TTP, CIA aur RAW ki peda krda New Mukti Bahni hy.

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 10:25 AM
کالعدم تحریک طالبان ایک تنظیم ہے جو پاکستان میں خود کش حملوں اور دیگر جرائم میں ملوث ہے۔ پاکستان میں سرگرم کئی تنظیمیں طالبان کا نام استعمال کرتی ہیں جو خودکش حملوں اور مسلح لڑائیوں میں ملوث بتائی جاتی ہیں۔ ان میں شدید نوعیت کے اختلافات بھی موجود ہیں اور یہ سب کئی گروہوں میں منقسم ہیں۔ ان کی کاروائیوں کا دائرہ کار پاکستان سے لے کر افعانستان تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستانی خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کو 34 تنظیموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ سب دہشت گرد نہیں البتہ ان میں کئی جرائم پیشہ گروہ بھی شامل ہوچکے ہیں جو طالبان کا نام استعمال کرتے ہیں۔یہ آپس میں اس رقم کی تقسیم پر لڑتے جھگڑتے بھی رہتے ہیں جو انہیں بیرونی ممالک کی ایجنسیاں فراہم کرتی ہیں ۔ یہ درست ہے کہ طالبان کی صفوں میں موجود جرائم پیشہ گروہوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں اور یہ امریکی ،اسرائیلی ،برطانوی اور انڈین آلہ کار ہیں۔ جولائی 2009ءمیں سوات اور فاٹا میں گرفتار ہونے والے طالبان، جن میں افغانی طالبان بھی شامل ہیں، سے بھارتی کرنسی اور اسلحہ کے علاوہ امریکہ کے جاری کردہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم کے کارڈ بھی ملے ہیں۔[1]۔ اگرچہ بظاہر امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر حیران کن طور پر پاک فوج کے وزیرستان آپریشن کے شروع ہوتے ہی نیٹو فورسز نے افغانستان کی طرف کی چوکیاں یکدم خالی کردیں

حالانکہ وہاں سے افغانی وزیرستان میں آسانی سے داخل ہو سکتے تھے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق اس پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا ہے۔[2]
تحریک طالبان پاکستان کی تاریخ
دنیا جن کو آج طالبان کے نام سے جانتی ہے وہ تمام صرف مدرسہ کے معصوم طلباءنہیں بلکہ ان میں جرائم پیشہ، قاتل، ڈاکو وغیرہ شامل ہو چکے ہیں۔ طالبان کی تحریک کی پیدائش کے بارے میں مختلف نظریات ہیں لیکن اس میں کسی کو شک نہیں کہ ا طالبان کو امریکی سی آئی اے نے تخلیق کیا۔[3]۔[4] اس وقت امریکی دانشوروں مثلاً سلگ ہیریسن نے امریکی حکام کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ ہم ایک درندہ پیدا کرنے جا رہے ہیں۔ طالبان صرف مدرسے کے طلبا نہیں ہیں بلکہ جاسوسی اداروں کے تنخواہ دار ہیں اور انہوں نے دہشت گردی کو ذریعہ معاش بنا لیا ہے۔[5]۔ آج یہ تصور پیش کیا جارہا ہے کہ پاکستان نے طالبان پیدا کیے اور سی آئی اے نے صرف مدد کی مگر حقیقت یہ ہے کہ نیٹو (NATO) نے پاکستان سے بھی زیادہ براہ راست کردار ادا کیا یہاں تک کہ طالبان کے پہاڑوں میں خفیہ اڈے تک سی آئی اے نے براہ راست خود بنائے۔[6]
تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ
طالبان کے بے شمار گروہ ہیں جن میں غیر ملکی امداد کی تقسیم پر لڑائی جھگڑا رہتا ہے مگر بنیادی طور پر بیشتر گروہ محسود گروہ کی چھتری کے نیچے جمع ہو چکے ہیں جن کی ایک 42 رکنی شوریٰ موجود ہے جو فیصلہ کا اختیار رکھتی ہے۔[7] ان گروہوں میں سے کچھ زیادہ مشہور ہیں جیسے بیت اللہ محسود گروپ۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بے شمار گروہ ہیں جن کی اکثریت محسود گروپ کی چھتری کے نیچے جمع ہو چکی ہے . تمام گروپوں کی ایک 42 رکنی شوریٰ موجود ہے جو فیصلہ کا اختیار رکھتی ہے۔
مشہور گروہ



بیت اللہ محسود گروپ * حافظ گل بہادر گروپ * مولوی نذیر گروپ * مولوی فقیر محمد گروپ * عبداللہ محسود گروپ * تحریک طالبان سوات * عصمت اللہ معاویہ گروپ * قاری حسین گروپ * بنگالی گروپ * بدر منصور گروپ * عبدا لجبار گروپ * منگل باغ گروپ * سیف اللہ اختر گروپ * قاری یاسین گروپ * قاری ظفر گروپ * الیاس کشمیری گروپ * رانا افضل عرف نور خان گروپ * کلیم اللہ گروپ * قاری شکیل گروپ * گل حسن احمد خان گروپ * شیخ معراج گروپ * ابو قتادہ گروپ * شیخ فاتح عثمان گروپ * البدر گروپ * ہلال گروپ * کمانڈر طارق گروپ * مولوی رفیق گروپ * تکفیری عرب٭ ازبک گروپ* امجد فاروقی گروپ
تحریک طالبان پاکستان اورتحریک الاسلامی طالبان

