديث عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى ہے، جس ميں وہ بيان كرتى ہيں:






عيد كے ايام ميں ان كے والد ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ ان كے گھر آئے تو ان كے پاس انصار كى دو چھوٹى بچياں وہ اشعار گا رہى تھيں جو انصار نے يوم بعاث كے موقع پر كہے تھے ـ اور شائد كوئى عقل مند شخص اس كا ادراك كرے كہ لوگ جنگ ميں كيا كہا كرتے تھے ـ تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:






كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے گھر ميں شيطان كى سر اور مزمار ميں سے ايك سر ؟






اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا چہرہ ان دونوں بچيوں سے پھير كر دوسرى طرف ديوار كى جانب كيا ہوا تھا ـ اس ليے بعض علماء كا كہنا ہے، ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے كسى شخص كو ڈانٹنے اور اس پر انكار كرنے والے نہيں تھے، ليكن انہوں نے يہ خيال اور گمان كيا كہ جو كچھ ہو رہا ہے اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو علم نہيں ہے، اگر علم ہوتا تو ايسا نہ ہوتا، و اللہ اعلم ـ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كہنے لگے:






اے ابو بكر انہيں كچھ نہ كہو، كيونكہ ہر قوم كى عيد ہوتى ہے، اور ہمارى اہل اسلام كى عيد يہ ہے "






تو اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام كى عادت ميں يہ چيز شامل نہ تھى، اسى ليے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے شيطان كى آواز اور مزمار قرار ديا ـ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس نام كو برقرار ركھا، اور اس سے انكار اور منع نہ كيا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كو يہ فرمايا تھا:






" انہيں رہنے دو اور كچھ نہ كہو، كيونكہ ہر قوم كى عيد ہوتى ہے، اور ہمارى عيد يہ ہے "






تو اس ميں اشارہ كيا كہ اس كے مباح ہونے كا سبب عيد كا وقت ہونا ہے، تو اس سے يہ سمجھ آتى ہے كہ عيد كے علاوہ باقى آيام ميں يہ حرام ہے، ليكن دوسرى احاديث ميں اس سے شادى بياہ كا موقع مستثنى كيا گيا ہے، علامہ البانى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " تحريم الآت الطرب " ميں اس كى تفصيل بيان كرتے ہوئے كہا ہے:






" اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد كے موقع پر بچيوں كو اس كى اجازت دى ہے، جيسا كہ حديث ميں ہے "






تا كہ مشركوں كو علم ہو جائے كہ ہمارے دين ميں وسعت ہے "






اور ان بچيوں كے قصہ والى حديث ميں يہ نہيں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے كان لگا كر سنا تھا، كيونكہ نيكى كا دينا، اور برائى سے منع كرنے كا تعلق تو استماع يعنى كان لگا كر سننے سے ہے، نا كہ صرف سماع اور كان ميں پڑنے كے متعلق، جيسا كہ ديكھنے ميں ہے، كيونكہ اس كا تعلق بھى قصدا ديكھنے سے ہے، نہ كہ جو بغير كسى ارادہ و قصد كے ہو "






تو اس سے يہ ظاہر ہوا كہ يہ صرف عورتوں كے ليے ہے، حتى كہ امام ابو عبيد رحمہ اللہ نے تو دف كى تعريف كرتے ہوئے يہ كہا ہے:






" دف وہ ہے جو عورتيں بجائيں "






ديكھيں: غريب الحديث ( 3 / 64 ).






تو ان ميں سے بعض كو چاہيے كہ وہ شرعى پردہ ميں باہر نكليں .






باطل استثناء:






بعض افراد نے جنگ ميں ڈھول كو مستثنى كيا ہے، اور بعض معاصرين حضرات نے اس سے فوج بينڈ اور موسيقى اس سے ملحق كى ہے، حالانكہ بالكل اس كى كوئى وجہ نہيں ہے، اس كى كئى ايك وجوہات ہيں:






پہلى وجہ:






يہ حرمت والى احاديث كو بلا كسى مخصص كے خاص كرنا ہے، صرف ايك رائے اور استحسان ہے، اور يہ باطل ہے.






