مشرقی ملکوں میں عورتوں پر پابندیوں کی بنیاد مذہبی نہیں بلکہ معاشرتی ہے

Posted by Anonymous on 11:34 AM

اسلام اورمسلم ممالک میں عورت کا کیا کردار ہے اس بارے میں سوالات تو دنیا بھر میں اٹھاے جاتے ہیں، آج ہم آپکو امریکن ڈاکومنٹری فلم میکر برجڈماہر سے ملوا رہے ہیں جو ا س سوال کا جواب ڈھونڈنے لبنان ، شام اور مصر گئیں۔اور وہاں ایسی کچھ خواتین کی جدوجہد کو فلم بند کیا جنہوں نے اپنی زندگی اسلام کی ترویج و ترقی کے لئے وقف کر دی ہےاور آج معاشرے میں وہ ایک بلند مقام پر فائز ہیں۔ویلڈ وائسز نامی ڈاکومنٹری اسی بارے میں ہے۔

فلم میکر برجڈ ماہر کا کہنا ہے کہ اس فلم کے ذریعے وہ امریکی عوام کو یہ دکھانا چاہتی ہیں کہ اسلام کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں جو انہیں مغربی میڈیا میں عام طور پر نظر نہیں آتے۔ اسلام میں عورت کا ایک اہم کردار ہے اور جہاں ہمیں رکاوٹیں دکھائی دیتی ہیں، ان کی وجہ مذہب نہیں ہے بلکہ وہاں کی مخصوص تہذیب و ثقافت اور معاشرتی نظام ہے۔

برجڈ اس فلم سے پہلے بھی مشرق وسطیٰ اور اسلامی ممالک کے حوالے سے فلمیں بنا چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے میں ملنے والا پیار ، محبت اور اپنائیت انہیں اپنی طرف کھینچتے ہیں
بشکریہ وی او اے۔

مشرف، مشیروں کو پہلا نوٹس

Posted by Anonymous on 11:30 AM

سندھ ہائی کورٹ نے آئین پاکستان سے غداری کے الزام میں مقدمہ دائر کرنے کی ایک درخواست پر سابق صدر پرویز مشرف، ان کے مشیر شریف الدین پیرزادہ، جسٹس ریٹائرڈ ملک قیوم اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ پرویز مشرف کو مستعفی ہونے کے بعد پہلی مرتبہ کسی عدالت نے نوٹس جاری کیے ہیں۔

جنرل مشرف کو یہ نوٹس آرمی ہاؤس راولپنڈی کے پتہ پر ارسال کیا جائے گا۔

یہ آئینی پٹیشن عوامی حمایت تحریک کے رہنما مولوی اقبال حیدر نے دائر کی تھی، جس کی سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس کریم آغا پر مشتمل ڈویژن بینچ میں جمعرات کو سماعت ہوئی۔

اس درخواست میں وزرات قانون، وزارت داخلہ، جنرل پرویز مشرف، شریف الدین پیرزادہ، ملک محمد قیوم اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور دیگر ججوں کی بحالی کے لیے جو حکم نامہ جاری کیا وہ آئین کی کسی شق کے تحت نہیں بلکہ عوام کے مطالبے کے تحت کیا گیا ہے۔

درخواست گذار کا کہنا ہے کہ اس حکم نامہ کے مطابق افتخار محمد چودھری تین نومبر والی پوزیشن پر بحال ہوگئے ہیں۔درخواست کے مطابق یہ جب افتخار محمد چودھری کو تین نومبر دو ہزار سات سے چیف جسٹس تسلیم کیا جاتا ہے تو اسی عرصے میں دوسرا چیف جسٹس کیسے ہوسکتا لہذا جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کے لفظ کو کالعدم قرار دیا جائے۔

تمام جج صاحبان، آرمی چیف اور دیگر اداروں کے سربراہوں کو کسی قسم کا مارشل لاء یا عبوری حکم تسلیم کرنے سے روکا گیا تھا، مگر سابق صدر پرویز مشرف، ان کے مشیر شریف الدین پیرزادہ اور سابق اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم نے اس حکم نامے کی خلاف ورزی کی اور آئین سے غداری کے مرتکب ہوئے۔

