’میرا بھائی فوجیوں اور طالبان دونوں سے ڈرتا تھا اور مارے جانے سے چند دن پہلے ہی ساڑھے تین ماہ کے بعد پشاور میں پناہ گزین کی حیثیت سے رہنے کے بعد واپس سوات آیا تھا۔ سوات میں امن کی خاطر میرے بھائی کی المناک موت اگر کام آجائے تو کسی حد تک ہم مطمئن ہو جائیں گے۔ ہمارا فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے مطالبہ ہے کہ میرے بھائی کو گھر کے باہر مارنے والے فوجیوں کو سزا دی جائے۔‘
یہ الفاظ مینگورہ کے علاقے رنگ محلہ میں کپڑے کا کاروبار کرنے والے رفیع اللہ کے بہنوئی فیاض خان کے تھے۔ رفیع اللہ کے ہی چھوٹے سے مکان کے ایک کمرے میں اس موقع پر مرحوم کے پانچ کم عمر بچے بھی موجود تھے۔
فیاض کے بھائی نے درد بھری آواز میں کہا کہ ان کے بھائی اگست کی ایک شام کپڑے کی دوکان بند کر کے گھر آ رہے تھے کہ سکیورٹی فورسز نے ان کو روک کر ان کی تلاشی لی اور بعد میں انہیں جانے کی اجازت دی۔ جونہی وہ روانہ ہوئے اور مڑ کر دیکھا تو ان پر ایک فوجی نے فائرنگ کر دی۔ ’چھ گولیاں ماریں انہوں نے اور اس نے وہیں گھر سے چند قدم کے فاصلے پر جان دے دی۔ چاہیے تھا کہ کوئی تنبیہ دیتا یا ہوائی فائر کرتا۔‘
فیاض نے، جو اس واقعے کے عینی شاہد تھے، گھر جانے والی تنگ سی گلی میں وہ مقام دکھایا جہاں گولیاں چلائی گئیں۔ انہوں نے ایک مکان کی دیوار پر گولیوں کے نشانات بھی دکھائے۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کے وقت سکیورٹی فورسز قریبی علاقوں میں تلاشی لے رہے تھے اور علاقے میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ لیکن ان کے بقول ان تنگ اور پیچیدہ گلیوں میں عموماً لوگوں کو آمدو رفت کی اجازت ہوتی تھی اور سکیورٹی فورسز نرمی کا مظاہرہ کرتے تھے۔
فیاض نے، جو اس واقعے کے عینی شاہد تھے، گھر جانے والی تنگ سی گلی میں وہ مقام دکھایا جہاں گولیاں چلائی گئیں۔ انہوں نے ایک مکان کی دیوار پر گولیوں کے نشانات بھی دکھائے۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کے وقت سکیورٹی فورسز قریبی علاقوں میں تلاشی لے رہے تھے اور علاقے میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ لیکن ان کے بقول ان تنگ اور پیچیدہ گلیوں میں عموماً لوگوں کو آمدو رفت کی اجازت ہوتی تھی اور سکیورٹی فورسز نرمی کا مظاہرہ کرتے تھے۔
رفیع اللہ کے چھوٹے بھائی فرمان علی نے بتایا کہ انہوں نے حکومت کو اس بابت ایک درخواست بھی دی تھی لیکن اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ ’ایک وکیل سے مشورہ کیا تو اس نے بتایا کہ ہم فوج کے خلاف رپورٹ نہیں کٹوا سکتے۔‘
مقتول رفیع اللہ کے پانچ بچے ہیں جن کا کوئی سہارا نہیں
’میرے بھائی کا تعلق طالبان یا کسی اور عسکریت پسند گروپ سے نہیں تھا اور علاقے کے لوگ بھی اس کے گواہ ہیں۔ وہ کئی سالوں سے رنگ محلہ میں کپڑے کی دوکان چلا رہے تھے۔ ان کی موت کے بعد گھر میں اور کوئی کاروبار چلانے کے لیے موجود نہیں۔ دیگر بھائی اپنا اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کے بیوی بچوں کا اب کیا ہوگا۔ فوجی بعد میں معاوضہ تو درکنار پوچھنے بھی نہیں آئے۔‘
فیاض کا کہنا تھا کہ وہ بے بس ہیں اور صرف فوج کے سربراہ سے اپیل ہی کرسکتے ہیں کہ ان کے بھائی کی موت کی تحقیقات کر کے ذمہ دار فوجی اہلکاروں کو سزا دی جائے۔‘
سوات میں ایک بےگناہ اور پرامن شہری کے قتل کا پہلا واقعہ نہیں۔ مقامی طالبان پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں عام شہریوں کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر قتل کیا لیکن متاثرہ خاندان خوف اور غم کو دوبارہ تازہ نہ کرنے کی وجہ سے خاموش ہیں۔ آپریشن کے دوران فوج اور طالبان اپنے اپنے جانی نقصانات کا تو بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن کسی نے بھی تشدد کے واقعات میں مارے جانے والے عام اور بے گناہ افراد کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی ہے۔
وہ بے بس ہیں اور صرف فوج کے سربراہ سے اپیل ہی کرسکتے ہیں کہ ان کے بھائی کی موت کی تحقیقات کر کے ذمہ دار فوجی اہلکاروں کو سزا دی جائے
فیاض
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ سوات آپریشن میں عام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور کوشش کی گئی ہے۔
سرحد حکومت نے آپریشن کے دوران مارے جانے والے بے گناہ افراد کی تعداد اور ان کے لواحقین کی امداد کے لیے کسی پالیسی کا علان ابھی تک نہیں کیا ہے محض چند افراد کو چیک دیے گئے ہیں لیکن ان کی تعداد بھی بہت تھوڑی ہے۔ متاثرہ افراد کو شکایت ہے کہ صدر، وزیر اعظم اور سرحد کے وزیر اعلیٰ کے اعلانات صرف بیانات تک ہی محدود ہیں۔
پاکستان فوجی کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کا اس واقعے کے بارے میں کہنا تھا کہ سوات کے مختلف علاقوں میں کارروائی جاری ہے۔ ’مجھے نہیں معلوم یہ کب کا واقع ہے۔ میں وہاں کے متعلقہ کمانڈر سے تفصیل طلب کروں گا کہ کیا حقیقت ہے۔ یہ بڑی تحقیقات والا واقعہ ہے۔ جب تک اپنے ذرائع سے معلوم نہ کر لوں میں اس پر بات نہیں کر سکتا۔‘