گوانتاناموبے میں قید چینی مسلمانوں کا مستقبل
صدر اوباما نے حال ہی میں پھر کہا ہے کہ وہ گوانتانامو بے کیوبا میں امریکی قید خانہ ایک سال کے اندر بند کر دیں گے۔ لیکن گوانتنامو بے میں قید چینی مسلمانوں کے وکیلوں نے کہا ہے کہ وہ مزید انتظار کیےبغیرسپریم کورٹ سے درخواست کریں گے کہ وہ وفاقی عدالت کے حالیہ فیصلے پر نظرثانی کرے جس کے تحت چینی Uighur مسلمانوں کی رہائی پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔
دہشت گردوں کے گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں کے چند مہینے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور دشمن کے سینکڑوں نام نہاد جنگجوؤں کو گوانتانامو بے، کیوبا کے قید خانے میں بھیج دیا گیا۔ ان قیدیوں میں بائیس Uighurs بھی شامل تھے۔
یہ مغربی چین کے مسلمان ہیں جن پر چین نے علیحدگی کے مقصد کے لیے دہشت گردی کا الزام عائد کیا ہے ۔ اگرچہ سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ Uighurs کِس راستے سے ہو کر گوانتنامو پہنچے لیکن عام خیال یہ ہے کہ وہ چین سے پہلے افغانستان اور پھر پاکستان گئے جہاں کچھ لوگوں نے پیسے لے کے انہیں امریکی فورسز کے حوالے کر دیا۔
2006 میں بُش انتظامیہ نے طے کیا کہ ان میں سے پانچ Uighur قیدی بے ضرر ہیں۔ انہیں البانیہ میں آباد کر دیا گیا۔ واشنگٹن کے ایک وکیل George Clarke بقیہ سترہ میں سے دو Uighur قیدیوں کی پیروی کر رہے ہیں"گذشتہ ستمبر تک انہیں اس بنیاد پر قید میں رکھا گیا کہ وہ دشمن کے جنگجو ہیں۔ بُش انتظامیہ کا نظریہ یہ تھا کہ انہیں کوئی الزام لگائے بغیر بھی دشمن کے جنگجو کی حیثیت سے قید میں رکھا جا سکتا ہے۔ گذشتہ ستمبر سے ان کی اسیری کا یہ جواز ختم ہو گیا ہے اور امریکی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ وہ دشمن کے جنگجو نہیں ہیں"۔
Clarke کہتے ہیں کہ ان کے مؤکل اور دوسرے Uighurs جن سے وہ گوانتانامو میں ملے ہیں چین یا کسی دوسرے ملک کے خلاف تشدد کے کوئی عزائم نہیں رکھتے۔ یہ لوگ دہشت گرد نہیں ہیں اور نہ انھوں نے کبھی دہشت گردی کی تربیت لی ہے۔ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ چین کے سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے سویلین اہداف کو نشانہ بنائیں۔
تا ہم 2004 سے2007 تک Deputy Secretary of Defense for Detainee Affairs کے عہدے پر کام کرنے والے Charles Stimson کا کہنا ہے کہ ایسا کہنا بالکل غلط ہے۔ گوانتانامو میں قید Uighurs معصوم نہیں ہیں۔ انھوں نے مغربی چین اسی لیے چھوڑا تھا کہ دہشت گردی کی تربیت حاصل کریں۔ وہ محکمہ خارجہ کی دہشت گردی کی تربیت لینے والے گروپوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
چین کا نظریہ بھی یہی ہے اور اس نے مطالبہ کیا ہے کہ ان قیدیوں کو واپس چین بھیجا جائے۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان Qin Gang نے کہا ہے"ہم نے بارہا اور بڑی وضاحت سے اپنا موقف بیان کر دیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے ان مشتبہ ملزموں کو جلد از جلد چین واپس کردے"۔
امریکہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ اگرUighurs کو چین بھیجا گیا تو وہاں ان کو اذیتیں دی جائیں گی۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی انہیں گوانتانامو سے رہا کیا جائے گا تو یہ کہاں جائیں گے۔
