عالمی حدت کے اثرات: قطبین پر سزہ اگنے لگا

Posted by Anonymous on 11:44 PM

قطب جنوبی یا اینٹارکٹک کے جزیرہ نما پر اگر آپ قدم رکھیں تو آپ کو اپنی توقعات کے مطابق برف دکھائی نہیں دے گی۔ درحقیقت یہاں کی پتھریلی زمین کا بیشتر حصہ برف سے پاک ہے۔ روس کے بیلنگ ہاوسن سٹیشن کے ڈاکٹرمیخائل اندریو کے مطابق سیاہ، بھورے اور سفید رنگوں بھرے اس منظر میں کہیں کہیں سے سبزہ بھی جھانکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں پودے بہت کم دیکھنے میں آتے تھے۔ لیکن اب ہمیں یہ ہر جگہ نظر آنے لگے ہیں اور ایک جگہ تو گھاس ہی گھا س ہے۔

چیمپ سیا انٹارکٹکا نامی کائی جیسے پودے یہاں پہلے نہیں پائے جاتے تھے۔ لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے موسمی حالات کی وجہ سے نہ صرف یہ پودے یہاں زیادہ مقدار میں پھلنے پھولنے لگے ہیں، بلکہ ان کی وجہ سے یہاں کے مقامی پودوں کو بھی خطرہ ہے۔ سائنس دان پودوں کی ان نئی اقسام کو قطب جنوبی کودرپیش ماحولیاتی مسائل کی نشانی قرار دے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب یہاں کا موسم بے انتہا خشک تھا، لیکن سالہا سال یہاں کی ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب یہاں بارش نہیں ہوا کرتی تھی، صرف برف باری کے ذریعے بادل اپنی نمی کا بوجھ ہلکا کرتے تھے۔ لیکن ہوزے مڈیئروس کہتے ہیں کہ اب یہاں تقریبا روزانہ بارش ہوتی ہےجو بیس برس پہلےنہیں ہوا کرتی تھی۔

قطب جنوبی میں موجود 60 سائنسی تجرباتی اداروں کی تحقیقات میں موسمی تبدیلیاں سر فہرست ہیں۔ تھائیس سینٹوز جیسے سائنسدان روزانہ گلوبل وارمنگ کے نتائج پر معلومات اکھٹی کرنے کے لیے تجربات کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں ہم الٹرا وائلٹ ریڈیشن پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ اس کے اثرات کے بارے میں زیادہ بہتر طورپر جان سکیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قطب جنوبی پر اوزون کی تہہ کمزور ہے جس کی وجہ سے یہاں موسمی تبدیلیاں زیادہ شدت اختیار کر تی ہیں۔ فرنچ پولر انسٹٹیوٹ کے یوز فرنو کہتے ہیں کہ اسی لیے سائنسدانوں کو زیادہ ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ 50 برسوں میں اینٹارکٹک کے جزیرہ نما کے درجہ حرارت میں 2 یا 3 ڈگری کا اضافہ ہوا ہے۔ موسمی لحاظ سے اسے ایک بہت بڑی تبدیلی تصور کیا جاتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے کسی اور خطے میں اس قسم کا اضافہ ہزاروں سال کےوقفے میں پیش آتا ہے۔ چلی کی اینٹارکٹک انسٹٹیوٹ کے ہوزے ریٹامالیز کہتے ہیں کہ اینٹارکٹک کے جزیرہ نما پر موسمی تبدیلیوں کے ثبوت نمایاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چند ہی ہفتوں میں برف کا ایک بڑا تودا پانی میں پگھل کر غائب ہو جائے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ درجہ حرارت میں چھوٹی سی تبدیلی کے نتائج بھی بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔


فرنو کا کہنا ہے کہ یہاں موسمی حالات میں پیش آنے والی تبدیلیاں دنیا بھر کے مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قطب جنوبی اور قطب شمالی کے خطے عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں کے مستقبل کی عکاسی کرتی ہیں۔ جو تبدیلیاں یہاں پیش آرہی ہیں، ان کی وجہ سے عالمی سطح پر موسم متاثر ہو سکتا ہے۔

سائنسدان اس علاقے میں موسم پر کڑی نظر اس لیے بھی رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں پیش آنے والی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ دنیا کے دیگر خطوں کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں گے۔ اور ان تبدیلیوں کو روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی تشکیل دے سکیں گے۔


