کالعدم تحریک طالبان ایک تنظیم ہے جو پاکستان میں خود کش حملوں اور دیگر جرائم میں ملوث ہے۔ پاکستان میں سرگرم کئی تنظیمیں طالبان کا نام استعمال کرتی ہیں جو خودکش حملوں اور مسلح لڑائیوں میں ملوث بتائی جاتی ہیں۔ ان میں شدید نوعیت کے اختلافات بھی موجود ہیں اور یہ سب کئی گروہوں میں منقسم ہیں۔ ان کی کاروائیوں کا دائرہ کار پاکستان سے لے کر افعانستان تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستانی خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کو 34 تنظیموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ سب دہشت گرد نہیں البتہ ان میں کئی جرائم پیشہ گروہ بھی شامل ہوچکے ہیں جو طالبان کا نام استعمال کرتے ہیں۔یہ آپس میں اس رقم کی تقسیم پر لڑتے جھگڑتے بھی رہتے ہیں جو انہیں بیرونی ممالک کی ایجنسیاں فراہم کرتی ہیں ۔ یہ درست ہے کہ طالبان کی صفوں میں موجود جرائم پیشہ گروہوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں اور یہ امریکی ،اسرائیلی ،برطانوی اور انڈین آلہ کار ہیں۔ جولائی 2009ءمیں سوات اور فاٹا میں گرفتار ہونے والے طالبان، جن میں افغانی طالبان بھی شامل ہیں، سے بھارتی کرنسی اور اسلحہ کے علاوہ امریکہ کے جاری کردہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم کے کارڈ بھی ملے ہیں۔[1]۔ اگرچہ بظاہر امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر حیران کن طور پر پاک فوج کے وزیرستان آپریشن کے شروع ہوتے ہی نیٹو فورسز نے افغانستان کی طرف کی چوکیاں یکدم خالی کردیں
حالانکہ وہاں سے افغانی وزیرستان میں آسانی سے داخل ہو سکتے تھے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق اس پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا ہے۔[2]
تحریک طالبان پاکستان کی تاریخ
دنیا جن کو آج طالبان کے نام سے جانتی ہے وہ تمام صرف مدرسہ کے معصوم طلباءنہیں بلکہ ان میں جرائم پیشہ، قاتل، ڈاکو وغیرہ شامل ہو چکے ہیں۔ طالبان کی تحریک کی پیدائش کے بارے میں مختلف نظریات ہیں لیکن اس میں کسی کو شک نہیں کہ ا طالبان کو امریکی سی آئی اے نے تخلیق کیا۔[3]۔[4] اس وقت امریکی دانشوروں مثلاً سلگ ہیریسن نے امریکی حکام کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ ہم ایک درندہ پیدا کرنے جا رہے ہیں۔ طالبان صرف مدرسے کے طلبا نہیں ہیں بلکہ جاسوسی اداروں کے تنخواہ دار ہیں اور انہوں نے دہشت گردی کو ذریعہ معاش بنا لیا ہے۔[5]۔ آج یہ تصور پیش کیا جارہا ہے کہ پاکستان نے طالبان پیدا کیے اور سی آئی اے نے صرف مدد کی مگر حقیقت یہ ہے کہ نیٹو (NATO) نے پاکستان سے بھی زیادہ براہ راست کردار ادا کیا یہاں تک کہ طالبان کے پہاڑوں میں خفیہ اڈے تک سی آئی اے نے براہ راست خود بنائے۔[6]
تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ
طالبان کے بے شمار گروہ ہیں جن میں غیر ملکی امداد کی تقسیم پر لڑائی جھگڑا رہتا ہے مگر بنیادی طور پر بیشتر گروہ محسود گروہ کی چھتری کے نیچے جمع ہو چکے ہیں جن کی ایک 42 رکنی شوریٰ موجود ہے جو فیصلہ کا اختیار رکھتی ہے۔[7] ان گروہوں میں سے کچھ زیادہ مشہور ہیں جیسے بیت اللہ محسود گروپ۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بے شمار گروہ ہیں جن کی اکثریت محسود گروپ کی چھتری کے نیچے جمع ہو چکی ہے . تمام گروپوں کی ایک 42 رکنی شوریٰ موجود ہے جو فیصلہ کا اختیار رکھتی ہے۔
مشہور گروہ
بیت اللہ محسود گروپ * حافظ گل بہادر گروپ * مولوی نذیر گروپ * مولوی فقیر محمد گروپ * عبداللہ محسود گروپ * تحریک طالبان سوات * عصمت اللہ معاویہ گروپ * قاری حسین گروپ * بنگالی گروپ * بدر منصور گروپ * عبدا لجبار گروپ * منگل باغ گروپ * سیف اللہ اختر گروپ * قاری یاسین گروپ * قاری ظفر گروپ * الیاس کشمیری گروپ * رانا افضل عرف نور خان گروپ * کلیم اللہ گروپ * قاری شکیل گروپ * گل حسن احمد خان گروپ * شیخ معراج گروپ * ابو قتادہ گروپ * شیخ فاتح عثمان گروپ * البدر گروپ * ہلال گروپ * کمانڈر طارق گروپ * مولوی رفیق گروپ * تکفیری عرب٭ ازبک گروپ* امجد فاروقی گروپ
تحریک طالبان پاکستان اورتحریک الاسلامی طالبان
تحریک طالبان پاکستان اور تحریک الاسلامی طالبان القاعدہ کے آپس میں بھی تعلقات ہیں. اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں افغانستان کی جہادی تنظیموں کا ایک اجلاس ہوا جس میں پاکستان کے خلاف ‘معرکہ خیر و شر’ (بقول ان کے) شروع کرنے کا فیصلہ ہوا اور یہ فیصلہ ہوا کہ افغانی طالبان کو پاکستانی طالبان کی مدد کے لیے پاکستان بھیجا جائے گا۔ افغانستان کے تمام کمانڈروں نے حکیم اللہ محسود کو پاکستانی طالبان کا امیر تسلیم کر لیا ہے اور اس کی امارت میں جہاد (بقول ان کے) جاری رکھا جائے گا۔[8]
افغان طالبان ملا طور کے مطابق افغانی طالبان کا تحریک طالبان پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ بے گناہ لوگوں کو فدائی حملوں اور دھماکوں میں نشانہ بنانا غلط ہے۔ افغان طالبان صرف نیٹو اور امریکی افواج کو نشانہ بناتے ہیں۔[9]
تحریک طالبان پاکستان کے بھارت، سی آئی اے اورموسا د روابط
جولائی 2009ء میں سوات اور فاٹا میں گرفتار ہونے والے طالبان ، جن میں افغانی طالبان بھی شامل ہیں، سے بھارتی کرنسی اور اسلحہ کے علاوہ امریکہ کے جاری کردہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم کے کارڈ بھی ملے ہیں۔[10] اگرچہ بظاہر امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر حیران کن طریقہ پر پاک فوج کے وزیرستان آپریشن کے شروع ہوتے ہی نیٹو فورسز نے افغانستان کی طرف کی چوکیاں یکدم خالی کردیں حالانکہ وہاں سے افغانی وزیرستان میں آسانی سے داخل ہو سکتے ہیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق اس پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا ہے۔[11]
پشاور کار بم دھماکے سے دو روز قبل امریکہ اور بھارت نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے گریز اور یہاں موجود شہریوں کو نقل و حرکت محدود رکھنے کی ہدایات کی تھیں۔ یہ امر بہت حیران کن ہی نہیں بلکہ چونکا دینے والا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سانحہ سے قبل ان دونوں ممالک کی ہدایات غیرمعمولی امر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کو پاکستان میں ہونیوالی کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کا پہلے ہی علم ہو جاتا ہے۔[12]
