دماغ حقیقی اور تصوراتی چیزوں میں فرق کیسے کرتاہے : نئی سائنسی تحقیق

Posted by Anonymous on 7:42 AM


فزآرگ ڈاٹ کام پر شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سائنس دانوں نے دماغ کے ان حصوں کی شناخت کرلی ہے جو حقیقی او رتصوراتی چیزوں کے درمیان فرق کی نشان دہی کرتے ہیں۔ دماغ کے یہ حصے اے ایم پی ایف سی اور پی سی سی اس وقت فعال ہوتے ہیں جب آپ اپنی ذاتی زندگی کی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہیں اور اپنے بارے میں کچھ سوچتے ہیں۔

اس تحقیق کی بنیاد پر سائنس دانوں نے یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ ممکن ہے کہ ہمارا دماغ حقیقی اور تصوراتی چیزوں کے درمیان اس لیے فرق کرسکتا ہو کیونکہ حقیقی چیزوں میں ذاتی حوالہ، تصوراتی چیزوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

ایک نئے مطالعاتی جائزے میں اس مفروضے کو پرکھا گیا ہے کہ حقیقی اور تصوراتی چیزوں کے درمیان فرق کرنے میں ذاتی حوالے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ سائنس دانوں نے حقیقی اور تصوراتی چیزوں کے درمیان فرق کے عمل کے دوران دماغ کی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے فنکشنل میگنیٹک ریزوننس امیجنگ ( ایف ایم آر آئی ) کا طریقہ استعمال کیا۔ یہ ریسرچ جرمنی کے میک پلینک انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن برین اورجرمنی کی یونیورسٹی آف گیسن کی اینا ابراہم اور میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن برین اینڈ کاگنیٹیو سائنسز اور م کلون، جرمنی کے میکس پلینک فار نیورولوجیکل ریسرچ کے ڈاکٹر یویز نے کی اور اس کے نتائج پی ایل اوز ون میں شائع ہوئے ہیں۔

ابراہم نے ویب سائٹ فزآرگ کو بتایا کہ ان کے تجربات سے انہیں یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ دماغ حقیقت سے مراد کیا لیتا ہے۔ تجربات سے دو ہفتے قبل تجربے میں شمولیت کے لیے تیار 19 افراد سے کہا گیا کہ وہ اپنے قریبی دوستوں اور خاندان کے افراد کے نام فراہم کریں اور ان سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ مشہور شخصیات اور افسانوی کرداروں کی ایک فہرست دیکھ کر یہ تصدیق کریں کہ وہ ان سے مانوس ہیں۔

تجربات کے دوران شرکا کو وہ نام دکھائے گئے جو یا تو ان کے دوست اور خاندان کے افراد تھے ( جن سے ان کا گہرا تعلق تھا) مشہور لوگ ( درمیانے درجے کاذاتی تعلق) یا افسانوی کردار(بہت کم ذاتی تعلق) شرکا نے ا س قسم کے سوالوں کے جواب بھی دیے مثلاً، کیا کسی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ان لوگوں/کرداروں میں سے کسی سے بات کر سکے ( حقیقی لوگوں اور افسانوی کرداروں کے درمیان بات چیت کو ناممکن خیال کیا گیا تھا)۔

جیسا کہ محققین کو توقع تھی، نتائج سے ظاہرہوا کہ جب تجربے میں شریک افراد نے اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے بارے میں ( جن کے ساتھ بہت ذاتی تعلق تھا) سوالات کے جواب دیے تو حقیقی اور تصوراتی چیزوں میں فرق کے عمل سے متعلق دماغ کے حصوں میں بہت زیادہ فعالیت ظاہر ہوئی بہ نسبت ان سوالوں کے جو مشہور لوگوں یا افسانوی کرداروں کے بارے میں کیے گئے۔ مشہور لوگوں کے بارے میں کیے گئے سوالات کے جواب دیتے ہوئے دماغ کے یہ حصے میں درمیانے درجے کی جب کہ تصوراتی یا افسانوی کرداروں کے بارے میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کم تر درجے کی فعالیت ظاہرہوئی۔


اس تجربے سے ماہرین نے حقیقی اور تصوراتی چیزوں کے ادراک کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ تو کیا ہے لیکن ان نتائج سے مزید سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں۔

ابراہم کہتی ہیں کہ میں اپنی والدہ اور جارج بش دونوں کو سنڈریلا سے زیادہ حقیقی سمجھتی ہوں لیکن میں جارج بش کو اپنی والدہ کی نسبت کم حقیقی کیوں محسوس کرتی ہوں،کیوں کہ دونو ں لوگ بہر طور معروضی طور پر اپنا وجود رکھتے ہیں۔

شاید ایسا اس لیے ہے کہ میں جارج بش سے کبھی ملی نہیں ہوں اور یا اس لیے کہ میں ان کے بارے میں کم معلومات رکھتی ہوں۔ شاید میں اس سے اس صورت میں زیادہ متعلق ہوتی اگر وہ میرے آبائی ملک کے خلاف جنگ کرتے۔ابراہم کا کہنا ہے کہ یہ تمام کھلے سوال ہیں جن کے جواب صرف اس صورت میں دیے جا سکتے ہیں جب ہم حقیقت کا مفہوم متعین کریں گے۔اور ہماری تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ کسی فرد کو حقییقی محسوس کرنے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس شخص کاہم سے کتنا زیادہ ذاتی تعلق یا حوالہ ہے۔

تاہم محققین یہ بھی کہتے ہیں کہ ذاتی تعلق یا حوالہ کسی چیز سے حقیقی تعلق یا حوالے سے یکسر طور پر مسنلک نہیں ہے کیوں کہ کچھ لوگ مخصوص افسانوی یا تخیلاتی چیزوں سے ذاتی تعلق کا تجربہ رکھ سکتےہیں جیسا کہ کمپیوٹر کی کچھ گیمز یا مذہب میں ہو سکتاہے۔

مثال کے طور پر ایک مخصوص کمپیوٹر گیم انتہائی شوق سے کھیلنے والے کے دماغ کے اس حصے میں جو حقیقی اور تخیلاتی چیزوں کےدرمیان فرق میں مدد دیتاہے، ممکن ہے اس مخصوص گیمز کے کسی کردار کو دیکھ کر اس کے مقابلے میں زیادہ فعالیت ظاہر ہو جتنی کہ اسے کسی ایسے حقیقی شخص کو دیکھ کر ہو جس سے اس کا حقیقی دنیا میں نسبتاً بہت کم تعلق ہو۔ ابراہم مزید کہتی ہیں کہ اگرچہ موجودہ تحقیق تخیلاتی تشدد اور حقیقی تشدد میں کسی تعلق کے بارے میں کوئی فہم یا بصیرت فراہم نہیں کر سکی ہے تاہم ایسی ہی مزید تحقیقات سے اس بات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا ایسا کوئی تعلق موجودہے۔

اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دماغ کے اے ایم پی ایف سی اور پی سی سی کے یہ حصے ایک ایسا خودکار نیٹ ورک کی طرح کام کرتے ہیں جو کسی بھی شخص کا نام دیکھ کر حرکت میں آجاتے ہیں، چاہے آپ کا اس سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو
بشکریہ وایس ااف امریکہ۔