اٹارنی جارج Clarke کہتے ہیں کہ درجنوں ملکوں نے امریکہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کو قبول کر لیں کیوں کہ انہیں چین کی طرف سے انتقامی کارروائی کا ڈر ہے ۔ "چین نے دوسرے ملکوں پر زبردست دباؤ ڈالا ہے کہ وہ Uighurs کو قبول نہ کریں۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ امریکہ کو ان میں سے کچھ کو یا سب کو قبول کر لینا چاہیئے۔ اگر امریکہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرنے کو تیار نہیں ہے تو پھر کوئی دوسرا ملک کیوں یہ خطرہ مول لے گا؟ اگر امریکہ چین کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتا تو پھر کوئی دوسرا ملک کیوں تیار ہو گا؟"
گوانتانامو بے کا قید خانہ اس لیے قائم کیا گیا تھا تا کہ وہاں چین نہیں بلکہ امریکہ کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کو رکھا جائے ۔ چین کے بارے میں ان کے عزائم چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہوں گوانتنامو بے میں قید Uighurs پر امریکہ کے خلاف سازش کرنے کا کبھی کوئی الزام نہیں لگایا گیا ہے۔
لیکن Charles Stimson کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو امریکہ میں رہا کرنے سے پہلےامریکہ اور چین کے درمیان تعلقات ملک کی داخلی سلامتی اور امریکہ میں چینی مفادات پر حملوں کے خطرات سمیت بہت سے چیزوں کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ اگر اوباما انتظامیہ کے خیال میں ان لوگوں سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے تو انہیں اب تک رہا کیا جا چکا ہوتا۔
صدر اوباما نے کہا ہے کہ گوانتانامو کے قید خانے سے دنیا میں امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے جب کہ دہشت گردوں کے حملوں سے امریکہ کو محفوظ بنانے میں اس قید خانے سے کوئی مدد نہیں ملی ہے۔گوانتنامو میں اب بھی تقریباً ڈھائی سو قیدی موجود ہیں۔ چند سال پہلے کے مقابلے میں قیدیوں کی یہ تعداد نصف سے بھی کم ہے
دہشت گردوں کے گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں کے چند مہینے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور دشمن کے سینکڑوں نام نہاد جنگجوؤں کو گوانتانامو بے، کیوبا کے قید خانے میں بھیج دیا گیا۔ ان قیدیوں میں بائیس Uighurs بھی شامل تھے۔
یہ مغربی چین کے مسلمان ہیں جن پر چین نے علیحدگی کے مقصد کے لیے دہشت گردی کا الزام عائد کیا ہے ۔ اگرچہ سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ Uighurs کِس راستے سے ہو کر گوانتنامو پہنچے لیکن عام خیال یہ ہے کہ وہ چین سے پہلے افغانستان اور پھر پاکستان گئے جہاں کچھ لوگوں نے پیسے لے کے انہیں امریکی فورسز کے حوالے کر دیا۔
2006 میں بُش انتظامیہ نے طے کیا کہ ان میں سے پانچ Uighur قیدی بے ضرر ہیں۔ انہیں البانیہ میں آباد کر دیا گیا۔ واشنگٹن کے ایک وکیل George Clarke بقیہ سترہ میں سے دو Uighur قیدیوں کی پیروی کر رہے ہیں"گذشتہ ستمبر تک انہیں اس بنیاد پر قید میں رکھا گیا کہ وہ دشمن کے جنگجو ہیں۔ بُش انتظامیہ کا نظریہ یہ تھا کہ انہیں کوئی الزام لگائے بغیر بھی دشمن کے جنگجو کی حیثیت سے قید میں رکھا جا سکتا ہے۔ گذشتہ ستمبر سے ان کی اسیری کا یہ جواز ختم ہو گیا ہے اور امریکی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ وہ دشمن کے جنگجو نہیں ہیں"۔
Clarke کہتے ہیں کہ ان کے مؤکل اور دوسرے Uighurs جن سے وہ گوانتانامو میں ملے ہیں چین یا کسی دوسرے ملک کے خلاف تشدد کے کوئی عزائم نہیں رکھتے۔ یہ لوگ دہشت گرد نہیں ہیں اور نہ انھوں نے کبھی دہشت گردی کی تربیت لی ہے۔ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ چین کے سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے سویلین اہداف کو نشانہ بنائیں۔
