اگر عورتیں دینا پر حکومت کریں؟

Posted by Anonymous on 7:42 PM

چاروں طرف نظر دوڑائیں تو جنگیں، معاشی بدحالی، سیاسی کشمکش اور انواع و اقسام کے دوسرے مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں اور انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کہیں وجہ یہ تو نہیںکہ دنیا کی باگ ڈور مردوں کے ہاتھ میں ہے اور اگر یہی کام خواتین کریں تو دنیا جنت کا نمونہ بن جائے گی؟

اگر آپ کو شک ہے توسامنے کی چند مثالیں دیکھ لیں۔ بتائیں کہ امریکہ میں صحتِ عامہ کا ناقص نظام کیا کسی عورت نے مرتب کیا تھا؟ یا ایسا معاشی نظام جس میں بنک اس فکر سے بے نیاز ہو جائیں کہ پیسہ واپس بھی آئے گا یا نہیں۔ لگتا ہے وقت آگیا ہے کہ مرد حضرات گاڑی کی چابیاں عورتوں کے حوالے کریں اور خود پچھلی سیٹ پر آرام سے بیٹھ جائیں لیکن خاموشی شرط ہے۔

ایک تو خواتین کی قوت ِ فیصلہ غضب کی ہوتی ہے۔ بھارت میں ایک گاؤں کے جائزے سے ثابت ہوا کہ خواتین کی سربراہی میں انتظامی امور بہتر طور پر انجام پائے۔ مثلاً گاؤں کے باسیوں کے لئے تازہ پانی کی فراہمی کے لئے کنویں کھدوائے گئے اور رشوتیں بھی نسبتاً کم لی گئیں۔

امریکہ میں ملازمت پیشہ عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جلد ہی یہ تعداد مردوں سے بڑھ جائے گی، تقریباً نصف کمپنیوں کی مالک عورتیں ہیں لیکن پھر بھی عموماً ملازمت پیشہ خواتین گھر اور بچوں پر بھی بہت سا وقت صرف کرتی ہیں۔

ایک بات تو ظاہر ہے کہ مرد اپنے کوضرورت سے زیادہ عقلمند سمجھتے ہیں اور عورتیں ضرورت سے کم۔ مردوں کی خاصیتوں میں خطروں میں کود پڑنا اوراپنے فیصلے پر اڑے رہنا شامل ہے جبکہ عموماً عورتوں میں انکساری زیادہ ہوگی اور تعاون کا مادہ بھی۔ مردوں کی انہیں صفات سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جبکہ خواتین کی ان عادات سے مسائل حل ہوتے ہیں۔

ہو سکتا ہے عورتوں کی انکساری، کمتری کے اس احساس کے باعث ہو جو مردوں کے سلوک کے باعث پیدا ہوا اورجو نسلوں سے ان کے دماغوں میں ڈالا جا رہا ہے؛ لیکن مردوں میں مقابلے کی خو، صحیح غلط کا سخت معیار (صحیح ان کا اپنا نظریہ، اور غلط دوسرے کا)، بحران پیدا کر ڈالنے کی عادت وغیرہ جیسے مسائل ہیں۔ اس نکتے پر سائنسدان متفق نہیں لیکن یاد رہے کہ ان کی اکثریت مردوں کی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مردوں میں قبضہ جمانے کی عادت ہوتی ہے اور مرد ہی ہیں جو ایسے مردوں کو وسیع و عریض بونس دیتے ہیں جنہوں نے خود ان کی کمپنی کو خاک میں ملایا اور جو اب وہاں کام بھی نہیں کر رہے۔

ہو سکتا ہے یہ مسئلہ بنی نوع ِ انسان کی ارتقا کے ساتھ وابستہ ہو۔ تاریخی اعتبار سے مردوں کا کام شکار کرنا تھا۔ وہاں انہیں صحیح یا غلط، جلدی میں فیصلے کرنا پڑتے۔ کسی جانور کے پیچھے بھاگنا ہو یا اس سے جان چھڑانی ہو، ہر صورت میں انہیں تیزی سے عمل کرنا ہوتا۔ جبکہ عورتوں کو اس طرح کے کاموں کا سامنا رہتا کہ بچوں کو ایک دوسرے پہ پتھر برسانے سے کیونکر باز رکھا جائے، کونسے پھل جلدی پک کر تیار ہونگے، قبیلے کو کیسے اکٹھا رکھنا ہے۔ اس سب کے لئے انہیں حالات کو بڑے تناظر میں دیکھنا پڑتا۔

دوسری طرف ہماری دنیا میں، جہاں آج بھی قد کاٹھ کی بڑائی کو پتھر کے زمانے کی طرح اہم سمجھاجاتا ہے، عورتوں کی یہ مجبوری ہو کہ وہ اپنی مہارت کے لئے دوسرے میدان چن لیں جن میں تخلییقی عمل اور مل جل کر ساتھ چلنا زیادہ اہم ہو کیونکہ اوسطاً عورتیں مردوں سے پانچ انچ چھوٹی اور ستائیس پاؤنڈ ہلکی ہوتی ہیں۔

ویسے اب مرد بھی ماننے لگے ہیں کہ عورتوں میں قیادت کی بہتر صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک تازہ سروے کے مطابق مردوں اور عورتوں دونوں کی اکثریت نے کہا کہ عورتوں میں دیانتداری اور ذہانت مردوں سے زیادہ ہوتی ہے، اور یہی دو خصوصیات قیادت کے لئے سب سے اہم ہیں اور انہی کا آج کل توڑا ہے۔

مردوں کے ناک کی سیدھ میں چلنے اور حکم چلانے جیسے کوائف آج کل کارآمد نہیں کیونکہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جہاں جغرافیائی اور سیاسی رسہ کشی میں کسی کی فلاح سمجھی جائے۔