پاکستان سمیت دنیا بھر میں معذور افراد کا عالمی دن جمعرات کے روز منایا گیا جس کامقصد ان کے حقوق اور سماجی و اقتصادی شعبوں میں انہیں جائز مقام دلانے سے متعلق آگاہی کو فروغ دینا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی میں تقریباً دس فیصدلوگ مختلف نوعیت کی معذوری کا شکار ہیں۔
ان افراد کا کہنا ہے کہ انہیں معاشرے یا حکومت سے ہمدردی نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کا اعتراف چاہیے جنہیں بروئے کار لا کر یہ ایک کارآبد شہری بن سکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے معذور آبادی کے لیے نوکریوں میں اگرچہ دو فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں معاشرتی ناہمواریوں کا سامنا ہے۔
ملتان میں قوس قزح کے نام سے قائم معذور بچوں کے سینٹر کے ایک گریجوایٹ بریل ٹیچرطاہر شہزاد کا کہنا ہے کہ انہیں صرف سرکاری ہی نہیں بلکہ نجی شعبے میں بھی روزگار کے حصول میں دشواری ہے۔ طاہر کا کہنا ہے ”اگر ہمارے لیے مقررکردہ دو فیصد نوکریوں کے کوٹے پر ہی مئوثر انداز میں عمل درآمد ہوجائے تو شاید تمام معذور افراد کو روزگار مل جائے گا“۔
اسی سکول کے ایک طالب علم حافظ محمد اویس کے خواب صرف روزگار تک محدود نہیں بلکہ وہ مستقبل میں ایک سیاست دان بننا چاہتے ہیں” میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ کوئی ایسا قانون بنائے کہ با صلاحیت معذور افراد اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر اپنی آواز اٹھا سکیں“۔
معذور افراد کے لیے چھپنے والے ماہ نامے ” پاکستان سپیشل “کے مدیر فرحت انور نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں معذور لوگوں میں زیادہ تر تعداد جسمانی طور پر معذور افراد کی ہے لیکن ان کے مطابق لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دہشت گردی سے متاثرہ شمال مغربی پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے میں دشواری کے باعث اس سے متاثرہ بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور یوں ملک کی مفلوج آبادی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی میں تقریباً دس فیصدلوگ مختلف نوعیت کی معذوری کا شکار ہیں۔
ان افراد کا کہنا ہے کہ انہیں معاشرے یا حکومت سے ہمدردی نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کا اعتراف چاہیے جنہیں بروئے کار لا کر یہ ایک کارآبد شہری بن سکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے معذور آبادی کے لیے نوکریوں میں اگرچہ دو فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں معاشرتی ناہمواریوں کا سامنا ہے۔
ملتان میں قوس قزح کے نام سے قائم معذور بچوں کے سینٹر کے ایک گریجوایٹ بریل ٹیچرطاہر شہزاد کا کہنا ہے کہ انہیں صرف سرکاری ہی نہیں بلکہ نجی شعبے میں بھی روزگار کے حصول میں دشواری ہے۔ طاہر کا کہنا ہے ”اگر ہمارے لیے مقررکردہ دو فیصد نوکریوں کے کوٹے پر ہی مئوثر انداز میں عمل درآمد ہوجائے تو شاید تمام معذور افراد کو روزگار مل جائے گا“۔
اسی سکول کے ایک طالب علم حافظ محمد اویس کے خواب صرف روزگار تک محدود نہیں بلکہ وہ مستقبل میں ایک سیاست دان بننا چاہتے ہیں” میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ کوئی ایسا قانون بنائے کہ با صلاحیت معذور افراد اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر اپنی آواز اٹھا سکیں“۔
معذور افراد کے لیے چھپنے والے ماہ نامے ” پاکستان سپیشل “کے مدیر فرحت انور نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں معذور لوگوں میں زیادہ تر تعداد جسمانی طور پر معذور افراد کی ہے لیکن ان کے مطابق لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دہشت گردی سے متاثرہ شمال مغربی پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے میں دشواری کے باعث اس سے متاثرہ بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور یوں ملک کی مفلوج آبادی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