2 نومبر 2009ءکو پاک فوج کے ترجمان اطہر عباس نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ وزیرستان میں جاری آپریشن راہ نجات کے دوران بھارتی روابط کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں۔ دہشت گردوں کے زیرِ استعمال بھارتی لیٹریچر اور اسلحہ بھی پکڑا گیا ہے۔ یہ شواہد وزارت خارجہ کو بھجوا دیے گئے ہیں تاکہ مناسب کاروائی کی جائے۔[13]امریکی وزیر خارجہ نے اس بات کو مانا ہے کہ دہشت گردوں کی تخلیق میں امریکہ کی بھی کچھ ذمہ داری ہے۔[14]
پاکستان نے امریکی سی آئی اے کی پاکستان میں سرگرمیوں پر مشتمل ثبوت امریکہ کو پیش کیے ہیں۔ اس میں کابل میں سی آئی اے کے ڈائیریکٹر پر واضح کیا کہ کابل میں سی آئی اے کے اہلکار پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی معاونت کر رہے ہیں۔[15]علاوہ ازیںپاکستان میں افغانستان کے سفیر نے کہا ہے کہ بھارت وزیرستان میں طالبان کو اسلحہ مہیا کر رہا ہے۔[16]
تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی
تحریک طالبان کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دیا جاچکا ہے۔ وہ اغوا برائے تاوان، لوگوں کو قتل کر کے سر قلم کرنے اور بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ یہ حرکتیں اب بھی جاری ہیں۔ پچھلے کئی سالوں میں انہوں نے سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور کئی علمائے دین اور امن کمیٹی کے ارکان کو بھی ہلاک کیا ہے۔ یہاں تک کہ مسجدیں شہید کرنے میں وہ کوئی عار محسوس نہیں کرتے مثلاً 4 دسمبر 2009ءکو انہوں نے 17 نمازی بچوں سمیت چالیس افراد کے قتل اور راولپنڈی میں مسجد کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی۔[71]
تحریک طالبان پاکستان اور جرائم
دہشت گردی کی وارداتوں کے علاوہ تحریک طالبان کے افراد مختلف جرائم میں ملوث رہتے ہیں جن میں اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتی شامل ہیں۔ 22 اکتوبر 2009ء کو کراچی سے دو افغان ڈاکو پکڑے گئے جن سے ہینڈ گرنیڈ اور کلاشنکوفیں برآمد ہوئیں۔ یہ دونوں قتل، اغوا اور ڈکیتی کے درجنوں مقدمات میں مطلوب تھے۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی کے ذریعے رقم اکٹھا کر کے طالبان کو بھجواتے تھے۔[18]
تحریک طالبان پاکستان کے اورکزئی ایجنسی کے نئے امیر نے اورکزئی ایجنسی کے تمام اساتذہ کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ ہر ماہ اپنی تنخواہ سے دو ہزار روپے تنطیم کو دیا کریں۔ یہ سلسلہ پہلے سے جاری تھا لیکن اب اساتذہ کی مرضی کے خلاف رقم دو ہزار کر دی گئی ہے۔[19]طالبان نے پاکستان کے محکمہ کسٹمز کے کئی اہلکار اغوا کیے ہیں جن کے لیے وہ کروڑوں روپے تاوان مانگ رہے ہیں۔[20]
تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف احتجاج
پاکستان میں طالبان کی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں قبائلی علاقے کے افراد، ڈاکٹر، اساتذہ، طالب علم، زمینداروں اور کاشتکاروں سمیت ہر مکتبہ فکر کے افراد شامل ہیں۔ قبائلی علاقے اور سوات میں طالبان کے خلاف لشکر تشکیل دیے جارہے ہیں جو اس علاقے کا پرانا طریقہ ہے۔ سوات کے لشکروں کے مطابق فوج جب اس علاقے سے جائے گی تو وہ اپنی حفاظت کے قابل ہوں گے۔[21]
20 اکتوبر 2009ء کو پنجاب یونیورسٹی کے طلباءاور اساتذہ نے ایک پاکستان زندہ باد’ جلوس نکالا جس میں دہشت گردوں کے خلاف احتجاج کیا اور پاک فوج کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا۔ اس جلوس میں صدرِ جامعہ اور پروفیسروں نے بھی شرکت کی۔[22] 26 اکتوبر 2009ءکو لاہور میں سرکاری ملازمین نے دہشت گردی کے خلاف اور وزیرستان میں آپریشن کی حمایت میں ایک پر امن جلوس نکالا جس میں طلباءبھی شامل ہوئے۔[23]
آپریشن راہ نجات
جون 2009ئمیں پاک فوج کی جانب سے وزیرستان میں طالبان کے خلاف کی جانے والی فوجی کاروائی کو آپریشن راہ نجات کا نام دیا گیا۔ اس آپریشن کا باقاعدہ آغاز پاک فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز پر تحریک طالبان کے حملے کے بعد ہوا۔ اس کاروائی میں پاک فضائیہ بھی پاک فوج کے ہمراہ حصہ لے رہی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق یہ آپریشن تحریک طالبان پاکستان کے مکمل خاتمے تک جاری رکھا جائے گا۔
تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی
بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان کی 42 رکنی شورٰی نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کو بیت اللہ محسود کی جگہ تحریکِ طالبان پاکستان کا نیا امیر مقرر کیا۔ ساتھ ہی شوری نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اعظم طارق کو تحریک کا مرکزی ترجمان مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ حکیم اللہ محسود کا امیر مقرر ہونا دوسرے گروپوں کے طالبان رہنمائ مولوی نذیر اور حافظ گل بہادر نے بھی قبول کیا۔ [24] اس کے بعد حال ہی میں پاکستان میں تحریک طالبان کے مختلف گروہوں نے اپنی دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔[25]۔ پاکستانی پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک سعودی خیراتی ادارہ الحرمین فاونڈیشن نے تحریک طالبان کو 15 ملین امریکی ڈالر دیے ہیں جسے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جائے گا اور پنجاب کے کئی شہروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان کے حکیم اللہ محسود اور اس کے ساتھی جیش محمد اور لشکر جھنگوی کے ساتھ مل کر پنجاب میں اہم علاقوں پر حملہ کریں گے اور دہشت گردی کا ارتکاب کریں گے۔[26]۔[27]: اوائل 2009ء میں طالبان نے پنجاب میں مختلف متشدد مذہبی گروہوں پر مشتمل مسلم یونائیٹڈ آرمی بنائی جس میں پاکستان بھر کی عسکریت پسند تنظیمیں شامل ہیں جیسے لشکر جھنگوی، تحریک نفاذ شریعت محمدی مولوی فضل گروپ ،۔حزب مجاہدین، جیش محمد، خدام اسلام، رحمت ویلفیئر ٹرسٹ مسعود اظہر گروپ، تحریک طالبان پنجاب، حرکت الجہاد اسلامی، الیاس کشمیری گروپ۔ انہوں نے نفاذ شریعت سے متعلق چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کیا ہے۔ جس کے لئے یہ اپنی کارروائیوں کا آغاز کریں گی۔ محکمہ داخلہ پنجاب کو وزارت داخلہ کی بھجوائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ قاری نعیم آف بہاولپور، قاری عمران ملتان، عصمت اللہ خانیوال اور رانا افضل خانیوال کے علاوہ درہ آدم خیل میں کمانڈ ہیڈ آفس سے ان کے رابطے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ تنظیمیں اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت خانوں، وزیراعظم، وفاقی اداروں، راولپنڈی میں جی ایچ کیو اور حساس اداروں کے دفاتر کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ رپورٹ میں لاہور کو دہشت گردی کے خطرے کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دے دیا گیا ہے کیونکہ یہاں ہونے والے دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کو میڈیا کوریج زیادہ ملتی ہے۔[28]القاعدہ کے نائب سربراہ ایمن الزواہری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔[29]