بشکریہ وی ای اے

انٹارکٹکا پر 46 ملکوں کے سائنس دان مل کر تحقیق کررہے ہیں

Posted by Anonymous on 11:41 PM

براعظم قطب جنوبی جو عام طورپر انٹارکٹکا کے نام سے جانا جاتا ہے، سائنس دانوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں پر مختلف حوالوں سے سائنسی تحقیقات جاری رہتی ہیں۔ 50 برس قبل ہونے والے ایک معاہدے کے تحت وہاں ریسرچ کرنے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تحقیق سے ایک دوسرے کو آگاہ رکھیں۔ان دنوں امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں اس معاہدے میں شریک ممالک اور ان کے ماہرین کی کانفرنس ہورہی ہے جس کا ایک اہم مقصد سائنسی تحقیق میں تعاون کو مزید مربوط کرنا بھی ہے۔

انٹارکٹکا میں کنگ جارج آئی لینڈ پر فیراز ریسرچ اسٹیشن سرکاری طور پر برازیل کا علاقہ ہے لیکن یہاں مختلف ملکوں کے سائنسدان مشترکہ طور پر تحقیق و تجربات کرتے ہیں ۔ روس کے بیلنگس ہاسن اسٹیشن پربھی اسی طرح ہی کام ہوتاہے۔ اسٹیشن کے سر براہ الیکزینڈر اروپ کہتے ہیں کہ یہ اشتراک بہت ضروری ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم اس بر اعظم پر صرف اکٹھے کام کر کے ہی سائنسی مواد کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور اسے اکٹھاکر سکتے ہیں۔

انٹارکٹکا پر سائنسدان اپنے پراجیکٹس پر سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے کام کررہے ہیں اور یہ تعاون بر اعظم کے انتظام سے متعلق معاہدے میں تحریر ہے اور اس انتہائی سرد اور الگ تھلک ماحول میں مختلف پراجیکٹس پر مل کر کام کرنے سے وقت اور پیسے کی بچت ہو سکتی ہے ۔

نیشنل انٹارکٹک پروگراموں کی کونسل آف مینیجرز کے اینٹوئن گوچرڈ کہتے ہیں کہ موجودہ مالیاتی بحران میں ایسا کرنا اور بھی اہم ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اتنا مہنگا کام ہے کہ اگر آپ ایک دوسرے کی مدد نہ کریں تو آپ اسے انجام نہیں دے سکتے ۔ اور اب جب کہ انٹارکٹک سائنس گلوبل سائنس بن چکی ہے اور یہ آگہی بڑھ چکی ہے کہ پوری دینا کس طرح کام کر سکتی ہے تو اس لیے اب یہ انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ سب مل کر کام کریں۔

انٹارکٹکا میں کوئی اسٹیشن قائم کرنے پر بہت لاگت آسکتی ہے اوراس کے لیے بجٹ بھی زیادہ نہیں ہوتا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کسی بھی تحقیقی مرکز کےلیے مجموعی آپریشنز پر آنے والی لاگت میں ایندھن کا خرچ سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔

2008 میں ایندھن کی قیمت میں ساٹھ سے ستر فیصد ااضافہ ہو گیا تھا۔

چلی کے انٹارکٹک پروگرام کے سر براہ ہوزے ریٹامیلس کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے اب مل کرکام کرنا سائنس دانوں کی مجبوری بن گیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کا پروگرام تین سال کا ہوتو اس کے لیے آپ کیا کریں گے ۔بجٹ کی کمی کی صورت میں یقنناً آپ ایک دوسرے سے تعاون کریں گے ۔

اس طرح کا تعاون ان علاقوں میں عیاں ہے جہاں بہت سے مرکز قائم ہیں ۔ جیساکہ جزیرہ نما کنگ جارج جزیرہ ہے۔ یہاں چلی میں ایک ائیر اسٹرپ ہے جو ہمسایہ روسی ریسرچ سنٹر کو انٹر نیٹ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔وہاں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس میں ایک اسٹور ، ہسپتال ہے اور ایک پوسٹ آفس بھی ہے۔ سائنس دانوں کےلیے یہ معمول کی بات ہے کہ اپنا سامان لانے کے اخراجات بچانے کے لیے ہمسایہ اسٹیشنوں سے ساز و سامان ادھار مانگ لیتے ہیں ۔

