خواتین پر مشتمل ایک ٹیم قطب جنوبی کے لیے روانہ ہو رہی ہےاور اس کی کوشش ہے کہ وہ دولتِ مشترکہ کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر یہاں پہنچے۔
پانچ برِ اعظموں سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین چھ ہفتے کے دوران آٹھ سو کلومیٹر(تقریباً پانچ سو میل) کا فاصلہ طے کریں گی۔وہ منفی تیس ڈگری فارن ہائٹ تک کے درجہ حرارت میں سفر کریں گی۔
انٹارکٹیکا کے اس دورے کا مقصد ماحولیاتی مسائل اور عالمی حدت کے بارے میں آگہی پھیلانا ہے۔
ٹیم کی قیادت اکتیس سالہ فلِسٹی ایسٹن کر رہی ہیں جن کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک سے ٹیم کے باقی سات ممبران کا انتخاب کیا۔ اس سفر پر آنے کے لیے آٹھ سو خواتین نے درخواستیں دی ہوئی تھیں۔ ٹیم کی خواتین کا تعلق بھارت، قبرص، گھانا، سنگاپور، برونئی، نیو زی لینڈ اور جمیکا سے ہے۔
انٹارکٹکا میں سفر کرنا خاصا دشوار ہوگا۔ ٹیم کی کئی خواتین نے اس سفر کے لیے ناروے میں ہونے والی تربیت سے پہلے تو کبھی برف بھی نہیں دیکھی تھی۔
بھارت کی رینا کوشل دھرمشکتو اس ٹیم میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی واحد خاتون ہیں۔ وہ قطب جنوبی تک سفر کرنے والی پہلی بھارتی خاتون ہونگی۔ ان کا کہنا ہے کہ 'میرا اس مہم میں شریک ہونا جنوبی ایشیا کی خواتین کے لیے بڑی بات ہوگی کیونکہ اس خطے میں خواتین کے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کیا جاتا۔
ناروے میں دو ہفتے کی تربیت کے بعد ٹیم لندن آئی جہاں اس کی ملکہ برطانیہ سے ملاقات ہوئی۔
ٹیم کی قیادت کرنے والی فلسٹی ایسٹن ماہرِ موسمیات ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس مہم کا مقصد ماحولیاتی مسائل اور عالمی حدت کے بارے میں آگہی بڑھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے رویوں اور عادتوں میں چھوٹی سی تبدیلی بھی بڑے پیمانے پر اثر کر سکتی ہے۔ان کے بقول ا س کی ایک اچھی مثال پلاسٹک کے تھیلوں کی ہے، اب لوگوں میں یہ احساس بڑھ گیا ہے کہ ان کو پھینکنے کے بجائے ان کو صاف کر کے دو بارہ استعمال کیا جا سکتا ہے، اور اس کے نتیجے میں ماحول کو فائدہ ہوا ہے۔
قطب جنوبی کا یہ خصوصی مشن جنوری سنہ دو ہزار دس کو اختتام پذیر ہوگا۔ امکان ہے کہ اس کے بعد یہ تمام خواتین عالمی حدت کو کم کرنے کی ضرورت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کوششوں میں مصروف رہیں گی۔
رینا کوشل دھرمشکتو کہتی ہیں کہ لوگوں کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ یہ دنیا ان کی نہیں، بلکہ انسانی نسلوں سے ادھار لیا ہوا ہے، ایک امانت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ 'اس سلسلے میں لوگوں کی بے حِسی اور غیر ذمہ دار رویہ ختم کرنا ضروری ہے۔‘
اس انتہائی مشکل سفر پر جانے والی ٹیم کی ایک اور رکن قبرص کی سٹیفانی سولوموندیس کہتی ہیں کہ اس مہم میں شرکت سے وہ دنیا بھر کی خواتین کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ 'ہم سب خواتین میں یہ صلاحیت ہے کہ ہم جس چیز کا بھی فیصلہ کر لیں، وہ ہم کر سکتے ہیں۔ ہمیں بس یہ ارادہ کرنا ہوتا ہے کہ ہم یہ کام کر کے ہی دکھائیں گے اور ہم کسی سے کم نہیں۔‘
قطب جنوبی جانے والی اس ٹیم میں گھانا کی باربرا ایریفوا یانئی، برونئی کی نجیبہ السفری، نیو زی لینڈ کی شارمین ٹیٹ، جمیکا کی کِم ماری سپینس اور سنگاپور کی صوفیا پینگ شامل ہیں
بشکریہ بی بی سی