امریکہ میں بے روزگاری کی شرح ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی
عالمی اقتصادی بحران کے اثرات یوں تو دنیا کے اکثر ملکوں میں محسوس کیے جارہے ہیں لیکن امریکی معیشت اس کا بطور خاص ہدف بنی ہوئی ہے۔ تازہ ترین معاشی جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں بے روزگاری کی سطح کئی عشروں کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس وقت یہ شرح ساڑھے آٹھ فی صد ہے اور اقتصادی ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اس میں مزید اضافے کا امکان موجود ہے۔ سرکاری اعداد وشمار میں کہا گیا ہے کہ بے روزگاری الاؤنس وصول کرنے والوں کی تعداد گذشتہ 26 برس میں سب سے اونچی ہے اور یہ سطح گذشتہ 10 ہفتوں سے نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں اضافہ ہورہاہے۔
دسمبر2007 سے، جب سے کسادبازاری کا آغاز ہواہے، امریکہ میں اب تک 50 لاکھ سے زیادہ افراد اپنے روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔ صرف پچھلے ماہ کے دوران 6 لاکھ63 ہزار افراد بے روزگار ہوئے۔ کانگریس کی رکن کیرولین میلونی جو جوائنٹ اکنامک کمیٹی کی چیئر پرسن ہیں کہتی ہیں کہ ہر ماہ اوسطاً 6 لاکھ 67 ہزار افراد بے روزگار ہورہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وال اسٹریٹ اسٹاک مارکیٹ میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے جس کے مارکیٹ پر مثبت نتائج ظاہر ہوں گے۔
اس کے ساتھ گذشتہ ہفتے جی ٹونٹی ممالک کے راہنماؤں کی جانب سے عالمی معاشی بحران کو حل کرنے کی یقین دہانی کے بھی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ماہر معاشیات فریڈ بریگسٹن کا خیال ہے کہ اگر کوئی غیر متوقع واقعہ رونما نہ ہوا تو عالمی کساد بازاری جلد ختم ہوجانی چاہیے۔
تاہم بے روزگار ہونے والوں کو مثبت تبدیلیوں کی باتیں کھوکھلی لگتی ہیں ۔ بے روزگار ہونے والے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ یہاں ایسے خاندان بھی ہیں جن میں میاں بیوی دونوں ہی بے روزگار ہوگئے ہیں اوراب ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
ملبوسات تیار کرنے کے ایک برانڈ ادارے سے وابستہ وکی کا کہنا ہے کہ بینکوں میں آنے والے مالیاتی بحران کے باعث انہوں نے قرضوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے جس کی وجہ سے کارباروی اور صنعتی کمپنیاں مالی مشکلات کا شکار ہوگئی ہیں اور ان کے لیے اپنا کاروبار جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا جس کی وجہ سے کارکن بے روزگار ہورہے ہیں۔
یارک کاؤنٹی میں ایک امدادی ادارے کے ساتھ کام کرنے والے کونسلر ایلن وین سلوٹ کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ملازمت تلاش کرنا آسان نہیں ہے مگر کچھ شعبوں میں جیسے کہ صحت عامہ کا شعبہ، وہاں پر بہرحال مواقع موجود ہیں
دسمبر2007 سے، جب سے کسادبازاری کا آغاز ہواہے، امریکہ میں اب تک 50 لاکھ سے زیادہ افراد اپنے روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔ صرف پچھلے ماہ کے دوران 6 لاکھ63 ہزار افراد بے روزگار ہوئے۔ کانگریس کی رکن کیرولین میلونی جو جوائنٹ اکنامک کمیٹی کی چیئر پرسن ہیں کہتی ہیں کہ ہر ماہ اوسطاً 6 لاکھ 67 ہزار افراد بے روزگار ہورہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وال اسٹریٹ اسٹاک مارکیٹ میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے جس کے مارکیٹ پر مثبت نتائج ظاہر ہوں گے۔
اس کے ساتھ گذشتہ ہفتے جی ٹونٹی ممالک کے راہنماؤں کی جانب سے عالمی معاشی بحران کو حل کرنے کی یقین دہانی کے بھی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ماہر معاشیات فریڈ بریگسٹن کا خیال ہے کہ اگر کوئی غیر متوقع واقعہ رونما نہ ہوا تو عالمی کساد بازاری جلد ختم ہوجانی چاہیے۔
تاہم بے روزگار ہونے والوں کو مثبت تبدیلیوں کی باتیں کھوکھلی لگتی ہیں ۔ بے روزگار ہونے والے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ یہاں ایسے خاندان بھی ہیں جن میں میاں بیوی دونوں ہی بے روزگار ہوگئے ہیں اوراب ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
ملبوسات تیار کرنے کے ایک برانڈ ادارے سے وابستہ وکی کا کہنا ہے کہ بینکوں میں آنے والے مالیاتی بحران کے باعث انہوں نے قرضوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے جس کی وجہ سے کارباروی اور صنعتی کمپنیاں مالی مشکلات کا شکار ہوگئی ہیں اور ان کے لیے اپنا کاروبار جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا جس کی وجہ سے کارکن بے روزگار ہورہے ہیں۔
یارک کاؤنٹی میں ایک امدادی ادارے کے ساتھ کام کرنے والے کونسلر ایلن وین سلوٹ کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ملازمت تلاش کرنا آسان نہیں ہے مگر کچھ شعبوں میں جیسے کہ صحت عامہ کا شعبہ، وہاں پر بہرحال مواقع موجود ہیں
thanks for voa۔
0 Responses to "امریکہ میں بے روزگاری کی شرح ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی"
Leave A Comment :
you can gave comments to all post,s .Select the profile . you can post easly comments select the Name/ URL . God bless you.