تحریک طالبان پاکستان اور تحریک الاسلامی طالبان القاعدہ کے آپس میں بھی تعلقات ہیں. اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں افغانستان کی جہادی تنظیموں کا ایک اجلاس ہوا جس میں پاکستان کے خلاف ‘معرکہ خیر و شر’ (بقول ان کے) شروع کرنے کا فیصلہ ہوا اور یہ فیصلہ ہوا کہ افغانی طالبان کو پاکستانی طالبان کی مدد کے لیے پاکستان بھیجا جائے گا۔ افغانستان کے تمام کمانڈروں نے حکیم اللہ محسود کو پاکستانی طالبان کا امیر تسلیم کر لیا ہے اور اس کی امارت میں جہاد (بقول ان کے) جاری رکھا جائے گا۔[8]
افغان طالبان ملا طور کے مطابق افغانی طالبان کا تحریک طالبان پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ بے گناہ لوگوں کو فدائی حملوں اور دھماکوں میں نشانہ بنانا غلط ہے۔ افغان طالبان صرف نیٹو اور امریکی افواج کو نشانہ بناتے ہیں۔[9]
تحریک طالبان پاکستان کے بھارت، سی آئی اے اورموسا د روابط
جولائی 2009ء میں سوات اور فاٹا میں گرفتار ہونے والے طالبان ، جن میں افغانی طالبان بھی شامل ہیں، سے بھارتی کرنسی اور اسلحہ کے علاوہ امریکہ کے جاری کردہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم کے کارڈ بھی ملے ہیں۔[10] اگرچہ بظاہر امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر حیران کن طریقہ پر پاک فوج کے وزیرستان آپریشن کے شروع ہوتے ہی نیٹو فورسز نے افغانستان کی طرف کی چوکیاں یکدم خالی کردیں حالانکہ وہاں سے افغانی وزیرستان میں آسانی سے داخل ہو سکتے ہیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق اس پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا ہے۔[11]
پشاور کار بم دھماکے سے دو روز قبل امریکہ اور بھارت نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے گریز اور یہاں موجود شہریوں کو نقل و حرکت محدود رکھنے کی ہدایات کی تھیں۔ یہ امر بہت حیران کن ہی نہیں بلکہ چونکا دینے والا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سانحہ سے قبل ان دونوں ممالک کی ہدایات غیرمعمولی امر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کو پاکستان میں ہونیوالی کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کا پہلے ہی علم ہو جاتا ہے۔[12]
2 نومبر 2009ءکو پاک فوج کے ترجمان اطہر عباس نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ وزیرستان میں جاری آپریشن راہ نجات کے دوران بھارتی روابط کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں۔ دہشت گردوں کے زیرِ استعمال بھارتی لیٹریچر اور اسلحہ بھی پکڑا گیا ہے۔ یہ شواہد وزارت خارجہ کو بھجوا دیے گئے ہیں تاکہ مناسب کاروائی کی جائے۔[13]امریکی وزیر خارجہ نے اس بات کو مانا ہے کہ دہشت گردوں کی تخلیق میں امریکہ کی بھی کچھ ذمہ داری ہے۔[14]
پاکستان نے امریکی سی آئی اے کی پاکستان میں سرگرمیوں پر مشتمل ثبوت امریکہ کو پیش کیے ہیں۔ اس میں کابل میں سی آئی اے کے ڈائیریکٹر پر واضح کیا کہ کابل میں سی آئی اے کے اہلکار پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی معاونت کر رہے ہیں۔[15]علاوہ ازیںپاکستان میں افغانستان کے سفیر نے کہا ہے کہ بھارت وزیرستان میں طالبان کو اسلحہ مہیا کر رہا ہے۔[16]
تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی
تحریک طالبان کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دیا جاچکا ہے۔ وہ اغوا برائے تاوان، لوگوں کو قتل کر کے سر قلم کرنے اور بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ یہ حرکتیں اب بھی جاری ہیں۔ پچھلے کئی سالوں میں انہوں نے سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور کئی علمائے دین اور امن کمیٹی کے ارکان کو بھی ہلاک کیا ہے۔ یہاں تک کہ مسجدیں شہید کرنے میں وہ کوئی عار محسوس نہیں کرتے مثلاً 4 دسمبر 2009ءکو انہوں نے 17 نمازی بچوں سمیت چالیس افراد کے قتل اور راولپنڈی میں مسجد کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی۔[71]
تحریک طالبان پاکستان اور جرائم
دہشت گردی کی وارداتوں کے علاوہ تحریک طالبان کے افراد مختلف جرائم میں ملوث رہتے ہیں جن میں اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتی شامل ہیں۔ 22 اکتوبر 2009ء کو کراچی سے دو افغان ڈاکو پکڑے گئے جن سے ہینڈ گرنیڈ اور کلاشنکوفیں برآمد ہوئیں۔ یہ دونوں قتل، اغوا اور ڈکیتی کے درجنوں مقدمات میں مطلوب تھے۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی کے ذریعے رقم اکٹھا کر کے طالبان کو بھجواتے تھے۔[18]
تحریک طالبان پاکستان کے اورکزئی ایجنسی کے نئے امیر نے اورکزئی ایجنسی کے تمام اساتذہ کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ ہر ماہ اپنی تنخواہ سے دو ہزار روپے تنطیم کو دیا کریں۔ یہ سلسلہ پہلے سے جاری تھا لیکن اب اساتذہ کی مرضی کے خلاف رقم دو ہزار کر دی گئی ہے۔[19]طالبان نے پاکستان کے محکمہ کسٹمز کے کئی اہلکار اغوا کیے ہیں جن کے لیے وہ کروڑوں روپے تاوان مانگ رہے ہیں۔[20]
تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف احتجاج
پاکستان میں طالبان کی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں قبائلی علاقے کے افراد، ڈاکٹر، اساتذہ، طالب علم، زمینداروں اور کاشتکاروں سمیت ہر مکتبہ فکر کے افراد شامل ہیں۔ قبائلی علاقے اور سوات میں طالبان کے خلاف لشکر تشکیل دیے جارہے ہیں جو اس علاقے کا پرانا طریقہ ہے۔ سوات کے لشکروں کے مطابق فوج جب اس علاقے سے جائے گی تو وہ اپنی حفاظت کے قابل ہوں گے۔[21]
20 اکتوبر 2009ء کو پنجاب یونیورسٹی کے طلباءاور اساتذہ نے ایک پاکستان زندہ باد’ جلوس نکالا جس میں دہشت گردوں کے خلاف احتجاج کیا اور پاک فوج کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا۔ اس جلوس میں صدرِ جامعہ اور پروفیسروں نے بھی شرکت کی۔[22] 26 اکتوبر 2009ءکو لاہور میں سرکاری ملازمین نے دہشت گردی کے خلاف اور وزیرستان میں آپریشن کی حمایت میں ایک پر امن جلوس نکالا جس میں طلباءبھی شامل ہوئے۔[23]
آپریشن راہ نجات
جون 2009ئمیں پاک فوج کی جانب سے وزیرستان میں طالبان کے خلاف کی جانے والی فوجی کاروائی کو آپریشن راہ نجات کا نام دیا گیا۔ اس آپریشن کا باقاعدہ آغاز پاک فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز پر تحریک طالبان کے حملے کے بعد ہوا۔ اس کاروائی میں پاک فضائیہ بھی پاک فوج کے ہمراہ حصہ لے رہی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق یہ آپریشن تحریک طالبان پاکستان کے مکمل خاتمے تک جاری رکھا جائے گا۔
تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی
بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان کی 42 رکنی شورٰی نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کو بیت اللہ محسود کی جگہ تحریکِ طالبان پاکستان کا نیا امیر مقرر کیا۔ ساتھ ہی شوری نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اعظم طارق کو تحریک کا مرکزی ترجمان مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ حکیم اللہ محسود کا امیر مقرر ہونا دوسرے گروپوں کے طالبان رہنمائ مولوی نذیر اور حافظ گل بہادر نے بھی قبول کیا۔ [24] اس کے بعد حال ہی میں پاکستان میں تحریک طالبان کے مختلف گروہوں نے اپنی دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔[25]۔ پاکستانی پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک سعودی خیراتی ادارہ الحرمین فاونڈیشن نے تحریک طالبان کو 15 ملین امریکی ڈالر دیے ہیں جسے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جائے گا اور پنجاب کے کئی شہروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان کے حکیم اللہ محسود اور اس کے ساتھی جیش محمد اور لشکر جھنگوی کے ساتھ مل کر پنجاب میں اہم علاقوں پر حملہ کریں گے اور دہشت گردی کا ارتکاب کریں گے۔[26]۔[27]: اوائل 2009ء میں طالبان نے پنجاب میں مختلف متشدد مذہبی گروہوں پر مشتمل مسلم یونائیٹڈ آرمی بنائی جس میں پاکستان بھر کی عسکریت پسند تنظیمیں شامل ہیں جیسے لشکر جھنگوی، تحریک نفاذ شریعت محمدی مولوی فضل گروپ ،۔حزب مجاہدین، جیش محمد، خدام اسلام، رحمت ویلفیئر ٹرسٹ مسعود اظہر گروپ، تحریک طالبان پنجاب، حرکت الجہاد اسلامی، الیاس کشمیری گروپ۔ انہوں نے نفاذ شریعت سے متعلق چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کیا ہے۔ جس کے لئے یہ اپنی کارروائیوں کا آغاز کریں گی۔ محکمہ داخلہ پنجاب کو وزارت داخلہ کی بھجوائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ قاری نعیم آف بہاولپور، قاری عمران ملتان، عصمت اللہ خانیوال اور رانا افضل خانیوال کے علاوہ درہ آدم خیل میں کمانڈ ہیڈ آفس سے ان کے رابطے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ تنظیمیں اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت خانوں، وزیراعظم، وفاقی اداروں، راولپنڈی میں جی ایچ کیو اور حساس اداروں کے دفاتر کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ رپورٹ میں لاہور کو دہشت گردی کے خطرے کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دے دیا گیا ہے کیونکہ یہاں ہونے والے دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کو میڈیا کوریج زیادہ ملتی ہے۔[28]القاعدہ کے نائب سربراہ ایمن الزواہری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔[29]
طالبان سے منسوب واقعات