درخواست گذار
درخواست کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے تین نومبر دو ہزار سات کو ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں تمام جج صاحبان، آرمی چیف اور دیگر اداروں کے سربراہوں کو کسی قسم کا مارشل لاء یا عبوری حکم تسلیم کرنے سے روکا گیا تھا، مگر سابق صدر پرویز مشرف، ان کے مشیر شریف الدین پیرزادہ اور سابق اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم نے اس حکم نامے کی خلاف ورزی کی اور آئین سے غداری کے مرتکب ہوئے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ چونکہ انہی آئینی ترامیم کے ذریعے وجود میں آئی ہے لہذا اس کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔

سندھ ہائی کورٹ نے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرکے وزرات قانون، وزارت داخلہ، جنرل پرویز مشرف، شریف الدین پیرزادہ، ملک محمد قیوم اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو پندرہ اپریل تک نوٹس جاری کیا ہے۔

ورلڈ کپ میں فتح، ’جیسے کل کی بات ہو

Posted by Anonymous on 11:27 AM




پچیس مارچ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں ایک اہم دن ہے۔ آج سے ٹھیک سترہ سال قبل اسی روز پاکستانی کرکٹ ٹیم نے عمران خان کی قیادت میں عالمی کپ جیتا تھا۔ اس شاندار کارکردگی کو بلاشبہ پاکستانی کرکٹ کا بام عروج کہا جا سکتا ہے۔


سابق کپتان انضمام الحق کے لیے یہ تاریخی لمحہ جیسے کل کی بات ہے۔ انضمام الحق عالمی کپ جیتنے والی ٹیم میں ایک نوجوان کرکٹر کے طور پر شامل تھے لیکن درحقیقت سیمی فائنل اور فائنل میں ان کی دھواں دار بیٹنگ ہی پاکستانی حوصلے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوئی تھی۔


انضمام الحق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ورلڈ کپ کی جیت میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ ہے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ جب عمران خان سر کالن کاؤڈرے سے ٹرافی وصول کررہے تھے تو میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں نہ صرف تماشائی بلکہ تمام پاکستانی کھلاڑی بھی زبردست جوش وخروش میں نعرے لگا رہے تھے۔ میں کچھ زیادہ ہی جذباتی تھا۔ ظاہر ہے کسی کے لیے بھی اپنے جذبات پر قابو رکھنا ناممکن تھا‘۔

انضمام الحق یہ تسلیم کرتے ہیں کہ گروپ میچوں میں متعدد ناکامیوں کے بعد ٹیم کی حالات اچھی نہیں تھی اور اس کی وطن واپسی کی باتیں ہورہی تھیں۔ ’ کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ پاکستانی ٹیم اس خراب پوزیشن سے نکل کر سیمی فائنل اور فائنل تک جاپہنچے گی لیکن پھر جیت کا سلسلہ شروع ہوا جو ٹیم کی فاتحانہ انداز میں وطن واپسی پر جاکر ٹھہرا‘۔

میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں نہ صرف تماشائی بلکہ تمام پاکستانی کھلاڑی بھی زبردست جوش وخروش میں نعرے لگا رہے تھے۔ میں کچھ زیادہ ہی جذباتی تھا۔ ظاہر ہے کسی کے لیے بھی اپنے جذبات پر قابو رکھنا ناممکن تھا۔

انضمام الحق
انضمام الحق سیمی فائنل اور فائنل میں اپنی عمدہ بیٹنگ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’اس زمانے میں دو سو ساٹھ ستر رنز کا ہدف عبور کرنا آسان نہیں ہوتا تھا، مجھے یاد ہے کہ جب میں سیمی فائنل میں بیٹنگ کے لیے گیا تو عمران خان آؤٹ ہوکر آرہے تھے اور آٹھ رنز کی اوسط سے رنز درکار تھے۔ عمران بھائی نے مجھے صرف اتنا ہی کہا اپنا نیچرل کھیل کھیلنا۔میں بالکل جونیئر لڑکا تھا میں نے کسی پریشر کو محسوس نہ کرتے ہوئے اپنے شاٹس کھیلے۔ خوش قسمتی یہ رہی کہ میں جو شاٹس کھیلنا چاہتا تھا وہ لگ رہے تھے‘۔

انضمام الحق کا کہنا ہے کہ اب وہ بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن ان کی یہ خواہش ضرور ہے کہ پاکستان ایک بار پھر عالمی کپ جیتے کیونکہ اس جیت کا مزاہی کچھ اور ھے

