انٹارکٹکا پر 46 ملکوں کے سائنس دان مل کر تحقیق کررہے ہیں

Posted by Anonymous on 11:41 PM


براعظم قطب جنوبی جو عام طورپر انٹارکٹکا کے نام سے جانا جاتا ہے، سائنس دانوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں پر مختلف حوالوں سے سائنسی تحقیقات جاری رہتی ہیں۔ 50 برس قبل ہونے والے ایک معاہدے کے تحت وہاں ریسرچ کرنے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تحقیق سے ایک دوسرے کو آگاہ رکھیں۔ان دنوں امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں اس معاہدے میں شریک ممالک اور ان کے ماہرین کی کانفرنس ہورہی ہے جس کا ایک اہم مقصد سائنسی تحقیق میں تعاون کو مزید مربوط کرنا بھی ہے۔

انٹارکٹکا میں کنگ جارج آئی لینڈ پر فیراز ریسرچ اسٹیشن سرکاری طور پر برازیل کا علاقہ ہے لیکن یہاں مختلف ملکوں کے سائنسدان مشترکہ طور پر تحقیق و تجربات کرتے ہیں ۔ روس کے بیلنگس ہاسن اسٹیشن پربھی اسی طرح ہی کام ہوتاہے۔ اسٹیشن کے سر براہ الیکزینڈر اروپ کہتے ہیں کہ یہ اشتراک بہت ضروری ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم اس بر اعظم پر صرف اکٹھے کام کر کے ہی سائنسی مواد کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور اسے اکٹھاکر سکتے ہیں۔

انٹارکٹکا پر سائنسدان اپنے پراجیکٹس پر سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے کام کررہے ہیں اور یہ تعاون بر اعظم کے انتظام سے متعلق معاہدے میں تحریر ہے اور اس انتہائی سرد اور الگ تھلک ماحول میں مختلف پراجیکٹس پر مل کر کام کرنے سے وقت اور پیسے کی بچت ہو سکتی ہے ۔

نیشنل انٹارکٹک پروگراموں کی کونسل آف مینیجرز کے اینٹوئن گوچرڈ کہتے ہیں کہ موجودہ مالیاتی بحران میں ایسا کرنا اور بھی اہم ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اتنا مہنگا کام ہے کہ اگر آپ ایک دوسرے کی مدد نہ کریں تو آپ اسے انجام نہیں دے سکتے ۔ اور اب جب کہ انٹارکٹک سائنس گلوبل سائنس بن چکی ہے اور یہ آگہی بڑھ چکی ہے کہ پوری دینا کس طرح کام کر سکتی ہے تو اس لیے اب یہ انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ سب مل کر کام کریں۔

انٹارکٹکا میں کوئی اسٹیشن قائم کرنے پر بہت لاگت آسکتی ہے اوراس کے لیے بجٹ بھی زیادہ نہیں ہوتا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کسی بھی تحقیقی مرکز کےلیے مجموعی آپریشنز پر آنے والی لاگت میں ایندھن کا خرچ سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔

2008 میں ایندھن کی قیمت میں ساٹھ سے ستر فیصد ااضافہ ہو گیا تھا۔

چلی کے انٹارکٹک پروگرام کے سر براہ ہوزے ریٹامیلس کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے اب مل کرکام کرنا سائنس دانوں کی مجبوری بن گیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کا پروگرام تین سال کا ہوتو اس کے لیے آپ کیا کریں گے ۔بجٹ کی کمی کی صورت میں یقنناً آپ ایک دوسرے سے تعاون کریں گے ۔

اس طرح کا تعاون ان علاقوں میں عیاں ہے جہاں بہت سے مرکز قائم ہیں ۔ جیساکہ جزیرہ نما کنگ جارج جزیرہ ہے۔ یہاں چلی میں ایک ائیر اسٹرپ ہے جو ہمسایہ روسی ریسرچ سنٹر کو انٹر نیٹ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔وہاں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس میں ایک اسٹور ، ہسپتال ہے اور ایک پوسٹ آفس بھی ہے۔ سائنس دانوں کےلیے یہ معمول کی بات ہے کہ اپنا سامان لانے کے اخراجات بچانے کے لیے ہمسایہ اسٹیشنوں سے ساز و سامان ادھار مانگ لیتے ہیں ۔

انٹارکٹک پر اٹلی اور فرانس میں تعاون اس حدتک بڑھ گیا ہے کہ اپنا نیا مشترکہ اسٹیشن قائم کر رہے ہیں ۔ پھر بھی ریٹامیلس کہتے ہیں کہ الگ تھلگ علاقے میں کام کرنا بعض اوقات انسانوں کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات یہ ان کے اپنے ملک کے شہریوں کے درمیان مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ آپ صرف اپنے شعبے پر توجہ دیتے ہیں اور یہ جاننا ضروری نہیں سمجھتے کہ دوسروں کے لیے آپ اور کیا کر سکتے ہیں۔

انٹارکٹک معاہدے پر دستخط ہوئے پچاس برس ہو گئے ہیں ۔ اس معاہدے میں مزید ملکوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ 46 رکن ملک باقاعدگی سے اجلاس کرتے ہیں تاکہ اپنے تحقیقی مراکز کے درمیان مشترکہ کوششیں بر قرار رکھیں اور انکشافات سے ایک دوسرے کو باخبر رکھیں ۔

ابتدا ہی سےبا ضابطہ اور بے ضابطہ دونوں طرح کے نیٹ ورک موجود ہیں تاکہ اطلاعات کا تبادلہ کیا جاتا رہے ۔
انٹارکٹک کی انفرادیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دو دراز علاقہ سائنس دانوں کو عالمی سیاست سے الگ رہنے میں مدد دیتا ہے ۔ ہو سکتاہے کہ ان کے ملک آپس میں دوست نہ ہوں مگر وہ یہاں سائنس کی خاطر ایک دوسرے سے مل کرکام کرتے ہیں ۔

بشکریہ وی ای اے