26 اگست 2009ئ کو جنوبی وزیرستان میں محسود قبائل کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ہونے والے ایک حملے میں کم سے کم چار سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ حملہ کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی۔[30]۔ 27 اگست 2009ئ کو خاصہ دار فورس پر ہونے والے ایک مبینہ خودکش حملے میں 26 اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی۔[31]۔ 30 اگست 2009ئ کو ایک مبینہ خود کش حملہ آور نے مینگورہ شہر کے پولیس ٹریننگ سینٹر میں خود کو دھماکے سے اڑا کر سکیورٹی کے پندرہ زیر تربیت اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔[32] 18 ستمبر 2009ئ کو کوہاٹ میں ایک کار کے ذریعے خود کش بم دھماکہ ہوا جس میں چھیالیس عام شہری شہید ہوئے۔[33] 5 اکتوبر کو پاکستان میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفتر پر حملہ کیا گیا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان اعظم طارق نے ایک بیان میں اس کی ذمہ داری قبول کی۔[34] 9 اکتوبر 2009ئ کو پشاور میں ایک خود کش حملہ کیا گیا جس میں چالیس سے زیادہ عام شہری شہید ہوئے۔ اس سے پہلے 16 ستمبر کو یہیں ایک خود کش حملہ میں گیارہ عام شہری شہید ہوئے۔ اسی دن بنوں میں ایک پولیس تھانے پر حملہ کیا گیا جس میں پندرہ پولیس اہلکار شہید ہوئے۔[35] 10 اکتوبر 2009ئ کو پاکستان میں جی ایچ کیو پر حملہ ہوا جس کی ذمہ داری طالبان کے ایک گروہ نے قبول کی ہے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے تمام دھشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا[36]۔ یاد رہے کہ اس سے صرف دو دن پہلے نیدرلینڈز کے سفارت خانہ کے ملازم اسلام آباد میں ممنوعہ اسلحہ اور ہنیڈ گرنیڈ سمیت پکڑے گئے جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ طالبان نے جی ایچ کیو پر حملوں میں ممنوعہ اسلحہ اور ہینڈ گرنیڈ استعمال کیے تھے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں سے بھارتی ہتھیار برآمد ہوئے۔[37] 15 اکتوبر کو لاہور میں تین مختلف جگہ پر دہشت گردی کی کاروائی ہوئی جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی۔ لاہور میں ایف آئی اے کی عمارت، بیدیاں ٹریننگ سینٹر اور مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ ہوا جو تینوں جگہ ناکام بنا دیا گیا تاہم کچھ سیکیورٹی اہکار شہید ہوئے ایک اندازہ کے مطابق ان کاروائیوں میں اٹھارہ دہشت گرد شامل تھے جن میں تین لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ان واقعات میں کم از کم آٹھ سیکیورٹی اہلکار اور آٹھ شہری شہید ہوئے جبکہ آٹھ دہشت گرد جہنم واصل ہوئے۔[38]۔ 15 اکتوبر 2009ئ کو ہی کوہاٹ میں ایک تھانے پر خود کش حملہ کیا گیا۔ ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی صدر پولیس سٹیشن کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی۔ ان کے بقول حملے میں گیارہ افراد ہلاک جبکہ بیس زخمی ہوئے ہیں۔ان کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں تین پولیس اہلکار اور آٹھ عام شہری شامل ہیں۔[39]۔ لاہور کے کمشنر نے کہا ہے کہ طالبان کو ان حملوں میں بھارتی اداروں کی مدد حاصل ہے۔[40]۔ 15 اکتوبر کے حملے کے عینی شاہدیں نے بتایا کہ طالبان دہشت گردوں نے مسجد پر بھی فائرنگ کی اور مسجد کی حرمت کا خیال نہ کیا۔[41]۔ 16 اکتوبر کو پشاور میں سی آئی ڈی کے ایک مرکز اور تھانے پر حملہ کیا گیا جس میں عام شہریوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے۔ بعض ذرائع کے مطابق یہ خود کش حملہ نہیں بلکہ ایک کار بم دھماکہ تھا[42]
20 اکتوبر کوجنڈولہ چیک پوسٹ وزیرستان پر طالبان نے حملہ کر کے 7 اہلکاروں کو شہید کر دیا۔[43] 23 اکتوبر 2009ء کو باراتیوں کی ایک بس مہمند ایجنسی میں طالبان کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی جس سے 18 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ بارودی سرنگ سیکیوریٹی فورسز کے لیے بچھائی گئی تھی۔[44] 23 اکتوبر 2009ء کو ہی پشاور میں ایک بم دھماکہ ہوا۔ کامرہ میں فضائیہ کی فیکٹری کے قریب ایک خود کش حملہ ہوا۔ کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے۔[45]
روزنامہ نوائے وقت کے مطابق پشاور کار بم دھماکے سے دو روز قبل امریکہ اور بھارت نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے گریز اور یہاں موجود شہریوں کو نقل و حرکت محدود رکھنے کی ہدایات کی تھیں۔ سکیورٹی ماہرین کی جانب سے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سانحہ سے قبل ان دونوں ممالک کی ہدایات غیرمعمولی امر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کو پاکستان میں ہونیوالی کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کا پہلے ہی علم ہو جاتا ہے۔[46]
2 نومبر 2009ءکو راولپنڈی میں ایک خود کش حملہ میں 4 فوجیوں سمیت 36 افراد شہید ہو گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ خود کش حملہ آور نیشنل بنک آف پاکستان کے باہر تنخواہیں نکالنے والوں کی قطار میں گھس گیا اور خود کو اڑا دیا۔ اسی دن لاہور میں بابو صابو انٹرچینج پر پولیس چوکی پر روکے جانے پر کار سوار نے خود کو اڑا لیا اور 25 لوگ زخمی ہو گئے۔ [47] 8 نومبر کو پشاور کے نواح میں واقع متنی کے علاقہ ادیزئی میں ایک خود کش حملہ میں ناظم علاقہ عبدالمالک سمیت 12 افراد جاں بحق اور 36 زخمی ہو گئے۔ ناظم عبدالمالک طالبان کے خلاف بنائے جانے والے ایک لشکر کے سربراہ تھے اور ان پر پہلے بھی حملے ہو چکے تھے۔[48]
9 نومبر 2009ءکو ایک پولیس چوکی پر خود کش حملہ ہوا جس میں تین افراد جاں بحق ہو گئے۔[49] 10 نومبر 2009ئ کو چارسدہ کے مرکزی بازار میں ایک کار بم دھماکہ کیا گیا جس میں 24 افراد جاں بحق اور 40 کے قریب زخمی ہو گئے۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ [50]۔ دھماکے کی جگہ سے خود کش حملہ آور کے اعضاء مل گئے۔ پولیس کے مطابق اس حملہ کی دھمکیاں پہلے سے ہی مل رہی تھیں۔[51]۔ طالبان تحریک کے ترجمان اعظم طارق نے خود کش حملوں کے بارے میں کہا کہ جو بھی ہماری تحریک کو نقصان پہنچائے گا اسے سبق سکھایا جائے گا۔[52]
13 نومبر 2009ء کو ایک خودکش حملہ جو ایک حساس ادارہ کے پاس پشاور میں ہوا، اہل کاروں اور شہریوں سمیت دس افراد جاں بحق ہو گئے۔ ایک اور واقعے میں بنوں میں بکا خیل تھانے میں خود کش حملہ سے دو افراد جاں بحق ہو گئے۔[53] 13 نومبر کو ہی پشاور میں پاکستان کی جاسوسی تنظیم آئی ایس آئی کے دفتر پر خود کش حملہ میں سات اہلکاروں سمیت دس افراد ہلاک ہو گئے۔ خود کش حملہ آور نے صبح کے ساڑھے چھ بجے ایک بارود سے بھری گاڑی آئی ایس آئی کے صوبائی دفتر پر ٹکرا دی۔ دھماکے سے قریبی مسجد بھی تباہ ہو گئی۔[54]۔ 14 نومبر کو پشاور میں میں پولیس کے مطابق ایک چیک پوسٹ پر کار خودکش حملہ ہوا جس میں گیارہ افراد ہلاک اور چھبیس زخمی ہوگئے۔[55]۔
کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ترجمان قاری حسین نے پشاور اور بنوں میں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دھمکی دی کہ حکومت خود کش حملوں کو روک کر دکھائے۔[56] 16 نومبر 2009ء کو پشاور میں پولیس سٹیشن کے قریب ہونے والے ایک مبینہ خودکش کار بم حملے میں کم سے کم تین افراد ہلاک اور چوبیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ پشاور کے ایس پی رورل بشیر اللہ خان کے مطابق یہ واقعہ پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں اس وقت پیش آیا جب ماشو خیل کے علاقے سے آنے والے ایک مبینہ خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی مسجد کی عمارت سے ٹکرا دی۔[57]
19نومبر 2009ءکو صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں ڈسٹرکٹ کورٹ کے گیٹ پر ایک خود کش حملے میں انیس افراد ہلاک اور چالیس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ خودکش حملہ آور کچہری میں داخل ہونا چاہتا تھا اور اس کو جب تلاشی کے لیے روکا گیا تو اس نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔[58] 20 نومبر 2009ئکو رات گئے ایک پولیس کی ایک گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا جس میں پولیس کے دو اہلکار ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے ہیں۔[59]
مہمند ایجنسی میں امن کمیٹی کے مغوی رکن کی سربریدہ لاش ملی ہے۔ اس شخص کا بیٹا گزشتہ شام دہشت گردوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاک ہوگیا تھا۔ حکام کے مطابق دہشت گردوں اور امن کمیٹی کے ممبر کے درمیان کئی گھنٹوں تک جھڑپ ہوئی تھی۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے بھی مہمند ایجنسی کی تحصیل لکڑو میں مولانا شہزاد گل اور رسول شاہ کی لاشیں کندارو کے قریب سے ملی تھیں اور ان دونوں کو گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک قبائلی جرگے کے ذریعے انہوں نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے مولانا شہزاد گل اور پچاس سالہ رسول شاہ جو مہمند ایجنسی میں امن کمیٹی کے سرگرم رکن تھے، کی سربریدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ دونوں کی ہلاکت کی ذمہ داری مقامی طالبان نے قبول کی تھی۔[60]
4 دسمبر 2005ء کو پریڈ گراونڈ راولپنڈی میں طالبان نے ایک مسجد پر حملہ کر کے چالیس افراد کو شہید کیا جن میں 17 نمازی بچے بھی شہید ہوئے اور مسجد کا ایک حصہ شہید ہوا۔ شقی القلب طالبان نے مسجد پر حملہ اور اس قتل و غارت کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے جرائم پیشہ رہنماء ولی الرحمن نے قبول کی۔[61] 5 دسمبر 2009ئکو پشاور کے کمرشل بازار میں دھماکہ کیا گیا جس سے کم از کم دو افراد ہلاک ہو گئے۔[62]