بشکریہ بی بی سی

بے روزگاری اور گھروں کی قرقی نے لوگوں کو موٹلوں میں رہنے پر مجبور کردیا

Posted by Anonymous on 11:17 AM
دنیا کے امیر ترین اور انتہائی ترقی یافتہ ملک امریکہ میں بھی بڑی تعداد میں بے گھر افراد موجود ہیں۔ دارالحکومت واشنگٹن میں بے گھر افرادآپ کو کثرت سے پارکوں اور فٹ پاتھوں پر نظر آئیں گے۔ بے گھر افراد سے متعلق ادارے نیشنل سینٹر آن فیملی ہوم لیس نس کے اندازے کے مطابق 2005 اور 2006 کے دوران امریکہ میں بے گھر بچوں کی تعداد 15 لاکھ تھی۔ ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقتصادی بحران کے نتیجے میں امریکہ میں بے گھر افراد کی شرح میں اضافے کا امکان ہے۔ معاشی بحران کی وجہ سے امریکہ کا متوسط طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور بہت سے ایسے خاندان جواپنے گھروں کی قسطیں ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ، اب سستے موٹلوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان میں جونی اور ٹیمی گارزا اور ان کے چار بچے بھی شامل ہیں جنہوں نے ایک موٹل کو اپنا گھر بنا لیا ہے۔

ٹیمی کہتی ہیں کہ اگرچہ یہ جگہ بہت چھوٹی ہے تاہم گذارہ ہورہاہے۔ کھانا پکانے کے لیے ہمارے پاس دو چولہے اور ایک ٹوسٹر اون ہے اور ضروری برتن بھی ہیں۔

اگر آپ گاڑی پر امریکہ کا سفر کریں تو آپ کو جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے موٹل نظر آئیں گے۔ یہاں سستے داموں کچھ راتوں کے لیے کمرے کرائے پر لیے جا سکتےہیں۔ لیکن بے گھر ہونے والوں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ کمرے کچھ راتوں کے لیے نہیں، بلکہ ایک لمبے عرصے کے لیے کرائے پر لے رہے ہیں۔

جمی پالمر کہتے ہیں کہ اقتصادی بحران کی وجہ سے بے گھر ہونے والے خاندان اب زیادہ دیکھنے میں آر ہے ہیں۔
خوش قسمتی نے جوناتھن ایمی سن کا ساتھ دیا اور انہیں موٹل ٕمیں رہائش کے بعد ایک ایسا اپارٹمنٹ مل گیا جس کا کچھ کرایہ حکومت ادا کر رہی ہے۔ حالیہ معاشی بحران کے بعد اپنے گھروں سے بے دخل ہونے والے بہت سے خاندان اپنی گاڑیوں یا جنگلوں میں ٹینٹ لگا کر زندگی گذاررہے ہیں۔ جوناتھن کا کہنا ہے کہ اگرچہ موٹل کے کمروں کو اپنا گھر بنانا گاڑیوں میں وقت بسر کرنے سے بہترہے، لیکن موٹلوں میں رہنے والے خاندانوں کو تحفظ کے حوالے سے بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ خطرات گینگز اور مجرموں سے لاحق ہیں جو بے سہارا افراد کو اپنا ہدف بناتے ہیں۔
حال ہی میں جونی گارزا ملازمت ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں توقع ہے کہ اب انہیں ایک ایسا اپارٹمنٹ بھی مل جائے گا جس کا کچھ کرایہ حکومت اور باقی وہ خود ادا کریں گے
بشکریہ اردو سی او اے۔

خون پتلا کرنے والی ادویات کا معدے کی دوائیوں کے ساتھ استعمال خطرناک ثابت ہوسکتاہے

Posted by Anonymous on 11:03 AM




اکثر معالج دل کے دورے سے صحت یاب ہونے کے بعد خون کو پتلا کرنے والی ادویات کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔ کئی دوسرے امراض میں بھی خون پتلا کرنے کروالی ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اب ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس مقصد کے لیے دی جانے والی دوا کلو پی ڈےگریل اور معدے کے علاج کی دوائیں پی پی آئیز مثلا نیکسیم کا ایک ساتھ استعمال خطرناک ہوسکتا ہے۔

جائزوں سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ دل کے دورے سے بچ جانے والے وہ مریض جو اپنے ڈاکٹروں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ان کی تجویز کردہ ادویات استعمال کرتے ہیں، وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ عرصہ جیتے ہیں۔ تاہم ایک نئی تحقیق ڈاکٹروں کو اپنے نسخوں پر نظر ثانی پرمجبور کر رہی ہے۔

