دنیا بھر میں ہر پندرہ سیکنڈ میں ایک بچہ نمونیے سے ہلاک ہو جاتا ہے : عالمی ادارہ صحت

Posted by Anonymous on 4:52 PM

عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق اداے یونیسیف نے کہا ہے کہ بہتر غذا اور حفاظتی ٹیکیوں سے دنیا بھر میں نمونیے سے ہلاک ہونے والے لاکھوں بچوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ دونوں اداروں نے اس جاں لیوا بیماری سے نمٹنے کے لیے ایک نیا ایکشن پلان شروع کیا ہے۔ یہ نئی حکمت عملی نمونیہ پرقابو پانے کے سلسلے میں پہلے بین الاقوامی دن کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔ نمونیہ دنیا بھر میں بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہر سال اس بیماری کے باعث پوری دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے لاکھوں بچے لقمئہ اجل بن جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں کو کہنا ہے کہ بچوں کی ہر چار اموات میں سے ایک کی وجہ نمونیہ ہوتی ہے۔ یہ شرح ایچ آئی وی ایڈ، ملیریا اور خسرہ، تینوں بیماریوں سے ہلاکت کی شرح سے زیادہ ہے۔ ہر پندرہ سیکنڈ میں ایک بچہ نمونیے سے ہلاک ہو جاتا ہے۔ ان اموات میں سے 98 فیصد سے زیادہ 68 ترقی پذیر ملکوں میں ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود سے متعلق ادارے کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ ان اموات کو کس طرح روکا جا سکتاہے۔ وسائل موجود ہیں صرف ان کے استعمال کی ضرورت ہے۔ دونوں اداروں نے تین مرحلوں پر مبنی ایک گلوبل ایکشن پلان تجویز کیا ہے۔ اس میں نمونیے کا شکار ہونے والے بچوں کو اس مرض سے محفوظ رکھنے، اس سے بچانے اور اس کے علاج کے لیے حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے۔ نمونیے سے محفوظ رکھنے کے لیے یونیسیف کی سینیر ہیلتھ ایڈوائزر، این گولاز کا کہنا ہے کہ بچوں کے قدرتی دفاعی نظام کو بہتر بنانے کے سلسلے میں مناسب غذائیت کی فراہمی انتہائی اہم ہے خاص طور پر ماں کا دودھ۔ ان کا کہنا ہے کہ غذائیت کی کمی میں مبتلا بچے اور وہ بچے جنہیں اپنی زندگی کے پہلے چھ ماہ میں ماں کا دودھ بالکل میسر نہیں آتا، ان میں نمونیے اور دوسری بیماریوں کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتاہے۔ ماں کے دودھ سے نو زائیدہ بچے کا دفاعی نظام مضبوط ہوتاہے۔ اس لیے اگر اس بارے میں آگہی بڑھائی جائے کہ مائیں اپنے بچوں کو پہلے چھ ماہ کے دوران اپنا دودھ پلائیں اور انہیں اس کےعلاوہ کوئی دوسری ٹھوس یا سیال غذا نہ دی جائے تو اس طرح نمونیے سے ہونے والی 23 فیصد اموات میں کمی کی جاسکتی ہے۔ شمیم قاضی عالمی ادارہ صحت کے بچوں کے شعبے سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ نمونیے کی وجہ بننے والی بیماریوں مثلاً کالی کھانسی اور خسرہ سے بچاؤ میں حفاظتی ٹیکے اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کے بعد بھی بچے کو نمونیہ ہو جائے تو ہم جانتے ہیں کہ ہم ان بچوں کا علاج کمیونٹی سطح پر، طبی مراکز میں اور اسپتالوں میں مرض کی شدت کے مطابق انتہائی سستی اینٹی بائیوٹک ادویات اوردوسرے طریقوں سے کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بہت سے ملکوں میں بچوں کو اس بیماری سے بچانے اور اس کے علاج کے سلسلے میں در حقیقت یہ سب انداز اختیار نہیں کیے جا رہے۔ ڈاکٹر قاضی کا کہناہے کہ گلوبل ایکشن پلان کا مقصد تمام متعلقہ حفاظتی ادویات میں سے نوے فیصد تک فراہمی کو ممکن بنانا ہے۔ اقوام متحدہ کے صحت کے اداروں کا کہناہے کہ اس سے ان 68 ترقی پذیر ملکوںمیں جہاں اس بیماری کا خطرہ سب سے زیادہ ہے، ان تجویز کردہ اقدامات پر عمل در آمد پر لگ بھگ 39 ارب ڈالر خرچ ہو سکتے ہیں۔ اداروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ رقم بظاہر بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے لیکن اس بات کے پیش نظرکہ ان 39 ارب ڈالر سے 2015 تک بچوں میں نمونیے سے ہونے والی اموات میں 65 فیصد کی کمی ہو جائے گی، یہ رقم در حقیقت زیادہ نہیں ہے