مندرجہ بالہ تما م مواد ان اخبارات و جرائداور ویب سائٹ سے لیا گیاہے

1. ^ روزنامہ ایکسپریس، 12 جولائی 2009
2. ^ روزنامہ ایکسپریس پاکستان 24 اکتوبر 2009ء
3. ^ افغانستان، سی آئی اے، اسامہ بن لادن اور طالبان
4. ^ سی آئی اے نے پاکستان کی مدد سے طالبان تخلیق کیے
5. ^ لسگ ہیریسن۔ دہشت گردی اور علاقائی تحفظ کی کانفرنس 2000ئ
6. ^ http://emperors-clothes.com/docs/camps.htm نیو یارک ٹائمز 24 اگست 1998
7. ^ طویل جنگ کا جریدہ
8. ^ روزنامہ جنگ 18 اکتوبر 2009ئ
8. ^ جنگ تازہ خبریں 10 نومبر 2009ئ
9. ^ روزنامہ ایکسپریس، 12 جولائی 2009
10. ^ روزنامہ ایکسپریس پاکستان 24 اکتوبر 2009ء
11. ^ نوائے وقت 29 اکتوبر 2009ئ
12. ^ روزنامہ جنگ 3 نومبر 2009ء
13. ^ http://www.jang.com.pk/jang/nov2009-daily/11-11-2009/u11008.htm جنگ 11 نومبر 2009ئ۔ تازہ خبریں
14. ^ روزنامہ جنگ 21 نومبر 2009ء
15. ^ جنگ تازہ ترین 27 نومبر 2009ء
16. ^ روزنامہ جنگ 5 دسمبر 2009ء
17. ^ روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 22 اکتوبر 2009ء
18. ^ بی بی سی اردو 22 اکتوبر 2009ء
19. ^ روزنامہ جنگ 20 نومبر 2009ء
20. ^ http://www.jang.com.pk/jang/oct2009-daily/26-10-2009/u9483.htm روزنامہ جنگ تازہ ترین 26 اکتوبر 2009ئ
21. ^ دانشگاہِ پنجاب پریس ریلیز 20 اکتوبر 2009ء
23. ^ http://www.jang.com.pk/jang/oct2009-daily/26-10-2009/u9516.htm روزنامہ جنگ تازہ ترین 26 اکتوبر 2009ئ
24. ^ بی بی سی اردو 22 اگست 2009ء
25. ^ ملک میں پھیلتے شدت پسند نیا خطرہ۔ بی بی سی اردو
26. ^ روزنامہ دی نیوز۔ 14 ستمبر 2009
27. ^ وطن دوست بلاگ
28. ^ روزنامہ نوائے وقت 12 مئی 2009ء
29. ^ روزنامہ ایکسپریس 15 دسمبر 2009ء
30. ^ بی بی سی 26 اگست 2009ء
31. ^ بی بی سی 27 اگست 2009ء
32. ^ بی بی سی 27 اگست 2009ء
33. ^ بی بی سی 19 ستمبر 2009ء
34. ^ بی بی سی 6 اکتوبر 2009ء
35. ^ بی بی سی
36. ^ روزنامہ جنگ 10 اکتوبر 2009ئ۔ تازہ ترین خبروں سے لیا گیا
37. ^ بی بی سی اردو 19 اکتوبر 2009ء
38. ^ روزنامہ جنگ۔ تازہ ترین 15 اکتوبر 2009
39. ^ بی بی سی اردو
40. ^ روزنامہ جنگ تازہ خبریں 15 اکتوبر 2009ء
41. ^ بی بی سی 15 اکتوبر 2009ء
42. ^ بی بی سی 16 اکتوبر 2009ء
43. ^ http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/10/091020_waziristan_4th_day.shtml بی بی سی اردو 20 اکتوبر 2009ئ
44. ^ روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 23 اکتوبر 2009ء
45. ^ بی بی سی اردو 23 اکتوبر 2009ء
46. ^ نوائے وقت 29 اکتوبر 2009ء
47. ^ روزنامہ جنگ 3 نومبر 2009ء
48. ^ روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 8 نومبر 2009ء
49. ^ روزنامہ جنگ تازہ خبریں۔ 9 نومبر 2009ء
50. ^ جنگ تازہ خبریں 10 نومبر 2009ء
51. ^ روزنامہ ایکسپریس 11 نومبر 2009ء
52. ^ روزنامہ ایکسپریس 11 نومبر 2009ء
53. ^ جنگ تازہ ترین 13 نومبر 2009ء
54. ^ روزنامہ جنگ 14 نومبر 2009ء
55. ^ بی بی سی اردو 14 نومبر 2009ء
56. ^ بی بی سی اردو 14 نومبر 2009ء
57. ^ بی بی سی اردو 16 نومبر 2009ء
58. ^ بی بی سی اردو 19 نومبر 2009ء
59. ^ بی بی سی اردو 20 نومبر 2009ء
60. ^ بی بی سی اردو 27 نومبر 2009ء
61. ^ روزنامہ جنگ 5 دسمبر 2009ء
62. ^ جنگ تازہ ترین 5 دسمبر 2009ء