ڈینور ویٹرن میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹرز نے ان دو مشہور ادویات کے درمیان ہونے والےعمل پر تحقیق کی۔ ڈاکٹر جان رمز فیلڈ ان ریسرچرز میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اکثر خون کو پتلا کرنے والی کلو پی ڈےگریل کے ساتھ معدے کی حفاظت کے لیے دی جانے والی ادویات بھی مریض کو دیتے ہیں۔

کلو پی ڈےگریل ایک کیمیاوی مادے پلاویکس کا عام نام ہے۔ یہ خون کو جمنے سےاور دل کے دورے سے بچاتا ہے۔ تاہم یہ دوامعدے میں زخم کرکے اس سے خون رسنے کا باعث بن سکتی ہے۔ ڈاکٹر تھامس میڈوکس کا کہنا ہے کہ بعض دفعہ ڈاکٹر ایسے مریضوں کو جو کلو پی ڈےگریل کررہے ہوتے ہیں، انہیں ایک اور دوا دیتے ہیں۔ وہ کہتےہیں کہ کلو پی ڈےگریل کے استعمال کے باعث خون رسنے کے خطرے کا معلوم ہونے کی وجہ سے ہم یہ پروٹون پمپ یا پی پی آئیز استعمال کرتے ہیں۔

نیکسیم اور پری لوسک دو مشہور پی پی آئیزہیں۔ ریسرچرز نے دل کے دورے یا دل کے کسی اور مرض سے متاثر ہ ان ہزاروں لوگوں کامشاہدہ کیا جو اسپتال سے فارغ ہونے کے بعد کلو پی ڈےگریل لے رہے تھے۔ ڈاکٹر مائیکل ہو اس تحقیق کے انچارج تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہوا کہ کلو پی ڈےگریل کے ساتھ پی پی آئیز قسم کی کوئی دوا لینے والے مریضوں میں صرف کلو پی ڈے گریل لینے والے مریضوں کے مقابلے میں دل کے دورے یا اسپتال میں داخلےکے بعد مرجانے کا امکان پچیس فیصد زیادہ تھا۔

اس مطالعے میں شامل تقریباً دو تہائی مریض دونوں ادویات اکٹھی لے رہے تھے۔

ڈاکٹر مائیکل ہو کہتے ہیں کہ دل کے دورے کے بعد اگر کسی مریض کو کلو پی ڈے گریل دینی ہے تو اسےپی پی آئی دوا صرف اشد ضرورت کے تحت ہی دی جانی چاہیئے۔

ماہرین کے مطابق اگر مریض کو پہلے سے معدے سے خون رسنے کی شکایت ہو تو اسے پی پی آئی دی جاسکتی ہے تاہم صرف احتیاط کے طور پر یہ دوا نہیں دی جانی چاہیئے۔ یہ تحقیق امریکن میڈیکل ایسو سی ایشن کے جریدے میں شائع ہوئی ہے
بشکریہ اردو وی او اے۔

صدر اوباما نے حال ہی میں پھر کہا ہے کہ وہ گوانتانامو بے کیوبا میں امریکی قید خانہ ایک سال کے اندر بند کر دیں گے۔ لیکن گوانتنامو بے میں قید چینی مسلم

Posted by Anonymous on 11:02 AM

روئیٹرز ہیلتھ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایسے عمررسیدہ افراد ، جو اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ سے محروم ہوجاتے ہیں، یا وہ افراد جو ان کے درمیان رہتے ہوئے بھی خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں،ان کی جسمانی اور ذہنی صحت خراب ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ماہرین نے تقریباً تین ہزار ایسے امریکی افراد کو اپنے مطالعے میں شامل کیا جن کی عمریں57 سے85 سال کے درمیان تھیں۔ مطالعے میں شامل جن افراد نے اپنے معاشرتی رابطے قائم رکھے ہوئے تھے ، ان کی جسمانی اور دماغی صحت کو ان افراد کی نسبت بہتر تھی جو یا تو معاشرتی طورپر بالکل تنہا تھے یا جو اپنے رشتے دار اور دوست احباب ہونے کے باوجود سماجی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے تھے۔

صحت اور سماجی رویوں سے متعلق سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی یہ تحقیق عمررسیدہ افراد کے لیے معاشرتی اور سماجی رشتوں کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔

