کائنات کا دور ترین ستارہ دریافت

Posted by Anonymous on 4:54 PM


فلکیات دانوں نے کائنات کے دور ترین اور قدیم ترین مظہر کا سراغ لگایا ہے۔ یہ ایک مرتے ہوئے ہوئے ستارے میں ہونے والا دھماکا ہے جو آج سے 13 ارب سال پہلے کائنات کے وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد وقوع پذیر ہوا تھا۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس دریافت سے کائنات کے ارتقا کے بارے میں قابلِ قدر معلومات حاصل ہو سکیں گی۔ فلکیات دان کہتے ہیں کہ یہ واقعہ بگ بینگ کے صرف 63 کروڑ سال بعد پیش آیا جس میں دم توڑتے ہوئے ستارے سے توانائی کی گیما شعاعیں خارج ہوئی تھیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کائنات کی عمر تقریباً 14 ارب سال ہے۔ اس دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کا ’تاریک دور‘ اس سے پہلے لگائے جانے والے اندازوں کی نسبت جلد ختم ہو گیا تھا۔ تاریک دور کائنات کے وجود میں آنے کے فوراً بعد اور بڑے ستاروں کے بننے اور چمکنے سے پہلے کے زمانے کو کہتے ہیں۔ اس دریافت سے قبل سب سے قدیم ستارے کا ریکارڈ شدہ دھماکا حالیہ دریافت سے 20 کروڑ سال بعد ہوا تھا۔ انگلستان کی یونیورسٹی آف لیسٹر کے سائنس دان نیال تنویر اس تحقیق میں شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مرتے ہوئے ستارے کا یہ دھماکا (جسے سپرنووا کہا جاتا ہے) سائنس دانوں کو وقت میں ماضی کے سفر میں دور تک لے جاتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جو فلکیات میں نامعلوم خطہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے بڑی حد تک کائنات کا نقشہ تیار کر لیا ہے، اور اب ہم ان منطقوں کے نقشے تیار کر رہے ہیں جن کے بارے میں پہلے کچھ معلوم نہیں تھا۔ تنویر کہتے ہیں کہ اس دریافت سے سائنس دانوں کو آسمان میں ایک مقام مل گیا ہے جہاں خلائی دوربین ہبل کو لگایا جا سکتا ہے اور جہاں سے قدیم کائنات کے بارے میں سراغ مل سکتے ہیں۔ امریکی ماہرِ فلکیات ڈین فریل کہتے ہیں اس ستارے سے روشنی 13 ارب سال کا سفر طے کر کے زمین تک پہنچی ہے۔ اس مشاہدے سے یہ اندازہ ہو گا کہ بگ بینگ کے بعد کس قسم کے کیمیائی مادے خارج ہوئے تھے۔ فریل کا کہنا ہے کہ فلکیات دانوں کے اندازے کے مطابق یہ ابتدائی سپرنووا دھماکے بعد میں ہونے والے سپرنووا سے کہیں زیادہ بڑے اور روشن تر تھے۔ ان کے مشاہدے سے ستاروں کی پہلی نسل اور کہکشاؤں کی تشکیل کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی اور یہ پتا چلے گا کہ موجودہ ستاروں میں دھاتیں کہاں سے آئیں اور کائنات میں روشنی کیسے بکھری۔ اس دریافت کے بارے میں ممتاز سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں دو مضامین شائع ہوئے ہیںVOA۔