دوسرى:






جنگ كى حالت ميں مسلمانوں پر فرض تو يہ ہوتا ہے كہ وہ اپنے دلوں و جان كے ساتھ اپنے پروردگار كے طرف متوجہ ہوں.






اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:






وہ آپ سے غنيمتوں كے متعلق دريافت كرتے ہيں، آپ كہہ ديجئے كہ غنيمت اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ليے ہے، تو تم اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، اور آپس ميں اصلاح كرو "






اور موسيقى كا استعمال تو انہيں خراب كريگا، اور انہيں اللہ تعالى كے ذكر اور ياد سے دور كريگا.






تيسرى:






موسيقى كا استعمال كفار كى عادت ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے ان سے مشابہت اختيار كرنا جائز نہيں، اور خاص كر اس ميں جو اللہ تعالى نے حرام كيے ہيں، اور يہ حرمت عمومى ہے، مثلا موسيقى وغيرہ "






ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 1 / 145 ).






حديث ميں وارد ہے:






" ہدايت پر ہونے كے بعد قوم كبھى گمراہ نہيں ہوئى، الا يہ كہ وہ جھگڑا كرنے لگے "






صحيح.






اور بعض افراد نے مسجد نبوى شريف ميں حبشيوں كے كھيل والى حديث سے گانے بجانے كى اباحت پر استدلال كيا ہے! امام بخارى رحمہ نے اس حديث پر صحيح بخارى ميں يہ باب باندھا ہے: " عيد كے روز نيزہ بازى اور ڈھال استعمال كرنے كا باب "






امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:






اس ميں آلات حرب كے ساتھ مسجد ميں كھيلنے كا جواز پايا جاتا ہے، اور اس كے ساتھ ان اسباب كو بھى ملحق كيا جائيگا جو جھاد ميں ممد و معاون ثابت ہوتے ہيں "






ماخوذ از: شرح مسلم للنووى.






ليكن جيسا كہ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" جو شخص اپنے فن كے علاوہ كسى اور كے متعلق بات كريگا تو وہ اس طرح كے عجائبات ہى لائيگا "






اور بعض افراد نے ان بچيوں كے اشعار گانے والى حديث سے استدلال كيا ہے، اور اس پر پہلے كلام كى جا چكى ہے، ليكن يہاں ہم ابن قيم رحمہ اللہ كى كلام ذكر كرتے ہيں، كيونكہ يہ كلام بہت اچھى اور قيمتى ہے:






" اور اس سے بھى زيادہ تعجب والى چيز تو آپ لوگوں كا ايك كم عورت كے ہاں دو چھوٹى اور نابالغ بچيوں كے عيد و خوشى والے دن عرب كے ان اشعار كے پڑھنے سے جن ميں شجاعت و بہادرى، اور مكارم اخلاق كا بيان ہے، اس مركب گانے بجانے پر استدلال ہے جس كى اجتماعى شكل و ہئيت ہم بيان كر چكے ہيں، كہاں يہ گانے اور كہاں وہ اشعار، عجيب تو يہ ہے كہ يہ حديث تو ان كے خلاف دلائل ميں سب سے بڑى حجت ہے.






اس ليے كہ صديق اكبر رضى اللہ تعالى عنہ نے تو ان اشعار كو بھى مزمار شيطان قرار ديا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے اس نام كو برقرار ركھا، اور ان دو غير مكلف بچيوں كو اس كى رخصت دى، نہ تو ان كے اشعار پڑھنے ميں اور نہ ہى انہيں سننے ميں كوئى خرابى ہے.






تو كيا يہ حديث اس كى اباحت اور جواز پر دلالت كرتى ہے جو آپ لوگ سماع كى محفل ميں اور گانے بجانے كا كام كرتے ہو جو ايسى اشياء پر مشتمل ہے جو مخفى نہيں ؟!






سبحان اللہ عقليں اور سمجھ كيسے گمراہ ہو چكے ہيں "






ديكھيں: مدارج السالكين ( 1 / 493 ).