مینڈک زلزلے سے پیشگی آگاہ ہوجاتے ہیں

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 8:16 AM






قدرتی آفات میں عموماً سب سے مہلک زلزلے ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ابھی تک کوئی ایسا نظام وضع نہیں کیا جاسکا جو اس ناگہانی خطرے کی پیشگی اطلاع دے سکے۔ لیکن اب سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ مینڈک کا حسیاتی نظام اسے زلزے کی آمد سے تین روز پہلے خبردار کردیتاہے۔نئی تحقیق سے مستقبل قریب میں زلزلے کی پیش گوئی کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔















جمیل اختر واشنگٹن
..... .ممکن ہے کہ آپ کے لیے یہ خبر دلچسپی کا باعث ہوکہ مینڈکوں کو کئی گھنٹے اور بسااوقات دو تین روز پہلے ہی پتا چل جاتا ہے کہ زلزلہ آنے والا ہے اور وہ اپنے بچاؤ کے لیے محفوظ مقامات کی طرف بھاگنا شروع کردیتے ہیں۔
قدرت نے کئی جانوروں اور پرندوں کو ناگہانی خطرات سے پیشگی خبردار کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ مثلاً بارش سے قبل کئی پرندے محفوظ مقامات کی طرف اڑنے لگتے ہیں۔ آندھی سے کافی دیر پہلے جھینگروں کی آوازیں بند ہوجاتی ہیں، خطرے کی بوسونگھ کر گھوڑے اچانک مخصوص انداز میں ہنہنانے لگتے ہیں، اسی طرح جنگل کے جانور خطرے کو قبل از وقت بھانپ کر جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
لیکن اپریل2009ء میں اٹلی کے علاقےلاکویلا میں تقریباً چھ درجے شدت کے زلزلے سے پہلے کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ مینڈکوں کو اس ناگہانی آفت کا تین روز پہلے ہی پتا چل گیا تھا۔
لاکویلا میں زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی تھی اور بڑے زلزلے کے بعد ہفتوں تک چھوٹے زلزلوں کے ہزاروں جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔
زلزلے کو قدرتی آفات میں سب سے زیادہ خطرناک تصور کیاجاتا ہے کیونکہ زلزلہ کسی کو سنبھلنے، سوچنے سمجھنے اور جان بچانے کا موقع نہیں دیتا اور لمحوں میں ہنستی بستی آبادیاں ملبوں کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔چند سال قبل پاکستان کے شمالی علاقے میں ایک تباہ کن زلزلے سے صرف چند منٹ میں درجنوں آبادیاں کھنڈر بن گئی تھیں اور 80 ہزار سے زیادہ افراد موت کے منہ میں چلے گئےتھے۔


ہماری زمین بڑی بڑی چٹانی پرتوں پر قائم ہے، جن کے کونے ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہیں۔ زمین کے گہرائیوں میں درجہ حرارت کی تبدیلی ، اندورنی دباؤ اور بعض دوسرے عوامل کی وجہ سے یہ چٹانیں آہستہ آہستہ کھسکتی رہتی ہیں۔ جب ایک چٹان دوسری چٹان سے ہٹتی ہے تو زمین کی سطح پر کئی سو میل تک زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں۔ اور پھر بعد میں ہلکے جھٹکے (آفٹر شاکس )اس وقت تک آتے رہتے ہیں جب تک کھسکنے والی چٹان نئی جگہ پر مضبوطی سے جم نہیں جاتی۔
آج کے جدید سائنسی دور میں ماہرین یہ جانتے ہیں کہ دنیا کے کون کون سے شہر اور آبادیاں اس مقام پر واقع ہیں جہاں زمین کی تہہ میں چٹانیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور ان کے کھسکنے کے امکانات موجود ہیں، لیکن ابھی تک ایسا کوئی نظام تیار نہیں کیا جاسکا جس سے پہ پتا چل سکے کہ چٹانوں کے کھسکنے کا عمل کب شروع ہوگا۔
لیکن دو سال پہلے اٹلی کے ایک تالاب سے زلزلہ آنے سے پہلےزیر تجربہ مینڈکوں کے اچانک فرار نے سائنس دانوں کو ایک نئی راہ دکھائی۔


ہوا یہ کہ ایک ماہر حیاتیات مس گرانٹ ، اٹلی کے شہر لاکویلا میں مینڈکوں پر تحقیق کررہی تھیں۔ تالاب میں 90 کے لگ بھگ مینڈک رکھے گئے تھے لیکن جب زلزلے سے تین روز پہلے 80 سے زیادہ مینڈک گھبراہٹ کے عالم میں تالاب چھوڑ کر بھاگ گئے تو انہوں نے ناسا کے ماہرین سے رابطہ کیا۔
سائنسی جریدے زولوجی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زلزلے سے تین روز قبل تالاب میں زیر تجربہ مینڈکوں کا فرار محض کوئی اتفاق نہیں تھا، کیونکہ انہیں زلزلے کے کئی روز بعدآفٹرشاکس کی شدت کم ہونے پر دوبارہ تالاب میں رہنے پر مجبور کیا جاسکا تھا۔
ناسا کے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ زیر زمین چٹانوں کے کھسکنے سے پہلے یقیناً ایسی کیمیائی تبدیلیاں آتی ہیں ، جسے مینڈکوں کا حسیاتی نظام محسوس کرلیتا ہے اور انہیں اپنی جان بچا کر بھاگنے پر مجبور کردیتا ہے۔
تجربات سے انہیں معلوم ہوا کہ چٹانیں اچانک اپنی جگہ نہیں چھوڑتیں بلکہ شدید دباؤ کے تحت یہ عمل کئی روز پہلے شروع ہوجاتا ہے۔ اس دوران چٹانیں برقائے ہوئے ذرات خارج کرنا شروع کردیتی ہیں جو زمین کی سطح پر موجود پانی کو متاثر کرتے ہیں۔ ناسا کے سائنس دان فرائیڈ من کا کہناہے کہ بہت ممکن ہے کہ پانی میں یا اس کےقریب رہنے والے کچھ جانداروں پر،مثلاً مینڈک وغیرہ، زمین کے اندر سے خارج ہونے والی برقی لہروں کا شدید اثرہوتا ہو جس سے بچنے کے لیے وہ وہاں سے چلے جاتے ہوں۔
ناسا ہی کے ایک اور سائنس دان ڈاکٹر فرینڈ کہتے ہیں کہ زلزلے سے قبل چٹانوں سے نکلنے والے والے برقی ذرات زمین کی سطح پر آکر ہوا میں آئن پیدا کردیتے ہیں۔


آئن مثبت چارج رکھنے والے برقی ذرات ہوتے ہیں۔ فضا میں ان کی زیادتی کئی لوگوں میں سردرداور متلی کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خون میں دباؤ بڑھانے والے ہارمونز کی سطح بھی بلند ہوجاتی ہے۔ لیکن چونکہ فضا میں برقی ذرات کی موجودگی کی اور بھی کئی وجوہات ہوتی ہیں اس لیے سردرد اورمتلی کو زلزلے کی پیش گوئی نہیں سمجھا جاسکتا۔
جب کہ ماہرین کا کہناہے کہ کسی ایسی جگہ سے جو فالٹ زون یعنی زلزلوں کے امکانی علاقے میں واقع ہو، پانی سے بڑے پیمانے پر مینڈکوں کے فرار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ کئی دوسرے عوامل بھی زلزلے کے امکان کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مثلاً اکثر پالتو جانورزلزلے سے کئی گھنٹے قبل گھبراہٹ اور پریشانی میں عجیب و غریب حرکات کرنے لگتے ہیں۔ فالٹ زون میں زلزلے سے پہلے فضا میں تابکاری کی سطح بڑھ جاتی ہے اور کرہ ہوائی کے آئن زون میں برقی ذرات کی مقدار تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر آسمان پر بادل ہوں تووہ اس سے کہیں مختلف دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ عموماً نظر آتے ہیں۔
مینڈکوں نے سائنس دانوں کے لیے تحقیق کے نئے دروازے کھول دیے ہیں اوریہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ مستقبل قریب میں زلزلے سے کئی گھنٹے قبل اس کی پیش گوئی کی جاسکے گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زلزلہ پیما مراکز میں مینڈک پالے جائیں گے بلکہ ایسا نظام تیار کیا جاسکتاہے جو زیر زمین چٹانوں سے خارج ہونے والے برقی ذرات کی مؤثر پیمائش کرکے خطرے سے پیشگی خبردار کرسکے گا۔

Qanoot e Nazila by Hafiz Saeed

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 11:07 PM

Is Inda our Most Favourit Country for Pakistan Must Watch...

