دنیا بھرمیں ہر سال پچاس لاکھ افراد ، جن میں سے بیشترایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں، سانپ کے کاٹے کا شکار ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ہزاروں ہلاک ہو جاتے ہیں یا مستقل طور پرمعذور ہو جاتے ہیں ۔ غریب ملکوں میں زہر کے علاج کی ادویات کی قلت کے باعث بے شمار کاشتکار، نوجوان اور بچوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے
فلپائن میں لیری بولیندی ، زہریلے سانپوں کو بڑی مہارت کےساتھ پکڑنے کی وجہ سے کوبرا کنگ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان سےاکثر علاقےکےکاشتکار، اپنے کھیتوں سے،کوبرا سانپوں کو پکڑنے کی درخواست کرتے رہتے ہیں۔
آج بلیدی کو اس کاشتکار نے بلایا ہے جس نے اپنے کھیت میں دو سانپ دیکھے تھے۔ اگر اسے کوبرا کاٹ لیتا تو وہ فوراً ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ فلپائن کے اکثر دیہی علاقوں سے اسپتال بہت دور ہیں اور اکثراوقات تو وہاں پر زہرکے کاٹے کی دوائی موجود ہی نہیں ہوتی ۔ بلیدی کہتے ہیں کہ کاشت کار ہمیں اپنے کھیتوں سےسانپ ختم کرنے کے لیے کہتے ہیں کیوں کہ یہ ان کی جانوں کے لیے خطرہ ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال لگ بھگ پچاس لاکھ افرادسانپ کے کاٹے کا نشانہ بنتے ہیں۔ان میں سے تقریباً دو لاکھ افراد ہلاک اور لگ بھگ چار لاکھ اپنے ہاتھ پاؤں سے محروم ہو جاتے ہیں ۔بیشتر متاثرہ افراد کاتعلق افریقہ اور ایشیا کے ترقی پذیر ملکوں سے ہوتا ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کے سانپ کے کاٹے سے زیادہ تر افراد جن میں بچے بھی شامل ہیں ،اس لیے ہلاک ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ ، طبی مراکز سے بہت دور ہوتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں زہر کے کاٹے کی دوائیوں قلت ہے۔
ڈاکٹر وسیتھ سیت پریجا بنکاک میں عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے کام کرنے والے زہریلے سانپ کے علاج اور ریسرچ کےایک مرکزکے انچارج ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زہر کے کاٹے کی مہنگی دوا تیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غریب ممالک مثلاً کمبوڈیا اوربرما، ان ادویات کی مناسب مقدار حاصل کرنے سے محروم رہ سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا عزم ہے اور جہاں تک صحت کے عالمی ادارے کا تعلق ہے تو ہمیں زہر کے کاٹے کی دوا فراہم کرنا ہے ۔ وہ ہم سے گاہے گاہے اس کی درخواست کرتے ہیں لیکن ہم ابھی تک ان کے پورے ملک کو یہ دوا فراہم نہیں کر پا رہے۔
ڈاکٹر وسیتھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ زہر کے کاٹے کی بڑے پیمانے پر تیار کی جاسکنے والی دوسری طرح ادویات ، اکثر اوقات کچھ مخصوص علاقوں کے سانپوں کے زہر ہی سے تیار کی جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ان سانپوں میں کچھ مشترکہ زہریلے اجزا ہو سکتے ہیں لیکن ان کے حیاتیاتی اثرات مختلف ہوتے ہیں ۔اس کا انحصار ماحول، جنیٹکس اور ان کی خوراک پر ہوتاہے۔
اس کامطلب یہ ہے کہ فلپائن میں کوبرا سانپ کے کاٹے کے لیےجودوا کارگر ہوتی ہے ممکن ہے وہ مغربی افریقہ میں اسی طرح کےکسی سانپ کے کاٹے کے لیے کام نہ دے۔
بنکاک میں کھیتوں میں جانے والے بچوں کو مختلف قسم کے سانپوں کا سامنا ہوتا ہے۔ چنانچہ انہیں سانپوں کے بارے میں تریبت دی جاتی ہے۔ انہیں یہ علم ہوجاتا ہےکہ زیادہ تر سانپ حادثاتی طورپر کاٹتے ہیں ، اور انہیں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ سانپوں کے کاٹے سے کس طرح بچا جا سکتاہے مثلاً یہ کہ ربڑکے جوتے پہن کر۔