طالبان سے منسوب واقعات
26 اگست 2009ئ کو جنوبی وزیرستان میں محسود قبائل کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ہونے والے ایک حملے میں کم سے کم چار سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ حملہ کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی۔[30]۔ 27 اگست 2009ئ کو خاصہ دار فورس پر ہونے والے ایک مبینہ خودکش حملے میں 26 اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی۔[31]۔ 30 اگست 2009ئ کو ایک مبینہ خود کش حملہ آور نے مینگورہ شہر کے پولیس ٹریننگ سینٹر میں خود کو دھماکے سے اڑا کر سکیورٹی کے پندرہ زیر تربیت اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔[32] 18 ستمبر 2009ئ کو کوہاٹ میں ایک کار کے ذریعے خود کش بم دھماکہ ہوا جس میں چھیالیس عام شہری شہید ہوئے۔[33] 5 اکتوبر کو پاکستان میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفتر پر حملہ کیا گیا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان اعظم طارق نے ایک بیان میں اس کی ذمہ داری قبول کی۔[34] 9 اکتوبر 2009ئ کو پشاور میں ایک خود کش حملہ کیا گیا جس میں چالیس سے زیادہ عام شہری شہید ہوئے۔ اس سے پہلے 16 ستمبر کو یہیں ایک خود کش حملہ میں گیارہ عام شہری شہید ہوئے۔ اسی دن بنوں میں ایک پولیس تھانے پر حملہ کیا گیا جس میں پندرہ پولیس اہلکار شہید ہوئے۔[35] 10 اکتوبر 2009ئ کو پاکستان میں جی ایچ کیو پر حملہ ہوا جس کی ذمہ داری طالبان کے ایک گروہ نے قبول کی ہے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے تمام دھشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا[36]۔ یاد رہے کہ اس سے صرف دو دن پہلے نیدرلینڈز کے سفارت خانہ کے ملازم اسلام آباد میں ممنوعہ اسلحہ اور ہنیڈ گرنیڈ سمیت پکڑے گئے جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ طالبان نے جی ایچ کیو پر حملوں میں ممنوعہ اسلحہ اور ہینڈ گرنیڈ استعمال کیے تھے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں سے بھارتی ہتھیار برآمد ہوئے۔[37] 15 اکتوبر کو لاہور میں تین مختلف جگہ پر دہشت گردی کی کاروائی ہوئی جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی۔ لاہور میں ایف آئی اے کی عمارت، بیدیاں ٹریننگ سینٹر اور مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ ہوا جو تینوں جگہ ناکام بنا دیا گیا تاہم کچھ سیکیورٹی اہکار شہید ہوئے ایک اندازہ کے مطابق ان کاروائیوں میں اٹھارہ دہشت گرد شامل تھے جن میں تین لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ان واقعات میں کم از کم آٹھ سیکیورٹی اہلکار اور آٹھ شہری شہید ہوئے جبکہ آٹھ دہشت گرد جہنم واصل ہوئے۔[38]۔ 15 اکتوبر 2009ئ کو ہی کوہاٹ میں ایک تھانے پر خود کش حملہ کیا گیا۔ ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی صدر پولیس سٹیشن کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی۔ ان کے بقول حملے میں گیارہ افراد ہلاک جبکہ بیس زخمی ہوئے ہیں۔ان کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں تین پولیس اہلکار اور آٹھ عام شہری شامل ہیں۔[39]۔ لاہور کے کمشنر نے کہا ہے کہ طالبان کو ان حملوں میں بھارتی اداروں کی مدد حاصل ہے۔[40]۔ 15 اکتوبر کے حملے کے عینی شاہدیں نے بتایا کہ طالبان دہشت گردوں نے مسجد پر بھی فائرنگ کی اور مسجد کی حرمت کا خیال نہ کیا۔[41]۔ 16 اکتوبر کو پشاور میں سی آئی ڈی کے ایک مرکز اور تھانے پر حملہ کیا گیا جس میں عام شہریوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے۔ بعض ذرائع کے مطابق یہ خود کش حملہ نہیں بلکہ ایک کار بم دھماکہ تھا[42]
20 اکتوبر کوجنڈولہ چیک پوسٹ وزیرستان پر طالبان نے حملہ کر کے 7 اہلکاروں کو شہید کر دیا۔[43] 23 اکتوبر 2009ء کو باراتیوں کی ایک بس مہمند ایجنسی میں طالبان کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی جس سے 18 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ بارودی سرنگ سیکیوریٹی فورسز کے لیے بچھائی گئی تھی۔[44] 23 اکتوبر 2009ء کو ہی پشاور میں ایک بم دھماکہ ہوا۔ کامرہ میں فضائیہ کی فیکٹری کے قریب ایک خود کش حملہ ہوا۔ کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے۔[45]
روزنامہ نوائے وقت کے مطابق پشاور کار بم دھماکے سے دو روز قبل امریکہ اور بھارت نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے گریز اور یہاں موجود شہریوں کو نقل و حرکت محدود رکھنے کی ہدایات کی تھیں۔ سکیورٹی ماہرین کی جانب سے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سانحہ سے قبل ان دونوں ممالک کی ہدایات غیرمعمولی امر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کو پاکستان میں ہونیوالی کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کا پہلے ہی علم ہو جاتا ہے۔[46]
2 نومبر 2009ءکو راولپنڈی میں ایک خود کش حملہ میں 4 فوجیوں سمیت 36 افراد شہید ہو گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ خود کش حملہ آور نیشنل بنک آف پاکستان کے باہر تنخواہیں نکالنے والوں کی قطار میں گھس گیا اور خود کو اڑا دیا۔ اسی دن لاہور میں بابو صابو انٹرچینج پر پولیس چوکی پر روکے جانے پر کار سوار نے خود کو اڑا لیا اور 25 لوگ زخمی ہو گئے۔ [47] 8 نومبر کو پشاور کے نواح میں واقع متنی کے علاقہ ادیزئی میں ایک خود کش حملہ میں ناظم علاقہ عبدالمالک سمیت 12 افراد جاں بحق اور 36 زخمی ہو گئے۔ ناظم عبدالمالک طالبان کے خلاف بنائے جانے والے ایک لشکر کے سربراہ تھے اور ان پر پہلے بھی حملے ہو چکے تھے۔[48]
