دیوار برلن گرنے کے 20 سال بعد۔۔۔ VOA

Posted by Anonymous on 4:50 PM


تین عشروں تک دیوار برلن سرد جنگ کی علامت بنی رہی۔ اس دیوار نے ایک شہر کو بلکہ پورے ملک کو تقسیم کر رکھا تھا اور پھر بیس برس پہلے نونومبر 1989ء کو یہ دیوار ٹوٹ گئی اور اس کے ساتھ ہی کمیونسٹ مشرقی جرمنی اور سرد جنگ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ 20 سال پہلے کے واقعات کی ابتدا کیسے ہوئی اورآج کی دنیا میں ان کا کیا مطلب ہے۔
برلن کے نواح میں Glienicke Bridge واقع ہے۔ یہ پُل Havel نامی دریا پر بنا ہوا ہے، اور برلن کو Potsdam کے شہر سے ملاتا ہے۔ پُل کے خوبصورت منظر سے اس کی تاریخ کے تاریک گوشوں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ سرد جنگ کے عروج کے دور میں اسے جاسوسوں کا پُل کہا جاتا تھا کیوں کہ کمیونسٹ اور مغربی ملکوں کے عہدے دار اسی پُل پر ایک دوسرے کے پکڑے جانے والے جاسوسوں کا تبادلہ کرتے تھے۔
Potsdam کے ایک شہری، Haio Koelling کو قیدیوں کے تبادلے کی داستانیں یاد ہیں ’’جی ہاں قیدیوں کا تبادلہ ٹھیک اسی جگہ ہوتا تھا۔ خفیہ ایجنٹ سب کی نظروں کے سامنے ایک ملٹری چیک پوائنٹ سے دوسرے پوائنٹ تک بھیجے جاتے تھے۔ لیکن سویلین باشندوں کے لیئے، تو یہ پُل جیسے تھا ہی نہیں۔ ہمیں قریب جانے کی اجازت نہیں تھی۔ آپ اسے دور فاصلے سے دیکھ سکتے تھے لیکن بیچ میں دیوارِ برلن حائل ہو جاتی تھی‘‘۔
دیوار کی تعمیر کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی حکومت نے اگست 1961ء میں شروع کی۔ اس کا مقصد برلن کو دو حصوں میں بانٹنا تھا۔ لیکن دیوار نے بالآخر پورے مغربی برلن کو گھیرے میں لے لیا اور اسے مشرقی برلن اور بقیہ مشرقی جرمنی سے کاٹ دیا۔ ایک اور زیادہ طویل باؤنڈری سے پورا ملک مشرق اور مغرب میں تقسیم ہو گیا۔ یہ دیوار آہنی پردے کی علامت بن گئی یعنی وہ لائن جو مغربی دنیا کو مشرق سے یا سوویت بلاک سے جدا کرتی تھی۔ اس کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ور ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ سرد جنگ کہیں سچ مُچ کی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ نظام میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ برلن کی Free University کے Jochen Staadt کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو معلوم تھا کہ مشرقی جرمنی یعنی GDR کی حالت خراب ہے۔ معیشت تیزی سے نیچے کی طرف جا رہی تھی۔ اب ہم جانتے ہیں کہ ہماری سیکریٹ سروس کو اس بارے میں بہت کچھ معلوم تھا۔
تبدیلی کی ایک اور علامت 1980 کی دہائی کے وسط میں ظاہر ہوئی جب مخائل گورباچوف نے ماسکو میں عنان اقتدار سنبھالی۔ مسٹر Staadt کا کہنا ہے کہ مسٹر گورباچوف کے آنے کے بعد، ایک انتہائی اہم علامت یہ ظاہر ہوئی کہ سوویت یونین میں لوگوں نے کھلے عام جرمنی کو متحد کرنے کی باتیں شروع کر دیں۔
ماسکو اور مشرقی برلن کے درمیان اختلافِ رائے موجود تھا اور مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ قیادت کے لیے روس کی حمایت کم ہو رہی تھی۔ اِس اختلافِ رائے سے رونلڈ ریگن جیسے لیڈروں نے فائدہ اٹھایا ’’مسٹر گورباچوف ، اس دیوار کو گرا دیجیئے‘‘۔
1987ء میں جب صدر ریگن نے یہ تاریخی الفاظ کہے تو تبدیلی کا عمل شرو ع ہو چکا تھا۔ سوویت بلاک میں اصلاحات کی تحریک زور پکڑ گئی اور 1989ء کی گرمیاں آتے آتے مشرقی جرمنی کے لوگو ں کو مغرب پہنچنے کے لیے ہنگری کا راستہ مِل گیا اور مشرقی جرمنی میں پُر امن احتجاج شروع ہو گئے۔ اگرچہ مغربی ملکوں کے دباؤ کا بھی کچھ اثر ہوا لیکن اہم ترین کردار مخائل گورباچوف نے ادا کیا۔
لندن اسکول آف اکنامکس کے سیاسی تجزیہ کار Michael Cox کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ جیسے ہی سوویت یونین، ماسکو، گورباچوف اور Politburo طاقت استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے ساری عمارت آناً فاناً میں نیچے آ پڑے گی اور ہوا بھی یہی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نونومبر کو سارا کھیل ختم ہو جائے گا۔ دیوارِ برلن گِری اور اپنے ساتھ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کو بھی لے گئی۔
اس کے بعد کا مرحلہ بھی آسان نہیں تھا۔ یورپ کے نئے ڈھانچے کے بارے میں اور جرمنی کے نئے مقام کے بارے میں پیچیدہ مذاکرات ہوئے۔ لیکن اس پورے عمل میں اہم ترین کردار مخائل گوربا چوف نے ادا کیا۔
جرمنی 1990ء میں متحد ہو گیا اور 1991ء میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوا اور سرد جنگ اختتام کو پہنچی۔ ہم ایک بار پھر Glienicke Bridge پر واپس چلتے ہیں اور Haio Koelling سے پوچھتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ کمیونسٹ حکومت میں وہ Potsdam کے شہر میں ماہرِ تعمیرات کے طور پر کام کرتے تھے۔ دیوارِ برلن کے گرنے کے بعد انھوں نے اپنی تعمیراتی کمپنی کھولی۔ اب وہ ریٹائر ہو چکے ہیں اور اب بھی وہیں رہتے ہیں جو کبھی پہلے مشرقی جرمنی تھا۔ لیکن اب وہ جب چاہیں Glienicke Bridge پر آ جا سکتے ہیں ۔سب رکاوٹیں، چیک پوائنٹس اور دیواریں ختم ہو چکی ہیں۔