فلکیات دانوں نے کائنات کے دور ترین اور قدیم ترین مظہر کا سراغ لگایا ہے۔ یہ ایک مرتے ہوئے ہوئے ستارے میں ہونے والا دھماکا ہے جو آج سے 13 ارب سال پہلے کائنات کے وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد وقوع پذیر ہوا تھا۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس دریافت سے کائنات کے ارتقا کے بارے میں قابلِ قدر معلومات حاصل ہو سکیں گی۔ فلکیات دان کہتے ہیں کہ یہ واقعہ بگ بینگ کے صرف 63 کروڑ سال بعد پیش آیا جس میں دم توڑتے ہوئے ستارے سے توانائی کی گیما شعاعیں خارج ہوئی تھیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کائنات کی عمر تقریباً 14 ارب سال ہے۔ اس دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کا ’تاریک دور‘ اس سے پہلے لگائے جانے والے اندازوں کی نسبت جلد ختم ہو گیا تھا۔ تاریک دور کائنات کے وجود میں آنے کے فوراً بعد اور بڑے ستاروں کے بننے اور چمکنے سے پہلے کے زمانے کو کہتے ہیں۔ اس دریافت سے قبل سب سے قدیم ستارے کا ریکارڈ شدہ دھماکا حالیہ دریافت سے 20 کروڑ سال بعد ہوا تھا۔ انگلستان کی یونیورسٹی آف لیسٹر کے سائنس دان نیال تنویر اس تحقیق میں شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مرتے ہوئے ستارے کا یہ دھماکا (جسے سپرنووا کہا جاتا ہے) سائنس دانوں کو وقت میں ماضی کے سفر میں دور تک لے جاتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جو فلکیات میں نامعلوم خطہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے بڑی حد تک کائنات کا نقشہ تیار کر لیا ہے، اور اب ہم ان منطقوں کے نقشے تیار کر رہے ہیں جن کے بارے میں پہلے کچھ معلوم نہیں تھا۔ تنویر کہتے ہیں کہ اس دریافت سے سائنس دانوں کو آسمان میں ایک مقام مل گیا ہے جہاں خلائی دوربین ہبل کو لگایا جا سکتا ہے اور جہاں سے قدیم کائنات کے بارے میں سراغ مل سکتے ہیں۔ امریکی ماہرِ فلکیات ڈین فریل کہتے ہیں اس ستارے سے روشنی 13 ارب سال کا سفر طے کر کے زمین تک پہنچی ہے۔ اس مشاہدے سے یہ اندازہ ہو گا کہ بگ بینگ کے بعد کس قسم کے کیمیائی مادے خارج ہوئے تھے۔ فریل کا کہنا ہے کہ فلکیات دانوں کے اندازے کے مطابق یہ ابتدائی سپرنووا دھماکے بعد میں ہونے والے سپرنووا سے کہیں زیادہ بڑے اور روشن تر تھے۔ ان کے مشاہدے سے ستاروں کی پہلی نسل اور کہکشاؤں کی تشکیل کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی اور یہ پتا چلے گا کہ موجودہ ستاروں میں دھاتیں کہاں سے آئیں اور کائنات میں روشنی کیسے بکھری۔ اس دریافت کے بارے میں ممتاز سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں دو مضامین شائع ہوئے ہیںVOA۔
دنیا بھر میں ہر پندرہ سیکنڈ میں ایک بچہ نمونیے سے ہلاک ہو جاتا ہے : عالمی ادارہ صحت
Posted by Anonymous on 4:52 PM
عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق اداے یونیسیف نے کہا ہے کہ بہتر غذا اور حفاظتی ٹیکیوں سے دنیا بھر میں نمونیے سے ہلاک ہونے والے لاکھوں بچوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ دونوں اداروں نے اس جاں لیوا بیماری سے نمٹنے کے لیے ایک نیا ایکشن پلان شروع کیا ہے۔ یہ نئی حکمت عملی نمونیہ پرقابو پانے کے سلسلے میں پہلے بین الاقوامی دن کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔ نمونیہ دنیا بھر میں بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہر سال اس بیماری کے باعث پوری دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے لاکھوں بچے لقمئہ اجل بن جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں کو کہنا ہے کہ بچوں کی ہر چار اموات میں سے ایک کی وجہ نمونیہ ہوتی ہے۔ یہ شرح ایچ آئی وی ایڈ، ملیریا اور خسرہ، تینوں بیماریوں سے ہلاکت کی شرح سے زیادہ ہے۔ ہر پندرہ سیکنڈ میں ایک بچہ نمونیے سے ہلاک ہو جاتا ہے۔ ان اموات میں سے 98 فیصد سے زیادہ 68 ترقی پذیر ملکوں میں ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود سے متعلق ادارے کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ ان اموات کو کس طرح روکا جا سکتاہے۔ وسائل موجود ہیں صرف ان کے استعمال کی ضرورت ہے۔ دونوں اداروں نے تین مرحلوں پر مبنی ایک گلوبل ایکشن پلان تجویز کیا ہے۔ اس میں نمونیے کا شکار ہونے والے بچوں کو اس مرض سے محفوظ رکھنے، اس سے بچانے اور اس کے علاج کے لیے حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے۔ نمونیے سے محفوظ رکھنے کے لیے یونیسیف کی سینیر ہیلتھ ایڈوائزر، این گولاز کا کہنا ہے کہ بچوں کے قدرتی دفاعی نظام کو بہتر بنانے کے سلسلے میں مناسب غذائیت کی فراہمی انتہائی اہم ہے خاص طور پر ماں کا دودھ۔ ان کا کہنا ہے کہ غذائیت کی کمی میں مبتلا بچے اور وہ بچے جنہیں اپنی زندگی کے پہلے چھ ماہ میں ماں کا دودھ بالکل میسر نہیں آتا، ان میں نمونیے اور دوسری بیماریوں کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتاہے۔ ماں کے دودھ سے نو زائیدہ بچے کا دفاعی نظام مضبوط ہوتاہے۔ اس لیے اگر اس بارے میں آگہی بڑھائی جائے کہ مائیں اپنے بچوں کو پہلے چھ ماہ کے دوران اپنا دودھ پلائیں اور انہیں اس کےعلاوہ کوئی دوسری ٹھوس یا سیال غذا نہ دی جائے تو اس طرح نمونیے سے ہونے والی 23 فیصد اموات میں کمی کی جاسکتی ہے۔ شمیم قاضی عالمی ادارہ صحت کے بچوں کے شعبے سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ نمونیے کی وجہ بننے والی بیماریوں مثلاً کالی کھانسی اور خسرہ سے بچاؤ میں حفاظتی ٹیکے اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کے بعد بھی بچے کو نمونیہ ہو جائے تو ہم جانتے ہیں کہ ہم ان بچوں کا علاج کمیونٹی سطح پر، طبی مراکز میں اور اسپتالوں میں مرض کی شدت کے مطابق انتہائی سستی اینٹی بائیوٹک ادویات اوردوسرے طریقوں سے کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بہت سے ملکوں میں بچوں کو اس بیماری سے بچانے اور اس کے علاج کے سلسلے میں در حقیقت یہ سب انداز اختیار نہیں کیے جا رہے۔ ڈاکٹر قاضی کا کہناہے کہ گلوبل ایکشن پلان کا مقصد تمام متعلقہ حفاظتی ادویات میں سے نوے فیصد تک فراہمی کو ممکن بنانا ہے۔ اقوام متحدہ کے صحت کے اداروں کا کہناہے کہ اس سے ان 68 ترقی پذیر ملکوںمیں جہاں اس بیماری کا خطرہ سب سے زیادہ ہے، ان تجویز کردہ اقدامات پر عمل در آمد پر لگ بھگ 39 ارب ڈالر خرچ ہو سکتے ہیں۔ اداروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ رقم بظاہر بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے لیکن اس بات کے پیش نظرکہ ان 39 ارب ڈالر سے 2015 تک بچوں میں نمونیے سے ہونے والی اموات میں 65 فیصد کی کمی ہو جائے گی، یہ رقم در حقیقت زیادہ نہیں ہے