9 نومبر 2009ءکو ایک پولیس چوکی پر خود کش حملہ ہوا جس میں تین افراد جاں بحق ہو گئے۔[49] 10 نومبر 2009ئ کو چارسدہ کے مرکزی بازار میں ایک کار بم دھماکہ کیا گیا جس میں 24 افراد جاں بحق اور 40 کے قریب زخمی ہو گئے۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ [50]۔ دھماکے کی جگہ سے خود کش حملہ آور کے اعضاء مل گئے۔ پولیس کے مطابق اس حملہ کی دھمکیاں پہلے سے ہی مل رہی تھیں۔[51]۔ طالبان تحریک کے ترجمان اعظم طارق نے خود کش حملوں کے بارے میں کہا کہ جو بھی ہماری تحریک کو نقصان پہنچائے گا اسے سبق سکھایا جائے گا۔[52]
13 نومبر 2009ء کو ایک خودکش حملہ جو ایک حساس ادارہ کے پاس پشاور میں ہوا، اہل کاروں اور شہریوں سمیت دس افراد جاں بحق ہو گئے۔ ایک اور واقعے میں بنوں میں بکا خیل تھانے میں خود کش حملہ سے دو افراد جاں بحق ہو گئے۔[53] 13 نومبر کو ہی پشاور میں پاکستان کی جاسوسی تنظیم آئی ایس آئی کے دفتر پر خود کش حملہ میں سات اہلکاروں سمیت دس افراد ہلاک ہو گئے۔ خود کش حملہ آور نے صبح کے ساڑھے چھ بجے ایک بارود سے بھری گاڑی آئی ایس آئی کے صوبائی دفتر پر ٹکرا دی۔ دھماکے سے قریبی مسجد بھی تباہ ہو گئی۔[54]۔ 14 نومبر کو پشاور میں میں پولیس کے مطابق ایک چیک پوسٹ پر کار خودکش حملہ ہوا جس میں گیارہ افراد ہلاک اور چھبیس زخمی ہوگئے۔[55]۔
کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ترجمان قاری حسین نے پشاور اور بنوں میں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دھمکی دی کہ حکومت خود کش حملوں کو روک کر دکھائے۔[56] 16 نومبر 2009ء کو پشاور میں پولیس سٹیشن کے قریب ہونے والے ایک مبینہ خودکش کار بم حملے میں کم سے کم تین افراد ہلاک اور چوبیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ پشاور کے ایس پی رورل بشیر اللہ خان کے مطابق یہ واقعہ پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں اس وقت پیش آیا جب ماشو خیل کے علاقے سے آنے والے ایک مبینہ خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی مسجد کی عمارت سے ٹکرا دی۔[57]
19نومبر 2009ءکو صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں ڈسٹرکٹ کورٹ کے گیٹ پر ایک خود کش حملے میں انیس افراد ہلاک اور چالیس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ خودکش حملہ آور کچہری میں داخل ہونا چاہتا تھا اور اس کو جب تلاشی کے لیے روکا گیا تو اس نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔[58] 20 نومبر 2009ئکو رات گئے ایک پولیس کی ایک گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا جس میں پولیس کے دو اہلکار ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے ہیں۔[59]
مہمند ایجنسی میں امن کمیٹی کے مغوی رکن کی سربریدہ لاش ملی ہے۔ اس شخص کا بیٹا گزشتہ شام دہشت گردوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاک ہوگیا تھا۔ حکام کے مطابق دہشت گردوں اور امن کمیٹی کے ممبر کے درمیان کئی گھنٹوں تک جھڑپ ہوئی تھی۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے بھی مہمند ایجنسی کی تحصیل لکڑو میں مولانا شہزاد گل اور رسول شاہ کی لاشیں کندارو کے قریب سے ملی تھیں اور ان دونوں کو گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک قبائلی جرگے کے ذریعے انہوں نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے مولانا شہزاد گل اور پچاس سالہ رسول شاہ جو مہمند ایجنسی میں امن کمیٹی کے سرگرم رکن تھے، کی سربریدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ دونوں کی ہلاکت کی ذمہ داری مقامی طالبان نے قبول کی تھی۔[60]
4 دسمبر 2005ء کو پریڈ گراونڈ راولپنڈی میں طالبان نے ایک مسجد پر حملہ کر کے چالیس افراد کو شہید کیا جن میں 17 نمازی بچے بھی شہید ہوئے اور مسجد کا ایک حصہ شہید ہوا۔ شقی القلب طالبان نے مسجد پر حملہ اور اس قتل و غارت کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے جرائم پیشہ رہنماء ولی الرحمن نے قبول کی۔[61] 5 دسمبر 2009ئکو پشاور کے کمرشل بازار میں دھماکہ کیا گیا جس سے کم از کم دو افراد ہلاک ہو گئے۔[62]
مندرجہ بالہ تما م مواد ان اخبارات و جرائداور ویب سائٹ سے لیا گیاہے
1. ^ روزنامہ ایکسپریس، 12 جولائی 2009
2. ^ روزنامہ ایکسپریس پاکستان 24 اکتوبر 2009ء
3. ^ افغانستان، سی آئی اے، اسامہ بن لادن اور طالبان
4. ^ سی آئی اے نے پاکستان کی مدد سے طالبان تخلیق کیے
5. ^ لسگ ہیریسن۔ دہشت گردی اور علاقائی تحفظ کی کانفرنس 2000ئ
6. ^ http://emperors-clothes.com/docs/camps.htm نیو یارک ٹائمز 24 اگست 1998
7. ^ طویل جنگ کا جریدہ
8. ^ روزنامہ جنگ 18 اکتوبر 2009ئ
8. ^ جنگ تازہ خبریں 10 نومبر 2009ئ
9. ^ روزنامہ ایکسپریس، 12 جولائی 2009
10. ^ روزنامہ ایکسپریس پاکستان 24 اکتوبر 2009ء
11. ^ نوائے وقت 29 اکتوبر 2009ئ
12. ^ روزنامہ جنگ 3 نومبر 2009ء
13. ^ http://www.jang.com.pk/jang/nov2009-daily/11-11-2009/u11008.htm جنگ 11 نومبر 2009ئ۔ تازہ خبریں
14. ^ روزنامہ جنگ 21 نومبر 2009ء
15. ^ جنگ تازہ ترین 27 نومبر 2009ء
16. ^ روزنامہ جنگ 5 دسمبر 2009ء
17. ^ روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 22 اکتوبر 2009ء
18. ^ بی بی سی اردو 22 اکتوبر 2009ء
19. ^ روزنامہ جنگ 20 نومبر 2009ء
20. ^ http://www.jang.com.pk/jang/oct2009-daily/26-10-2009/u9483.htm روزنامہ جنگ تازہ ترین 26 اکتوبر 2009ئ
21. ^ دانشگاہِ پنجاب پریس ریلیز 20 اکتوبر 2009ء
23. ^ http://www.jang.com.pk/jang/oct2009-daily/26-10-2009/u9516.htm روزنامہ جنگ تازہ ترین 26 اکتوبر 2009ئ
24. ^ بی بی سی اردو 22 اگست 2009ء
25. ^ ملک میں پھیلتے شدت پسند نیا خطرہ۔ بی بی سی اردو
26. ^ روزنامہ دی نیوز۔ 14 ستمبر 2009
27. ^ وطن دوست بلاگ
28. ^ روزنامہ نوائے وقت 12 مئی 2009ء
29. ^ روزنامہ ایکسپریس 15 دسمبر 2009ء
30. ^ بی بی سی 26 اگست 2009ء
31. ^ بی بی سی 27 اگست 2009ء
32. ^ بی بی سی 27 اگست 2009ء
33. ^ بی بی سی 19 ستمبر 2009ء
34. ^ بی بی سی 6 اکتوبر 2009ء
35. ^ بی بی سی
36. ^ روزنامہ جنگ 10 اکتوبر 2009ئ۔ تازہ ترین خبروں سے لیا گیا
37. ^ بی بی سی اردو 19 اکتوبر 2009ء
38. ^ روزنامہ جنگ۔ تازہ ترین 15 اکتوبر 2009
39. ^ بی بی سی اردو
40. ^ روزنامہ جنگ تازہ خبریں 15 اکتوبر 2009ء
41. ^ بی بی سی 15 اکتوبر 2009ء
42. ^ بی بی سی 16 اکتوبر 2009ء
43. ^ http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/10/091020_waziristan_4th_day.shtml بی بی سی اردو 20 اکتوبر 2009ئ
44. ^ روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 23 اکتوبر 2009ء