ماہرین کہتے ہیں کہ سانپوں کے کاٹے سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں کمی لانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس سے بچاؤ کے طریقوں پر عمل کیا جائے اور اس بارے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جائیں۔
بشکریہ وی ای اے
فلپائن میں لیری بولیندی ، زہریلے سانپوں کو بڑی مہارت کےساتھ پکڑنے کی وجہ سے کوبرا کنگ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان سےاکثر علاقےکےکاشتکار، اپنے کھیتوں سے،کوبرا سانپوں کو پکڑنے کی درخواست کرتے رہتے ہیں۔
آج بلیدی کو اس کاشتکار نے بلایا ہے جس نے اپنے کھیت میں دو سانپ دیکھے تھے۔ اگر اسے کوبرا کاٹ لیتا تو وہ فوراً ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ فلپائن کے اکثر دیہی علاقوں سے اسپتال بہت دور ہیں اور اکثراوقات تو وہاں پر زہرکے کاٹے کی دوائی موجود ہی نہیں ہوتی ۔ بلیدی کہتے ہیں کہ کاشت کار ہمیں اپنے کھیتوں سےسانپ ختم کرنے کے لیے کہتے ہیں کیوں کہ یہ ان کی جانوں کے لیے خطرہ ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال لگ بھگ پچاس لاکھ افرادسانپ کے کاٹے کا نشانہ بنتے ہیں۔ان میں سے تقریباً دو لاکھ افراد ہلاک اور لگ بھگ چار لاکھ اپنے ہاتھ پاؤں سے محروم ہو جاتے ہیں ۔بیشتر متاثرہ افراد کاتعلق افریقہ اور ایشیا کے ترقی پذیر ملکوں سے ہوتا ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کے سانپ کے کاٹے سے زیادہ تر افراد جن میں بچے بھی شامل ہیں ،اس لیے ہلاک ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ ، طبی مراکز سے بہت دور ہوتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں زہر کے کاٹے کی دوائیوں قلت ہے۔
ڈاکٹر وسیتھ سیت پریجا بنکاک میں عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے کام کرنے والے زہریلے سانپ کے علاج اور ریسرچ کےایک مرکزکے انچارج ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زہر کے کاٹے کی مہنگی دوا تیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غریب ممالک مثلاً کمبوڈیا اوربرما، ان ادویات کی مناسب مقدار حاصل کرنے سے محروم رہ سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا عزم ہے اور جہاں تک صحت کے عالمی ادارے کا تعلق ہے تو ہمیں زہر کے کاٹے کی دوا فراہم کرنا ہے ۔ وہ ہم سے گاہے گاہے اس کی درخواست کرتے ہیں لیکن ہم ابھی تک ان کے پورے ملک کو یہ دوا فراہم نہیں کر پا رہے۔
ڈاکٹر وسیتھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ زہر کے کاٹے کی بڑے پیمانے پر تیار کی جاسکنے والی دوسری طرح ادویات ، اکثر اوقات کچھ مخصوص علاقوں کے سانپوں کے زہر ہی سے تیار کی جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ان سانپوں میں کچھ مشترکہ زہریلے اجزا ہو سکتے ہیں لیکن ان کے حیاتیاتی اثرات مختلف ہوتے ہیں ۔اس کا انحصار ماحول، جنیٹکس اور ان کی خوراک پر ہوتاہے۔
اس کامطلب یہ ہے کہ فلپائن میں کوبرا سانپ کے کاٹے کے لیےجودوا کارگر ہوتی ہے ممکن ہے وہ مغربی افریقہ میں اسی طرح کےکسی سانپ کے کاٹے کے لیے کام نہ دے۔
بنکاک میں کھیتوں میں جانے والے بچوں کو مختلف قسم کے سانپوں کا سامنا ہوتا ہے۔ چنانچہ انہیں سانپوں کے بارے میں تریبت دی جاتی ہے۔ انہیں یہ علم ہوجاتا ہےکہ زیادہ تر سانپ حادثاتی طورپر کاٹتے ہیں ، اور انہیں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ سانپوں کے کاٹے سے کس طرح بچا جا سکتاہے مثلاً یہ کہ ربڑکے جوتے پہن کر۔
ماہرین کہتے ہیں کہ سانپوں کے کاٹے سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں کمی لانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس سے بچاؤ کے طریقوں پر عمل کیا جائے اور اس بارے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جائیں۔
بشکریہ وی ای اے