دیوار برلن گرنے کے 20 سال بعد۔۔۔ VOA
Posted by Anonymous on 4:50 PM
تین عشروں تک دیوار برلن سرد جنگ کی علامت بنی رہی۔ اس دیوار نے ایک شہر کو بلکہ پورے ملک کو تقسیم کر رکھا تھا اور پھر بیس برس پہلے نونومبر 1989ء کو یہ دیوار ٹوٹ گئی اور اس کے ساتھ ہی کمیونسٹ مشرقی جرمنی اور سرد جنگ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ 20 سال پہلے کے واقعات کی ابتدا کیسے ہوئی اورآج کی دنیا میں ان کا کیا مطلب ہے۔
برلن کے نواح میں Glienicke Bridge واقع ہے۔ یہ پُل Havel نامی دریا پر بنا ہوا ہے، اور برلن کو Potsdam کے شہر سے ملاتا ہے۔ پُل کے خوبصورت منظر سے اس کی تاریخ کے تاریک گوشوں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ سرد جنگ کے عروج کے دور میں اسے جاسوسوں کا پُل کہا جاتا تھا کیوں کہ کمیونسٹ اور مغربی ملکوں کے عہدے دار اسی پُل پر ایک دوسرے کے پکڑے جانے والے جاسوسوں کا تبادلہ کرتے تھے۔
Potsdam کے ایک شہری، Haio Koelling کو قیدیوں کے تبادلے کی داستانیں یاد ہیں ’’جی ہاں قیدیوں کا تبادلہ ٹھیک اسی جگہ ہوتا تھا۔ خفیہ ایجنٹ سب کی نظروں کے سامنے ایک ملٹری چیک پوائنٹ سے دوسرے پوائنٹ تک بھیجے جاتے تھے۔ لیکن سویلین باشندوں کے لیئے، تو یہ پُل جیسے تھا ہی نہیں۔ ہمیں قریب جانے کی اجازت نہیں تھی۔ آپ اسے دور فاصلے سے دیکھ سکتے تھے لیکن بیچ میں دیوارِ برلن حائل ہو جاتی تھی‘‘۔
دیوار کی تعمیر کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی حکومت نے اگست 1961ء میں شروع کی۔ اس کا مقصد برلن کو دو حصوں میں بانٹنا تھا۔ لیکن دیوار نے بالآخر پورے مغربی برلن کو گھیرے میں لے لیا اور اسے مشرقی برلن اور بقیہ مشرقی جرمنی سے کاٹ دیا۔ ایک اور زیادہ طویل باؤنڈری سے پورا ملک مشرق اور مغرب میں تقسیم ہو گیا۔ یہ دیوار آہنی پردے کی علامت بن گئی یعنی وہ لائن جو مغربی دنیا کو مشرق سے یا سوویت بلاک سے جدا کرتی تھی۔ اس کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ور ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ سرد جنگ کہیں سچ مُچ کی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ نظام میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ برلن کی Free University کے Jochen Staadt کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو معلوم تھا کہ مشرقی جرمنی یعنی GDR کی حالت خراب ہے۔ معیشت تیزی سے نیچے کی طرف جا رہی تھی۔ اب ہم جانتے ہیں کہ ہماری سیکریٹ سروس کو اس بارے میں بہت کچھ معلوم تھا۔
تبدیلی کی ایک اور علامت 1980 کی دہائی کے وسط میں ظاہر ہوئی جب مخائل گورباچوف نے ماسکو میں عنان اقتدار سنبھالی۔ مسٹر Staadt کا کہنا ہے کہ مسٹر گورباچوف کے آنے کے بعد، ایک انتہائی اہم علامت یہ ظاہر ہوئی کہ سوویت یونین میں لوگوں نے کھلے عام جرمنی کو متحد کرنے کی باتیں شروع کر دیں۔
