لاہور میں انسدا د دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ایک خاتون کی ناک اور کان کاٹنے کا جرم ثابت ہونے پر دو بھائیوں کو بھی یہی سزا سناتے ہوئے ان کی ناک اور کان کاٹنے کا حکم دیا ہے ۔ اس کے علاوہ دونوں کو عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔
ایک سرکاری وکیل نے میڈیا کو بتایا ہے کہ جج نے یہ سزا اسلامی قانون قصاص ودیت کے تحت سنائی ہے ۔ وکیل کے مطابق مجر م شیر محمد اور امانت علی میں سے ایک بھائی اپنی رشتہ دار 22 سالہ فضیلت بی بی سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن خاتون کے والد کی طرف سے انکار کرنے پر ستمبر میں دونوں بھائیوں نے اسے پستول دکھا کر اغوا ء کر لیا اور دوران قید چھری سے اس کی ناک اور کان کاٹ ڈالے۔
وکیل احتشام قادر نے بتایا کہ لڑکی کی ماں بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر دل کادورہ پڑنے سے انتقال کر گئی تھی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں قصاص و دیت کا قانون فوجی آمرجنرل ضیاء الحق نے ملک کی مذہبی جماعتوں کی خوشنودی کے لیے نافذکیاتھا ۔ اس قانون کے تحت جیسا جرم کیا جائے مجرم کو ویسی ہی سزا دی جاتی ہے یعنی آنکھ کے بدلے آنکھ اور خون کے بدلے خون کی سزا ہوسکتی ہے بشرطیکہ متاثرہ شخص جرم کا ارتکاب کرنے والے کو معاف نہ کردے۔ تاہم پاکستان میں ایسی سزائیں کم سنائیں جاتی ہیں اور اگر کوئی عدالت اسلامی قوانین کے تحت ایسی سزا سنا بھی دے تو اعلیٰ عدالتوں میں ان کے خلاف اپیلوں سے یہ ختم ہو جاتی ہیں۔
Courteous By VOA
Second Part of dicion. Followed Courteous By BBC
انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستانی عدالت کی طرف سے ایک مقدمے میں دو افراد کے کان اور ناک کاٹنے کا حکم دینے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب اس عدالتی فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا تو عدالت اسے کالعدم قرار دے دی گی۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے شادی سے انکار پر لڑکی کے کان اور ناک کاٹنے والے کلِک دو ملزموں کے ناک اور کان کاٹنے کا حکم دیا ہے ۔عدالت نے بائیس سالہ فضلیت بی بی کے ناک اور کان کاٹنے پر دو بھائیوں شیر محمد اور امانت علی کو عمر قید اور جرمانے کی سزائیں بھی سنائی ۔
شیر محمد اور امانت علی پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے اس سال اٹھائیس ستمبر بائیس سالہ فضلیت کو اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ لاہور کے نواحی علاقے رائے ونڈ میں ایک بھٹہ پر کام کرنے کے بعد واپس اپنے گھر جا رہی تھی۔استغاثہ کے مطابق شیر محمد نے فضلت بی بی سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن لڑکی والد کی طرف سے انکار پر ملزموں نے لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنایااور اس کا ناک اور کان کاٹ دیا۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے شریک چیئرمین سید اقبال حیدر نے عدالت کی طرف سے ناک اور کان کاٹنے کی سزا غیر آئینی اور غیر انسانی قرار دیا ۔
ماتحت عدالت نے جو سزا دی ہے اس سے عدلیہ کو ٹھیس لگے گی اور اس کا وقار مجروح ہوگا۔ یہ فیصلہ از خود انسانی حقوق کی خلاف وزری کرتا ہے جن کے تحفظ کی ملکی آئین ضمانت دیتا ہے
سید اقبال حیدر
بی بی سی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماتحت عدالت نے جو سزا دی ہے اس سے عدلیہ کو ٹھیس لگے گی اور اس کا وقار مجروح ہوگا۔انہوں نے فیصلے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ از خود انسانی حقوق کی خلاف وزری کرتا ہے جن کے تحفظ کی ملکی آئین ضمانت دیتا ہے۔ سید حیدر اقبال نے کہا کہ انہیں یہ یقین کامل ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دی گی کیونکہ پہلے اس قسم کے فیصلوں کو اعلیٰ عدلیہ نے کالعدم قرار دے چکی ہے ۔
سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ کے روبرو اپیل دائر کی جاسکتی ہے اور اس اپیل کے ذریعے عدالت کی طرف سے دی جانے والی سزا کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ فیصلہ اعلیٰ عدالت کے سامنے آئے گا تو اس وقت عدالت یہ دیکھے گی کہ گواہی کا معیار کیا ہے ۔ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ ہائی کورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے اور بقول ان کے پاکستان میں کبھی ایسی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا جس میں جسم کے کسی حصہ کو کاٹنے کا حکم دیا گیا ہو۔
جب یہ فیصلہ اعلیٰ عدالت کے سامنے آئے گا تو اس وقت عدالت یہ دیکھے گی کہ گواہی کا معیار کیا ہے ۔ ہائی کورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے اور اکستان میں کبھی ایسی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا جس میں جسم کے کسی حصہ کو کاٹنے کا حکم دیا گیا ہو
ڈاکٹر خالد رانجھا
پنجاب کے سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل اختر علی قریشی کا کہنا ہے کہ جب ماتحت عدالت کوئی فیصلہ دیتی ہے تو اس فیصلے کے خلاف اپیل اور ریفرنس بھی دائر کیے جاتے ہیں اور عدالت ان پر سماعت کرنے کے بعد فیصلہ دیتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے بھی ماتحت عدلیہ نے جسمانی اعضاء کاٹنے کے احکامات دیے تھے لیکن اعلیٰ عدلیہ نے ان فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قصاص کے تحت جسم کے حصہ کو کاٹنے کی سزا دی جاتی ہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ گواہی کے معیار کو پرکھنے کے بعد ان سزاؤں پر عمل درآمد روک دیتی ہے۔
مقدمے میں سرکاری وکیل احتشام قادر کا کہنا ہے کہ عدالت نے دونوں ملزموں کو اسلام کے اس اصول کے تحت سزا دی ہے جس کے تحت آنکھ کا بدلہ آنکھ اور دانت کےبدلے دانت ہے اور بقول ان کے پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی عدالت نے اس قسم کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کے بقول فیصلے میں جہاں قصاص کے تحت کان اور ناک کاٹنے کی سزا دی گئی ہے وہاں تعزیر میں ملزموں کو اسی جرم میں قید کی سزا بھی سنائی گئی ہے اور قصاص کے تحت دی جانے والی سزا پر عمل درآمد نہ ہونے پر انہیں سزا بھگتنا ہوگی۔