نیویارک کی کورنل یونیورسٹی کی ڈاکٹر آیرین یارک کارن ول کا کہنا ہے کہ عمررسیدہ افراد کی حقیقی سماجی مدد کے اثرات ہر شخص کے لیے مختلف ہوتے ہیں اور بڑی عمر کے اکثر افرادسماجی تعلقات کی وجہ سے نمایاں تبدیلیوں کے عمل سے گذرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ان تعلقات کے نتیجے میں وہ سماجی تنظیموں میں فعال کردار ادا کرنے لگتے ہیں یا اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ زیادہ وقت گذارنا شروع کردیتے ہیں۔تاہم اس کے باوجود بڑی عمر کے بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان مصروفیات کے بعد دن کے اختتام پر خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔جب کہ بعض افراد کم تر سماجی تعلقات اور مصروفیتوں ہی سےمطمئن ہوجاتے ہیں۔

مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ حقیقی معاشرتی تعلقات ان کی جسمانی صحت سے عملی طور پر بھی منسلک ہوسکتے ہیں، مثلاً عمر رسیدہ افراد کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا یا انہیں دواکھانے کے بارے میں یاد دلانا۔
مطالعے کے مصنفین کا کہنا ہے کہ سماجی طورپر تنہا ہونے کااثر جسمانی اور ذہنی صحت دونوں پر پڑتاہے۔

ڈاکٹر کارن ول کہتی ہیں کہ سماجی تعلقات بڑی عمر کے افراد کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں اور تعلقات میں تبدیلیوں کا سامنا ان کے لیے پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے

ڈاکٹر کارن ول کہتی ہیں بڑی عمر کے جو افراد سماجی تعلقات میں کمی کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتے ہیں ان کی صحت ایسے افراد کی نسبت بہتر رہتی ہے جو ایسی صورت حال میں خود کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کچھ معمر افراد پر سماجی تعلقات میں کمی کا زیادہ اثرکیوں نہیں ہوتا جب کہ دوسرے کئی افراد عمر بڑھنے کے ساتھ اکیلاپن محسوس کرنے لگتے ہیں اس کے باوجود کہ ان کے دوست ، خاندان کے افراد اور سماجی سرگرمیاں اسی طرح موجود رہتی ہیں۔

ڈاکٹر کارن ول کہتی ہیں کہ تنہائی اور اکیلے پن کا احساس بڑی عمر کے افراد کو کئی طرح سے متاثر کرسکتاہے۔مثال کے طورپر وہ تناؤ کا شکار ہوسکتے ہیں، وہ ڈپریشن کی طرف جاسکتے ہیں ، یہ سب چیزیں جسمانی صحت پر اثرانداز ہوتی ہیں جس سے ان کے زندگی گذارنے کے انداز میں تبدیلی آسکتی ہے یا ان کا جسم براہ راست متاثر ہوسکتا ہے یا بیماریوں کے خلاف ان کے جسمانی مدافعتی نظام پر اثر پڑسکتا ہے۔

گوانتاناموبے میں قید چینی مسلمانوں کا مستقبل

Posted by Anonymous on 10:56 AM

صدر اوباما نے حال ہی میں پھر کہا ہے کہ وہ گوانتانامو بے کیوبا میں امریکی قید خانہ ایک سال کے اندر بند کر دیں گے۔ لیکن گوانتنامو بے میں قید چینی مسلمانوں کے وکیلوں نے کہا ہے کہ وہ مزید انتظار کیےبغیرسپریم کورٹ سے درخواست کریں گے کہ وہ وفاقی عدالت کے حالیہ فیصلے پر نظرثانی کرے جس کے تحت چینی Uighur مسلمانوں کی رہائی پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔



دہشت گردوں کے گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں کے چند مہینے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور دشمن کے سینکڑوں نام نہاد جنگجوؤں کو گوانتانامو بے، کیوبا کے قید خانے میں بھیج دیا گیا۔ ان قیدیوں میں بائیس Uighurs بھی شامل تھے۔



یہ مغربی چین کے مسلمان ہیں جن پر چین نے علیحدگی کے مقصد کے لیے دہشت گردی کا الزام عائد کیا ہے ۔ اگرچہ سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ Uighurs کِس راستے سے ہو کر گوانتنامو پہنچے لیکن عام خیال یہ ہے کہ وہ چین سے پہلے افغانستان اور پھر پاکستان گئے جہاں کچھ لوگوں نے پیسے لے کے انہیں امریکی فورسز کے حوالے کر دیا۔



