سی آئی اے کے تفتیشی طریقہ کارکے بارے میں مزید انکشاف

Posted by Anonymous on 11:08 PM


امریکی سنیٹ کیArmed Services Committee کی ایک رپورٹ سے دہشت گردی کے شبہے میں پکڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ امریکی فوج اور سی آئی اے کے سلوک کی مزید تفصیلات کا انکشاف ہوا ہے۔ پوچھ گچھ کے دوران ان قیدیوں پر بعض ایسے طریقے بھی استعمال کیے گئے جو در اصل ایک ایسے پروگرام سے لیے گئے تھے جس کا مقصد امریکی فوجیوں کو جنگی قیدی بن جانے کی صورت میں سختیاں برداشت کرنے کے لیے تیار کرنا تھا۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ابتدائی دنوں میں فوجی عہدے داروں نے Stuart Herrington کو کیوبا میں گوانتانامو بے کے نئے قید خانے میں مشتبہ دہشت گردوں کے حالات اور پوچھ گچھ کے طریقوں کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔ وہ ملٹری انٹیلی جینس کے ریٹائرڈ افسر تھے اور انہیں قیدیوں سے پوچھ گچھ کے کام کا تجربہ بھی تھا۔

وائس آف امریکہ کو ٹیلیفون پر انٹرویو میں کرنل Herrington نے گوانتاناموبے کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کچھ یُوں کیا ’’میں جب وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ ان کے طریقے میں بنیادی خامی یہ تھی کہ وہ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانک رہے تھے یعنی یہ سب دنیا کے بد ترین لوگ ہیں اگریہ تربیت یافتہ قاتل نہ ہوتے تو یہاں آتے ہی کیوں۔ ہمارا اصل کام یہبشکریہ وی ای اے ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ یہاں کس کا حکم چلتا ہے۔ ایک انٹیلی جینس افسر اور پوچھ گچھ کے ماہر کی حیثیت سے میرا تاثر یہ تھا کہ وہاں سب کچھ غلط ہو رہا تھا‘‘۔


(فائل فوٹو)
تقریباً دو برس بعدHerrington کوحقائق معلوم کرنے اور پوچھ گچھ کے طریقوں کا جائزہ لینے کے مشن پر ابو غریب بھیجا گیا ۔انھوں نے بتایا کہ ان کی یہ سفارش کہ اگر نرمی سے کام لیا جائے تو زیادہ مفید معلومات حاصل ہو سکتی ہیں نظر انداز کر دی گئی تھی’’میں نے عراق میں جو کچھ دیکھا وہ یہ تھا کہ گوانتا نامو کے بارے میں، میں نے جو مشورے دیے تھے وہ عراق تک نہیں پہنچے تھے۔ ابو غریب اور عراق اسٹڈی گروپ کے قید خانے میں جو کچھ ہورہا تھا وہ غلط تھا‘‘۔

کرنل Herrington نے پوچھ گچھ کے غلط طریقوں کی طرف توجہ دلانے کی جو کوشش کی تھی وہ سنیٹ کیArmed Services Committee کی232 صفحات کی رپورٹ میں شامل ہے۔ اِس رپورٹ کے مطابق فوج اور سی آئی اے نے قانونی جواز ملنے سے کم از کم آٹھ مہینے پہلے ہی پوچھ گچھ میں زبردستی کرنے کے طریقے استعمال کرنا شروع کر دیے تھے۔

کرنل Herrington نے بتایا کہ اگرچہ انھوں نے خود تو بعض انتہائی قابلِ اعتراض طریقوں کو استعمال ہوتے نہیں دیکھا لیکن انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اعلیٰ عہدے داروں کی طرف سے پوچھ گچھ کے بہت زیادہ جارحانہ طریقوں کے استعمال پر زور دیا جارہا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے خود ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم جیسے تجربے کار ماہرین کی رائے نظر انداز کی جائےاور قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جائے۔

سی آی اے کی سابق سربراہ Michael Hayden اور نائب صدر ڈک چینی سمیت بعض سابق عہدے داروں نے پوچھ گچھ کے ان سخت طریقوں کے دفاع میں کہا ہے کہ یہ طریقے کارگر ثابت ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پوچھ گچھ کے دوران جو معلومات ملیں ان سے دہشت گردوں کی سازشیں نا کام ہو گئیں۔

کرنل Herrington کہتے ہیں کہ یہ محض خیالی بات ہے۔ پوچھ گچھ میں زبردستی کرنے کے طریقوں سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکی فوج کے ایک سابق افسر Mike Ritzجو پوچھ گچھ کے طریقوں کے ماہر ہیں اس خیال سے متفق ہیں’’جو کچھ ہوا کیا اسے ناپنے کا کوئی آلہ ہے؟ کیا یہ طریقے کامیاب ہوئے؟ میرے خیال میں بہت سے لوگوں نے سوچا کہ اگر ایک بار سی آئی اے نے کہہ دیا ہے کہ قیدیوں کو پانی میں ڈوبنے کا تاثر دینے یعنی واٹر بورڈنگ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب ہم نے یہ طریقہ استعمال کیا تو اس شخص نے سب کچھ اگل دیا۔ تو لوگوں نے کہا کہ اگر یہ طریقہ موئثر ہے تو پھر اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی ایسی سوچ کہ بس اپنے مطلب سے غرض رکھو یہ نہ سوچو کہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیئے کس قسم کے ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں۔ میں اِس اندازفکر سے متفق نہیں ہوں‘‘۔


صدر اوباما
صدر اوباما نے کہا ہے کہ سی آئی اے کے جن افسروں نے پوچھ گچھ کے غلط طریقے استعمال کیے ان پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ لیکن جن لوگوں نے اس کام کا حکم دیا یا اس کا جواز پیش کیا انھوں نے ان کے خلاف قانونی کارروائی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔ ان افراد کے خلاف فوجداری مقدمے کی کارروائی کے امکان پر ان سخت طریقوں کا دفاع کرنے والوں کی طرف سے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قیدیوں سے ملنے والی معلومات کی بدولت دہشت گردوں کے حملوں سے بچاؤ ممکن ہوا

۔