انٹارکٹک پر اٹلی اور فرانس میں تعاون اس حدتک بڑھ گیا ہے کہ اپنا نیا مشترکہ اسٹیشن قائم کر رہے ہیں ۔ پھر بھی ریٹامیلس کہتے ہیں کہ الگ تھلگ علاقے میں کام کرنا بعض اوقات انسانوں کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات یہ ان کے اپنے ملک کے شہریوں کے درمیان مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ آپ صرف اپنے شعبے پر توجہ دیتے ہیں اور یہ جاننا ضروری نہیں سمجھتے کہ دوسروں کے لیے آپ اور کیا کر سکتے ہیں۔

انٹارکٹک معاہدے پر دستخط ہوئے پچاس برس ہو گئے ہیں ۔ اس معاہدے میں مزید ملکوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ 46 رکن ملک باقاعدگی سے اجلاس کرتے ہیں تاکہ اپنے تحقیقی مراکز کے درمیان مشترکہ کوششیں بر قرار رکھیں اور انکشافات سے ایک دوسرے کو باخبر رکھیں ۔

ابتدا ہی سےبا ضابطہ اور بے ضابطہ دونوں طرح کے نیٹ ورک موجود ہیں تاکہ اطلاعات کا تبادلہ کیا جاتا رہے ۔
انٹارکٹک کی انفرادیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دو دراز علاقہ سائنس دانوں کو عالمی سیاست سے الگ رہنے میں مدد دیتا ہے ۔ ہو سکتاہے کہ ان کے ملک آپس میں دوست نہ ہوں مگر وہ یہاں سائنس کی خاطر ایک دوسرے سے مل کرکام کرتے ہیں ۔

بشکریہ وی ای اے

سخت اذیتوں کی اجازت دینے والےبش انتظامیہ کے افراد پر مقدمات کا امکان موجود ہے؛ اوباما

Posted by Anonymous on 11:38 PM
امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ امریکی اٹارنی جنرل کے ہاتھ میں ہے کہ مشتبہ دہشت گردوں کی تفتیش کے لئے سخت اذیتوں کی اجازت دینے والوں کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں یا نہیں۔

وہائیٹ ہاؤس میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے مسٹر اوباما نے کہا کہ جو لوگ گذشتہ انتظامیہ کے حکم کے تحت ایسے کاموں کے مرتکب ہوئے تھے، میں انہیں سزا دینے کے حق میں نہیں ہوں۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ، یہ فیصلہ کرنا مسٹر ایرک ہولڈر کا کام ہے کہ ان قانونی فیصلوں کے ذمہ افراد پر فرد ِ جرم عاید کی جائے یا نہ کی جائے۔

مسٹر اوباما نے مزید کہا کہ گذشتہ ہفتے سی آئی اے کی دستاویزات کو بر سر عام لانا انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان حکم ناموں میں سخت اذیتوں کی تفصیلات درج تھیں جن میں نیند سے محرومی اور مصنوعی ڈبکیاں لگوانا شامل تھا اور ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے اخلاقی ضابطوں سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔

ادھر پیر کی رات سابق نائب صدر ڈک چینی نے ان حربوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان سے بڑی فائدہ مند معلومات حاصل ہوئیں۔

مسٹر اوباما کا کہنا ہے کہ ایسے ہتھکنڈوں سے ہمارے ضابطہٴ اخلاق پر زد پڑتی ہے اور ہماری سلامتی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔

بشکریہ وی ای اے

نظامِ شمسی سے باہر نیا سیارہ دریافت کر لیا گیا

Posted by Anonymous on 11:35 PM


ماہرینِ فلکیات نے نظامِ شمسی سے باہر اب تک دریافت ہونے والا سب سے چھوٹا سیارہ دریافت کر لیا ہے۔ یہ سیارہ زمین سے صرف دوگنا بڑا ہے۔ یہ انکشاف منگل کے روز انگلستان میں ہونے والی ایک خلائی کانفرنس میں کیا گیا۔

یہ سیارہ Gliese ستارے کے گرد چکر لگاتا ہے اور اس کا فاصلہ زمین سے ساڑھے20 نوری سال ہے۔ واضح رہے کہ ایک نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے، جب کہ روشنی کی رفتار تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔

اس سے پہلے سائنس دانوں نے اسی سیارے کے گرد گھومنے والے چار سیارے دریافت کیے تھے۔

ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ غالباً یہ سیارہ انسانی زندگی کے لیے بہت زیادہ گرم ہے کیوں کہ یہ اپنے ستارے سے بہت قریب ہے، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اسی نظام میں کوئی اور سیارہ قابلِ رہائش ہو سکتا ہے۔

یہ دریافت چلی میں واقع دوربین کے ذریعے کی گئی۔

عراق میں جنگ اور تشدد سے دس لاکھ سے زیادہ خواتین بیوہ ہوئیں

Posted by Anonymous on 11:13 PM

عراق میں انسانی حقوق کی وزیر کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت خواتین کے حقوق کی صورت حال بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ واشنگٹن میں ایک گفتگو کے دوران عراقی وزیر وجدان میخائل سلیم نے کہا کہ جنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کو روزگار کی فراہمی مزید مدد کی ضرورت ہے۔ عراق میں جنگ اور تشدد کی وجہ سے لاکھوں عراقی جاں بحق اور سینکڑوں خواتین بیوہ، اور بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ اندازوں کے مطابق عراق میں جنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کی تعداد 10 سے 30 لاکھ ہے۔ بہت سی خواتین کو حکومت کی طرف سے مالی امداد ملتی ہے، لیکن اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ امداد نا کافی ہے اور بہت سی خواتین کو گزر اوقات کے لیے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ ثنا حسن کو بھی حکومت کی جانب سے مالی امداد ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر 2006 کے ہنگاموں میں ہلاک ہو گئے تھے۔ میرے چار بچے ہیں اور میرے شوہر کی ایک دوسری بیوی سے بھی اولاد ہے۔ ہم سب مالی حالات کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ ایک دن میرا بیٹا اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے جانا چاہتا تھا، لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ حالات میں ابھی بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے شاید اسی وجہ سےپچھلے سال دسمبر میں ایک عراقی صحافی نے عراق کے یتموں اور بیواوں کا بدلہ لینے کی خاطر امریکی صدر کو جوتے مارنے کی کوشش کی۔ عراق کی وزیر برائے انسانی حقوق کہتی ہیں کہ یہ مسائل صرف حکومت کی امداد سے ہی حل نہیں کیے جا سکتے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ان کے لیے روزگارکے ذرائع پیدا کرنے چاہیں۔ ہر مہینے کچھ رقم دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ واشنگٹن میں بات کرتے ہوئے منسٹر وجدان سلیم نے کہا کہ عراقی روایات خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں تعلیم پر جتنا زور دیا جائے، کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دو کام کرنے ہیں۔ سب سے پہلے تو خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کرنی ہے۔ اور مردوں کو بھی خواتین کے حقوق کے بارے میں بتانا ہے۔ تاکہ خواتین ہمارے معاشرے میں اپنی جگہ لے سکیں۔ سال کے شروع میں خواتین کے امور کی وفاقی وزیر نے صرف چھ ماہ کے بعد استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بیواوں کی مدد کرنے کے لیے عراقی حکومت کو مزید ذرائع مہیا کرنے ہوں گے۔ سابق وزیر نوال الثمری کا کہنا تھا کہ 30 لاکھ خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر ان پڑھ ہیں۔ ان کے مالی حالات بہت خراب ہیں۔ بیشر خواتین اور ان کے بچوں کے سر پر چھت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق میں جنگ کی وجہ سے بیوہ ہونے والی خواتین کی مددکے لیے حکومت کو وزیر نامزد کرنے کے بجائے با ضابطہ وزارت قائم کرنی چاہیے۔ عراق میں انسانی حقوق کی وزیر کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت خواتین کے حقوق کی صورت حال بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ واشنگٹن میں ایک گفتگو کے دوران عراقی وزیر وجدان میخائل سلیم نے کہا کہ جنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کو روزگار کی فراہمی مزید مدد کی ضرورت ہے۔ عراق میں جنگ اور تشدد کی وجہ سے لاکھوں عراقی جاں بحق اور سینکڑوں خواتین بیوہ، اور بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ اندازوں کے مطابق عراق میں جنگ کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کی تعداد 10 سے 30 لاکھ ہے۔ بہت سی خواتین کو حکومت کی طرف سے مالی امداد ملتی ہے، لیکن اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ امداد نا کافی ہے اور بہت سی خواتین کو گزر اوقات کے لیے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ ثنا حسن کو بھی حکومت کی جانب سے مالی امداد ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر 2006 کے ہنگاموں میں ہلاک ہو گئے تھے۔ میرے چار بچے ہیں اور میرے شوہر کی ایک دوسری بیوی سے بھی اولاد ہے۔ ہم سب مالی حالات کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ ایک دن میرا بیٹا اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے جانا چاہتا تھا، لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ حالات میں ابھی بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے شاید اسی وجہ سےپچھلے سال دسمبر میں ایک عراقی صحافی نے عراق کے یتموں اور بیواوں کا بدلہ لینے کی خاطر امریکی صدر کو جوتے مارنے کی کوشش کی۔ عراق کی وزیر برائے انسانی حقوق کہتی ہیں کہ یہ مسائل صرف حکومت کی امداد سے ہی حل نہیں کیے جا سکتے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ان کے لیے روزگارکے ذرائع پیدا کرنے چاہیں۔ ہر مہینے کچھ رقم دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ واشنگٹن میں بات کرتے ہوئے منسٹر وجدان سلیم نے کہا کہ عراقی روایات خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں تعلیم پر جتنا زور دیا جائے، کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دو کام کرنے ہیں۔ سب سے پہلے تو خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کرنی ہے۔ اور مردوں کو بھی خواتین کے حقوق کے بارے میں بتانا ہے۔ تاکہ خواتین ہمارے معاشرے میں اپنی جگہ لے سکیں۔ سال کے شروع میں خواتین کے امور کی وفاقی وزیر نے صرف چھ ماہ کے بعد استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بیواوں کی مدد کرنے کے لیے عراقی حکومت کو مزید ذرائع مہیا کرنے ہوں گے۔ سابق وزیر نوال الثمری کا کہنا تھا کہ 30 لاکھ خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر ان پڑھ ہیں۔ ان کے مالی حالات بہت خراب ہیں۔ بیشر خواتین اور ان کے بچوں کے سر پر چھت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق میں جنگ کی وجہ سے بیوہ ہونے والی خواتین کی مددکے لیے حکومت کو وزیر نامزد کرنے کے بجائے با ضابطہ وزارت قائم کرنی چاہیے۔ بشکریہ وی ای اے

