پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طارق پرویز نےایک شیر خواربچے کو پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر حراست میں رکھنے کے واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔
پشاورہائی کورٹ کے چیف جسٹس طارق پرویز نے ازخود نوٹس اس وقت لیا جب بچے کی ماں روفیدہ کی جانب سے ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کی سماعت کے موقع پر ان کے وکیل نےمؤقف اختیار کیا کہ چونکہ بچہ تین دن قبل ماں کے حوالے کردیا گیا ہے لہذا ان کی رٹ غیر مؤثر ہوگئی ہے۔
جمعہ کو جسٹس معروف خان اور جسٹس سید مصدق حسین گیلانی پر مشتمل بنچ نےجب کیس کی سماعت شروع کی تو بچے کی ماں روفیدہ کے وکیل حسین علی نے عدالت کو بتایا کہ پشاور کی نواح میں واقع چمکنی پولیس نے شریکرہ کے علاقے علی خیل میں اختر محمد نامی ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا لیکن ملزم کی عدم موجودگی پر پولیس نو ماہ کے شیرخوار بچے جان محمد کو اٹھاکر لے گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے ایک ماہ تک بچے کو اپنی حراست میں رکھا لیکن اس سے تین دن قبل واپس اپنی ماں کے حوالے کردیا۔ ان کے اس بیان کے بعد ان کی رٹ غیر مؤثر ہوگئی۔
تاہم اس کے بعد جب بچے کو کمرہ عدالت سے باہر لایا گیا تو وہاں پر موجود صحافی بچے کو لے کر چیف جسٹس طارق پرویز کے پاس پہنچ گئے جنہوں نے واقعہ کا ازخود نوٹس لے لیا۔
اس موقع پر بچے کی ماں نے چیف جسٹس کو بتایا کہ گرفتاری سے قبل بچہ دودھ پی رہا تھا مگر اب اس کے دودھ پینے کی عادت چھوٹ گئی ہے اور بہت کمزور بھی ہوگیا ہے۔
سنیچر کو ایس ایچ او متنی، ایس ایچ چمکنی، ناظم یونین کونسل زڑھ مینہ اور بچے کی ماں، دادا اور دادای چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوئے۔
پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے بچے کو غیر قانونی حراست میں نہیں رکھا ہے ۔ ان کے بقول یہ واقعہ نیم قبائلی علاقے میں پیش آیا ہے جہاں پر پولیس کی بجائے خاصہ دار تعینات ہوتے ہیں۔
اس موقع پر بچے کی دادی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس ان کی ہی گود سے بچہ لے کر گئی ہے اور جس پولیس نے بچے کو مبینہ طور پر اٹھایا ہے وہ سامنے آنے پر انہیں پہچان سکتی ہے۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے مجسٹریٹ کو ہدایت کی کہ وہ بچے کی دادی کو چمکنی پولیس اسٹیشن لے جائیں اور وہاں پر پولیس اہلکاروں کی شناختی پریڈ کی جائے۔ کیس کی سماعت جمعہ تک کے لیے ملتوی کردی گئی ہے
پشاورہائی کورٹ کے چیف جسٹس طارق پرویز نے ازخود نوٹس اس وقت لیا جب بچے کی ماں روفیدہ کی جانب سے ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کی سماعت کے موقع پر ان کے وکیل نےمؤقف اختیار کیا کہ چونکہ بچہ تین دن قبل ماں کے حوالے کردیا گیا ہے لہذا ان کی رٹ غیر مؤثر ہوگئی ہے۔
جمعہ کو جسٹس معروف خان اور جسٹس سید مصدق حسین گیلانی پر مشتمل بنچ نےجب کیس کی سماعت شروع کی تو بچے کی ماں روفیدہ کے وکیل حسین علی نے عدالت کو بتایا کہ پشاور کی نواح میں واقع چمکنی پولیس نے شریکرہ کے علاقے علی خیل میں اختر محمد نامی ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا لیکن ملزم کی عدم موجودگی پر پولیس نو ماہ کے شیرخوار بچے جان محمد کو اٹھاکر لے گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے ایک ماہ تک بچے کو اپنی حراست میں رکھا لیکن اس سے تین دن قبل واپس اپنی ماں کے حوالے کردیا۔ ان کے اس بیان کے بعد ان کی رٹ غیر مؤثر ہوگئی۔
تاہم اس کے بعد جب بچے کو کمرہ عدالت سے باہر لایا گیا تو وہاں پر موجود صحافی بچے کو لے کر چیف جسٹس طارق پرویز کے پاس پہنچ گئے جنہوں نے واقعہ کا ازخود نوٹس لے لیا۔
اس موقع پر بچے کی ماں نے چیف جسٹس کو بتایا کہ گرفتاری سے قبل بچہ دودھ پی رہا تھا مگر اب اس کے دودھ پینے کی عادت چھوٹ گئی ہے اور بہت کمزور بھی ہوگیا ہے۔
سنیچر کو ایس ایچ او متنی، ایس ایچ چمکنی، ناظم یونین کونسل زڑھ مینہ اور بچے کی ماں، دادا اور دادای چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوئے۔
پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے بچے کو غیر قانونی حراست میں نہیں رکھا ہے ۔ ان کے بقول یہ واقعہ نیم قبائلی علاقے میں پیش آیا ہے جہاں پر پولیس کی بجائے خاصہ دار تعینات ہوتے ہیں۔
اس موقع پر بچے کی دادی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس ان کی ہی گود سے بچہ لے کر گئی ہے اور جس پولیس نے بچے کو مبینہ طور پر اٹھایا ہے وہ سامنے آنے پر انہیں پہچان سکتی ہے۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے مجسٹریٹ کو ہدایت کی کہ وہ بچے کی دادی کو چمکنی پولیس اسٹیشن لے جائیں اور وہاں پر پولیس اہلکاروں کی شناختی پریڈ کی جائے۔ کیس کی سماعت جمعہ تک کے لیے ملتوی کردی گئی ہے
thanker bbc۔