تا ہم 2004 سے2007 تک Deputy Secretary of Defense for Detainee Affairs کے عہدے پر کام کرنے والے Charles Stimson کا کہنا ہے کہ ایسا کہنا بالکل غلط ہے۔ گوانتانامو میں قید Uighurs معصوم نہیں ہیں۔ انھوں نے مغربی چین اسی لیے چھوڑا تھا کہ دہشت گردی کی تربیت حاصل کریں۔ وہ محکمہ خارجہ کی دہشت گردی کی تربیت لینے والے گروپوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
چین کا نظریہ بھی یہی ہے اور اس نے مطالبہ کیا ہے کہ ان قیدیوں کو واپس چین بھیجا جائے۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان Qin Gang نے کہا ہے"ہم نے بارہا اور بڑی وضاحت سے اپنا موقف بیان کر دیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے ان مشتبہ ملزموں کو جلد از جلد چین واپس کردے"۔
امریکہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ اگرUighurs کو چین بھیجا گیا تو وہاں ان کو اذیتیں دی جائیں گی۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی انہیں گوانتانامو سے رہا کیا جائے گا تو یہ کہاں جائیں گے۔
اٹارنی جارج Clarke کہتے ہیں کہ درجنوں ملکوں نے امریکہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کو قبول کر لیں کیوں کہ انہیں چین کی طرف سے انتقامی کارروائی کا ڈر ہے ۔ "چین نے دوسرے ملکوں پر زبردست دباؤ ڈالا ہے کہ وہ Uighurs کو قبول نہ کریں۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ امریکہ کو ان میں سے کچھ کو یا سب کو قبول کر لینا چاہیئے۔ اگر امریکہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرنے کو تیار نہیں ہے تو پھر کوئی دوسرا ملک کیوں یہ خطرہ مول لے گا؟ اگر امریکہ چین کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتا تو پھر کوئی دوسرا ملک کیوں تیار ہو گا؟"
گوانتانامو بے کا قید خانہ اس لیے قائم کیا گیا تھا تا کہ وہاں چین نہیں بلکہ امریکہ کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کو رکھا جائے ۔ چین کے بارے میں ان کے عزائم چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہوں گوانتنامو بے میں قید Uighurs پر امریکہ کے خلاف سازش کرنے کا کبھی کوئی الزام نہیں لگایا گیا ہے۔
لیکن Charles Stimson کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو امریکہ میں رہا کرنے سے پہلےامریکہ اور چین کے درمیان تعلقات ملک کی داخلی سلامتی اور امریکہ میں چینی مفادات پر حملوں کے خطرات سمیت بہت سے چیزوں کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ اگر اوباما انتظامیہ کے خیال میں ان لوگوں سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے تو انہیں اب تک رہا کیا جا چکا ہوتا۔
صدر اوباما نے کہا ہے کہ گوانتانامو کے قید خانے سے دنیا میں امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے جب کہ دہشت گردوں کے حملوں سے امریکہ کو محفوظ بنانے میں اس قید خانے سے کوئی مدد نہیں ملی ہے۔گوانتنامو میں اب بھی تقریباً ڈھائی سو قیدی موجود ہیں۔ چند سال پہلے کے مقابلے میں قیدیوں کی یہ تعداد نصف سے بھی کم ہے
حال ہی میں چیف جسٹس افتخار محمد چودہری نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ وہ کیوبا سے تمام پاکستانیو کی رہای کا مطالبہ کریں گے
بشکریہ اردو وی او اے ۔
0 Responses to "گوانتاناموبے میں قید چینی مسلمانوں کا مستقبل"
Leave A Comment :
you can gave comments to all post,s .Select the profile . you can post easly comments select the Name/ URL . God bless you.