ماسکو اور مشرقی برلن کے درمیان اختلافِ رائے موجود تھا اور مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ قیادت کے لیے روس کی حمایت کم ہو رہی تھی۔ اِس اختلافِ رائے سے رونلڈ ریگن جیسے لیڈروں نے فائدہ اٹھایا ’’مسٹر گورباچوف ، اس دیوار کو گرا دیجیئے‘‘۔
1987ء میں جب صدر ریگن نے یہ تاریخی الفاظ کہے تو تبدیلی کا عمل شرو ع ہو چکا تھا۔ سوویت بلاک میں اصلاحات کی تحریک زور پکڑ گئی اور 1989ء کی گرمیاں آتے آتے مشرقی جرمنی کے لوگو ں کو مغرب پہنچنے کے لیے ہنگری کا راستہ مِل گیا اور مشرقی جرمنی میں پُر امن احتجاج شروع ہو گئے۔ اگرچہ مغربی ملکوں کے دباؤ کا بھی کچھ اثر ہوا لیکن اہم ترین کردار مخائل گورباچوف نے ادا کیا۔
لندن اسکول آف اکنامکس کے سیاسی تجزیہ کار Michael Cox کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ جیسے ہی سوویت یونین، ماسکو، گورباچوف اور Politburo طاقت استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے ساری عمارت آناً فاناً میں نیچے آ پڑے گی اور ہوا بھی یہی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نونومبر کو سارا کھیل ختم ہو جائے گا۔ دیوارِ برلن گِری اور اپنے ساتھ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کو بھی لے گئی۔
اس کے بعد کا مرحلہ بھی آسان نہیں تھا۔ یورپ کے نئے ڈھانچے کے بارے میں اور جرمنی کے نئے مقام کے بارے میں پیچیدہ مذاکرات ہوئے۔ لیکن اس پورے عمل میں اہم ترین کردار مخائل گوربا چوف نے ادا کیا۔
جرمنی 1990ء میں متحد ہو گیا اور 1991ء میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوا اور سرد جنگ اختتام کو پہنچی۔ ہم ایک بار پھر Glienicke Bridge پر واپس چلتے ہیں اور Haio Koelling سے پوچھتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ کمیونسٹ حکومت میں وہ Potsdam کے شہر میں ماہرِ تعمیرات کے طور پر کام کرتے تھے۔ دیوارِ برلن کے گرنے کے بعد انھوں نے اپنی تعمیراتی کمپنی کھولی۔ اب وہ ریٹائر ہو چکے ہیں اور اب بھی وہیں رہتے ہیں جو کبھی پہلے مشرقی جرمنی تھا۔ لیکن اب وہ جب چاہیں Glienicke Bridge پر آ جا سکتے ہیں ۔سب رکاوٹیں، چیک پوائنٹس اور دیواریں ختم ہو چکی ہیں۔
برلن کے نواح میں Glienicke Bridge واقع ہے۔ یہ پُل Havel نامی دریا پر بنا ہوا ہے، اور برلن کو Potsdam کے شہر سے ملاتا ہے۔ پُل کے خوبصورت منظر سے اس کی تاریخ کے تاریک گوشوں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ سرد جنگ کے عروج کے دور میں اسے جاسوسوں کا پُل کہا جاتا تھا کیوں کہ کمیونسٹ اور مغربی ملکوں کے عہدے دار اسی پُل پر ایک دوسرے کے پکڑے جانے والے جاسوسوں کا تبادلہ کرتے تھے۔
Potsdam کے ایک شہری، Haio Koelling کو قیدیوں کے تبادلے کی داستانیں یاد ہیں ’’جی ہاں قیدیوں کا تبادلہ ٹھیک اسی جگہ ہوتا تھا۔ خفیہ ایجنٹ سب کی نظروں کے سامنے ایک ملٹری چیک پوائنٹ سے دوسرے پوائنٹ تک بھیجے جاتے تھے۔ لیکن سویلین باشندوں کے لیئے، تو یہ پُل جیسے تھا ہی نہیں۔ ہمیں قریب جانے کی اجازت نہیں تھی۔ آپ اسے دور فاصلے سے دیکھ سکتے تھے لیکن بیچ میں دیوارِ برلن حائل ہو جاتی تھی‘‘۔