اور ابن جوزى رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بھى اس وقت چھوٹى عمر كى تھيں، اور بلوغت كے بعد ان سے بھى گانے بجانے كى مذمت ہى ثابت ہے، ان كے بھانجے قاسم بن محمد گانے بجانے كى مذمت كيا كرتے تھے، اور اسے سننے سے منع كيا كرتے تھے، اور انہوں نے علم عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حاصل كيا تھا "






ديكھيں: تلبيس ابليس ( 229 ).






اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" صوفيوں نے اس باب والى حديث سے گانے بجانے كے آلات اور آلات كے بغير محفل سماع سننے اور منعقد كرنے پر استدلال كيا ہے، اس كے رد كے ليے اسى باب كى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا والى حديث ہى كافى ہے جس ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى صريح موجود ہے كہ " وہ دونوں بچياں گانے بجانے والى نہ تھيں "






تو ان دونوں سے معنى كے اعتبار سے اس كى نفى ہو گئى جو الفاظ سے ثابت كيا گيا ہے... تو اصل ( يعنى حديث ) كے مخالف ہونے كى وجہ سے اسے نص ميں وارد وقت اور كيفيت اور قلت پر ہى مقتصر ركھا جائيگا، واللہ اعلم "






ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 442 - 443 ).






اور بعض نے تو اتنى جرات كى ہے كہ گانے بجانے كى سماعت كو صحابہ كرام كى طرف منسوب كر ديا ہے، اور يہ كہا ہے كہ وہ اس ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے تھے !!






شيخ فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:






" ہم مطالبہ كرتے ہيں كہ جو كچھ ان كى طرف منسوب كيا گيا ہے اس كى ان صحابہ كرام اورتابعين تك صحيح سند ثابت كي جائے "






پھر شيخ كہتے ہيں:






" امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم كے مقدمہ ميں عبد اللہ بن مبارك رحمہ اللہ سے بيان كيا ہے كہ: اسناد بيان كرنا دين ميں شامل ہے، اور اگر سند نہ ہوتى تو جو كوئى شخص جو چاہتا كہتا پھرتا "






اور بعض كا كہنا ہے كہ: گانے بجانے كو حرام كرنے والى جتنى بھى احاديث ہيں، ان سب پر جرح كى گئى ہے، اور ان ميں سے كوئى حديث بھى فقھاء حديث اور علماء كے ہاں طعن سے خالى نہيں!!






ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" گانے بجانے كى حرمت ميں وارد شدہ احاديث ميں كوئى حديث بھى جرح شدہ نہيں، جيسا كہ آپ گمان كرتے ہيں، بلكہ ان ميں سے كچھ احاديث تو صحيح بخارى ميں ہيں، جو كہ كتاب اللہ كے بعد صحيح ترين كتاب ہے، اور كچھ احاديث حسن ہيں، اور كچھ ضعيف، اور يہ احاديث كثرت اور كئى ايك طرق اور كتب ميں ہونے كى بنا پر ظاہر حجت اور قطعى برھان ہيں كہ گانا بجانا حرام ہے "






( اور ابو حامد الغزالى كے علاوہ باقى سب آئمہ كرام گانے بجانے كى حرمت ميں آنے والى احاديث كے صحيح ہونے پر متفق ہيں، اور غزالى كو علم حديث كا پتہ ہى نہيں، اور ابن حزم، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس غزالى كى غلطى كو بڑى وضاحت كے ساتھ بيان كيا ہے، اور ابن حزم خود كہتے ہيں: اگر اس ميں سے كچھ صحيح ہوتا تو وہ اس كا كہتے، ليكن اس دور ميں كچھ ايسے بھى ہيں جنہيں اہل علم كى كتب كى كثرت كى ساتھ اس كى صحت كا ثبوت ملا ہے، اور ان سے ان احاديث كى صحت تواتر سے ملى ہے، ليكن اس كے باوجود انہوں نے اس سے اعراض كيا ہے، تو يہ ابن حزم سے بھى سخت ہيں، اور اس جيسے نہيں، تو يہ لوگ نہ تو اہليت كے قابل ہيں، اور نہ ہى ان كى طرف رجوع كيا جا سكتا ہے "






اور بعض كا كہنا ہے كہ: علماء كرام نے گانا بجانا حرام كيا ہے، كيونكہ يہ شراب نوشى اور رات كو حرام كام كے ليے جاگنے كے ساتھ ہوتا ہے !






