قطب جنوبی یا اینٹارکٹک کے جزیرہ نما پر اگر آپ قدم رکھیں تو آپ کو اپنی توقعات کے مطابق برف دکھائی نہیں دے گی۔ درحقیقت یہاں کی پتھریلی زمین کا بیشتر حصہ برف سے پاک ہے۔ روس کے بیلنگ ہاوسن سٹیشن کے ڈاکٹرمیخائل اندریو کے مطابق سیاہ، بھورے اور سفید رنگوں بھرے اس منظر میں کہیں کہیں سے سبزہ بھی جھانکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں پودے بہت کم دیکھنے میں آتے تھے۔ لیکن اب ہمیں یہ ہر جگہ نظر آنے لگے ہیں اور ایک جگہ تو گھاس ہی گھا س ہے۔
چیمپ سیا انٹارکٹکا نامی کائی جیسے پودے یہاں پہلے نہیں پائے جاتے تھے۔ لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے موسمی حالات کی وجہ سے نہ صرف یہ پودے یہاں زیادہ مقدار میں پھلنے پھولنے لگے ہیں، بلکہ ان کی وجہ سے یہاں کے مقامی پودوں کو بھی خطرہ ہے۔ سائنس دان پودوں کی ان نئی اقسام کو قطب جنوبی کودرپیش ماحولیاتی مسائل کی نشانی قرار دے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب یہاں کا موسم بے انتہا خشک تھا، لیکن سالہا سال یہاں کی ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب یہاں بارش نہیں ہوا کرتی تھی، صرف برف باری کے ذریعے بادل اپنی نمی کا بوجھ ہلکا کرتے تھے۔ لیکن ہوزے مڈیئروس کہتے ہیں کہ اب یہاں تقریبا روزانہ بارش ہوتی ہےجو بیس برس پہلےنہیں ہوا کرتی تھی۔
قطب جنوبی میں موجود 60 سائنسی تجرباتی اداروں کی تحقیقات میں موسمی تبدیلیاں سر فہرست ہیں۔ تھائیس سینٹوز جیسے سائنسدان روزانہ گلوبل وارمنگ کے نتائج پر معلومات اکھٹی کرنے کے لیے تجربات کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں ہم الٹرا وائلٹ ریڈیشن پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ اس کے اثرات کے بارے میں زیادہ بہتر طورپر جان سکیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قطب جنوبی پر اوزون کی تہہ کمزور ہے جس کی وجہ سے یہاں موسمی تبدیلیاں زیادہ شدت اختیار کر تی ہیں۔ فرنچ پولر انسٹٹیوٹ کے یوز فرنو کہتے ہیں کہ اسی لیے سائنسدانوں کو زیادہ ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ 50 برسوں میں اینٹارکٹک کے جزیرہ نما کے درجہ حرارت میں 2 یا 3 ڈگری کا اضافہ ہوا ہے۔ موسمی لحاظ سے اسے ایک بہت بڑی تبدیلی تصور کیا جاتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے کسی اور خطے میں اس قسم کا اضافہ ہزاروں سال کےوقفے میں پیش آتا ہے۔ چلی کی اینٹارکٹک انسٹٹیوٹ کے ہوزے ریٹامالیز کہتے ہیں کہ اینٹارکٹک کے جزیرہ نما پر موسمی تبدیلیوں کے ثبوت نمایاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چند ہی ہفتوں میں برف کا ایک بڑا تودا پانی میں پگھل کر غائب ہو جائے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ درجہ حرارت میں چھوٹی سی تبدیلی کے نتائج بھی بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔
فرنو کا کہنا ہے کہ یہاں موسمی حالات میں پیش آنے والی تبدیلیاں دنیا بھر کے مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قطب جنوبی اور قطب شمالی کے خطے عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں کے مستقبل کی عکاسی کرتی ہیں۔ جو تبدیلیاں یہاں پیش آرہی ہیں، ان کی وجہ سے عالمی سطح پر موسم متاثر ہو سکتا ہے۔