دیوار کی تعمیر کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی حکومت نے اگست 1961ء میں شروع کی۔ اس کا مقصد برلن کو دو حصوں میں بانٹنا تھا۔ لیکن دیوار نے بالآخر پورے مغربی برلن کو گھیرے میں لے لیا اور اسے مشرقی برلن اور بقیہ مشرقی جرمنی سے کاٹ دیا۔ ایک اور زیادہ طویل باؤنڈری سے پورا ملک مشرق اور مغرب میں تقسیم ہو گیا۔ یہ دیوار آہنی پردے کی علامت بن گئی یعنی وہ لائن جو مغربی دنیا کو مشرق سے یا سوویت بلاک سے جدا کرتی تھی۔ اس کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ور ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ سرد جنگ کہیں سچ مُچ کی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ نظام میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ برلن کی Free University کے Jochen Staadt کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو معلوم تھا کہ مشرقی جرمنی یعنی GDR کی حالت خراب ہے۔ معیشت تیزی سے نیچے کی طرف جا رہی تھی۔ اب ہم جانتے ہیں کہ ہماری سیکریٹ سروس کو اس بارے میں بہت کچھ معلوم تھا۔
تبدیلی کی ایک اور علامت 1980 کی دہائی کے وسط میں ظاہر ہوئی جب مخائل گورباچوف نے ماسکو میں عنان اقتدار سنبھالی۔ مسٹر Staadt کا کہنا ہے کہ مسٹر گورباچوف کے آنے کے بعد، ایک انتہائی اہم علامت یہ ظاہر ہوئی کہ سوویت یونین میں لوگوں نے کھلے عام جرمنی کو متحد کرنے کی باتیں شروع کر دیں۔
ماسکو اور مشرقی برلن کے درمیان اختلافِ رائے موجود تھا اور مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ قیادت کے لیے روس کی حمایت کم ہو رہی تھی۔ اِس اختلافِ رائے سے رونلڈ ریگن جیسے لیڈروں نے فائدہ اٹھایا ’’مسٹر گورباچوف ، اس دیوار کو گرا دیجیئے‘‘۔
1987ء میں جب صدر ریگن نے یہ تاریخی الفاظ کہے تو تبدیلی کا عمل شرو ع ہو چکا تھا۔ سوویت بلاک میں اصلاحات کی تحریک زور پکڑ گئی اور 1989ء کی گرمیاں آتے آتے مشرقی جرمنی کے لوگو ں کو مغرب پہنچنے کے لیے ہنگری کا راستہ مِل گیا اور مشرقی جرمنی میں پُر امن احتجاج شروع ہو گئے۔ اگرچہ مغربی ملکوں کے دباؤ کا بھی کچھ اثر ہوا لیکن اہم ترین کردار مخائل گورباچوف نے ادا کیا۔
لندن اسکول آف اکنامکس کے سیاسی تجزیہ کار Michael Cox کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ جیسے ہی سوویت یونین، ماسکو، گورباچوف اور Politburo طاقت استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے ساری عمارت آناً فاناً میں نیچے آ پڑے گی اور ہوا بھی یہی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نونومبر کو سارا کھیل ختم ہو جائے گا۔ دیوارِ برلن گِری اور اپنے ساتھ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کو بھی لے گئی۔
اس کے بعد کا مرحلہ بھی آسان نہیں تھا۔ یورپ کے نئے ڈھانچے کے بارے میں اور جرمنی کے نئے مقام کے بارے میں پیچیدہ مذاکرات ہوئے۔ لیکن اس پورے عمل میں اہم ترین کردار مخائل گوربا چوف نے ادا کیا۔