2006 میں بُش انتظامیہ نے طے کیا کہ ان میں سے پانچ Uighur قیدی بے ضرر ہیں۔ انہیں البانیہ میں آباد کر دیا گیا۔ واشنگٹن کے ایک وکیل George Clarke بقیہ سترہ میں سے دو Uighur قیدیوں کی پیروی کر رہے ہیں"گذشتہ ستمبر تک انہیں اس بنیاد پر قید میں رکھا گیا کہ وہ دشمن کے جنگجو ہیں۔ بُش انتظامیہ کا نظریہ یہ تھا کہ انہیں کوئی الزام لگائے بغیر بھی دشمن کے جنگجو کی حیثیت سے قید میں رکھا جا سکتا ہے۔ گذشتہ ستمبر سے ان کی اسیری کا یہ جواز ختم ہو گیا ہے اور امریکی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ وہ دشمن کے جنگجو نہیں ہیں"۔



Clarke کہتے ہیں کہ ان کے مؤکل اور دوسرے Uighurs جن سے وہ گوانتانامو میں ملے ہیں چین یا کسی دوسرے ملک کے خلاف تشدد کے کوئی عزائم نہیں رکھتے۔ یہ لوگ دہشت گرد نہیں ہیں اور نہ انھوں نے کبھی دہشت گردی کی تربیت لی ہے۔ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ چین کے سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے سویلین اہداف کو نشانہ بنائیں۔



تا ہم 2004 سے2007 تک Deputy Secretary of Defense for Detainee Affairs کے عہدے پر کام کرنے والے Charles Stimson کا کہنا ہے کہ ایسا کہنا بالکل غلط ہے۔ گوانتانامو میں قید Uighurs معصوم نہیں ہیں۔ انھوں نے مغربی چین اسی لیے چھوڑا تھا کہ دہشت گردی کی تربیت حاصل کریں۔ وہ محکمہ خارجہ کی دہشت گردی کی تربیت لینے والے گروپوں کی فہرست میں شامل ہیں۔



چین کا نظریہ بھی یہی ہے اور اس نے مطالبہ کیا ہے کہ ان قیدیوں کو واپس چین بھیجا جائے۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان Qin Gang نے کہا ہے"ہم نے بارہا اور بڑی وضاحت سے اپنا موقف بیان کر دیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے ان مشتبہ ملزموں کو جلد از جلد چین واپس کردے"۔



امریکہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ اگرUighurs کو چین بھیجا گیا تو وہاں ان کو اذیتیں دی جائیں گی۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی انہیں گوانتانامو سے رہا کیا جائے گا تو یہ کہاں جائیں گے۔



اٹارنی جارج Clarke کہتے ہیں کہ درجنوں ملکوں نے امریکہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کو قبول کر لیں کیوں کہ انہیں چین کی طرف سے انتقامی کارروائی کا ڈر ہے ۔ "چین نے دوسرے ملکوں پر زبردست دباؤ ڈالا ہے کہ وہ Uighurs کو قبول نہ کریں۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ امریکہ کو ان میں سے کچھ کو یا سب کو قبول کر لینا چاہیئے۔ اگر امریکہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرنے کو تیار نہیں ہے تو پھر کوئی دوسرا ملک کیوں یہ خطرہ مول لے گا؟ اگر امریکہ چین کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتا تو پھر کوئی دوسرا ملک کیوں تیار ہو گا؟"






گوانتانامو بے کا قید خانہ اس لیے قائم کیا گیا تھا تا کہ وہاں چین نہیں بلکہ امریکہ کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کو رکھا جائے ۔ چین کے بارے میں ان کے عزائم چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہوں گوانتنامو بے میں قید Uighurs پر امریکہ کے خلاف سازش کرنے کا کبھی کوئی الزام نہیں لگایا گیا ہے۔



لیکن Charles Stimson کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو امریکہ میں رہا کرنے سے پہلےامریکہ اور چین کے درمیان تعلقات ملک کی داخلی سلامتی اور امریکہ میں چینی مفادات پر حملوں کے خطرات سمیت بہت سے چیزوں کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ اگر اوباما انتظامیہ کے خیال میں ان لوگوں سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے تو انہیں اب تک رہا کیا جا چکا ہوتا۔