سائنسدان اس علاقے میں موسم پر کڑی نظر اس لیے بھی رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں پیش آنے والی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ دنیا کے دیگر خطوں کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں گے۔ اور ان تبدیلیوں کو روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی تشکیل دے سکیں گے۔
بشکریہ وی ای اے
چیمپ سیا انٹارکٹکا نامی کائی جیسے پودے یہاں پہلے نہیں پائے جاتے تھے۔ لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے موسمی حالات کی وجہ سے نہ صرف یہ پودے یہاں زیادہ مقدار میں پھلنے پھولنے لگے ہیں، بلکہ ان کی وجہ سے یہاں کے مقامی پودوں کو بھی خطرہ ہے۔ سائنس دان پودوں کی ان نئی اقسام کو قطب جنوبی کودرپیش ماحولیاتی مسائل کی نشانی قرار دے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب یہاں کا موسم بے انتہا خشک تھا، لیکن سالہا سال یہاں کی ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب یہاں بارش نہیں ہوا کرتی تھی، صرف برف باری کے ذریعے بادل اپنی نمی کا بوجھ ہلکا کرتے تھے۔ لیکن ہوزے مڈیئروس کہتے ہیں کہ اب یہاں تقریبا روزانہ بارش ہوتی ہےجو بیس برس پہلےنہیں ہوا کرتی تھی۔
قطب جنوبی میں موجود 60 سائنسی تجرباتی اداروں کی تحقیقات میں موسمی تبدیلیاں سر فہرست ہیں۔ تھائیس سینٹوز جیسے سائنسدان روزانہ گلوبل وارمنگ کے نتائج پر معلومات اکھٹی کرنے کے لیے تجربات کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں ہم الٹرا وائلٹ ریڈیشن پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ اس کے اثرات کے بارے میں زیادہ بہتر طورپر جان سکیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قطب جنوبی پر اوزون کی تہہ کمزور ہے جس کی وجہ سے یہاں موسمی تبدیلیاں زیادہ شدت اختیار کر تی ہیں۔ فرنچ پولر انسٹٹیوٹ کے یوز فرنو کہتے ہیں کہ اسی لیے سائنسدانوں کو زیادہ ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ 50 برسوں میں اینٹارکٹک کے جزیرہ نما کے درجہ حرارت میں 2 یا 3 ڈگری کا اضافہ ہوا ہے۔ موسمی لحاظ سے اسے ایک بہت بڑی تبدیلی تصور کیا جاتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے کسی اور خطے میں اس قسم کا اضافہ ہزاروں سال کےوقفے میں پیش آتا ہے۔ چلی کی اینٹارکٹک انسٹٹیوٹ کے ہوزے ریٹامالیز کہتے ہیں کہ اینٹارکٹک کے جزیرہ نما پر موسمی تبدیلیوں کے ثبوت نمایاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چند ہی ہفتوں میں برف کا ایک بڑا تودا پانی میں پگھل کر غائب ہو جائے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ درجہ حرارت میں چھوٹی سی تبدیلی کے نتائج بھی بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔
فرنو کا کہنا ہے کہ یہاں موسمی حالات میں پیش آنے والی تبدیلیاں دنیا بھر کے مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قطب جنوبی اور قطب شمالی کے خطے عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں کے مستقبل کی عکاسی کرتی ہیں۔ جو تبدیلیاں یہاں پیش آرہی ہیں، ان کی وجہ سے عالمی سطح پر موسم متاثر ہو سکتا ہے۔
سائنسدان اس علاقے میں موسم پر کڑی نظر اس لیے بھی رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں پیش آنے والی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ دنیا کے دیگر خطوں کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں گے۔ اور ان تبدیلیوں کو روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی تشکیل دے سکیں گے۔
بشکریہ وی ای اے