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 8:13 AM




Propeganda Against Pakistani ISI by Western Media

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 10:04 AM

These Videos in English but clearly understandable who know English...





For More info or News visit these websites but we wanna obviouly clear that we aren't resposible of these links. www.facebook.com/hafizskp www.pringit.com/hafizskp www.twitter.com/hafizskp

Notification Finance Department to AG Punjab 22 Oct 2011

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 10:03 PM


















































































Educator Recruitment Policy 2011

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 8:56 PM
To Read or download Educator Recruitment Policy 2011 of Punjab Government click the below link.

Recruitment Policy 2011

Geomentry Story of Marshal Law in Pakistan since 1947

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 10:05 PM

Hafiz Hafeez ur Rehman Sheikhupura

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 8:24 AM







Hafiz Hafeez ur Rehman



This is Hafiz Hafeez ur Rahman from Sheikhupura.


He is a great Scholar of the Modern era.
He was born on December 2, 1992 at Sheikhupura.
His Complete Biography is given below.

 
.......................................

visit his Free Islamic SMS Organization page on www.facebook.com/hafizskp
..............................................................


This is Hafiz Hafeez ur Rehman from City Sheikhupura. He was Born in Sheikhupura. He passed Primary Exame from Umar Farooq Modle School Jandiala Road Sheikhupura. After 5th He goes to Madrassa Dar-ul-Aloom Muhammadia undroon Purana Adda Lariyan Sheikhupura for getting the Quran in heart.


*His Most elder Brothe Qari Khalil ur Rahman had urged to make him Hafiz e Quran.

He completed Hifz ul Quran in Sep-2005 but his Most Elder Brother Muhtaram Qari Khalil ur Rehman was martyred in 2004 to met an accident in Mansehra near the Abbotabad. Mr. Khalil ur Rahman was martyred on June,21 in 2004.

.................................... ------------------------ ...............................


Mr. Hafiz Hafeez ur Rehman admitted in Govt. Jamia Hight School on 24 Oct in 2005 for 8th class to Mr. Kamal Jutt pagal. After passing 8th Class examination in June 2006 he got Admission in his same Schoold where he were learned 8th class.
His great teachers were Mr. Abdul Rehman Shakir and Shafiq Awan .
in the eye of his teacheres he is a respectable student.


During his Exame of 10th Class in April 2008 his father was died. On the day of death he take exame of Islamiyat . In August 2008 he passed Matriculation Exame with 1st Division.

*2008 to 2010 *

He got Admission in Govt. College of Commerce Sheikhupura in D.COM English Shorthand Group.
He Passed D.COM Examination of D.COM about 70% Marks. During his study in D.COM part 2nd he got opportunity to lead his fellow students against a cruel teacher. Mr. Arshad Ch. was a cruel person and he did not knew how to tach the students and respects. On day he slapped to Mr.Hafeez . in the next day Mr. Hafeez decided not to attend the class of BIT of Mr. Arshad. All the group of Shorthand not attended the period for 1 and half week before the clearation of Priciple Mr. Javid Mahmood Nagra that Mr. Arshad will not teas you . ... Before this Mr. Hafeez gave the Applicaton to the Principle with their fellow Students against the cruel teacher. Mr. Hafiz Hafeez ur Rehmand went to Govt. College Sheikhupra after passing the D.COM for B.A in 3rd Year.




* 2011 to present *

Mr. Hafeez did B.A from Govt. College Sheikhupura in 2012 and got High 1st Division. He got Maximum Marks in English Compulsory in College.

Now Mr. Hafiz Hafeez ur Rehman is a Student of M.A English-I in University of Education, Lower Mall Campus, Lahore. and the ex-admin of two Mobile services.(1 is Free islamic sms service all over the Pakistan and 2nd Free Breaking-New Service all over the World.)



for more info of the Services visit http://www.hafizskp.tk/ and the Method to join these services is given below.



**** 1- Go to creat message option of your Mobile and write Follow hafizskp



2- Send it to 9900 for Islamic SMS and if you wanna get Breaking-News so send it to 40404



3_ By sending sms to 9900 you will be cost only 0.50/ paisa and to 40404 only 1.00/ *Receivng sms from us will be absolutely free.



4- After some moment you will be received a confirmation sms. In the Reply of confirmation sms that you will be received from 9900 write Mute Off and send. Our Service will be Completely activated.

Veena Malik Jazbaati ho gai jb Mufti sahib ny Fatwa diya.

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 11:13 AM









Allah o Akbar ! aisy Musalmaan B dekhy ka jin sy Sharma jaye yahood... Shame on Vina chawal..

www.pringit.com/hafizskp

12 Oct 1999 Incident Nawaz vs Musharraf special interview

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 1:48 PM

promotion of SSE as SS, 06-09-2011

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 7:47 PM


notification NO. 12608/ 06-09-2011 inservice promotion of SSE as SS from DPI (SE) Punjab



Economic Power of Paksitan and It's Defender

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 11:15 AM




Permanent Orders of Educaters,Headmasters SS, Sep-2011

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 10:03 PM









thanks join us on your Mobile for free islamic sms visit www.pringit.com/hafizskp Write in ur Mobile Follow hafizskp and send it to 9900 if u r zong customer so send it to 2323.... its free... visit www.hafizskp.tk







Get Daily free islamic sms on your Mobile in Pakistan

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 9:12 AM
Assalam o Alaikum To all my Dearest Visiters..

for Getting free islamic msgz in your mobile daily write in your creat message of your mobile.ON and send it to 9900

you will be received Confirmation of joining pring in few moments and Then write Add hafizskp or Follow hafizskp and send it to 9900 .YOu will be received a confirmation message in few moments and you will be received our islamic msgz daily..



Simple way to Join uour Free Service

write Follow hafizskp and send it to 9900



Terms.... this service is Available only in pakistan ...
*when you send sms to 9900 it will be chareged 0.50 paisa only and Receiving is free.

* if you have any Question or suggestion so write in your message screen 22909 and then your message and send it to 0331-6182139 .



for more infro visit : www.pringit.com/hafizskp

Tages:hafizskp, Get daily free islamic sms on your mobile in pakistan., Receive Dialy free islamic sms & BreakingNews & CricketNews and info of the world. We are sending daily Hadith of today and msg of today. Sheikhupura ki wahid free sms service..