جرمنی 1990ء میں متحد ہو گیا اور 1991ء میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوا اور سرد جنگ اختتام کو پہنچی۔ ہم ایک بار پھر Glienicke Bridge پر واپس چلتے ہیں اور Haio Koelling سے پوچھتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ کمیونسٹ حکومت میں وہ Potsdam کے شہر میں ماہرِ تعمیرات کے طور پر کام کرتے تھے۔ دیوارِ برلن کے گرنے کے بعد انھوں نے اپنی تعمیراتی کمپنی کھولی۔ اب وہ ریٹائر ہو چکے ہیں اور اب بھی وہیں رہتے ہیں جو کبھی پہلے مشرقی جرمنی تھا۔ لیکن اب وہ جب چاہیں Glienicke Bridge پر آ جا سکتے ہیں ۔سب رکاوٹیں، چیک پوائنٹس اور دیواریں ختم ہو چکی ہیں۔
Lawa Against the MINAR میناروں پر پابندی کا مجوزہ قانون
Posted by Anonymous on 4:46 PM
سوئٹزرلینڈ میں میناروں پر پابندی لگانے کے بارے میں ووٹنگ سے تین ہفتے قبل ملک کے کئی حصوں میں مسلمان عام لوگوں کو مسجدوں میں آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
مسلمانوں کے مطابق لوگوں کو مسجدوں میں مدعو کرنے سے ان لوگوں میں مساجد کے بارے پائے جانے والے خدشات اور تعصبات کو ختم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔
قدامت پسند پارٹی کو سوئس پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے اس نے میناروں کی تعمیر پر پابندی کے بارے قانون پیش کیا ہے۔ اس پارٹی کا کہنا ہےکہ مینار مسلمانوں کی سیاسی قوت کا نشان ہیں۔
عوامی جائزوں کے مطابق میناروں پر پابندی کا مجوزہ قانون ووٹنگ میں رد ہو جائے گا۔
زیورخ میں مسلمانوں کے ایک راہمنا کا کہنا ہے کہ قدامت پرست سوئس پیپلز پارٹی کی طرف سے مجوزہ قانون تعصب پر مبنی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق سوئٹزرلینڈ میں چار لاکھ مسلمان آباد ہیں اور ان کی دو سو مساجد ہیں جن میں صرف چار کے مساجد کے مینار ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کے ایک اور مسلمان رہنما ہشام مرزا نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ غیر مسلمانوں کو مساجد میں مدعو کرنے سے غلط فہمیاں دور کرنے میں مدد ملے گی۔
بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ لوگ مساجد میں جا کر بہت خوش ہوئے۔
مسلمانوں کے مطابق لوگوں کو مسجدوں میں مدعو کرنے سے ان لوگوں میں مساجد کے بارے پائے جانے والے خدشات اور تعصبات کو ختم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔
قدامت پسند پارٹی کو سوئس پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے اس نے میناروں کی تعمیر پر پابندی کے بارے قانون پیش کیا ہے۔ اس پارٹی کا کہنا ہےکہ مینار مسلمانوں کی سیاسی قوت کا نشان ہیں۔
عوامی جائزوں کے مطابق میناروں پر پابندی کا مجوزہ قانون ووٹنگ میں رد ہو جائے گا۔
زیورخ میں مسلمانوں کے ایک راہمنا کا کہنا ہے کہ قدامت پرست سوئس پیپلز پارٹی کی طرف سے مجوزہ قانون تعصب پر مبنی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق سوئٹزرلینڈ میں چار لاکھ مسلمان آباد ہیں اور ان کی دو سو مساجد ہیں جن میں صرف چار کے مساجد کے مینار ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کے ایک اور مسلمان رہنما ہشام مرزا نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ غیر مسلمانوں کو مساجد میں مدعو کرنے سے غلط فہمیاں دور کرنے میں مدد ملے گی۔
بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ لوگ مساجد میں جا کر بہت خوش ہوئے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)