کراچی میں صرف پانچ فیصد خواتین کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی

Posted by Anonymous on 8:39 PM


ایک صحت مند معاشرہ اس وقت تشکیل پاتا ہے جب اس میں رہنے والا ہر فرد متحرک ہو ۔ معاشرے کی فلا ح و بہبود کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی یہ تحریک علم و آگہی ، یکساں مواقع او ر وسائل کے صحیح تعین سے ملتی ہے۔ لیکن پاکستان میں صورتحال مختلف ہے ۔ یہاں تعلیم ترجیحات میں شامل نہیں ۔ معاشی و معاشرتی حدبندیوں کے سبب مواقع محدود ۔ وسائل بے شمار لیکن اخلاص کی قلت اور وژن۔۔۔ ناقص۔ پاکستان کی 51فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن بیشتر تعلیم سے محروم ہونے کے سبب اقتصادی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ دیہی علاقے تو ایک طرف شہری علاقوں میں بھی خواندگی کی صورتحال حوصلہ افزانہیں۔ اس کا بخوبی اندازہ کراچی میں قائم ایک نجی یونی ورسٹی ”اقراء“ کے شعبہ پی ایچ ڈی کی سربراہ ڈاکٹر زائرہ وہاب کی اس تحقیق سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں صرف 5 فیصد خواتین کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی ہے اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی ان میں سے صرف دو فیصد کو روزگار کے مواقع حاصل ہیں۔

اگرچہ ڈاکٹرزائرہ وہاب نے یہ تحقیق 2006 ء میں مرتب کی تھی لیکن وہ ہر سال اسے اپ ڈیٹ کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس دوران کالجوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن کہیں آرٹس ہے تو کہیں کامرس نہیں اور کامرس ہے تو کہیں سائنس نہیں۔ اسٹاف اور ڈپارٹمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی تعلیمی اداروں میں خواتین کی نمائندگی کم و بیش وہی ہے۔


ڈاکٹرزائرہ وہاب

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زائرہ نے اس کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ غربت ، معاشرتی روایات ، بنیاد پرستی ، سماجی رکاوٹیں ، قول و فعل میں تضاف جیسے عناصر سمیت حکومت کی عدم توجہی بھی ایک وجہ ہے۔ بلند و بانگ دعووٴں کے با وجود ہم بحیثیت قوم آج تک یہ تعین ہی نہیں کر سکے کہ ہم اپنی خواتین کو کیسے دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین اعلیٰ تعلیم کے ذریعے ہی اقتصادی آزادی حاصل کر سکتی ہیں لیکن اپنی تحقیق کے دوران میں نے یہ دیکھا کہ اعلیٰ تعلیم ایک خاص طبقے تک ہی محدود ہے اس لیے غریب گھرانے کی لڑکیاں نہ تو اقتصادی طور پر خود مختار ہوتی ہیں اور نہ ان میں انفرادیت ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ پھر نسل در نسل چلتا ہے ۔ جب کہ خوشحال گھرانوں کی خواتین تعلیم کے بعد ملک چھوڑ کے چلی جاتی ہیں یا پھر ان کو کام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور تبدیلی ان کے لیے اتنی معنی بھی نہیں رکھتی ۔ مسئلہ درمیانے اور غریب طبقے کی خواتین کا ہے جنہیں خود انحصار بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ غربت سے لڑ سکیں۔

جامعات میں خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مختلف شعبوں میں تیزی سے قدم رکھتی خواتین کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے پبلک سیکٹر میں واحد ادارہ جامعہ کراچی ہے۔ وہاں خواتین کی نمائندگی مردوں سے زیادہ ہے مگر غریب طبقے کی خواتین وہاں بھی نہیں۔ دوسرا وہاں بیشتر خواتین سوشل سائنسز سے منسلک ہیں اور مارکیٹ میں ان کے لیے کوئی جاب نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین مسابقتی میدانوں میں نہیں آتیں جیسا کہ منجمنٹ سائنسز ، قانون ، انجینئرنگ ۔ ان شعبوں میں آکر درمیانے اور غریب طبقے کی خواتین براہ راست ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔ مگر ان کے لیے مواقع نہیں۔ نجی جامعات میں فیس اتنی زیادہ ہے کہ ادائیگی ان کے بس سے باہر ہے۔



وہ کہتی ہیں کہ بحیثیت قوم ہماری منزل اور مقاصد واضح نہیں ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس مین پاور پلاننگ ہونی چاہیے کہ کس شعبے میں کتنے لوگو ں کی ضرورت ہے اور کون سے لوگ کہاں ہوں۔ وہ جگہیں جہاں خواتین زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں ان کے لیے مخصوص کوٹے مقرر کیے جائیں۔ اگر وسائل نہیں اور لوگ اپنی بیٹیوں کو نہیں بھیجتے تو حکمت عملی مرتب کی جائے ۔

واضح رہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے علاوہ خواتین کو پرائمری کی سطح پر بھی تعلیم کے حصول کے لئے صورتحال حوصلہ افزاء نہیں۔حکومت سندھ کے ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان ایسے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔صرف سندھ میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 50 فیصد ہے جبکہ کچھ علاقوں میں یہ شرح 72 فیصد ہے۔

پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے ڈاکٹر زائرہ کے مطابق میڈیا کا کردار ، مواقع اور لٹریسی ریسورس سینٹر کا قیام بہت اہم ہے۔ بھارت کی صرف ایک ریاست چنائے میں چھبیس ریسورس سینٹر ہیں جہاں نہ صرف بچوں کی کاوٴنسلنگ ہوتی ہے بلکہ ان کے والدین کی بھی جبکہ کراچی میں ہم نے ایک کے بارے میں بھی نہیں سنا ۔ ساتھ ہی یہاں کالجوں میں تعلیم کو ہنر کے ساتھ مشروط کرنا چاہئے تاکہ لوگ تعلیم کی جانب راغب ہوں اورپچاس فیصد ضائع ہونے والے انسانی وسائل سے ملک استفادہ کر سکے ۔