امام شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" اس كا جواب يہ ديا جائيگا كہ اس كے ساتھ ملا ہوا ہونا اس پر دلالت نہيں كرتا كہ صرف جمع ہونا حرام ہے، وگرنہ يہ لازم آئيگا كہ احاديث ميں جس زنا كے حرام ہونے كى صراحت ہے وہ بھى صرف اس وقت حرام ہو گا جب شراب نوشى كى جائے، اور گانے بجانا استعمال ہو، تو اجماع سے لازم باطل ہے، تو اسى طرح ملزوم بھى باطل ہوگا، اور پھر يہى نہيں بلكہ اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان ميں بھى اسى طرح لازم آئيگا:






اللہ تعالى كا فرمان ہے:






﴿ بلا شبہ يہ اللہ عظيم الشان پر ايمان نہ ركھتا تھا، اور مسكين كو كھلانے كى رغبت نہ دلاتا تھا ﴾الحاقۃ ( 33 - 34 ).






تو پھر يہ لازم آئيگا كہ اللہ تعالى پر عدم ايمان حرام تو اس وقت ہو گا جب مسكينوں كو كھلانے كى رغبت نہ دلائى جائے، اور اگر يہ كہا جائے اس طرح كے مذكورہ الزام والے امور كى حرمت دوسرى دليل سے ثابت ہے تو اس كا جواب يہ ہے كہ: گانے بجانے كى حرمت بھى دوسرى دليل سے ثابت ہے، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے "






ديكھيں: نيل الاوطار ( 8 / 107 ).






اور بعض لوگ يہ كہتے ہيں كہ: لھو الحديث سے مراد گانا بجانا نہيں، تو اس كا رد اوپر بيان ہو چكا ہے، قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ ـ يعنى اس سے مراد گانا بجانا ہے والا قول ـ اس آيت كى تفسير ميں جو كچھ كہا گيا ہے اس ميں سب سے اعلى يہى ہے، اور اس پر ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے تين بار حلف اور قسم اٹھائى ہے كہ اس ذات كى قسم جس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں، كہ اس سے مراد گانا بجانا ہے "






پھر قرطبى نے اس ميں آئمہ كرام كے اقوال نقل كيے ہيں، اور اس كے علاوہ دوسرے اقوال بھى ذكر كرنے كے بعد كہا ہے:






اس مسئلہ ميں جتنے بھى اقوال ہيں ان ميں سے سب اولى اور بہتر پہلا قول ہے، اس كى دليل مرفوع حديث اور صحابہ كرام اورتابعين عظام كے اقوال ہيں "






ماخوذ از: تفسير قرطبى.






اس تفسير كو ذكر كرنے كے بعد ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:






" ابو عبد اللہ الحاكم نے اپنى كتاب مستدرك حاكم ميں تفسير كے باب ميں كہا ہے كہ: طالب علم كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ صحابى كى تفسير شيخين كے ہاں مسند حديث ہے، كيونكہ صحابى نے قرآن مجيد كى وحى كا مشاہدہ كيا ہے "






اور ايك دوسرى جگہ پر كہتے ہيں:






" اور ہمارے نزديك يہ مرفوع كے حكم ميں ہے "






اگرچہ اس ميں كچھ اختلاف ہے، ليكن بعد والوں كى تفسير كى بجائے صحابى كى تفسير كو قبول كرنے كے اعتبار سے يہ اولى ہے، كيونكہ صحابہ كرام امت ميں سے سب زيادہ اللہ تعالى كى كتاب كى مراد كو سمجھنے والے تھے، كيونكہ ان كے دور ميں صحابہ كرام پر قرآن مجيد نازل ہوا اور امت ميں سے سب سے پہلے انہيں كو مخاطب كيا گيا، اور انہوں نے اس كى علمى اور عملى تفسير كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مشاہدہ بھى كيا اور حقيقتا وہ فصيح عرب تھے، اس ليے ان كى تفسير ملنے كى صورت ميں اسے چھوڑ كر كسى اور طرف جانا صحيح نہيں "