45. ^ بی بی سی اردو 23 اکتوبر 2009ء
46. ^ نوائے وقت 29 اکتوبر 2009ء
47. ^ روزنامہ جنگ 3 نومبر 2009ء
48. ^ روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 8 نومبر 2009ء
49. ^ روزنامہ جنگ تازہ خبریں۔ 9 نومبر 2009ء
50. ^ جنگ تازہ خبریں 10 نومبر 2009ء
51. ^ روزنامہ ایکسپریس 11 نومبر 2009ء
52. ^ روزنامہ ایکسپریس 11 نومبر 2009ء
53. ^ جنگ تازہ ترین 13 نومبر 2009ء
54. ^ روزنامہ جنگ 14 نومبر 2009ء
55. ^ بی بی سی اردو 14 نومبر 2009ء
56. ^ بی بی سی اردو 14 نومبر 2009ء
57. ^ بی بی سی اردو 16 نومبر 2009ء
58. ^ بی بی سی اردو 19 نومبر 2009ء
59. ^ بی بی سی اردو 20 نومبر 2009ء
60. ^ بی بی سی اردو 27 نومبر 2009ء
61. ^ روزنامہ جنگ 5 دسمبر 2009ء
62. ^ جنگ تازہ ترین 5 دسمبر 2009ء
حالانکہ وہاں سے افغانی وزیرستان میں آسانی سے داخل ہو سکتے تھے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق اس پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا ہے۔[2]
تحریک طالبان پاکستان کی تاریخ
دنیا جن کو آج طالبان کے نام سے جانتی ہے وہ تمام صرف مدرسہ کے معصوم طلباءنہیں بلکہ ان میں جرائم پیشہ، قاتل، ڈاکو وغیرہ شامل ہو چکے ہیں۔ طالبان کی تحریک کی پیدائش کے بارے میں مختلف نظریات ہیں لیکن اس میں کسی کو شک نہیں کہ ا طالبان کو امریکی سی آئی اے نے تخلیق کیا۔[3]۔[4] اس وقت امریکی دانشوروں مثلاً سلگ ہیریسن نے امریکی حکام کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ ہم ایک درندہ پیدا کرنے جا رہے ہیں۔ طالبان صرف مدرسے کے طلبا نہیں ہیں بلکہ جاسوسی اداروں کے تنخواہ دار ہیں اور انہوں نے دہشت گردی کو ذریعہ معاش بنا لیا ہے۔[5]۔ آج یہ تصور پیش کیا جارہا ہے کہ پاکستان نے طالبان پیدا کیے اور سی آئی اے نے صرف مدد کی مگر حقیقت یہ ہے کہ نیٹو (NATO) نے پاکستان سے بھی زیادہ براہ راست کردار ادا کیا یہاں تک کہ طالبان کے پہاڑوں میں خفیہ اڈے تک سی آئی اے نے براہ راست خود بنائے۔[6]
تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ
طالبان کے بے شمار گروہ ہیں جن میں غیر ملکی امداد کی تقسیم پر لڑائی جھگڑا رہتا ہے مگر بنیادی طور پر بیشتر گروہ محسود گروہ کی چھتری کے نیچے جمع ہو چکے ہیں جن کی ایک 42 رکنی شوریٰ موجود ہے جو فیصلہ کا اختیار رکھتی ہے۔[7] ان گروہوں میں سے کچھ زیادہ مشہور ہیں جیسے بیت اللہ محسود گروپ۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بے شمار گروہ ہیں جن کی اکثریت محسود گروپ کی چھتری کے نیچے جمع ہو چکی ہے . تمام گروپوں کی ایک 42 رکنی شوریٰ موجود ہے جو فیصلہ کا اختیار رکھتی ہے۔
مشہور گروہ
بیت اللہ محسود گروپ * حافظ گل بہادر گروپ * مولوی نذیر گروپ * مولوی فقیر محمد گروپ * عبداللہ محسود گروپ * تحریک طالبان سوات * عصمت اللہ معاویہ گروپ * قاری حسین گروپ * بنگالی گروپ * بدر منصور گروپ * عبدا لجبار گروپ * منگل باغ گروپ * سیف اللہ اختر گروپ * قاری یاسین گروپ * قاری ظفر گروپ * الیاس کشمیری گروپ * رانا افضل عرف نور خان گروپ * کلیم اللہ گروپ * قاری شکیل گروپ * گل حسن احمد خان گروپ * شیخ معراج گروپ * ابو قتادہ گروپ * شیخ فاتح عثمان گروپ * البدر گروپ * ہلال گروپ * کمانڈر طارق گروپ * مولوی رفیق گروپ * تکفیری عرب٭ ازبک گروپ* امجد فاروقی گروپ
تحریک طالبان پاکستان اورتحریک الاسلامی طالبان
تحریک طالبان پاکستان اور تحریک الاسلامی طالبان القاعدہ کے آپس میں بھی تعلقات ہیں. اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں افغانستان کی جہادی تنظیموں کا ایک اجلاس ہوا جس میں پاکستان کے خلاف ‘معرکہ خیر و شر’ (بقول ان کے) شروع کرنے کا فیصلہ ہوا اور یہ فیصلہ ہوا کہ افغانی طالبان کو پاکستانی طالبان کی مدد کے لیے پاکستان بھیجا جائے گا۔ افغانستان کے تمام کمانڈروں نے حکیم اللہ محسود کو پاکستانی طالبان کا امیر تسلیم کر لیا ہے اور اس کی امارت میں جہاد (بقول ان کے) جاری رکھا جائے گا۔[8]
افغان طالبان ملا طور کے مطابق افغانی طالبان کا تحریک طالبان پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ بے گناہ لوگوں کو فدائی حملوں اور دھماکوں میں نشانہ بنانا غلط ہے۔ افغان طالبان صرف نیٹو اور امریکی افواج کو نشانہ بناتے ہیں۔[9]
تحریک طالبان پاکستان کے بھارت، سی آئی اے اورموسا د روابط
جولائی 2009ء میں سوات اور فاٹا میں گرفتار ہونے والے طالبان ، جن میں افغانی طالبان بھی شامل ہیں، سے بھارتی کرنسی اور اسلحہ کے علاوہ امریکہ کے جاری کردہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم کے کارڈ بھی ملے ہیں۔[10] اگرچہ بظاہر امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر حیران کن طریقہ پر پاک فوج کے وزیرستان آپریشن کے شروع ہوتے ہی نیٹو فورسز نے افغانستان کی طرف کی چوکیاں یکدم خالی کردیں حالانکہ وہاں سے افغانی وزیرستان میں آسانی سے داخل ہو سکتے ہیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق اس پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا ہے۔[11]
پشاور کار بم دھماکے سے دو روز قبل امریکہ اور بھارت نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے گریز اور یہاں موجود شہریوں کو نقل و حرکت محدود رکھنے کی ہدایات کی تھیں۔ یہ امر بہت حیران کن ہی نہیں بلکہ چونکا دینے والا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سانحہ سے قبل ان دونوں ممالک کی ہدایات غیرمعمولی امر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کو پاکستان میں ہونیوالی کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کا پہلے ہی علم ہو جاتا ہے۔[12]
2 نومبر 2009ءکو پاک فوج کے ترجمان اطہر عباس نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ وزیرستان میں جاری آپریشن راہ نجات کے دوران بھارتی روابط کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں۔ دہشت گردوں کے زیرِ استعمال بھارتی لیٹریچر اور اسلحہ بھی پکڑا گیا ہے۔ یہ شواہد وزارت خارجہ کو بھجوا دیے گئے ہیں تاکہ مناسب کاروائی کی جائے۔[13]امریکی وزیر خارجہ نے اس بات کو مانا ہے کہ دہشت گردوں کی تخلیق میں امریکہ کی بھی کچھ ذمہ داری ہے۔[14]
پاکستان نے امریکی سی آئی اے کی پاکستان میں سرگرمیوں پر مشتمل ثبوت امریکہ کو پیش کیے ہیں۔ اس میں کابل میں سی آئی اے کے ڈائیریکٹر پر واضح کیا کہ کابل میں سی آئی اے کے اہلکار پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی معاونت کر رہے ہیں۔[15]علاوہ ازیںپاکستان میں افغانستان کے سفیر نے کہا ہے کہ بھارت وزیرستان میں طالبان کو اسلحہ مہیا کر رہا ہے۔[16]
تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی
تحریک طالبان کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دیا جاچکا ہے۔ وہ اغوا برائے تاوان، لوگوں کو قتل کر کے سر قلم کرنے اور بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ یہ حرکتیں اب بھی جاری ہیں۔ پچھلے کئی سالوں میں انہوں نے سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور کئی علمائے دین اور امن کمیٹی کے ارکان کو بھی ہلاک کیا ہے۔ یہاں تک کہ مسجدیں شہید کرنے میں وہ کوئی عار محسوس نہیں کرتے مثلاً 4 دسمبر 2009ءکو انہوں نے 17 نمازی بچوں سمیت چالیس افراد کے قتل اور راولپنڈی میں مسجد کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی۔[71]
تحریک طالبان پاکستان اور جرائم
دہشت گردی کی وارداتوں کے علاوہ تحریک طالبان کے افراد مختلف جرائم میں ملوث رہتے ہیں جن میں اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتی شامل ہیں۔ 22 اکتوبر 2009ء کو کراچی سے دو افغان ڈاکو پکڑے گئے جن سے ہینڈ گرنیڈ اور کلاشنکوفیں برآمد ہوئیں۔ یہ دونوں قتل، اغوا اور ڈکیتی کے درجنوں مقدمات میں مطلوب تھے۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی کے ذریعے رقم اکٹھا کر کے طالبان کو بھجواتے تھے۔[18]
تحریک طالبان پاکستان کے اورکزئی ایجنسی کے نئے امیر نے اورکزئی ایجنسی کے تمام اساتذہ کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ ہر ماہ اپنی تنخواہ سے دو ہزار روپے تنطیم کو دیا کریں۔ یہ سلسلہ پہلے سے جاری تھا لیکن اب اساتذہ کی مرضی کے خلاف رقم دو ہزار کر دی گئی ہے۔[19]طالبان نے پاکستان کے محکمہ کسٹمز کے کئی اہلکار اغوا کیے ہیں جن کے لیے وہ کروڑوں روپے تاوان مانگ رہے ہیں۔[20]
تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف احتجاج
پاکستان میں طالبان کی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں قبائلی علاقے کے افراد، ڈاکٹر، اساتذہ، طالب علم، زمینداروں اور کاشتکاروں سمیت ہر مکتبہ فکر کے افراد شامل ہیں۔ قبائلی علاقے اور سوات میں طالبان کے خلاف لشکر تشکیل دیے جارہے ہیں جو اس علاقے کا پرانا طریقہ ہے۔ سوات کے لشکروں کے مطابق فوج جب اس علاقے سے جائے گی تو وہ اپنی حفاظت کے قابل ہوں گے۔[21]
20 اکتوبر 2009ء کو پنجاب یونیورسٹی کے طلباءاور اساتذہ نے ایک پاکستان زندہ باد’ جلوس نکالا جس میں دہشت گردوں کے خلاف احتجاج کیا اور پاک فوج کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا۔ اس جلوس میں صدرِ جامعہ اور پروفیسروں نے بھی شرکت کی۔[22] 26 اکتوبر 2009ءکو لاہور میں سرکاری ملازمین نے دہشت گردی کے خلاف اور وزیرستان میں آپریشن کی حمایت میں ایک پر امن جلوس نکالا جس میں طلباءبھی شامل ہوئے۔[23]
آپریشن راہ نجات
جون 2009ئمیں پاک فوج کی جانب سے وزیرستان میں طالبان کے خلاف کی جانے والی فوجی کاروائی کو آپریشن راہ نجات کا نام دیا گیا۔ اس آپریشن کا باقاعدہ آغاز پاک فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز پر تحریک طالبان کے حملے کے بعد ہوا۔ اس کاروائی میں پاک فضائیہ بھی پاک فوج کے ہمراہ حصہ لے رہی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق یہ آپریشن تحریک طالبان پاکستان کے مکمل خاتمے تک جاری رکھا جائے گا۔
تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی
بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان کی 42 رکنی شورٰی نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کو بیت اللہ محسود کی جگہ تحریکِ طالبان پاکستان کا نیا امیر مقرر کیا۔ ساتھ ہی شوری نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اعظم طارق کو تحریک کا مرکزی ترجمان مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ حکیم اللہ محسود کا امیر مقرر ہونا دوسرے گروپوں کے طالبان رہنمائ مولوی نذیر اور حافظ گل بہادر نے بھی قبول کیا۔ [24] اس کے بعد حال ہی میں پاکستان میں تحریک طالبان کے مختلف گروہوں نے اپنی دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔[25]۔ پاکستانی پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک سعودی خیراتی ادارہ الحرمین فاونڈیشن نے تحریک طالبان کو 15 ملین امریکی ڈالر دیے ہیں جسے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جائے گا اور پنجاب کے کئی شہروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان کے حکیم اللہ محسود اور اس کے ساتھی جیش محمد اور لشکر جھنگوی کے ساتھ مل کر پنجاب میں اہم علاقوں پر حملہ کریں گے اور دہشت گردی کا ارتکاب کریں گے۔[26]۔[27]: اوائل 2009ء میں طالبان نے پنجاب میں مختلف متشدد مذہبی گروہوں پر مشتمل مسلم یونائیٹڈ آرمی بنائی جس میں پاکستان بھر کی عسکریت پسند تنظیمیں شامل ہیں جیسے لشکر جھنگوی، تحریک نفاذ شریعت محمدی مولوی فضل گروپ ،۔حزب مجاہدین، جیش محمد، خدام اسلام، رحمت ویلفیئر ٹرسٹ مسعود اظہر گروپ، تحریک طالبان پنجاب، حرکت الجہاد اسلامی، الیاس کشمیری گروپ۔ انہوں نے نفاذ شریعت سے متعلق چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کیا ہے۔ جس کے لئے یہ اپنی کارروائیوں کا آغاز کریں گی۔ محکمہ داخلہ پنجاب کو وزارت داخلہ کی بھجوائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ قاری نعیم آف بہاولپور، قاری عمران ملتان، عصمت اللہ خانیوال اور رانا افضل خانیوال کے علاوہ درہ آدم خیل میں کمانڈ ہیڈ آفس سے ان کے رابطے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ تنظیمیں اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت خانوں، وزیراعظم، وفاقی اداروں، راولپنڈی میں جی ایچ کیو اور حساس اداروں کے دفاتر کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ رپورٹ میں لاہور کو دہشت گردی کے خطرے کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دے دیا گیا ہے کیونکہ یہاں ہونے والے دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کو میڈیا کوریج زیادہ ملتی ہے۔[28]القاعدہ کے نائب سربراہ ایمن الزواہری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔[29]
طالبان سے منسوب واقعات
