بچے کی حراست، چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا

Posted by Anonymous on 5:12 PM
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طارق پرویز نےایک شیر خواربچے کو پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر حراست میں رکھنے کے واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔
پشاورہائی کورٹ کے چیف جسٹس طارق پرویز نے ازخود نوٹس اس وقت لیا جب بچے کی ماں روفیدہ کی جانب سے ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کی سماعت کے موقع پر ان کے وکیل نےمؤقف اختیار کیا کہ چونکہ بچہ تین دن قبل ماں کے حوالے کردیا گیا ہے لہذا ان کی رٹ غیر مؤثر ہوگئی ہے۔
جمعہ کو جسٹس معروف خان اور جسٹس سید مصدق حسین گیلانی پر مشتمل بنچ نےجب کیس کی سماعت شروع کی تو بچے کی ماں روفیدہ کے وکیل حسین علی نے عدالت کو بتایا کہ پشاور کی نواح میں واقع چمکنی پولیس نے شریکرہ کے علاقے علی خیل میں اختر محمد نامی ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا لیکن ملزم کی عدم موجودگی پر پولیس نو ماہ کے شیرخوار بچے جان محمد کو اٹھاکر لے گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے ایک ماہ تک بچے کو اپنی حراست میں رکھا لیکن اس سے تین دن قبل واپس اپنی ماں کے حوالے کردیا۔ ان کے اس بیان کے بعد ان کی رٹ غیر مؤثر ہوگئی۔
تاہم اس کے بعد جب بچے کو کمرہ عدالت سے باہر لایا گیا تو وہاں پر موجود صحافی بچے کو لے کر چیف جسٹس طارق پرویز کے پاس پہنچ گئے جنہوں نے واقعہ کا ازخود نوٹس لے لیا۔
اس موقع پر بچے کی ماں نے چیف جسٹس کو بتایا کہ گرفتاری سے قبل بچہ دودھ پی رہا تھا مگر اب اس کے دودھ پینے کی عادت چھوٹ گئی ہے اور بہت کمزور بھی ہوگیا ہے۔
سنیچر کو ایس ایچ او متنی، ایس ایچ چمکنی، ناظم یونین کونسل زڑھ مینہ اور بچے کی ماں، دادا اور دادای چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوئے۔
پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے بچے کو غیر قانونی حراست میں نہیں رکھا ہے ۔ ان کے بقول یہ واقعہ نیم قبائلی علاقے میں پیش آیا ہے جہاں پر پولیس کی بجائے خاصہ دار تعینات ہوتے ہیں۔
اس موقع پر بچے کی دادی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس ان کی ہی گود سے بچہ لے کر گئی ہے اور جس پولیس نے بچے کو مبینہ طور پر اٹھایا ہے وہ سامنے آنے پر انہیں پہچان سکتی ہے۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے مجسٹریٹ کو ہدایت کی کہ وہ بچے کی دادی کو چمکنی پولیس اسٹیشن لے جائیں اور وہاں پر پولیس اہلکاروں کی شناختی پریڈ کی جائے۔ کیس کی سماعت جمعہ تک کے لیے ملتوی کردی گئی ہے

thanker bbc۔

برطانوی خفیہ ایجنسی کا پاکستان میں آپریشن

Posted by Anonymous on 5:04 PM

برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی سکسٹین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار افراد کے بارے میں معلومات پاکستان میں کئے گئے آپریشنز کے ذریعے ملیں۔برطانوی اخبار گاڈین کے مطابق دو سے تین ہفتے قبل ایم آئی سکسٹین نے پاکستان میں کئی آپریشنز کئے تھے جن کے ذریعے برطانیہ میں موجود مبینہ طور پر القاعدہ کے تربیت یافتہ مشتبہ عسکریت پسندوں کے نام اور ای میلز اور ٹیلی فون کالز کا ریکارڈ حاصل کیا گیاجس سے یہ بات پتہ چلی کہ برطانیہ میں موجود القاعدہ کے مبینہ کمانڈروں اور پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کے درمیان رابطہ ہے۔ اخبار کے مطابق گرفتار شدگان میں سے بعض کو عوامی مقامات کی تصاویر حاصل کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا۔
thanker urdu time