سی آئی اے کے تفتیشی طریقہ کارکے بارے میں مزید انکشاف

Posted by Anonymous on 11:08 PM

امریکی سنیٹ کیArmed Services Committee کی ایک رپورٹ سے دہشت گردی کے شبہے میں پکڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ امریکی فوج اور سی آئی اے کے سلوک کی مزید تفصیلات کا انکشاف ہوا ہے۔ پوچھ گچھ کے دوران ان قیدیوں پر بعض ایسے طریقے بھی استعمال کیے گئے جو در اصل ایک ایسے پروگرام سے لیے گئے تھے جس کا مقصد امریکی فوجیوں کو جنگی قیدی بن جانے کی صورت میں سختیاں برداشت کرنے کے لیے تیار کرنا تھا۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ابتدائی دنوں میں فوجی عہدے داروں نے Stuart Herrington کو کیوبا میں گوانتانامو بے کے نئے قید خانے میں مشتبہ دہشت گردوں کے حالات اور پوچھ گچھ کے طریقوں کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔ وہ ملٹری انٹیلی جینس کے ریٹائرڈ افسر تھے اور انہیں قیدیوں سے پوچھ گچھ کے کام کا تجربہ بھی تھا۔

وائس آف امریکہ کو ٹیلیفون پر انٹرویو میں کرنل Herrington نے گوانتاناموبے کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کچھ یُوں کیا ’’میں جب وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ ان کے طریقے میں بنیادی خامی یہ تھی کہ وہ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانک رہے تھے یعنی یہ سب دنیا کے بد ترین لوگ ہیں اگریہ تربیت یافتہ قاتل نہ ہوتے تو یہاں آتے ہی کیوں۔ ہمارا اصل کام یہبشکریہ وی ای اے ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ یہاں کس کا حکم چلتا ہے۔ ایک انٹیلی جینس افسر اور پوچھ گچھ کے ماہر کی حیثیت سے میرا تاثر یہ تھا کہ وہاں سب کچھ غلط ہو رہا تھا‘‘۔