26 اگست 2009ئ کو جنوبی وزیرستان میں محسود قبائل کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ہونے والے ایک حملے میں کم سے کم چار سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ حملہ کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی۔[30]۔ 27 اگست 2009ئ کو خاصہ دار فورس پر ہونے والے ایک مبینہ خودکش حملے میں 26 اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی۔[31]۔ 30 اگست 2009ئ کو ایک مبینہ خود کش حملہ آور نے مینگورہ شہر کے پولیس ٹریننگ سینٹر میں خود کو دھماکے سے اڑا کر سکیورٹی کے پندرہ زیر تربیت اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔[32] 18 ستمبر 2009ئ کو کوہاٹ میں ایک کار کے ذریعے خود کش بم دھماکہ ہوا جس میں چھیالیس عام شہری شہید ہوئے۔[33] 5 اکتوبر کو پاکستان میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفتر پر حملہ کیا گیا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان اعظم طارق نے ایک بیان میں اس کی ذمہ داری قبول کی۔[34] 9 اکتوبر 2009ئ کو پشاور میں ایک خود کش حملہ کیا گیا جس میں چالیس سے زیادہ عام شہری شہید ہوئے۔ اس سے پہلے 16 ستمبر کو یہیں ایک خود کش حملہ میں گیارہ عام شہری شہید ہوئے۔ اسی دن بنوں میں ایک پولیس تھانے پر حملہ کیا گیا جس میں پندرہ پولیس اہلکار شہید ہوئے۔[35] 10 اکتوبر 2009ئ کو پاکستان میں جی ایچ کیو پر حملہ ہوا جس کی ذمہ داری طالبان کے ایک گروہ نے قبول کی ہے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے تمام دھشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا[36]۔ یاد رہے کہ اس سے صرف دو دن پہلے نیدرلینڈز کے سفارت خانہ کے ملازم اسلام آباد میں ممنوعہ اسلحہ اور ہنیڈ گرنیڈ سمیت پکڑے گئے جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ طالبان نے جی ایچ کیو پر حملوں میں ممنوعہ اسلحہ اور ہینڈ گرنیڈ استعمال کیے تھے۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں سے بھارتی ہتھیار برآمد ہوئے۔[37] 15 اکتوبر کو لاہور میں تین مختلف جگہ پر دہشت گردی کی کاروائی ہوئی جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی۔ لاہور میں ایف آئی اے کی عمارت، بیدیاں ٹریننگ سینٹر اور مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ ہوا جو تینوں جگہ ناکام بنا دیا گیا تاہم کچھ سیکیورٹی اہکار شہید ہوئے ایک اندازہ کے مطابق ان کاروائیوں میں اٹھارہ دہشت گرد شامل تھے جن میں تین لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ان واقعات میں کم از کم آٹھ سیکیورٹی اہلکار اور آٹھ شہری شہید ہوئے جبکہ آٹھ دہشت گرد جہنم واصل ہوئے۔[38]۔ 15 اکتوبر 2009ئ کو ہی کوہاٹ میں ایک تھانے پر خود کش حملہ کیا گیا۔ ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی صدر پولیس سٹیشن کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی۔ ان کے بقول حملے میں گیارہ افراد ہلاک جبکہ بیس زخمی ہوئے ہیں۔ان کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں تین پولیس اہلکار اور آٹھ عام شہری شامل ہیں۔[39]۔ لاہور کے کمشنر نے کہا ہے کہ طالبان کو ان حملوں میں بھارتی اداروں کی مدد حاصل ہے۔[40]۔ 15 اکتوبر کے حملے کے عینی شاہدیں نے بتایا کہ طالبان دہشت گردوں نے مسجد پر بھی فائرنگ کی اور مسجد کی حرمت کا خیال نہ کیا۔[41]۔ 16 اکتوبر کو پشاور میں سی آئی ڈی کے ایک مرکز اور تھانے پر حملہ کیا گیا جس میں عام شہریوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے۔ بعض ذرائع کے مطابق یہ خود کش حملہ نہیں بلکہ ایک کار بم دھماکہ تھا[42]
20 اکتوبر کوجنڈولہ چیک پوسٹ وزیرستان پر طالبان نے حملہ کر کے 7 اہلکاروں کو شہید کر دیا۔[43] 23 اکتوبر 2009ء کو باراتیوں کی ایک بس مہمند ایجنسی میں طالبان کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی جس سے 18 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ بارودی سرنگ سیکیوریٹی فورسز کے لیے بچھائی گئی تھی۔[44] 23 اکتوبر 2009ء کو ہی پشاور میں ایک بم دھماکہ ہوا۔ کامرہ میں فضائیہ کی فیکٹری کے قریب ایک خود کش حملہ ہوا۔ کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے۔[45]
روزنامہ نوائے وقت کے مطابق پشاور کار بم دھماکے سے دو روز قبل امریکہ اور بھارت نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے گریز اور یہاں موجود شہریوں کو نقل و حرکت محدود رکھنے کی ہدایات کی تھیں۔ سکیورٹی ماہرین کی جانب سے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سانحہ سے قبل ان دونوں ممالک کی ہدایات غیرمعمولی امر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کو پاکستان میں ہونیوالی کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کا پہلے ہی علم ہو جاتا ہے۔[46]
2 نومبر 2009ءکو راولپنڈی میں ایک خود کش حملہ میں 4 فوجیوں سمیت 36 افراد شہید ہو گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ خود کش حملہ آور نیشنل بنک آف پاکستان کے باہر تنخواہیں نکالنے والوں کی قطار میں گھس گیا اور خود کو اڑا دیا۔ اسی دن لاہور میں بابو صابو انٹرچینج پر پولیس چوکی پر روکے جانے پر کار سوار نے خود کو اڑا لیا اور 25 لوگ زخمی ہو گئے۔ [47] 8 نومبر کو پشاور کے نواح میں واقع متنی کے علاقہ ادیزئی میں ایک خود کش حملہ میں ناظم علاقہ عبدالمالک سمیت 12 افراد جاں بحق اور 36 زخمی ہو گئے۔ ناظم عبدالمالک طالبان کے خلاف بنائے جانے والے ایک لشکر کے سربراہ تھے اور ان پر پہلے بھی حملے ہو چکے تھے۔[48]
9 نومبر 2009ءکو ایک پولیس چوکی پر خود کش حملہ ہوا جس میں تین افراد جاں بحق ہو گئے۔[49] 10 نومبر 2009ئ کو چارسدہ کے مرکزی بازار میں ایک کار بم دھماکہ کیا گیا جس میں 24 افراد جاں بحق اور 40 کے قریب زخمی ہو گئے۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ [50]۔ دھماکے کی جگہ سے خود کش حملہ آور کے اعضاء مل گئے۔ پولیس کے مطابق اس حملہ کی دھمکیاں پہلے سے ہی مل رہی تھیں۔[51]۔ طالبان تحریک کے ترجمان اعظم طارق نے خود کش حملوں کے بارے میں کہا کہ جو بھی ہماری تحریک کو نقصان پہنچائے گا اسے سبق سکھایا جائے گا۔[52]
13 نومبر 2009ء کو ایک خودکش حملہ جو ایک حساس ادارہ کے پاس پشاور میں ہوا، اہل کاروں اور شہریوں سمیت دس افراد جاں بحق ہو گئے۔ ایک اور واقعے میں بنوں میں بکا خیل تھانے میں خود کش حملہ سے دو افراد جاں بحق ہو گئے۔[53] 13 نومبر کو ہی پشاور میں پاکستان کی جاسوسی تنظیم آئی ایس آئی کے دفتر پر خود کش حملہ میں سات اہلکاروں سمیت دس افراد ہلاک ہو گئے۔ خود کش حملہ آور نے صبح کے ساڑھے چھ بجے ایک بارود سے بھری گاڑی آئی ایس آئی کے صوبائی دفتر پر ٹکرا دی۔ دھماکے سے قریبی مسجد بھی تباہ ہو گئی۔[54]۔ 14 نومبر کو پشاور میں میں پولیس کے مطابق ایک چیک پوسٹ پر کار خودکش حملہ ہوا جس میں گیارہ افراد ہلاک اور چھبیس زخمی ہوگئے۔[55]۔
کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ترجمان قاری حسین نے پشاور اور بنوں میں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دھمکی دی کہ حکومت خود کش حملوں کو روک کر دکھائے۔[56] 16 نومبر 2009ء کو پشاور میں پولیس سٹیشن کے قریب ہونے والے ایک مبینہ خودکش کار بم حملے میں کم سے کم تین افراد ہلاک اور چوبیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ پشاور کے ایس پی رورل بشیر اللہ خان کے مطابق یہ واقعہ پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں اس وقت پیش آیا جب ماشو خیل کے علاقے سے آنے والے ایک مبینہ خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی مسجد کی عمارت سے ٹکرا دی۔[57]
19نومبر 2009ءکو صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں ڈسٹرکٹ کورٹ کے گیٹ پر ایک خود کش حملے میں انیس افراد ہلاک اور چالیس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ خودکش حملہ آور کچہری میں داخل ہونا چاہتا تھا اور اس کو جب تلاشی کے لیے روکا گیا تو اس نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔[58] 20 نومبر 2009ئکو رات گئے ایک پولیس کی ایک گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا جس میں پولیس کے دو اہلکار ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے ہیں۔[59]
مہمند ایجنسی میں امن کمیٹی کے مغوی رکن کی سربریدہ لاش ملی ہے۔ اس شخص کا بیٹا گزشتہ شام دہشت گردوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاک ہوگیا تھا۔ حکام کے مطابق دہشت گردوں اور امن کمیٹی کے ممبر کے درمیان کئی گھنٹوں تک جھڑپ ہوئی تھی۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے بھی مہمند ایجنسی کی تحصیل لکڑو میں مولانا شہزاد گل اور رسول شاہ کی لاشیں کندارو کے قریب سے ملی تھیں اور ان دونوں کو گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک قبائلی جرگے کے ذریعے انہوں نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے مولانا شہزاد گل اور پچاس سالہ رسول شاہ جو مہمند ایجنسی میں امن کمیٹی کے سرگرم رکن تھے، کی سربریدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ دونوں کی ہلاکت کی ذمہ داری مقامی طالبان نے قبول کی تھی۔[60]
4 دسمبر 2005ء کو پریڈ گراونڈ راولپنڈی میں طالبان نے ایک مسجد پر حملہ کر کے چالیس افراد کو شہید کیا جن میں 17 نمازی بچے بھی شہید ہوئے اور مسجد کا ایک حصہ شہید ہوا۔ شقی القلب طالبان نے مسجد پر حملہ اور اس قتل و غارت کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے جرائم پیشہ رہنماء ولی الرحمن نے قبول کی۔[61] 5 دسمبر 2009ئکو پشاور کے کمرشل بازار میں دھماکہ کیا گیا جس سے کم از کم دو افراد ہلاک ہو گئے۔[62]
مندرجہ بالہ تما م مواد ان اخبارات و جرائداور ویب سائٹ سے لیا گیاہے
1. ^ روزنامہ ایکسپریس، 12 جولائی 2009
2. ^ روزنامہ ایکسپریس پاکستان 24 اکتوبر 2009ء
3. ^ افغانستان، سی آئی اے، اسامہ بن لادن اور طالبان
4. ^ سی آئی اے نے پاکستان کی مدد سے طالبان تخلیق کیے
5. ^ لسگ ہیریسن۔ دہشت گردی اور علاقائی تحفظ کی کانفرنس 2000ئ
6. ^ http://emperors-clothes.com/docs/camps.htm نیو یارک ٹائمز 24 اگست 1998
7. ^ طویل جنگ کا جریدہ
8. ^ روزنامہ جنگ 18 اکتوبر 2009ئ
8. ^ جنگ تازہ خبریں 10 نومبر 2009ئ
9. ^ روزنامہ ایکسپریس، 12 جولائی 2009
10. ^ روزنامہ ایکسپریس پاکستان 24 اکتوبر 2009ء
11. ^ نوائے وقت 29 اکتوبر 2009ئ
12. ^ روزنامہ جنگ 3 نومبر 2009ء
13. ^ http://www.jang.com.pk/jang/nov2009-daily/11-11-2009/u11008.htm جنگ 11 نومبر 2009ئ۔ تازہ خبریں
14. ^ روزنامہ جنگ 21 نومبر 2009ء
15. ^ جنگ تازہ ترین 27 نومبر 2009ء
16. ^ روزنامہ جنگ 5 دسمبر 2009ء
17. ^ روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 22 اکتوبر 2009ء
18. ^ بی بی سی اردو 22 اکتوبر 2009ء
19. ^ روزنامہ جنگ 20 نومبر 2009ء
20. ^ http://www.jang.com.pk/jang/oct2009-daily/26-10-2009/u9483.htm روزنامہ جنگ تازہ ترین 26 اکتوبر 2009ئ
21. ^ دانشگاہِ پنجاب پریس ریلیز 20 اکتوبر 2009ء
23. ^ http://www.jang.com.pk/jang/oct2009-daily/26-10-2009/u9516.htm روزنامہ جنگ تازہ ترین 26 اکتوبر 2009ئ
24. ^ بی بی سی اردو 22 اگست 2009ء
25. ^ ملک میں پھیلتے شدت پسند نیا خطرہ۔ بی بی سی اردو
26. ^ روزنامہ دی نیوز۔ 14 ستمبر 2009
27. ^ وطن دوست بلاگ
28. ^ روزنامہ نوائے وقت 12 مئی 2009ء
29. ^ روزنامہ ایکسپریس 15 دسمبر 2009ء
30. ^ بی بی سی 26 اگست 2009ء
31. ^ بی بی سی 27 اگست 2009ء
32. ^ بی بی سی 27 اگست 2009ء
33. ^ بی بی سی 19 ستمبر 2009ء
34. ^ بی بی سی 6 اکتوبر 2009ء
35. ^ بی بی سی
36. ^ روزنامہ جنگ 10 اکتوبر 2009ئ۔ تازہ ترین خبروں سے لیا گیا
37. ^ بی بی سی اردو 19 اکتوبر 2009ء
38. ^ روزنامہ جنگ۔ تازہ ترین 15 اکتوبر 2009
39. ^ بی بی سی اردو
40. ^ روزنامہ جنگ تازہ خبریں 15 اکتوبر 2009ء
41. ^ بی بی سی 15 اکتوبر 2009ء
42. ^ بی بی سی 16 اکتوبر 2009ء
43. ^ http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/10/091020_waziristan_4th_day.shtml بی بی سی اردو 20 اکتوبر 2009ئ
44. ^ روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 23 اکتوبر 2009ء
45. ^ بی بی سی اردو 23 اکتوبر 2009ء
46. ^ نوائے وقت 29 اکتوبر 2009ء
47. ^ روزنامہ جنگ 3 نومبر 2009ء
48. ^ روزنامہ جنگ تازہ ترین خبریں 8 نومبر 2009ء
49. ^ روزنامہ جنگ تازہ خبریں۔ 9 نومبر 2009ء
50. ^ جنگ تازہ خبریں 10 نومبر 2009ء
51. ^ روزنامہ ایکسپریس 11 نومبر 2009ء
52. ^ روزنامہ ایکسپریس 11 نومبر 2009ء
53. ^ جنگ تازہ ترین 13 نومبر 2009ء
54. ^ روزنامہ جنگ 14 نومبر 2009ء
55. ^ بی بی سی اردو 14 نومبر 2009ء
56. ^ بی بی سی اردو 14 نومبر 2009ء
57. ^ بی بی سی اردو 16 نومبر 2009ء
58. ^ بی بی سی اردو 19 نومبر 2009ء
59. ^ بی بی سی اردو 20 نومبر 2009ء
60. ^ بی بی سی اردو 27 نومبر 2009ء
61. ^ روزنامہ جنگ 5 دسمبر 2009ء
62. ^ جنگ تازہ ترین 5 دسمبر 2009ء