بورڈ دوسروں کی لڑائی نہ لڑے:انضمام

Posted by Anonymous on 5:01 PM

پاکستان کے سابق کپتان اور متنازعہ انڈین کرکٹ لیگ کی لاہور بادشاہ ٹیم کے رکن انضمام الحق نے پاکستان کرکٹ بورڈ سے کہا ہے کہ وہ دوسروں کی لڑائی لڑنے کے بجائے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فیصلے خود کرے۔
انہوں نے یہ بات آئی سی ایل میں شامل تین پاکستانی کرکٹرز کی سکواڈ میں شمولیت اور پھر اخراج کے بعد بی بی سی سے ایک بات چیت کے دوران کہی۔
خیال رہے کہ پی سی بی نے عمران نذیر، عبدالرزاق اور رانا نوید الحسن کو ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ابتدائی تیس کھلاڑیوں میں شامل کیا تھا لیکن اگلے ہی دن ان کے نام اس فہرست سے خارج کردیے گئے تھے۔
انضمام الحق نے کہا کہ ’ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کو پہلے نہیں پتہ تھا کہ ان تین کرکٹرز کو ممکنہ سکواڈ میں شامل کرنے پر آئی سی سی کا کیا ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ وہ تو ان کرکٹرز کو واپس لانے کے لیے تیار ہے لیکن اس پر بہت پریشر ہے‘۔
ئی سی سی کو یہ خطرہ ہے کہ اس کے سپانسرز اس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے کیونکہ جس تیزی سے آئی سی ایل مقبول ہوئی ہے اور اس نے جس تیزی سے سپانسرز بنائے ہیں اس بارے میں کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ یہ سارا کھیل پیسے کا ہے ۔آئی سی سی نہیں چاہتی کہ پیسہ کہیں اور تقسیم ہو
انضمام الحق
انضمام الحق نے آئی سی ایل کے منتظمین کو بھی مشورہ دیا کہ وہ خود کو تسلیم کرانے کے لیے عدالت سے رجوع کریں۔ انہوں نے کہا کہ اب جبکہ آئی سی سی غیر منظور شدہ کرکٹ کے بارے میں ایک قرارداد سامنے لانے والی ہے آئی سی ایل کو انصاف کے لیے عدالت میں جانا چاہیے اور جس طرح پاکستانی کرکٹرز نے عدالت سے رجوع کر کے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت حاصل کی ہے اسی طرح آئی سی ایل کو بھی یہ قدم اٹھانا چاہیے۔
انضمام الحق نے کہا کہ ’آئی سی ایل کرکٹ کوئی جرم نہیں۔ ماضی میں پہلے بھی ایسے کئی ایونٹس ہوئے ہیں جنہیں آئی سی سی نے منظور نہیں کیا لیکن آئی سی ایل سے آئی سی سی کو یہ خطرہ ہے کہ اس کے سپانسرز اس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے کیونکہ جس تیزی سے آئی سی ایل مقبول ہوئی ہے اور اس نے جس تیزی سے سپانسرز بنائے ہیں اس بارے میں کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ یہ سارا کھیل پیسے کا ہے ۔آئی سی سی نہیں چاہتی کہ پیسہ کہیں اور تقسیم ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی کرکٹرز کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچ رہا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ آئی سی سی کبھی بی سی سی آئی کو کہتی ہے کہ وہ آئی سی ایل سے مذاکرات کرے اصل میں وہ خود اس معاملے میں واضح نہیں ہے۔ انضمام الحق کا کہنا تھا کہ آئی سی سی کی بہت بڑی سپانسرشپ بھارت کی ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ آئی سی سی پر بی سی سی آئی کا زبردست دباؤ ہے کیونکہ آئی سی ایل بھی بھارتی کرکٹ ہے لہذا سپانسرشپ تقسیم ہونے کا خطرہ ہے۔