صدر اوباما نے کہا ہے کہ گوانتانامو کے قید خانے سے دنیا میں امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے جب کہ دہشت گردوں کے حملوں سے امریکہ کو محفوظ بنانے میں اس قید خانے سے کوئی مدد نہیں ملی ہے۔گوانتنامو میں اب بھی تقریباً ڈھائی سو قیدی موجود ہیں۔ چند سال پہلے کے مقابلے میں قیدیوں کی یہ تعداد نصف سے بھی کم ہے
حال ہی میں چیف جسٹس افتخار محمد چودہری نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ وہ کیوبا سے تمام پاکستانیو کی رہای کا مطالبہ کریں گے
بشکریہ اردو وی او اے ۔

ڈاکٹر عافیہ کی ذہنی صحت تسلی بخش ہے: میڈیکل رپورٹ

Posted by Anonymous on 10:50 AM

استغاثہ کے مطابق امریکہ میں زیر حراست ڈاکٹر عافیہ صدیقی ذہنی طور پر اس قابل ہیں کہ ان پر مقدمہ چلایا جا سکے۔

ڈاکٹر صدیقی پر الزام ہے کہ انہوں نے افغانستان میں امریکی اہلکاروں کو قتل کرنے کی کوشش کی۔

جمعرات کو نیو یارک کی ایک عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ نے اپنے ماہرین کے ذریعے کرائی گئی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ذہنی معائنے کی رپورٹ پیش کی۔

اس رپورٹ کے نتائج اس سے پیشتر ٹیکساس کے ایک حراستی مرکز کے ڈاکٹر کی اس رپورٹ سے مختلف ہیں جس میں ڈاکٹر صدیقی کو ذہنی مسائل کا شکار اور مقدمہ چلانے کے لیے نا اہل قرار دیا گیا تھا۔

وکیل صفائی ڈان کارڈی نے عدالت سے اپنے ماہرین کے ذریعے ڈاکٹر صدیقی کا ذہنی معائنہ کرانے کا وقت مانگا جس پر انہیں دو ماہ کا وقت دیا گیا۔

اب 28 اپریل کو جج اور دونوں طرف کے وکلاء کے درمیان ایک کانفرنس کال ہوگی جبکہ جون کے پہلے ہفتے میں فیصلہ سنایا جائے گا کہ عدالت کی نظر میں ڈاکٹر صدیقی ذہنی طور پر اس قابل ہیں یا نہیں کہ ان پر مقدمہ چلایا جائے۔

اگر مقدمہ ہوا تو چھ جولائی کو پہلی پیشی ہوگی۔

ڈاکٹر صدیقی کو گزشتہ برس جولائی میں افغانستان کے صوبے غزنی میں ان کے بیٹے سمیت حراست میں لیا گیا تھا۔

استغاثہ کے مطابق جب امریکی اہلکاروں کی ایک ٹیم ان سے تفتیش کے لیے پہنچی تو وہ ایک پردے کے پیچھے بیٹھی تھیں۔ ایک امریکی فوجی نے اپنی رائفل زمین پر رکھی تو ڈاکٹر صدیقی نے اسے پردے کے پیچھے سے اٹھا کر امریکی تفتیشی ٹیم پر دو فائر کیے۔ اس دوران امریکی ٹیم کی جوابی فائرنگ سے وہ زخمی ہو گئیں۔

اس کے بعد انہیں افغانستان سے امریکہ منتقل کر دیا گیا جہاں کچھ عرصہ نیو یارک میں زیر حراست رہنے کے بعد انہیں ٹیکساس میں ایک ایسے حراستی مرکز منتقل کر دیا گیا جہاں ذہنی امراض کا علاج بھی ہوتا ہے۔

ڈاکٹر صدیقی 2003 میں اپنے تین بچوں سمیت لاپتہ ہو گئی تھیں۔ امریکی حکومت کا الزام ہے کہ ڈاکٹر صدیقی کا تعلق القاعدہ کے کچھ افراد سے ہے اور وہ اس وقت اپنے بچوں سمیت زیر زمین چلی گئیں جب ان کے ساتھیوں کو حراست میں لینا شروع کیا گیا۔