Mobile Phone Timeline/History

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 6:03 AM


1835
In 1835, American painter Samuel Morse made the first working electric telegraph using an electromagnet. By 1838 he had also developed the system of dots and dashes which enabled complex messages to be sent. By 1844 he had raised support from Congress and the first telegraph line was opened, from Baltimore to Washington. Morse sent the first message: 'What hath God wrought?'
1876
Alexander Graham Bell made the first telephone call on March 10, 1876, in Boston, through the Liquid Transmitter he had designed. He uttered the first words to be carried over a wire: "Mr. Watson, come here, I want you!"
1906
In 1906, a radio engineer named Lee de Forest transmitted a message to an experimental phone in a car idling on a New York street: "How do you like your first wireless ride? The fire department, steamships, and railways ought to adopt the same method of communication." Later he declared: "Hereafter, we hope it will be possible for businessmen, even while automobiling, to stay in constant touch."
1912 The first commercial telephone calls in the UK were made in 1912 when the General Post Office controlled the telephone networks.
1946 In 1946 a mobile telephone service (MTS) was introduced by AT&T in the United States. A mobile user who wished to place a call from a radiotelephone had to search manually for an unused 35-megahertz or 150-megahertz band before they could place a call. Only one person could speak at a time and the call direction was controlled by a push-to-talk button on the handset just like a walkie talkie.
When mobiles were first launched, each country was limited to its own national area - they could call overseas landlines or mobiles but they would not work overseas. The first mobile phone weighed 76lbs (34kg).
1880
In the early 1980's the consultants McKinsey & Co were hired by AT&T to forecast the growth in the mobile market until the end of the millennium. They projected a world market of 900,000. Today, 900,000 handsets are sold every three days.
1983 In May 1983 Licences were granted to Cellnet and Vodafone to provide national cellular radio networks in the UK.
1985 1985 saw the emergence of shoulder phones which operated with more than 20kg worth of batteries… which is why they were used mostly in cars.

Vodafone and Cellnet opened for business in January 1985. Cellnet's charges were as follows:
-Lease of cellular phone - £164 per quarter (equivalent of approximately £262 at today's prices)
-Installation charge - £100 (approximately £160 at today's prices)
-Connection to Cellnet system - £60 (approximately £96 at today's prices)
1991 The first call ever placed on a commercial GSM (Global Standard for Mobile) phone was on 1 July 1991. Harri Holkeri, governor of the Bank of Finland, telephoned the mayor of Helsinki to talk about the price of Baltic herring.
1993 September 1993 saw the launch of One 2 One, the first GSM 1800 all-digital network in the world.
1994 April 1994 Hutchison Microtel announced the launch of its UK network, Orange.

SMS - the Short Message Service - was launched in 1994 enabling short text messages to be exchanged between mobiles.
1998 In December 1998, Oftel Director General, David Edmonds, announced an intention to implement fully the recommendations made by the MMC following an investigation, made at the request of Oftel, into the price of calls made to mobile phones.
In 1998 more mobile phones were sold world-wide than cars and PCs combined.
1999
From 1 January 1999, mobile phone customers were able to keep their old number when switching networks. The UK is the first country in the world to give customers this ability.
April 1999 saw the emergence of the first mobiles able to send email and use the web.
22 September 1999, House of Commons Science and Technology Committee finds no health risk from mobile phones apart from use while driving, though urges manufacturers to continue research.
TODAY
Today we have picture phones, multimedia video messaging and 3G handsets. Mobile phones have become a massive part of our lives, so much so that you sometimes wonder how you got by without one!

AhleHadith vs Sunni Mabahla at Sheikhupura in Sangla

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 9:24 PM
Part 1st


Part 2nd

Part 3rd


Part 4th


Part 5th


Part 6th


Last Part 7th


Short URL is given below for fast search of this video

www.myurl.pk/8gOW


visit our other websites www.hafeez.tk www.skpsoft.tk

مردوں كے لباس كے احكام كا خلاصہ Difference Between the Dress of Women's & Men in Islam

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 5:37 PM
قرآن مجيد ميں پورى وضاحت كے ساتھ عورت كے لباس كا تذكرہ كيا گيا ہے، كہ عورت كو كسى بھى ملك اور معاشرے ميں چاہے وہ اسلامى ہو يا غير اسلامى كيسا لباس پہننا ضرورى ہے، ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ مرد كے لباس كے متعلق كيا ہے وہ كسى بھى ملك معاشرے ميں رہے چاہے اسلامى ہو يا غير اسلامى اسے كيسا لباس پہننا چاہيے ؟







الحمد للہ:

مرد حضرات كے لباس كےمتعلق ذيل ميں ہم مختصر احكام بيان كرتے ہيں، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ يہ كافى ہونگے، اور ان سے فائدہ حاصل كيا جائيگا:



1 - ہر لباس اصل ميں حلال ہے، ليكن وہ چيز جس كے پہننے ميں حرمت كى نص وارد ہے مثلا مرد حضرات كے ليے ريشم پہننا جائز نہيں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلا شبہ يہ دنوں ميرى امت كے مردوں پر حرام ہيں،اور ان كى عورتوں كے ليے جائز ہيں "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2640 ) علامہ البانى رحمہ اللہ اسے صحيح ابن ماجہ ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور اسى طرح مرے ہوئے جانور كى جلد بغير دباغت كے پہننى جائز نہيں، اور جو كپڑے اون يا بالوں يا روئى كے بنے ہوں تو يہ حلال ہيں، جانور كى كھال كو دباغت دينے كے بعد استعمال كرنے كے حكم كى



2 - ستر پوشى نہ كرنے والا باريك اور شفاف لباس پہننا جائز نہيں.



3 - مشركوں اور كفار كے لباس ميں مشابہت اختيار كرنى حرام ہے، اس ليے جو لباس كفار اور مشركوں كے ساتھ مخصوص ہيں وہ پہننے جائز نہيں.

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں دو زرد رنگ كے معصفر كپڑے پہنے ہوئے ديكھا تو فرمانے لگے:

يہ كفار كے كپڑوں ميں سے ہيں، تم انہيں مت پہنو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2077 ).



4 - عورتوں كا مردوں سے اور مردوں كا عورتوں سے لباس ميں مشابہت كرنا حرام ہے؛ كيونكہ بخارى كى حديث ميں بيان كيا گيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں سے مشابہت كرنے والے مردوں اور مردوں سے مشابہت كرنے والى عورتوں پر لعنت فرمائى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5546 ).



5 - سنت يہ ہے كہ مسلمان شخص اپنى دائيں جانب سے لباس پہننا شروع كرے، اور بسم اللہ پڑھے، اور لباس اتارتے وقت بائيں جانب سے اتارنا شروع كرے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم لباس پہنو اور وضوء كر تو اپنى دائيں جانب سے شروع كرو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4141 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح الجامع حديث نمبر ( 787 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.



6 - نيا لباس پہننے والے كے لييے اللہ عزوجل كا شكر ادا كرنا اور دعا كرنا مسنون ہے:

ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نيا كپڑے ليتے تو اسے اس كا نام ديتے پگڑى يا قميص يا چادر، پھر يہ دعا پڑھتے:

" اللهم لك الحمد أنت كسوتنيه أسألك خيره وخير ما صنع له وأعوذ بك من شره وشر ما صنع له "

اے اللہ تيرى تعريف اور شكر ہے تو نے مجھے يہ پہنايا، ميں اس كى بھلائى اور جس ليے يہ بنايا گيا ہے اس كى بھلائى كا طلبگار ہوں، اور ميں تجھ سے اس كے جس كے ليے بنايا گيا اس كے شر سے پناہ طلب كرتا ہوں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1767 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4020 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 4664 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.



7 - بغير كسى تكبر اور مبالغہ كے كپڑے صاف ركھنے كا خيال كرنا مسنون ہے.

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كے دل ميں ذرہ برابر بھى تكبر ہوا وہ جنت ميں داخل نہيں ہو گا "

ايك شخص كہنے لگا: مرد پسند كرتا ہے كہ اس كا لباس اچھا ہو اور اس كى جوتا اچھا ہو ؟

" تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

يقينا اللہ تعالى جميل و خوبصورت ہے اور خوبصورتى و جمال كو پسند فرماتا ہے، تكبر حق كا انكار اور لوگوں كو حقير جاننا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 91 ).