(فائل فوٹو)
تقریباً دو برس بعدHerrington کوحقائق معلوم کرنے اور پوچھ گچھ کے طریقوں کا جائزہ لینے کے مشن پر ابو غریب بھیجا گیا ۔انھوں نے بتایا کہ ان کی یہ سفارش کہ اگر نرمی سے کام لیا جائے تو زیادہ مفید معلومات حاصل ہو سکتی ہیں نظر انداز کر دی گئی تھی’’میں نے عراق میں جو کچھ دیکھا وہ یہ تھا کہ گوانتا نامو کے بارے میں، میں نے جو مشورے دیے تھے وہ عراق تک نہیں پہنچے تھے۔ ابو غریب اور عراق اسٹڈی گروپ کے قید خانے میں جو کچھ ہورہا تھا وہ غلط تھا‘‘۔

کرنل Herrington نے پوچھ گچھ کے غلط طریقوں کی طرف توجہ دلانے کی جو کوشش کی تھی وہ سنیٹ کیArmed Services Committee کی232 صفحات کی رپورٹ میں شامل ہے۔ اِس رپورٹ کے مطابق فوج اور سی آئی اے نے قانونی جواز ملنے سے کم از کم آٹھ مہینے پہلے ہی پوچھ گچھ میں زبردستی کرنے کے طریقے استعمال کرنا شروع کر دیے تھے۔

کرنل Herrington نے بتایا کہ اگرچہ انھوں نے خود تو بعض انتہائی قابلِ اعتراض طریقوں کو استعمال ہوتے نہیں دیکھا لیکن انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اعلیٰ عہدے داروں کی طرف سے پوچھ گچھ کے بہت زیادہ جارحانہ طریقوں کے استعمال پر زور دیا جارہا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے خود ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم جیسے تجربے کار ماہرین کی رائے نظر انداز کی جائےاور قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جائے۔

سی آی اے کی سابق سربراہ Michael Hayden اور نائب صدر ڈک چینی سمیت بعض سابق عہدے داروں نے پوچھ گچھ کے ان سخت طریقوں کے دفاع میں کہا ہے کہ یہ طریقے کارگر ثابت ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پوچھ گچھ کے دوران جو معلومات ملیں ان سے دہشت گردوں کی سازشیں نا کام ہو گئیں۔

کرنل Herrington کہتے ہیں کہ یہ محض خیالی بات ہے۔ پوچھ گچھ میں زبردستی کرنے کے طریقوں سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکی فوج کے ایک سابق افسر Mike Ritzجو پوچھ گچھ کے طریقوں کے ماہر ہیں اس خیال سے متفق ہیں’’جو کچھ ہوا کیا اسے ناپنے کا کوئی آلہ ہے؟ کیا یہ طریقے کامیاب ہوئے؟ میرے خیال میں بہت سے لوگوں نے سوچا کہ اگر ایک بار سی آئی اے نے کہہ دیا ہے کہ قیدیوں کو پانی میں ڈوبنے کا تاثر دینے یعنی واٹر بورڈنگ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب ہم نے یہ طریقہ استعمال کیا تو اس شخص نے سب کچھ اگل دیا۔ تو لوگوں نے کہا کہ اگر یہ طریقہ موئثر ہے تو پھر اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی ایسی سوچ کہ بس اپنے مطلب سے غرض رکھو یہ نہ سوچو کہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیئے کس قسم کے ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں۔ میں اِس اندازفکر سے متفق نہیں ہوں‘‘۔


صدر اوباما
صدر اوباما نے کہا ہے کہ سی آئی اے کے جن افسروں نے پوچھ گچھ کے غلط طریقے استعمال کیے ان پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ لیکن جن لوگوں نے اس کام کا حکم دیا یا اس کا جواز پیش کیا انھوں نے ان کے خلاف قانونی کارروائی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔ ان افراد کے خلاف فوجداری مقدمے کی کارروائی کے امکان پر ان سخت طریقوں کا دفاع کرنے والوں کی طرف سے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قیدیوں سے ملنے والی معلومات کی بدولت دہشت گردوں کے حملوں سے بچاؤ ممکن ہوا

۔