ان پر یہ بھی الزام ہے کہ جب انہیں حراست میں لیا گیا تو ان کے پاس سے ایسے ہاتھ سے لکھے کاغذات ملے جن میں ایک بڑے حملے کا ذکر تھا اور امریکہ کی کئی مشہور عمارات، مثلًا ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ اور مجسمہ آزادی کے نام تھے۔

اس کے علاوہ ان کے پاس سے ایسا مواد بھی ملا جن میں امریکہ کو دشمن قرار دیا گیا تھا اور لوگوں کو بھرتی کرنے اور تربیت دینے کا ذکر تھا۔

ڈاکٹر صدیقی کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ انہیں 2003 میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے ان کے بچوں سمیت اغوا کیا اور بعد میں افغانستان بھیج دیا گیا جہاں انہیں بگرام کے ہوائی اڈے پر بنے حراستی مرکز میں رکھا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا جس کی وجہ سے وہ ذہنی مریض بن گئیں۔

ڈاکٹر صدیقی کے بیٹے کو ان کی بہن اور نانی کے سپرد کر دیا گیا ہے جبکہ ان کے باقی بچوں کے بارے میں ابھی کوئی بات منظر عام پر نہیں آئی
یاد رہے کہ یہ طاغوتی رپورٹ ہے
بشکریہ اردو وی او اے۔

مسلم دنیا میں امریکہ کے خلاف نفرت بڑھنے کا سبب عراق کی تباہ کاری ہے: پروفیسر کول

Posted by Anonymous on 10:48 AM

امریکی پروفیسر ہُوان کول کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں مسلم دنیا کے عوام میں امریکہ کے لیے نفرت بڑھ گئی ہے، اور اِس کی بنیادی وجہ عراق کی تباہ کاری ہے۔

بدھ کے روز واشنگٹن میں تقریر میں اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کے لیے منفی رجحانات نے پچھلے چند برسوں میں شدت اختیار کر لی ہے اور یہ بات بُش انتظامیہ کے نوٹس میں آئی ، جودرحقیقت امریکہ کے خلاف منفی جذبات بھڑکانے کی ذمے دارہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بش پالیسی ترتیب دینے والے کارل رو نے ابو غُرائب میں اذیت رسانی کے انکشاف کے بعد کہا تھا کہ امریکہ کو اپنا چہرہ درست کرنے کے لیے پچیس برس درکار ہوں گے۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے اپنے خطاب میں پروفیسر کول نے اپنے حالیہ دورہٴ اردن کا ذکر کیا جِس میں اُنھوں نے یہ پتا کرنے کی کوشش کی کہ عراقی بغداد واپس کیوں نہیں جاتے۔اُن کے مطابق، اِس کی وجہ یہ ہے کہ بغداد میں نسل کشی ہو چکی ہے اور اب وہاںٕ زیادہ تر شیعہ آبادی پائی جاتی ہے۔


سُنی آبادی کے گھَٹنے کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے سائنس دانوں نے 2006ء میں مغربی بغداد کے علاقوں کا سیٹلائیٹ سے جائزہ لیا، تو معلوم ہوا کہ اِن علاقوں کی روشنیاں گُل ہو چکی ہیں، کیونکہ إِن علاقوں سے سنی آبادی جا چکی ہے۔

پروفیسر کول کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے اپنی تحقیق کے ذریعے معلوم کیا کہ اگر سنی اور شیعہ والدین کے بچے عراق واپس جانے کی کوشش کرتے ہیںتو ممکن ہے کہ اُنھیں قتل کیا جائے۔

مثال دیتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ عراقی دیواروں پر اِس طرح کی تحریریں پائی جاتی ہیں کہ‘اگر محمد جواد نے پھرسے اِس محلے میں اپنی شکل دکھائی تو اُس کی لاش ملے گی۔’

پروفیسر کول نے اِس بات کو خوش آئند قرار دیا کہ صدر اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ 2012ء تک عراق خالی کردے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے عرب ثقافت میں یہ مثبت عنصر پایا ہے کہ عرب لوگ ماضی کو بُھلانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور مستقبل کی طرف دیکھنا چاہتے ہیں۔

ایک عربی کہاوت کی مثال دیتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ مشرق ِ وسطٰی میں کہا جاتا ہے کہ جو ماضی میں ہوا وہ ماضی ہو چکا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اب وقت آچکا ہے کہ امریکہ مسلم دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے، کیونکہ اِس میں امریکہ کے تیل اور دیگر مفادات وابستہ ہیں۔