8 - سفيد لباس پہننا مستحب ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنے كپڑوں ميں سے سفيد لباس پہنا كرو، كيونكہ يہ تمہارے سب كپڑوں سے بہتر ہے، اور اس ميں اپنے فوت شدگان كو دفنايا كرو "

سن ترمذى حديث نمبر ( 994 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 4061 ) ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے، اور علماء سفيد لباس كو مستحب قرار ديتے ہيں، علامہ البانى نے بھى اسے احكام الجنائز ميں صحيح قرار ديا ہے.



9 - مسلمان مرد كے ليے اپنا لباس ٹخنوں سے نيچے ركھنا حرام ہے، چاہے كچھ بھى پہن ركھا ہو، اس ليے كپڑے كى حد ٹخنے ہيں:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو تہہ بند ٹخنوں سے سے نيچے ہے وہ آگ ميں ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5450 ).

ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" روز قيامت اللہ تعالى تين قسم كے افراد سے نہ تو كلام كريگا، اور نہ ہى ان كى جانب ديكھے گا اور نہ ہى انہيں پاك كريگا، اور انہيں دردناك عذاب ہو گا"

ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ تين بار دھرايا، تو ميں نے كہا تباہ و برباد ہو گئے يہ اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ كون ہيں ؟:

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ان ميں ايك تو ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے والا ہے، اور دوسرا احسان جتلانے والا، اور تيرا اپنا سامان جھوٹى قسم سے فروخت كرنے والا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 106 ).



10 - لباس شہرت حرام ہے:

لباس شہرت يہ ہے كہ جس سے لباس پہننے والا دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو تا كہ لوگ اسے ديكھيں، اور وہ اس سے معروف اور مشہور ہو جائے.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى لباس شہرت پہنا اللہ تعالى اسے روز قيامت مثلہ كا لباس پہنائيگا "

اور ايك روايت ميں ہے:

" پھر اسےآگ ميں جلايا جائيگا "

اور ايك روايت ميں ہے:

" ذلت كا لباس "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3606 ) اور ( 3607 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4029 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 2089 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

واللہ ا

Best Poetry SMS

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 10:04 AM

9 sowards of my Prophet Muhammad(PBUH)

Posted by Hafiz Hafeez Sheikhupura on 2:38 PM
  • سرکار دو عالم صلی الله علیہ و آلہ و سلم کی ۹ تلواریں

    البتّار


    یہ تلوار سرکارِ دو عالم نبی اکرم حضرت محمد صلی الله علیہ و آلہ و سلم کو یثرب کے یہودی قبیلے (بنو قینقاع ) سے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ اس تلوار کو (سیف الانبیاء) نبیوں کی تلوار بھی کہا جاتا ہے۔ اس تلوار پر حضرت داؤود علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، ہارون علیہ السلام، یسع علیہ السلام، زکریا علیہ السلام، یحیی علیہ السلام، عیسی علیہ السلام اور محمد صلی الله علیہ و آلہ و سلم کے اسماء مبارکہ کنندہ ہیں۔ یہ تلوار حضرت داؤود علیہ السلام کو اس وقت مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی جب ان کی عمر بیس سال سے بھی کم تھی۔ اس تلوار پر ایک تصویر بھی بنی ہوئی ہے جس میں حضرت داؤود علیہ السلام کو جالوت کا سر قلم کرتے دکھایا گیا ہے جو کہ اس تلوار کا اصلی مالک تھا۔ تلوار پر ایک ایسا نشان بھی بنا ہوا ہے جو بتراء شہر کے قدیمی عرب باشندے (البادیون) اپنی ملکیتی اَشیاء پر بنایا کرتے تھے۔ بعض روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ یہی وہ تلوار ہے جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں واپس آنے کے بعد اللہ کے دشمن ’کانے دجال‘ کا خاتمہ کریں گے اور دشمنانِ اسلام سے جہاد کریں گے۔ اس تلوار کی لمبائی 101 سینٹی میٹر ہے ۔ اور آجکل یہ تلوار ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔

    المأثور


    یہ تلوار حضور پاک صلی الله علیہ و آلہ و سلم کو اپنے والد ماجد کی وراثت کے طور پر نبوت کےاعلان سے قبل ملی تھی۔ یہ تلوار ایک اور نام ’مأثور الفجر‘ سے بھی مشہور ہے۔ آپ صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے جب یثرب کی طرف ہجرت فرمائی تو یہی تلوار آپ صلی الله علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھی۔ بعد میں آپ صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے یہ تلوار بمع دیگر چند آلاتِ حرب حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرما دیئے تھے۔ اس تلوار کا دستہ سونے کا بنا ہوا ہے اور دونوں اطراف سے مڑا ہوا ہے۔ مزید خوبصورتی کیلئے اس پر زمرد اور فیروزے جڑے ہوئے ہیں۔ اس تلوار کی لمبائی 99 سینٹی میٹر ہے ہے اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔

    الحتف


    یہ تلوار بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یثرب کے یہودی قبیلے بنو قینقاع سے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ یہ تلوار حضرت داؤود علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں سے بنی ہوئی ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے لوہے کے سازوسامان خاص طور پر ڈھالیں، تلواریں اور دیگر آلالتِ حرب بنانے میں خصوصی مہارت عطا فرمائی تھی۔ حضرت داؤود علیہ السلام نے اس تلوار کو ’بتّار‘ سے ملتا جلتا لیکن سائز مین اُس سے بڑا بنایا۔ یہ تلوار یہودیوں کے قبیلے لاوی کے پاس اپنے آباء و اجداد بنو اسرائیک کی نشانیوں کے طور پر نسل در نسل محفوظ چلی آ رہی تھی حتٰی کہ آخر میں یہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کےمبارک ہاتھوں میں مالِ غنیمت کے طور پر پونہچی۔ اس تلوار کی لمبائی 112 سینٹی میٹر اور چوڑائی 8 سینٹی میٹر ہے۔ اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔

    الذوالفقار


    یہ تلوار ہمارے پیارے نبی پاک صلی الله علیہ و آلہ و سلم کو غزوہِ بدر میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ تاریخی مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بعد میں آپ صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے یہ تلوار حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرما دی تھی۔ غزوہِ اُحد میں حضرت علی علیہ السلام اسی تلوار کے ساتھ میدانِ جنگ میں اُترے اور مشرکینِ مکہ کے کئی بڑے بڑے سرداروں کو واصلِ جہنم کیا۔ اکثر حوالے اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ تلوار خاندانِ حضرت علی علیہ السلام میں باقی رہی۔ اس تلوار کی وجہِ شہرت یا تو دو دھاری ہونے کی وجہ سے ہے یا پھر اس پر بنے ہوئے ہوئے دو نوک نقش و نگار کی وجہ سے ہے اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔

    الرسّوب


    یہ تلوار ہمارے پیارے نبی پاک صلی الله علیہ و آلہ و سلم کی ملکیتی 9 تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ خاندانِ رسول صلی الله علیہ و آلہ و سلم میں یہ تلوار بالکل ویسے ہی محفوظ منتقل ہوتی ریہ جس طرح ’تابوت العہد‘ بنو اسرئیل میں خاندان در خاندان محفوظ رہا اور نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ تلوار پر سنہری دائرے بنے ہوئے ہیں جن پر حضرت جعفر الصادق علیہ السلام کا اسم گرامی کنندہ ہے۔ اس تلوار کی لمبائی 140 سینٹی میٹر ہے اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔

    المِخذم


    اس تلوار کے حوالے سے دو مختلف آراء سامنے آتی ہیں۔ اول یہ تلوار رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرمائی اور بعد میں اولادِ علی علیہ السلام میں وراثت کے طور پر نسل در نسل چلتی رہی۔ دوئم یہ تلوار سیدنا علی علیہ السلام کو اہلِ شام کے ساتھ ایک معرکے میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ اس تلوار پر ’زین الدین العابدین‘ کے الفاظ کنندہ ہیں۔ اس تلوار کی لمبائی 97 سینٹی میٹر ہے۔
    اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’توپ کیپی۔استنبول‘ میں محفوظ ہے۔